اردو زبان اور اس کی عہد بہ عہد ترقی

اس ملک میں اب جو زبان مروج ہے اور جس میں سب لوگ بولتے چالتے ہیں اس کا نام ’’اردو‘‘ ہے اور تحقیق اس کی یوں ہے کہ ’’اردو‘‘ فارسی لفظ ہے اور اس کے معنی ’’بازار‘‘ کے ہیں اور اردو سے مراد اردوئے شاہ جہاں ہے۔


اگرچہ دلی بہت قدیم شہر ہے اور ہندوؤں کے تمام راجہ پرچاؤں کا ہمیشہ سے دار السلطنت رہا ہے، لیکن سب اپنی اپنی بھاکا بولتے تھے۔ ایک کی دوسرے سے زبا ن نہیں ملتی تھی، جب کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عمل داری ہوئی اور مسلمان لوگ ان شہروں میں آئے تو اور بھی مشکل پڑی۔ اور نئی زبان کے لوگوں کے آنے سے سودا سلف لینے دینے، بیچنے بچانے میں دقت پڑنے لگی۔ اول اول تو مسلمانوں کی عمل داری میں اختلاف رہا۔ کبھی کسی کی بادشاہت رہی اور کبھی کسی کی، کبھی غوری آئے اور کبھی لودھی اور کبھی پٹھان اور کبھی مغل، اس سبب سے زبان کا بدستور اختلاف چلا گیا۔ اور کوئی شخص اس کی اصلاح کے پیچھے نہ پڑا۔ جب کہ اکبر باشاہ ہوا، ایک گونہ سلطنت کو قیام ہوا اور سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانے بیٹھے اور علم کا بھی چرچا ہوا۔ لیکن اس زمانہ میں فارسی زبان کی ایسی قدر تھی کہ لوگ اور کسی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے تھے۔


جب کہ شہاب الدین شاہ جہاں بادشاہ ہوا اور اس نے انتظام سلطنت کیا اور سب ملکوں کے وکلاء کے حاضر رہنے کا حکم دیا اور دلی شہر کو نئے سرے سے آباد کیا اور قلعہ بنایا اور شاہ جہاں آباد اس کا نام رکھا۔ اس وقت ا س شہر میں تمام لوگوں کا مجمع ہوا، ہر ایک کی گفتار رفتار جدا جدا تھی، ہر ایک کا رنگ ڈھنگ نرالا تھا۔ جب آپس میں معاملہ کرتے ناچار ایک لفظ اپنی زبان کا، دو لفظ اس کی زبان کے، تین لفظ دوسرے کی زبان کے ملاکر بولتے اور سودا سلف لیتے۔ رفتہ رفتہ اس زبان نے ایسی ترکیب پائی کہ یہ خود ایک نئی زبان ہو گئی اور جو کہ یہ زبان خاص بادشاہی بازاروں میں مروج تھی، اس واسطے اس کو زبان اردو کہا کرتے تھے۔ اور بادشاہی امیر امراء اس کو بولا کرتے تھے، گویا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی یہی زبان تھی۔ ہوتے ہوتے خود اس زبان ہی کا نام ’’اردو‘‘ ہو گیا۔


اس وقت سے اس زبان نے ایک رونق حاصل کی اور دن بدن تراش خراش اس میں ہوتی گئی یہاں تک کہ جس زمانہ میں میر اور سودا نے آوازہ اپنی خوش زبانی کا بلند کیا تھا اور یہ آویزہ ہر ایک کے کان میں پہنایا تھا۔ اس وقت یہ زبان بہت درست ہوگئی تھی اور عجب رنگ ڈھنگ نکال لائی تھی، ان کے بعد کچھ کچھ اس زبان میں اور تغیر و تبدیلی ہوئی او ر اب ایسی منجھ گئی ہے کہ قیامت تک اس سے بہتر ہونی ممکن نہیں اور اس زبان کو شاہ جہان آباد سے ایسی نسبت ہے جیسے فارسی کو شیراز سے، یعنی یہاں کے لوگوں کی زبان تمام اردو بولنے والوں کی سند ہے۔ نہیں تو بقول میر امّن کے اپنی دستار، رفتار، گفتار کو کوئی برا نہیں جانتا۔ اگر ایک گنوار سے پوچھئے تو شہر والوں کو نام رکھتا ہے اور اپنے تئیں سب سے بہتر سمجھتا ہے۔ خیر عقلاں خود می دانند۔


اگر چہ اس زبان میں اکثر فارسی اور عربی اور سنسکرت کے الفاظ مستعمل ہیں اور بعضے بعضوں میں کچھ تغیر و تبدیل کر لی ہے لیکن اس زمانہ میں اور شہر کے لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اردو زبان میں یا تو فارسی کی لغت بہت ملا دیتے ہیں اور یا فارسی کی ترکیب پر لکھنے لگے ہیں، یہ دونوں باتیں اچھی نہیں۔ ان سے اردو پن نہیں رہتا اور ظاہر ہے کہ اس بات کے لیے کہ کس قدر فارسی کی ترکیب دی جاوے؟ اور کون کون سی لغت اور زبانوں کی نہ بولی جاویں، کوئی قاعدہ نہیں مقرر ہو سکتا۔ یہ بات صرف اہل زبانوں کی صحت پر منحصر ہے۔