اردو تدریس میں جدت کیسے لائی جاسکتی ہے؟
اردو تدریس کے مسائل پر قابو پانے اور اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ استاد کو ان مسائل کا ادراک اور احساس ہونا چاہیے۔جدید زمانے کے تقاضوں،ماحول میں جدت اور مستقبل میں ہونے والی ترقی کو پیشِ نظر رکھنا اور ان کے مطابق تدریس کے میدان میں بھی جدت اختیار کرنا بہت ضروری امر ہے۔ ذیل میں اردو تدریس کے چند مسائل کو بیان کیا جارہا ہے۔ اگر ان مسائل اور رکاوٹوں کو دور کردیا جائے تو اردو کی تدریس میں تازگی اور توانائی لانا ممکن ہے۔
نوٹ: اس تحریر کے مندرجات پاکستانی تنظیم اساتذہ برائے اردو تدریس (پتا بتا) کے زیر اہتمام ایک آن لائن کارِ گاہ (ورکشاپ) سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس ورکشاپ کے تربیت کار جناب طاہر جاوید صاحب تھے جو پتا بتا کے بانی اور تجربہ کار ماہر تعلیم ہیں۔
1۔ تدریس کا مقصد اور طریقہ کار کا روایتی انداز:
اردو زبان کی تدریس کے مقصد اور طریقہ کار روایتی انداز اپنایا جاتا ہے۔ یعنی زبان کی مہارتوں کی بجائے محض درسی کتابوں کی تدریس تک محدود رہا جاتا ہے۔ سبقی منصوبہ بندی ، تدریس، امتحان وغیرہ کے لیے نصابی کتابوں کو ہی بنیاد بنایا جاتا ہے۔زبان کی تدریس کے لیے ضروری ہے کہ جدید تعلیمی نفسیات کے مطابق تدریسی طریقوں میں جدت لائی جائے اور تدریسی سرگرمیوں کے لیے نصابی کتب کے علاوہ دیگر ذرائع کا استعمال بھی یقینی بنایا جائے۔
2۔ اساتذہ میں اردو کی بنیادی مہارتوں کے حوالے سے ضروری علم اور فہم کی کمی:
عمومی طور اسکول سطح پر اردو پڑھانے والے اساتذہ اردو کی بنیادوں مہارتوں (لکھنا، پڑھنا، سننا اور بولنا) کے درست تصورات نہیں رکھتے۔مثلا ً پڑھنے (تفہیم)، لکھنے(انشاء)، سننے اور بولنے کی صلاحیتوں کے بارے میں درست تصورات کیا ہیں؟ ان کو عملی جامہ پہنانے کی کیا صورتیں ہیں؟
3۔ بنیادی مہارتوں کی ذیلی مہارتوں کے بارے میں عمومی لاعلمی
اردو کی بنیادوں مہارتوں کے ساتھ ساتھ ان کی ذیلی مہارتوں سے متعلق بھی عمومی طور پر اساتذہ لاعلم ہوتے ہیں۔
مثلاً : مطالعہ برائے تفہیم کی چند ذیلی مہاتیں یہ ہیں:
Fluency in words recognition, skimming, scanning, prediction, inferring, summarizing, guessing meaning in context, local understanding vs global understanding
اسی طرح لکھنے، بولنے اور سننے کی بھی ذیلی مہارتیں ہوتی ہیں جن سے ایک استاد کا بخوبی واقف ہونا موئثر تدریس کے لیے بہت ضروری ہے۔
4۔ تحریر کی اقسام کے بارے میں لاعلمی
اردو تدریس کا ایک اہم مسئلہ تحریر کی اقسام کے بارے میں لاعملی ہونا ہے۔ یاد رہے کہ تحریر کی اقسام اور تحریر کے انداز یا اسلوب (سٹائل) میں فرق ہے۔ تحریر کے انداز میں نظم اور نثر کی تمام اصناف شامل ہیں یعنی خط نویسی، درخواست نویسی، مضمون نویسی، نظم، غزل،مثنوی وغیرہ جبکہ تحریر کی اقسام سے مراد یہ ہے کہ تحریر کا متن مختلف نوعیت کا ہوتا ہے آیا دلائل اور منطق بیان کرنا مقصود ہے یا تعریف و تحسین، تحریر ذاتی نوعیت کی ہے یا دفتری، تحریر کو کہانی کے انداز بیان کرنا چاہیے یا تشریح کرکے۔ عام طور پر اردو کے استاد کو تحریر کی اقسام سے متعلق علم نہیں ہوتا ہے۔تحریر کی چند اہم اقسام درج ذیل ہیں:
بیانیہ یاحکایتی ،توضیحی یامعلوماتی،تعریفی یاتوصیفی،استدلالی یاترغیبی،کاروباری یادفتری اور نجی یا ذاتی
5۔ طلبا کے لکھے ہوئے کام پر تبصرہ یا اس کا تجزیہ کرنے کے پرانے اور غیر موئثر انداز:
عام طور پر اردو ٹیسٹ یا پرچہ جات کو طوالت اور الفاظ کی تعداد کے مطابق نمبر دیے جاتے ہیں۔یا صرف سرسری طور پر دیکھ کر ٹک لگا دیا جاتا ہے۔ تحریر کی خوبیوں اور خصوصیات بارے کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔طلبا کے لکھے ہوئے کام پر تبصرہ یا اس کا تجزیہ کرنے کے لیے تحریر کی بنیادی خصوصیات (جیسے مواد، ترتیب وتنظیم،روانی ورفتار،ربط وتسلسل،ذخیرہ الفاظ، قواعد،خوشی خطی اور نفاست وغیرہ) کے بارے میں بھی شرح وبسط کے ساتھ واقف ہونا چاہیے۔اس موضوع پر گوگل سرچ انجن سے Six Plus One Traits of Writing کے نام سے مضامین اور طریقہ کار سے راہنمائی لی جاسکتی ہے۔
6۔روایتی اور محدود اصنافِ سخن کا استعمال:
اردو نصاب میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ابتدائی جماعتوں سے اعلیٰ ثانوی جماعت تک کے نصاب میں روایتی اور محدود اصنافِ سخن کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مثلاً مضمون نویسی، درخواست، خط، جملہ سازی وغیرہ۔ افسانہ نگاری، بلاگ نویسی، کالم نویسی،شعر گوئی،ای میل وغیرہ جیسی اصناف کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔نہ صرف اصناف بلکہ موضوعات بھی پرانے چلے آرہے ہیں۔جیسے خط ، درخواست اور کہانیوں کے موضوعات میں تنوع نہیں لایا جارہا ہے۔
7۔ حقیقی زندگی میں پائی جانے والی اصناف کی جانب عدم توجہی:
جیسا کہ بیان کیا گیا کہ اردو تدریس میں روایتی اصناف تک محدود رہا جاتا ہے۔ حقیقی زندگی میں پائی جانے والی اصناف کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے مثلااشتہار، داخلہ فارم،وزیٹنگ کارڈ، معلوماتی کتابچے(بروشر)، پوسٹر، سائن بورڈ وغیرہ۔ گویا اساتذہ زبان کی آموزش میں حقیقی زندگی کے لسانی وسائل کی افادیت سے ناواقف ہیں۔ تدریسی سرگرمیوں میں ان اصناف کو شامل کیا جائے ۔یہ لسانی وسائل ہماری زندگی کا لازمہ بن چکے ہیں۔ اخبار ، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر یہ اصناف عام ہیں۔
8۔روایتی سرگرمیوں کا روایتی استعمال:
اردو تدریس میں الفاظ معنی اور ضد، واح جمع، مذکر مونث، جملہ سازی، نظم کا مرکزی خیال، اشعار کی تشریح وغیرہ جیسی روایتی سرگرمیوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ طریقہ کار اب ترک کردینا چاہیے۔ یہ سرگرمیاں اردو تدریس کے لیے نہ فائدہ مند ہیں اور نہ ہی موئثر۔ اس کے بجائے ہمیں نئے اور موئثر طریقے تخلیق کرنے ہوں گے۔مثلاً پیراگراف میں سیاق و سباق کی مدد سے الفاظ کے معانی اخذ کرنا،نصاب میں دی گئی نظم یا غزل میں استعمال قافیے اور ردیف سے شعر بنانے کی مشق،نصاب سے ہٹ کر ادبی تحاریر پڑھنا وغیرہ
9۔ بولنے اور سننے کی مہارتوں کی جانب عدم توجہ:
بلند خوانی، نظم اور نثر پڑھنے کے موزوں طریقہ اور سلیقہ سکھانے کی طرف توجہ بالعموم نہ ہونے کے برابر ہے۔اکثر اساتذہ اشعار کو غلط وزن کے ساتھ پڑھارہے ہوتے ہیں۔نظم اور غزل کو لحن اور ترنم کے ساتھ پڑھانے کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔اس کے لیے اچھے لہجے والے افراد کی آواز کے ساتھ ساتھ اپنی آواز میں رکارڈ کرکے طلبہ کو سنانا چاہیے۔ اس کے لیے ضیاء محی الدین کی ویڈیوز اور آڈیوز سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
10۔ اردو زبان اور اردو ادب کے مابین بے مقصد اور غیر منطقی فرق رکھنا
بیشتر سکولوں میں نصابی کتاب کے اسباق کو "ادب" اور اس کے علاوہ کام کوئی دوسرا نام دیا جاتا ہے۔ نصاب میں ادب سے چند نمونے کی تحاریر شامل کی جاتی ہیں جو ہرگز ادب کی تعریف میں نہیں آتی ہیں۔ طلبہ کو درسی کتاب سے ہٹ کر ادبی اصناف سے متعارف کروایا جائے۔ اردو نثر (انشائیہ، ڈراما، افسانہ، ناول وغیرہ) اور اردو شاعری (نظم، غزل، مثنوی وغیرہ) کے نامور ادیبوں کی کتابیں تدریسی سرگرمیوں میں شامل کی جائیں۔
11۔ اساتذہ کا خود اپنی تدریسی صلاحیتوں، علمی اور ادبی ذوق و شوق کو مسلسل نکھارتے رہنے کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس نہ کرنا ۔ اس حوالے سے کوشش اور محنت نہ کرنا
عمومی مشاہدہ ہے اساتذہ میں مطالعہ کی بےحد کمی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح سے لکھنے کی طرف بھی توجہ نہیں ہے۔ لغات کا استعمال بھی مفقود ہے۔
12۔ اساتذہ میں اردو زبان کے بارے میں جذبہ، اور احساس تفاخر کے بجائے ایک عمومی بیزاری، اکتاہٹ اور مایوسی کی کیفیات پائی جاتی ہیں
اس کے اثرات نہ صرف ان کے تدریسی عمل کو متاثر کرتے ہیں بلکہ طلبا کے اردو کے بارے میں رویوں اور جذبے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔اساتذہ میں اردو زبان کے بارے میں جوش و جذبہ اور احساسِ تفاخر کی کیفیات پائی جائیں۔ اردو کے معلمین کو ایک پُرعزم اور پُرجوش رویہ اپنانا ہوگا۔اس کے اثرات نہ صرف ان کے تدریسی عمل پر مرتب ہوں گے بلکہ طلباء میں اردو کے بارے میں رویوں اور جذبوں میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔