اردو طنز و مزاح اور زبان و بیان کے مسئلے پر چند باتیں
کسی مشترکہ سرگرمی کی بنیاد پر دو ایسے افراد کو جن کے عمل کی غایت بھی ایک ہو، اگر ہم دو کی بجائے ایک سمجھ بیٹھیں تو بات اور ہے۔ مثال کے طور پر شنکر جے کشن، شنکر شمبھو یا لکشمن کانت پیارے لال وغیرہ۔ مگر دو الگ الگ لفظوں کو محض اپنی کمزور لسانی عادت کی بنا پر کم و بیش ایک سمجھ بیٹھنے کا کیا جواز ہے؟
اردو میں طنزومزاح کے مرکب کا چلن اب اتنا عام ہو چکا ہے کہ ہم طنز اور مزاح کو انسانی تجربے کی دو یکسر مختلف سطحوں پر دیکھنے سے تقریباً معذور ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے کچھ اور بھی مرکبات ہیں مثلا شعر و نغمہ، درد وداغ، جستجو و آرزو وغیرہ۔ اظہار کے یہ سانچے کلیشے بن چکے ہیں چنانچہ ان سے انسان کی فکری اور مادی کائنات کا کوئی گوشہ اب مشکل ہی سے منور ہوتا ہے۔ مگر تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ جب کڑواہٹ اور مٹھاس کو ہم ایک دوسرے کی توسیع نہیں سمجھتے تو پھر طنزومزاح کا ذکر ایک ہی سانس میں اس طرح کیوں کرتے ہیں جیسے ایک کے بغیر دوسرے کا ذکر ممکن ہی نہ ہو۔ شاید اسی لئے اردو میں طنز ومزاح پر کوئی معنی خیز اصولی بحث ابھی تک تو سامنے آئی نہیں۔
یوں بھی ہمارے یہاں طنزیہ اور مزاحیہ تحریروں میں اکثریت ایسی تحریروں کی ہے جن سے کسی بڑی بصیرت کا اظہار نہیں ہوتا۔ ہم دوسرے کو ذلیل کرکے خوش ہو لیتے ہیں اور ہنسی کے نہایت معمولی بہانوں کو کافی سمجھ لیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارا طنز اور مزاح کسی پر پیچ اور گہرے اجتماعی، معاشرتی مقصد تک رسائی میں شاذ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ ایسا کس وجہ سے ہے اور وہ عوامل کون سے ہیں جو اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں؟ بہت دن ہوئے، ’’ہمارے یہاں ڈرامہ کیوں نہیں۔۔۔ ؟ ‘‘ اس سوال پرحاشیہ لگاتے ہوئے محمد حسن عسکری نے لکھا تھا کہ جو لوگ تبدیلی کا خواب نہ دیکھ سکیں وہ ڈرامہ کیسے لکھ سکتے ہیں؟ بس یہ شکایت کر سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں اسٹیج نہیں، ورنہ یہاں بھی دوچار شیکسپئر ہوتے۔ عسکری کا خیال تھا کہ ہمار ے لکھنے والے ’’افسردگی کو ادب سمجھتے ہیں، افسانہ لکھیں یا نظم، اپنے اضمحلال کی چسکیاں لیتے ہیں۔ اس اضمحلال کے نیچے ہولناک جنگ ہو رہی ہے اسے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتے۔ ‘‘
تقریباً ایسی ہی صورت حال طنزومزاح کو پس منظر مہیا کرنے والی معاشرتی حقیقتوں کی طرف ہمارے ادیبوں کے رویے کی مناسبت سے سامنے آتی ہے۔ بڑا طنز تو خیر اردو میں نہ ہونے کے برابر ہے، مزاح کے سلسلے میں بھی مٹھی بھر تحریروں کو چھوڑ کر واقعہ یہی ہے کہ انسانی شعور کو اجالے سے بھر دینے والا مزاح پیدا کرنے سے ہمارے ادیب عام طور پر محروم ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جب ذوق نغمہ کی کمیابی کے سبب اپنی نوا کوتلخ تر کرنے کی خاصی گنجائش دکھائی دیتی ہے، اردو میں اعلیٰ درجے کے سماجی اور معاشرتی طنز (Social Satire) کاایسا قحط ادب سے زیادہ دراصل اجتماعی نفسیات کا مسئلہ ہے۔
لیکن اچھے برے مزاح کی ایک خاصی لمبی اور پرانی روایت کے باوجود ہمارے عہد کے عام مزاح نگاروں کا نئے معیار قائم کرنا تو درکنار، مزاحیہ تحریروں کے سابقہ معیار کو بھی سنبھال نہ سکنے کا بھلا کیا جواز ہے؟ خا ص کر اس لئے بھی کہ ہمیں اپنے معاصرین میں اکا دکا مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں جو مزاح کو اپنے پیش روؤں کی بہ نسبت ایک وسیع تر تناظر میں برتنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں میں رشید احمد صدیقی کے اوصاف تو موجود ہیں، ان کی کمزوریاں نہیں ہیں۔ ہمار ے طنزیہ اور مزاحیہ ادب کی موجودہ صورت حال اور روش کا تقاضہ ہے کہ اس سلسلے میں بعض بنیادی سوالوں پر گفتگو کی جائے۔
ہمارے ادیب طنز کو صرف نیم صحافیانہ قسم کی تحریروں تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟ ہمارے یہاں مزاح پیدا کرنے کے لئے لکھنے والوں کو اتنی شعوری کوشش کیوں کرنی پڑتی ہے؟ ہمار ا مزاحیہ ادب مروجہ معاشرتی صورت حال کے صرف اوپری مظاہر کی تضحیک پر قانع کیوں ہیں؟ ہم ان قوتوں پر، جو اس صورت حال کی تشکیل کا سبب بنی ہیں، ان عقاید اور اقدار اور اجتماعی معذور یوں پر، جو ہمیں اس دلدل سے نکلنے نہیں دیتیں، اس طرح کیوں نہیں ہنستے کہ ہماری ہنسی ایک بڑے اخلاقی ملال کا راستہ دکھا سکے اور اس کی تہہ سے کسی ہمہ گیر حسیت کا ظہور نہ ہو؟ پھر یہ کہ طنز کی جو سطح ہمیں خود اپنی ہی بعض زبانوں میں اور مزاحیہ ادب کا جو منظرنامہ دنیا کی بہت سی زبانوں میں دکھائی دیتا ہے اس تک ہماری رسائی کی صورتیں کیا ہوں؟ جو افراد، تجربے، مظاہر ہمارے طنز یا مزاح کا نشانہ بنتے ہیں ان کی طرف لکھنے والا کون ساایسا رویہ اختیار کرے جس سے کسی معنی خیز فکری یا لسانی حقیقت کا اظہار ہو سکے؟ عام قاری لکھنے والے کے تجربے میں شریک کس طرح ہو؟ اور لکھنے والے اور پڑھنے والے کے تجربوں میں اشتراک کی سطحیں کن بنیادوں پر متعین کی جائیں؟
یہ اور ایسے بہت سے سوال ہیں جن کا دائرہ ہمارے طنزیہ اور مزاحیہ ادب کی تخلیق کرنے والے کے گرد پھیلا ہوا ہے۔ یہ تمام سوالات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اسی طرح زبان اور اسالیب کا مسئلہ بھی سوالوں کی اسی مالا میں پرویا ہوا ہے۔ زبان اور پیرایہ اظہار کو ایک منفرد، علاحدہ اور خود مکتفی اکائی کے طور پر دیکھنا اس لئے بھی مناسب نہیں کہ لکھنے والے کی مجموعی حسیت سے الگ ہو کر یہ اکائیاں تقریباً بے معنی ہو جاتی ہیں۔ ہر لفظ جو کسی لکھنے والے کے استعمال میں آتا ہے اور اظہار کا ہر پیرایہ جو لکھنے والے کے قلم سے نکلتا ہے، بے شک اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس لفظ یا اس انداز اظہار کی وساطت سے لکھنے والے نے باہر کی دنیا کو کس طرح دیکھا ہے اور اس دنیا کو بخشتے ہوئے کسی تجربے سے کون سا تعلق استوار کیا ہے۔
سب سے طاقتور لفظ وہ ہے جو ہمارے کسی بڑے تجربے سے پیدا ہوا ہو اورسب سے مؤثر اسلوب وہ ہے جس کا رشتہ ہماری حسیت، ہمارے نظام افکار سے مضبوط ہو اور یہ تعلقات کسی گہری، بامعنی انسانی سچائی کوجنم دے سکیں۔ ہر بری تحریر کی طرح برا طنز اور پست درجے کا مزاح بھی ہمیں اپنی ہستی کے بس بیرونی مظاہر میں الجھائے رکھتا ہے اور اس طرح اپنی تفہیم میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ طنز کا نصب العین کسی شئے یا مظہر کو ہیچ پوچ اور غلط ثابت کر دینا نہیں ہے اور مزاح کے ذریعے ہنسنے کا بہانہ مہیا کر دینا کافی نہیں ہے۔ اسی طرح صرف فقرے بازی، پھبتی، لطیفہ سازی یا اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ زبان کی صفائی اور اسلوب کی روانی قائم بالذات حیثیتیں نہیں رکھتے۔ ہم ملارموزی اور شوکت تھانوی پطرس اور رشید احمد صدیقی کو کیوں ترجیح دیتے ہیں یا یہ کہ میر امن کا اسلوب رجب علی بیگ سرور سے بہتر کیوں ہے؟
زبان اور اسلوب کی تبدیلی صرف اشخاص کی تبدیلی کے تابع نہیں ہوتی۔ نہ ہی یہ سوچنا صحیح ہوگا کہ وقت کے ساتھ زبان کا لہجہ، آہنگ، اسلوب آپ ہی آپ بدل جاتے ہیں۔ ہر تجربہ ایک نئی سطح پر اور ایک نئے زاویے سے کسی لفظ میں منتقل ہوتا ہے اورکسی صنف ادب کے واسطے سے زبان کے اسالیب کا ارتقا بھی اسی سطح پر ہوتا ہے۔ چنانچہ زبان کو باہر سے اور اندر سے بدلنے کے لئے لکھنے والے کوخاصی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ عسکری نے بہت درست کہا تھا کہ ’’اسالیب سے متعلق مسائل صرف اصطلاحی جھگڑے نہیں ہیں، ان کی جڑیں ہماری اجتماعی شخصیت اور اجتماعی تجربے میں بہت دور تک جاتی ہیں۔ ‘‘
اسی لئے صرف صنائع بدائع اور رعایت لفظی و معنوی پر قدرت اس بات کی ضامن نہیں ہوتی کہ جونثر پارہ کسی ایسے شخص کے قلم سے نکلےگا، وہ ادبی یا لسانی اعتبار سے بھی قابل قدر ہوگا۔ کرشن چندر کی نثر میں روانی، بہاؤ، سجاوٹ، مٹھاس بیدی سے زیادہ ہے لیکن بیدی بڑے فنکار اس لئے ہیں کہ ان کی نثر اور ان کا ذخیرہ الفاظ ان کے تجربے سے ایک بیساختہ قسم کا باطنی ربط رکھتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خود بید ی کہانی نہیں لکھ رہے ہیں بلکہ ان کے تجربے کو اپنی زبان اور اپنا پیرایہ مل گیا ہے۔ ان کے تجربے کی کھردری صداقت اور توانائی اور سنگینی الگ ہے اور یہ عناصر ان کی زبان کے مجموعی مزاج اور ان کے اسالیب اظہار کی پوری فضا میں اس طرح پیوست ہوتے ہیں کہ انہیں نہ تو الگ کیا جا سکتا ہے نہ اصطلاحی طورپر ان کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔
طنز اور مزاح کے عمل میں یہ مسئلہ اوربھی دقت طلب ہو جاتا ہے، کیوں کہ طنز اور مزاح کے معاملہ میں زبان اور اسلوب کی معمولی سی بھی بے احتیاطی بڑے دور رس نتیجے پیدا کرتی ہیں۔ طنز میں اور ہجومیں یا مزاح میں اور بدمذاقی میں فاصلہ بس ایک قدم کا ہے۔ ایک ایسی ذہنی سرگرمی میں جہاں زوال اور کمال کی حدیں ایک دوسرے سے اس درجہ قریب ہوں، لکھنے والے کی ذرا سی چوک کا انجام کیا ہو سکتا ہے، اسے سمجھنے کے لئے ادبی حیثیت کے لحاظ سے صفر، مگر شاعروں میں مقبول قسم کے بیشتر مزاحیہ شاعروں کے کلام پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہوگا۔ مزاح کے نام پر اتنی مبتذل، رکیک اور بازاری قسم کی باتیں کی جاتی ہیں کہ انہیں سننے کے لئے بھی حوصلہ چاہئے۔ جس زبان نے اکبر جیسے شاعر کو اظہار کی زمین اور ذرائع فراہم کئے ہوں، اس کا یہ حال عبرت ناک ہے۔
اکبر کا مزاح ایک پرجلال سنجیدگی کا حامل ہے۔ اس وجہ سے ان کا ہر تبسم اضطراب آلود اور قہقہے آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی ظرافت ہمیں صرف ہنساتی نہیں۔ ہمیں سوچنے، گردوپیش کے حقائق کا تجزیہ کرنے اور دنیا کی طرف خود اپنے رویے کو ایک نئے رخ سے سمجھنے کا راستہ بھی بتاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکبر ایک فرد۔۔۔ جمن، بدھو، مسٹر، مس، سید کے واسطے سے ایک پوری تہذیب کو آئینہ دکھا رہے ہیں اور اخلاقی انتشار کے ایک اجتماعی منظرنامے سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کی نظر ایک شگفتہ مزاج شاعر سے زیادہ ایک ایسے سنجیدہ سماجی مبصر کی نظر ہے جو خود اپنے آپ میں روپوش ہے کیونکہ اسے اپنے آنسوؤں کی نمائش منظور نہیں۔ اس کی طبیعت میں ایک عجیب و غریب فنکارانہ سنگینی ہے جو اسے ہر طرح کی جذباتیت، رقت خیزی اور لجلجے پن سے بچائے رکھتی ہے۔
یہ رویہ ایک اعلی ظرف انسان کا ہے جو ہنسی ہنسی میں بھی کوئی ہلکی بات نہیں کہتا اور ایک منظم فکری سطح پراپنی دنیا سے تعلق استوار کرتا ہے۔ یہی کیفیت اکبر کے طنزیہ اشعار کی بھی ہے۔ ان کا طنز ایک تعمیری مقصد سے کبھی بھی خالی نظر نہیں آتا۔ وہ کسی فرد، مظہر، ادارے، قدر، رویے کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں تو اس لئے کہ وہ اس سے کوئی گہری نسبت رکھتے ہیں اور اس کے واسطے سے اپنی ذات اور اپنی اجتماعی کائنات کے خسارے کی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔ اکبر کے طنزکا ہدف بننے کے بعد اس شئے یا مظہر یا فرد سے اکبر کا تعلق کچھ اور گہرا ہو جاتا ہے۔ اس تاثر کی تشکیل میں اکبر کی حسیت، بصیرت، فکر کے علاوہ ان کا لہجہ، طرز اظہار، زبان اور ذخیرہ الفاظ کے ساتھ ساتھ ان کا مجموعی لسانی شعور یکساں طورپر فعال رہے ہیں۔ ایک بہ ظاہر معمولی سے شعر،
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
میں ٹائپ اور پائپ کے لفظوں سے اکبر نے کیسا بے مثال جادو جگایا ہے۔ اسے ہم اس شعر کے پورے سیاق میں اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ یہ شعر ہماری تہذیب کے ایک منطقے کی بربادی کا نوحہ ہے کیونکہ خطاطی سے مشینوں کے ذریعے ڈھالے گئے حروف تک اور پنگھٹ سے پائپ تک ہمارے اجتماعی سفر کی ایک پوری کہانی پھیلی ہوئی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زبان اور اسلوب نہ تو آپ اپنا مقصد ہوتے ہیں، نہ کسی لکھنے والے کی مجموعی فکر اور نظام احساس سے الگ اپنا کوئی مفہوم رکھتے ہیں۔ چنانچہ ’’خالص‘‘لسانی یا اسلوبیاتی نقطہ نظر سے اظہار کے وسائل یا اسالیب کا جائزہ لینے اور پیشنس (Patience) رکھنے میں زیادہ فرق نہیں۔ ہرلفظ اور ہراسلوب ایک انکشاف ہوتا ہے بشرطیکہ اسے اس کے صحیح انسانی سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے۔ تجربے اور واردات کے محور سے الگ کرکے کسی لکھنے والے کی زبان وبیان کا مطالعہ میرے نزدیک انسانی بصیرت کی بے حرمتی ہی نہیں ایک طرح کی انسان کشی بھی ہے۔ لفظ انسان اور انسان کے، انسان اورفطرت کے رشتوں کی روداد ہوتے ہیں اور جب بھی کوئی سمجھ دارلکھنے والا کسی خاص اسلوب یا اظہار کے سانچے کا انتخاب کرتا ہے تو گویا اپنی آپ بیتی بیان کرتا ہے۔ لکھنے والے کے پاس لفظوں کا جتنا بڑا ذخیرہ ہوگا، اس کے تجربے اتنے ہی وسیع اور دنیا سے اس کے رابطے کی شکلیں اتنی ہی متنوع ہوں گی۔
ان باتوں کے پس منظر میں جب ہم اپنے طنزیہ اور مزاحیہ اسالیب پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک سنگین صورت حال سامنے آتی ہے۔ گنتی کے بس چند طریقے ہیں جو طنز اور ظرافت پیدا کرنے کے لئے ہمارے بیشتر لکھنے والوں کے استعمال میں آتے ہیں۔ پھبتی، فقرے بازی، دوہرائے ہوئے لطیفے، تنقیص اور تضحیک کا انداز، ایک طرح کا عامیانہ احساس برتری، اپنی ہستی سے مختلف نظر آنے والے ہرمظہر سے جذباتی اور ذہنی دوری اوراس کی طرف ایک بے سوچی سمجھی ناپسندیدگی کا رویہ، خود اطمینانی کی ایک بیمار روش جو لکھنے والے کے مشاہد ے میں آنے والے انسانوں کے باطن میں جھانکنے پرآمادہ نہ کر سکے، گھسی پٹی لفظی رعایتیں اور محاوروں کا بےجا و فرسودہ استعمال اور اس سب سے زیادہ یہ کہ لفظوں کے ایک محدود دائرے میں آنکھیں بند کئے چکر کاٹتے رہنے کی عادت۔۔۔ یہ ایسی کمزوریاں ہیں جنہوں نے اردو میں طنزیہ اور مزاحیہ ادب کو پنپنے نہیں دیا۔
کہا جاتاہے کہ شیکسپئر کے پاس چھبیس ہزار لفظ تھے گویا کہ اپنی دنیا سے تعلق کے چھبیس ہزار بہانے اسے میسر تھے۔ میر، نظیر، انیس، غالب، سرشار، اکبر، اقبال، جوش، اخترالایمان ان سب کے یہاں کیسی بھری پری کائنات کا احساس ہوتا ہے اور ان کے حواس کتنے بیدار دکھائی دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تمام اصحاب ابھی جن کے نام لئے گئے، ہم مرتبہ ہیں یایہ کہ تجربے کی کائنا ت کا محض وسیع اور رنگارنگ ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ تحریر کا فکری اعتبار بھی اتناہی وسیع اور گراں قدر ہوگا۔ ظاہر ہے کہ خالی خولی لفاظی اور چرب زبانی سے ذہن کے افلاس کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ چنانچہ مسئلہ ہمارے لکھنے والوں کے پاس لفظوں کے دامن کی تنگی کا ہوتے ہوئے بھی صرف اس تنگ دامانی کا نہیں، اس بات کا بھی ہے کہ وہ کتنے اور کیسے تجربات کے متحمل ہو سکتے ہیں اور لفظوں سے ان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔
عام اردو والے اچھی اور کشادہ ظرف نثر کے سلسلے میں ایک طرح کی مستقل بے رغبتی کا شکار رہے ہیں اور زعم اس بات کا ہے کہ ہماری زبان ہندوستان کی دوسری زبانوں کی بہ نسبت شائستہ، شہری اور متمدن زیادہ ہے۔ مگر جس نثر کو ہم مہذب کہتے ہیں اس نے اردو پر کیا ستم ڈھائے ہیں ایک ابوالکلام آزاد اور رومانی نثر کے بعض معماروں (مثلا ًسجاد انصاری، مہدی افادی، نیاز، میاں بشیراحمد، ل احمد اکبرآبادی، مجنوں گورکھپوری) کی کچھ تحریروں کا میرامن، غالب، سرشار، خواجہ حسن نظامی، اشرف صبوحی، پریم چند، انتظار حسین کی نثر سے اگر مقابلہ کیا جائے تو بات صاف ہو جائےگی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم مہذب اور مصنوعی کے درمیان خط امتیاز کھینچنے سے قاصر ہیں؟ علمیت کے بوجھ سے نڈھال یا رومانیت کے شیرے میں لتھڑی ہوئی، اپنے سگھڑاپے کے احساس سے سمٹی سمٹائی، شرمائی لجائی ہوئی نثر جیتی جاگتی زندگی کے تلخ و ترش اور کھردرے حقائق کا بھار نہیں اٹھا سکتی۔ نیم خوابیدہ اسالیب اور دھارسے عاری لہجے میں زمینی مسئلوں کی سمائی ہوئی نہیں سکتی۔
کسربیانی Under Statement اور عجزبیانی میں فرق ہے۔ یہ باتیں تخلیقی نثر کی تمام صنفوں کے حساب سے اہمیت رکھتی ہیں، لیکن طنزیہ اور مزاحیہ نثر لکھنے والوں کے لئے کچھ اور اہمیت اس لئے رکھتی ہیں کہ زبان وبیان کے معاملے میں طنز اور مزاح کے مطالبات زیادہ بے لوچ، لطیف اور نازک ہوتے ہیں۔ اس کارگہہ شیشہ گری میں سانس آہستہ نہ لی جائے تو طنز کے دشنام بننے اور مزاح کے مسخراپن بننے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ علاوہ ازیں یہ امر محض اتفاقی نہیں کہ طنز اور مزاح کا پیرایہ اختیار کرنے والوں میں ہمارے بعض سب سے اچھے نثرنگار شامل ہیں۔ یہ بات اس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ اچھی نثر اور وسیع ذخیرہ الفاظ کی ضرورت تمام نثری اصناف میں مشترکہ سہی، مگر محدود لفظی کائنات اور غیر محتاط، مبالغہ آمیز اسلوب کے ساتھ چاہے اور کچھ اور لکھ لیا جائے، کم سے کم طنز اور مزاح نہیں لکھا جا سکتا۔
غالب، فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی سے محمد خالد اختر اور مشتاق احمد یوسفی تک کم سے کم چار چھے مثالیں تو ہم تلاش کر ہی سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں یوسفی کا نام خاص طور پر یوں بھی اہم ہے کہ ان کی تحریریں ایک ایسے دور میں سامنے آئی ہیں جب لوگ لفظوں کا جادو بھلا بیٹھے ہیں اور لفظ بھی اپنا دائرہ اختیار سمیٹتے جا رہے ہیں۔ زبان کے خزانوں کا اتا پتا اسی کو ملتا ہے جس کے پاس وسیع انسانی تجربوں اور مشاہدات کا احاطہ کرنے والی نظر ہو اور طنزومزاح کے معنی خیز اسالیب اس کے ہاتھ آتے ہیں جو شیشوں کو سنبھالنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ یوسفی کی آب گم پڑھ کر دیکھ لیجئے، اور کچھ نہیں تو صرف اس کی نثر کی ہی خاطر۔۔۔