اس کی یاد میں

مجھے جس کو دیکھے ہوئے
آج ہے سولہواں دن
گھڑی در گھڑی یاد اس کی
مرے ذہن میں دائرے بن رہی ہے
کہ جیسے کسی سبز و شاداب وادی کی پہنائیوں میں
ہو اک چشمۂ آب حیواں
مسلسل گریں جس میں کنکر
بنیں نغمۂ موج کی تال پر ننھے منے ہیولے
بنیں بن کے بکھریں بکھر کے بنیں
فقط سولہواں روز ہے اور میں
اس کی یادوں کے قلعے میں محصور ہوں اس طرح
جس طرح چشم یعقوب میں
اس کے بیٹے کی صورت منقش ہوئی تھی