اس رخ پہ پھر گلاب سے کھلنے لگے تو ہیں

اس رخ پہ پھر گلاب سے کھلنے لگے تو ہیں
اے چشم اشتیاق ترے دن پھرے تو ہیں


کچھ اہتمام رونق مے خانہ ہے ضرور
ٹھنڈی ہوا چلی تو ہے بادل گھرے تو ہیں


لو اب تو آئی منزل جاناں سے بوئے خوش
کچھ ٹھوکریں لگی تو ہیں کانٹے چبھے تو ہیں


وہ کر کے اپنے چاہنے والوں کا قتل عام
اب کچھ پسیجنے تو لگے ہیں دبے تو ہیں


گلشن کی خیر ہو تو گوارا قفس ہمیں
اڑتی سی ہے خبر کہ نئے گل کھلے تو ہیں


تکفیر سے نہ جس کی بچا ایک رند بھی
اس زہد سے بھی مکر کے پردے اٹھے تو ہیں


اپنے نیاز مند کے صدق و صفا کو وہ
یوں مانتے نہیں ہیں مگر جانتے تو ہیں


پھر مسند قضا پہ ہوا ظلم جلوہ گر
تعزیر جرم عشق کے ساماں ہوئے تو ہیں


اس دور کے ظلام میں سورج بھی گم سہی
ساتھ اپنے داغ ہائے کہن کے دئے تو ہیں