اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں
اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں
روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں
تھی کہاں ربط میں اس کے بھی کمی کوئی مگر
میں اسے پیارا تھا پر جان سے پیارا تھا کہاں
بے سبب ہی نہیں مرجھائے تھے جذبوں کے گلاب
تو نے چھو کر غم ہستی کو نکھارا تھا کہاں
بیچ منجھدار میں تھے اس لیے ہم پار لگے
ڈوبنے کے لیے کوئی بھی کنارا تھا کہاں
آخر شب مری پلکوں پہ ستارے تھے کئی
لیکن آنے کا ترے کوئی اشارا تھا کہاں
یہ تمنا تھی کہ ہم اس پہ لٹا دیں ہستی
اے ضیاؔ اس کو مگر اتنا گوارا تھا کہاں