اس سے رشتہ ہے ابھی تک میرا
اس سے رشتہ ہے ابھی تک میرا
وہ علاقہ ہے ابھی تک میرا
کس توقع نے جگایا تھا مجھے
خواب تازہ ہے ابھی تک میرا
کیا بتاؤں میں لب دریا سے
کچھ تقاضا ہے ابھی تک میرا
کہیں یک دشت ہوا چمکتی تھی
شہر اندھا ہے ابھی تک میرا
اک ذرا خود کو سمیٹوں تو چلوں
کام پھیلا ہے ابھی تک میرا
وہی صحرا ہے وہی رنج سفر
وہی قصہ ہے ابھی تک میرا