اس نے کچھ کان میں چپکے سے کہا رات گئے
اس نے کچھ کان میں چپکے سے کہا رات گئے
میں نے سب سن کے بھی جیسے نہ سنا رات گئے
آج بھیا نے خدا جانے کھلا دی کیا شے
پانی بھابی نے کئی بار پیا رات گئے
کیا کہیں گے مجھے بتلاؤ محلے والے
تم کو آتے ہوئے گر دیکھ لیا رات گئے
میں وہاں جا کے پڑھا کرتی ہوں اکثر بھابی
اچھی لگتی ہے کھلی چھت کی ہوا رات گئے
ہاتھ توبہ کو کئی بار اٹھائے میں نے
یاد آیا ہے کئی بار خدا رات گئے
آج وہ آ گئے پردیس سے واپس سجنیؔ
میں نے کل رات کو مانگی تھی دعا رات گئے