اس پر نگاہ پھرتی رہی اور دور دور (ردیف .. ا)
اس پر نگاہ پھرتی رہی اور دور دور
خوابوں کا ایک باغ نگاہوں میں کھل گیا
حیراں بہت ہوا مری آنکھوں میں جھانک کر
اور پھر وہ ان میں پھیلتے منظر میں مل گیا
کوئی تو شے تھی جو مرے اندر بدل گئی
یا زخم کھل گیا کوئی یا کوئی سل گیا
خوابوں سے اک خمار میں ملبوس وہ بدن
اک رنگ نشہ تھا جو مرے خوں میں کھل گیا
گزری تھی اس کے پاس سے اک موج بے نیاز
اندر تلک درخت مرے دل کا ہل گیا