اس نے طلب کیا مرا دل اس ادا کے ساتھ

اس نے طلب کیا مرا دل اس ادا کے ساتھ
اقرار میں نے کر لیا لیکن حیا کے ساتھ


منہ بند جب کلی تھے تو صحن چمن میں تھے
خوشبو بنے تو اڑ گئے موج صبا کے ساتھ


شادی کو ایک ماہ نہ گزرا ہوئی طلاق
رنگ وفا بھی اڑ گیا رنگ حنا کے ساتھ


گر ضد یہی ہے ساتھ میں چندو بھی جائے گی
پکنک میں میں نہ جاؤں گی اس بے حیا کے ساتھ


ان سے لڑائی جھگڑے ہوں میں فیصلہ کروں
کل سوت گھر پہ آئی تھی اپنی بوا کے ساتھ


سجنیؔ کو میں نے دیکھا تھا اک روز شام کو
بن ٹھن کے پھر رہی تھی کسی آشنا کے ساتھ