اس کا چہرہ بھی چمک میں نہ مثالی نکلا

اس کا چہرہ بھی چمک میں نہ مثالی نکلا
چاند سورج کے اجالوں کا سوالی نکلا


لوگ سمجھا کیے موسم ہی نہیں اڑنے کا
اس کی عزلت کا سبب بے پر و بالی نکلا


پھول تو مل گیا خوشبو نہ مگر ہاتھ لگی
اس کو پانے کا جنوں خام خیالی نکلا


بارش سنگ میں بھی آئی دعا ہونٹوں پر
سب نے کم تر جسے جانا تھا وہ عالی نکلا


بے ہدف تیر چلاتا رہا کوئی گلزارؔ
جب ضرورت پڑی ترکش وہاں خالی نکلا