اس کی باتیں کیا کرتے ہو وہ لفظوں کا بانی تھا
اس کی باتیں کیا کرتے ہو وہ لفظوں کا بانی تھا
اس کے کتنے لہجے تھے اور ہر لہجہ لافانی تھا
جب میں گھر سے نکلا تھا تب خشک زباں پر کانٹے تھے
اور جب گھر میں واپس آیا گردن گردن پانی تھا
جب کچھ معصوموں کی جاں تھی حیوانوں کے نرغے میں
تب ہر صورت ہو سکتی تھی ہر خطرہ امکانی تھا
نام خدا اب بھی جاری ہے سب کی زبانوں پر لیکن
جس جذبے نے پار لگایا وہ جذبہ شیطانی تھا
آج کی محفل میں اے شہپرؔ نکتہ چینی تھی مجھ پر
تیرا تو کچھ ذکر نہیں تھا تو کیوں پانی پانی تھا