اس کی خواہش پہ نئے شعر برابر کہنا

اس کی خواہش پہ نئے شعر برابر کہنا
اور پھر سن کے انہیں اس کا مکرر کہنا


خشک آنکھیں لئے ہنستا ہوا دیکھو جس کو
اس کو صحرا نہیں کہہ دینا سمندر کہنا


کیا عجب ہے کہ ہو بیٹے کی فقط ہار پہ ہار
اور ماں کا اسے ہر بار سکندر کہنا


یہ تو ہم ہیں بڑے دل والے جو کہہ دیتے ہیں
ورنہ آسان نہیں اپنے سے بہتر کہنا


پہلے ہم میرؔ کے قدموں کو ذرا چوم آئیں
بعد میں یارو ہمیں کھل کے سخنور کہنا


عشق کے ماروں کو کہنا نہیں دیکھو کچھ بھی
اور اگر کہنا ہی چاہو تو قلندر کہنا