اردو تنقید کے بنیادی افکار
اردو میں تنقید مغرب کی دین ہے، تنقیدی شعور اس سے پہلے بھی تھا اور ایک طرف یہ فن کاروں کے اشارات ونکات میں ظاہر ہوتا تھا، دوسری طرف تذکروں کی مدح و قدح میں۔ مگر اس کی ضرورت اسی وقت محسوس ہوئی جب ۱۸۵۷ء کے بعد زندگی کے تقاضوں نے ادب کارخ موڑ دیا اور ادب کے مطالعے کے لیے ایک نئی نظر کی ضرورت پڑی۔ تذکروں میں فن کا تصور فن شریف کا ہے۔ اس میں جو افکار جھلکتے ہیں ان پر عینیت کا سایہ ہے۔ اس میں ایک انسان دوستی، عام جذبات و کیفیات کی مصوری او ر ایک تہذیبی رنگا رنگی شروع سے تھی۔ تصوف نے اسے ایک فلسفہ عطا کیا اور ایک نظام اخلاق دیا۔ مگر دریار نے اسے جمالیات عطا کی۔ یہ جمالیات محدود ہوتے ہوئے اپنی جگہ قابل قدر تھی۔ اس میں الفاظ کی تراش خراش، محاورے کی صحت، بیان میں فصاحت وبلاغت پر بہت زور تھا۔
مجموعی طور پر ۱۸۵۷ء سے پہلے ادب کی براہ راست اہمیت نہ تھی۔ یہ افسانہ و افسوں کے کام آتا تھا۔ اس کی مسرت سب کچھ تھی اور بصیرت سے اسے زیادہ سروکار نہ تھا۔ اس دور میں موضوع سے زیادہ اصناف کی اہمیت تھی۔ غزل کی ریزہ خیالی کااثر دوسرے اصناف پر خاصا نمایاں تھا۔ مشاعروں کی مقبولیت نے سطحی جذبات یا سامنے کی بات کا زیادہ خوگر بنادیاتھا۔ اس نے پینترے یاصناعی کو خاصی اہمیت دے رکھی تھی۔ شاعر زمین کو آسمان کرنے پر فخر کرتے تھے۔ ایک پھول کے مضمون کو سورنگ سے باندھتے تھے۔ یعنی مضامین میں تنوع یا جدت کا سوال نہ تھا۔ شاعری مرصع سازی بھی تھی۔ تذکروں میں شعرا ء پر اظہار خیال اسی نقطۂ نظرکی ترجمانی کرتا ہے۔
استادی اور شاگردی کے رواج نے زبان کی صحت کو بہت زیادہ اہمیت دے دی تھی۔ زبان کے اس رکھ رکھاؤ میں تازگی و طرفگی خیال کی طرف دھیان کم ہی جاتا تھا۔ سنسکرت کا علم کم ہونے کی وجہ سے اور دوسری ہندوستانی زبانوں سے یونہی سے تعلق کی وجہ سے عجمی لے مقبول تھی اور تنقیدی آرا زیادہ تر شاعری تک محدود تھیں۔ نثر کو منہ لگانے کا سوال ہی نہ تھا۔ تعمیری صلاحیت مسلسل بیان، فطری اسلوب، چلن سے رشتے پردھیان کم ہی تھا۔
۱۸۵۷ء کے بعد زندگی کے نئے مسائل جو شروع انیسویں صدی سے ذہنوں پر دستک دے رہے تھے، بالآخر شاعروں اور ادیبوں کے خلوت خانوں میں درآئے۔ تاریخی اعتبار سے آزاد نے سب سے پہلے نظم اور کلام موزوں پر اظہار خیال کیا اور ایک طرف تخیل کی پرواز کے بجائے حقیقت نگاری پر زور دیا، دوسری طرف فارسی انشا پردازی کے بجائے بھاشا کے اسلوب کی طرف توجہ دلائی، تیسری طرف انگریزی ادب سے موضوعات کا تنوع سیکھنے کی سفارش کی۔ آزادؔ او ر حالیؔ پر کرنل ہالرائڈ اور میجر فلر کا گہرا اثر ہے۔ انجمن پنجاب کے شاعروں نے مغرب کے اثر سے نظم کے فارم کا احساس دیا، آزادؔ اور حالیؔ کی حقیقت نگاری کی کوششیں بقول سرسید کے نیچرل شاعری کے خارجی پہلو تک ہی جاتی ہیں۔ اس میں وہ داخلی پہلو نہیں جو فطرت کی تخیلی ترجمانی سے آتاہے اور جس کے لیے شیکسپیئر اور ملٹن مشہور ہیں۔
آزادؔ کی حیثیت نئی تنقید میں ایک نقیب کی سی ہے جو ہوشیار خبردار کے نعرے بلند کرتا ہے۔ سرسید ضرور زندگی کا ایک واضح تصور رکھتے ہیں جس میں ایک حساس عقلیت، مغرب کے سائنسی طریقوں، علمی افکار اور تہذیبی کارناموں کو اپنانے میں مصروف ہے اور ایک ذہنی انقلاب کے لیے ایک نئے ادبی نقطۂ نظر اور ایک مفید مطلب اسلوب پر زور دیتی ہے۔ مگر ادب ان کی ذہنی بساط کا ایک گوشہ ہے، ساری بساط نہیں۔ لیکن ہمارے پہلے بڑے نقاد حالی ہیں جن کی تاریخی اہمیت ہی نہیں، ادبی اہمیت بھی ہے۔ حالیؔ نے شاعری اور سماج کے براہ راست تعلق پر زور دے کر ادب کو ایک سماجی آلہ قرار دیا۔ انہوں نے شعرکو حکمت کے مقابل ٹھہرا کر اسے حقیقت کا دوسرا ادراک قرار دیا۔
آگے چل کر رچرڈس نے سائنس اور شاعری میں اسی پہلو پر زور دیا۔ انہوں نے قافیہ اور ردیف کی سخت گیری کی مذمت کی، بلکہ وزن کو بھی غیر ضروری قرار دیا۔ وہ تخیل، کائنات کے مطالعے اور تفخص الفاظ کی اہمیت کو واضح کرکے، شاعری میں بے قیدقوت متخیلہ کو روکتے ہیں اور اسے قوت ممیزہ کے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا سادگی، اصلیت اور جوش کا معیار جو ملٹن کے قول کی سطحی اور ناقص تشریح ہے، ہمارے لیے آج زیادہ مفید نہیں، مگر اصلیت کے حدود متعین کرنے میں وہ سلامتی طبع کا ثبوت ضرور دیتے ہیں۔ حالیؔ اپنے دور کی اصلاحی اور اخلاقی روسے اتنے متاثر تھے کہ شعر کو اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام کہنے کو تیار تھے، انہیں شاعری کی جمالیاتی معنویت کا پورا احساس نہ تھا، ان کے سامنے انگریزی کے دوسرے درجے کے نقاد تھے۔ مگرسادگی پر زوردے کر انہوں نے ورڈ سورتھ کے نظریۂ شعر کی یاد تازہ کی اور اصلیت کی اہمیت کو واضح کرکے گرد و پیش کے حقائق کا احساس دلایا اور عالم فطرت اور فطرت انسانی کے سارے امکانات سے کام لینے کی طرف مائل کیا۔
اگر حالیؔ پر اعتراض مقصود ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے شاعری کے مقصدی اور تبلیغی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا۔ اور غزل کی اصلاح کے لیے ایسے مشورے دیے جو آج بڑی حد تک قابل قبول ہیں۔ وہ لکھنؤ اسکول کے فکر و فن کے ساتھ انصاف بھی نہ کر سکے۔ مگر انہوں نے شاعری کو اعلیٰ سنجیدگی عطا کی، اسے مریض انفرادیت سے نکال کر صحت مند سماجی تحریکوں سے آشنا کیا۔ ان کا فن کا تصور فکری گہرائی رکھتاہے اور ایک خاصے جامع تصور حیات کا آئینہ دار ہے۔ ان کا غزل کے متعلق یہ کہنا کہ یا تو عمارت میں ترمیم ہوگی یا عمارت نہ ہوگی۔ ان کی بالغ نظری کا ثبوت ہے۔ مگر جو نقاد سرسید کی تحریک سے ابھرے ان میں شبلیؔ فنون لطیفہ کی اہمیت سے زیادہ واقف ہیں۔ اسی سے وہ روانی کے مقابلے میں خوش نوائی پر اور سادگی کے مقابلے میں ادا پر زیادہ زور دیتے ہیں۔
بقول ایک نقاد کے حالیؔ کے یہاں خشک نیکی کے لیے گنجائش ہے، شاعرانہ جھوٹ کے لیے نہیں۔ شبلیؔ کو اس شاعرانہ جھوٹ کی دلفریبی کا زیادہ احساس ہے۔ سماجی اور اخلاقی پہلوؤں پر حالیؔ اور شبلیؔ دونوں نے زور دیاہے مگر جمالیاتی پہلو پر شبلی کی نظر زیادہ ہے۔ حالیؔ ان تمام لوگوں کے رہنما ہیں، جو شاعری کی سماجی بنیاد کومانتے ہیں اور شبلی نے ان لوگوں کو تقویت پہنچائی جو بیسویں صدی میں تاثراتی تنقید یا رومانی لہر کے مظہر کہے جاسکتے ہیں۔ مہدی افادی اور سجاد انصاری شبلی کے یونہی قائل نہیں تھے۔
اردو ادب میں سرسید کی تحریک، ہندوستان کی نشاۃ ثانیہ کی پیداوار ہے جوسب سے پہلے بنگال میں رونما ہوئی۔ اس تحریک کو ہر جگہ کچھ دیو پیکر افراد ملے جو مغربی افکار کے اثر سے ہندوستان میں ذہنی انقلاب لانا چاہتے تھے۔ قدرتی طور پر ان کی توجہ مذہب اور معاشرت کی اصلاح اور پھر سیاسی جدوجہد پر رہی، مگر انہیں اپنے افکار کو عام کرنے کے لیے ادب کے پرانے تصورکی نارسائی واضح کرنی پڑی اور اس طرح انہوں نے ایک نئے ادب کی بنیادڈالی۔ ہر تخلیق کے جواز کے لیے ایک تنقید کی ضرورت ہوتی ہے جس میں آگے بڑھنے کے لیے ماضی پر تنقیدی نظر ڈالی جاتی ہے۔ ماضی قریب کوچھوڑ کر ماضی بعید کی بعض بھولی بسری روایات تازہ کی جاتی ہیں، نئے خیالات لینے پر زور دیا جاتا ہے اور پرانے خیالات کی ترمیم و تنسیخ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس عمل کا اثر زبان پر بھی پڑتا ہے۔ سرسید کی تحریک نے نہ صرف عقلیت، حقیقت پسندی، افادیت اور سماجی ضروریات کی اہمیت کو منوایا، اس نے علمی زبان بنائی اور نثرکا ایک قابل قدر سرمایہ دیا۔
سرسید کی تحریک کے اثر سے ایک نئی مشرقیت بیدار ہوئی۔ یہ نئی مشرقیت خاصی جذباتی ہے مگر اس کی مشرقیت مغرب کے اثر کی مرہون منت ہے۔ امداد امام اثر، چکبست، مہدی افادی کو اپنے ادبی سرمائے سے محبت ہے۔ ان کے یہاں اخلاقی اور اصلاحی معیاروں کی سخت گیری کم ہے۔ امداد امام اثر سنسکرت کی شاعری کی عظمت کااعتراف کرتے ہیں۔ غزل کی اصلاح کے سلسلے میں ان کا خیال حالیؔ سے جدا گانہ ہے، وہ مشیران اصلاح کی خدمت میں یہ گزارش کرتے ہیں کہ اس میں بے موقع دست اندازی نہ فرمائیں۔ چکبست، داغؔ کی شاعری کو عیاشانہ کہتے ہوئے اس کی خوبیوں کے منکر نہیں ہیں اور لکھنؤ اسکول کے فکروفن کی خوبیاں بھی اجاگر کرتے ہیں۔ نئے ادب سے ان کی محبت ایک تہذیبی قدر وقیمت رکھتی ہے۔
وحید الدین سلیم کی مشرقیت صرف اپنے پرانے سرمائے کی خامیاں دیکھنے پر قناعت نہیں کرتی، مثنوی اور رباعی میں مقررہ اوزان کی قیود کو دور کرنے کی سعی بھی کرتی ہے۔ عبدالحق تحقیق سے مدد لے کر تنقید کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔ وہ میرؔ کے غم میں غم روز گارکی پرچھائیاں دکھا کر اس غم کو آفاقی عظمت عطا کرتے ہیں۔ وہ حالیؔ کے معیاروں کو اور وزن ووقار عطا کرتے ہیں اور مغربی ادب سے مدد لے کر تبصرہ نگاروں کا ایک بلند معیار قائم کرتے ہیں۔ انہوں نے محمدقلی قطب، ولیؔ، میرؔ، میرامنؔ، انشا کی اہم خصوصیات کو اپنے دور کے لیے بڑی خوبی سے سمیٹ لیاہے۔ مگر وہ نقاد سے زیادہ محقق ہیں اور تنقید میں حالیؔ کے تاثرات وتعصبات کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ حسرتؔ کی نئی مشرقیت قدیم شاعری کے تاریک گوشوں کو روشن کرتی ہے۔ مصحفیؔ اور قائم کو ان کا حق دلاتی ہے اور انتخاب سخن کے ذریعہ سے مذاق سخن (Taste) کی ترویج کرتی ہے۔ مگر کلاسیکل آن بان کو مقبول بنانے پر قانع ہے۔
نئی مشرقیت مخزن کے اثر سے کچھ اور آزاد، رومانی اورنئے صنم خانوں کی شیدائی بنتی ہے۔ یہ فن کاروں کو خاصی آزادی دیتی ہے اور فنون لطیفہ سے ایک نئے عشق میں ظاہر ہوتی ہے۔ بجنوری کے یہاں اس نے قدر شناسی (Appreciation) میں تخلیقی شان دکھائی ہے۔ محاسن کلام غالبؔ تنقید نہیں مگر مغرب کے معیاروں سے اپنے ایک دیو پیکر شاعر کی ذہنی رو کو سمجھنے کی ایک قابل قدر کوشش ہے۔ بجنوری نے ٹیگور کی گیتان جلی اور کلام غالب، دونوں کے سلسلے میں شاعر کی بازیافت کی کوشش کی ہے اور مقدس آتش خانوں کی آنچ کو پڑھنے والوں تک پہنچانے کی یہ مخلصانہ سعی عقلیت اور خشک قاموسیت کے بہت سے مظاہروں سے بہتر ہے۔ غالبؔ کے یہاں حکیمانہ شعور کی طرف اشارہ، ان کی اس قدر شناسی کو واقعی قابل قدر بنادیتا ہے۔
عظمت اللہ خاں کے یہاں ان کے دور کے منتشر جلوے ایک واضح نظریے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ بریڈلے کی اس تعریف کو مانتے ہیں کہ تخیلی پیکروں کا پیدا کرنا شاعری ہے۔ انہوں نے تشبیہ کو شاعری کی جان قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک شاعر کے پاس وہ جادو کی چھڑی جس کے چھوتے ہی کچھ نہیں سے تصویروں کا مرقع نکل آتا ہے، تشبیہ ہے۔ وہ تخیل کی مسرت اور لذت کو پہچانتے ہیں اور میرے نزدیک تخیل کی پرستش کی بنیادی اہمیت کا یہ احساس اور ماضی کے شعری سرمائے خصوصاً غزل سے یہ بیزاری ان کی رومانیت کی دلیل ہے کیونکہ بہرحال تخیل کی پرستش کا دوسرا نام ہے۔ جمالیات کے مطالعے نے ان پر یہ واضح کر دیا تھا کہ حسن موزونیت اور احساس تناسب سے عبارت ہے جس میں تمام اجزاء مل جل کر ایک وحدت رکھتے ہیں۔ یہ وحدت فارم کی وحدت ہے جو غزل میں ناپید ہے۔
اس لیے وہ حالیؔ اور سلیمؔ کی طرح غزل کی اصلاح کافی نہیں سمجھتے، صاف کہتے ہیں کہ ’’غزل کی گردن بے تکلف ماردینا چاہیے۔’‘ وہ ہماری عروض کی بندشوں سے بہت نالاں ہیں اور ہندی پنگل کے مطابق نہ صرف خود نظمیں کہتے ہیں بلکہ اردو میں اسے عام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ عظمت اس طرح شاعری کے موضوعات اور زبان پر عجمی اثرات کو کم کرکے ہندوستانی موضوعات اور ہندی کے الفاظ کی لے بڑھانا چاہتے ہیں اور سانیٹ کے دلچسپ تجربے بھی کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں رومانی تحریک نہیں ہے، رومانی لہریں ہیں جو تنقید میں تاثراتی رنگ دکھاتی ہیں۔ نیاز، ابوالکلام کی طرح مذہبی وعلمی مسائل کی چھان بین میں عقلیت سے چلے تھے مگر ادب لطیف نے انہیں اپنی طرف کھینچا اور پھروہ ادب کو ہی عبادت سمجھتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ادب میں وہ مانوس حسن کے دلدادہ ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ وہ عربی، فارسی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس نظر نے انہیں زبان کے معاملے میں خاصا کٹر بنا دیا ہے۔ وہ موضوعات کی پروا نہیں کرتے اور صرف یہ دیکھتے ہیں کہ شاعر جو لکھنا چاہتاہے وہ واقعی الفاظ سے ادا بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ مومنؔ انہیں اس لیے پسند ہیں کہ وہ تغزل کے آداب برتتے ہیں۔ نظیرؔکے یہاں انہیں صرف چٹکلے بازی نظر آتی ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں نیازؔ کے اثر سے تاثراتی تنقید کی لے اور بڑھی مگر بدلتے ہوئے سماجی شعور نے اس کے اثرات مستحکم نہ ہونے دیے۔ تاثراتی تنقید میں مجموعی طور پر گرمی تو ہے مگر روشنی کم ہے۔
ادب کو جیسے جیسے مذہبی یا اخلاقی بندشوں سے آزادی ملتی جاتی تھی، ادبی تنقید کو فروغ ہوتا جاتا تھا مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان کی آزادی کی تحریک نے جب عوامی شکل اختیار کی اور قومیت کا احساس ہوا تو سیاسی کشمکش نے ادب پر بھی اثر ڈالا۔ اقتصادی حقائق نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ سستی جذباتیت، مریض رومانیت اور کج رو انفرادیت کے خطروں کا احساس ہوا، دنیا کے ایک ہونے کے احساس نے عالمی قدروں کی طرف مائل کیا۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی نے زندگی اور ادب کے متعلق نئے سوالات کے جواب کی ضرورت محسوس کی۔ اقبال نے اپنے دیباچوں میں فن کو فکر کا فارم ٹھہرایا اور فکر میں حرکت، قوت اور خودی کی علمبرداری کی مگر ترقی پسند تحریک نے جو سرسید کی تحریک کے بعد اردو ادب میں دوسری بڑی تحریک ہے، تنقید کو تخلیق کے طفیلی کے درجے سے بلند کرکے اسے ادب کی رہبری کا دعوے دار بنایا۔
پرانی تنقید صرف فن کی تشریح پر زور دیتی تھی، رومانی و تاثراتی لہر نے فن کار کو بھی اہمیت دے دی تھی مگر ترقی پسند تنقید نے پڑھنے والوں کو بھی اہمیت دی۔ تنقید کو ایک سائنسی طریقہ کار عطا کرنے کی کوشش کی اور جدید علوم کی معلومات کی مدد سے ادب کے مطالعے میں گہرائی اور تازگی پیدا کی۔
ترقی پسند تنقید کوصحیح بنیاد پریم چند کے خطبے سے ملی۔ اس سے پہلے کی تحریریں زیادہ تر تبلیغی ہیں۔ پریم چند نے اعلان کیا کہ ادیب کا مشن نشاط اور محفل آرائی اور تفریح نہیں۔ وہ وطنیت اور سیاست کے پیچھے چلنے والی حقیقت نہیں بلکہ ان کے آگے مشعل دکھاتی ہوئی چلنے والی حقیقت ہے، گویا انہوں نے سیاست اورادب کے رشتے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور ادب کے مخصوص عمل کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایک شمع ٹھہرایا تھا جو زندگی کے راستے کو روشن کرتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا، اور اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ موزونیت، تناسب، ہم آہنگی صرف مانوس سانچوں میں نہیں زندگی کے ان گنت مظاہر اور انسانی اعمال وافعال کے گو ناگوں کرشموں میں بھی جھلکتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ آج کی زندگی میں حسن کے ہر رنگ کو دیکھیں اور دکھائیں۔
ترقی پسند تنقید خالص مارکسی نہیں رہی۔ مگر مارکسزم کا اثر اس پر سب سے گہرا رہا۔ جب تک اس نے قدیم ادب پر توجہ نہیں کی، حسن کاری کے آداب کو نظر انداز کیا۔ فن کے پیچ و خم کو بورژوا طلسم بندی کہہ کر یاد کیا۔ تجربات کے شوق میں اشاریت پرستی کو ہوا دیتی رہی اور حقیقت نگاری کے نام پر جنس کی کیچڑ اچھالتی رہی یاامراض کی تشریح کرتی رہی، اس وقت تک وہ سطحی رہی مگر جب اس نے قدیم ادب کے قیمتی عنصر سے رشتہ جوڑا، ترسیل وابلاغ کے مسائل پر توجہ کی، مریض انفرادیت پر سماج کی ضرورت کی حد قائم کی، ہنگامی واقعات کے بجائے عصری میلانات کو سمونے لگی، غزل کی آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے لگی، نظم کے تعمیری امکانات اور نثر کے جامع شعور کی طرف اشارہ کرنے لگی، تو اس نے ایک مفید اور قابل قدر خدمت انجام دی۔
ان لوگوں میں جنہوں نے ترقی پسند تنقید کو وزن و وقار عطا کیا، مجنوں ؔ، فراقؔ، احتشام حسین، عبدالعلیم اور ممتاز حسین کے نام قابل ذکر ہیں۔ ترقی پسند تحریک دراصل اگر وقتی سیاست کا اتنا شکار نہ ہوتی، کلاسکس کا وہ احترام کرتی جو کارل مارکس نے سکھایا ہے۔ جمالیات کو اس طرح اپناتی جس طرح لو کاچ نے مغربی حقیقت نگاری کے مطالعے میں کوشش کی ہے۔ ادب سے ذہنی بیداری کا کام لیتی اور اسے سیاسی پروپیگنڈے کے لیے استعمال نہ کرتی تو روس میں جدید اردو ادب کا اتنا یک رخا تصورنہ ہوتا اور ہندوستان میں اس کی خدمات کا بہتر احساس ہوتا۔ فیضؔ اور فراقؔ پر سردار جعفری کے اعتراضات اس کی سطحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
مگر اردو میں ادب اور سائنس کو قریب لانے میں ترقی پسند تحریک کا بڑا ہاتھ ہے۔ سائنس نے دیومالا کے مفروضات کو باطل ٹھہرا دیاہے مگر دیومالا کے مفروضات میں جو تاریخی حقائق پوشیدہ ہیں، ادب ان کے رمزی اور ایمائی استعمال سے برابر کام لے سکتا ہے۔ سماجی علوم کی معلومات کو خطیبانہ انداز میں یا بجنسہ پیش کرکے ادب ادب نہیں رہتا۔ ا ن معلومات کو جمالیاتی معنویت عطا کرنی چاہیے۔ اس جمالیاتی معنویت کی تلاش ابھی تک عام نہیں ہے ہاں اس کا احساس کچھ لوگوں کے یہاں ضرور ملتا ہے۔
سستی سیاسی تاویلوں اور سطحی علمی نظریوں کا ردعمل ہمیں مغرب کے ایک اور مقلد کلیم الدین احمد کے یہاں ملتا ہے، جو رچرڈس سے متاثر ہیں اور لیوسؔ کے شاگرد ہیں۔ رچرڈس سائنسی تنقید کے علمبردار اور ایک عالم گیر اثر کی حیثیت سے اردو تنقید کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ شاعرانہ تجربات کے لیے اس نے قدر کا جو نفسیاتی نظریہ پیش کیا ہے وہ خاصامبہم ہے مگر تجربات، تجربات کے امتیاز، قدروں کی تلاش، عملی تنقید میں متن پر توجہ کے اثرات کلیم الدین کے علاوہ اس دور کے دوسرے نقادوں پر بھی پڑے ہیں۔ مگر کلیم الدین کے یہاں رچرڈس کی سائنسی نظرسے زیادہ لیوس کی بت شکنی ہے۔ کلیم الدین کے یہاں عالمی معیاروں پر زور صحیح ہے، فارم کا احساس بھی مناسب ہے مگر ہندوستانی ادبیات کا گہرا مطالعہ اور ہندوستانی تہذیب کا عرفان نہیں ہے۔
وہ اس مطلقیت (Absolutism) کا شکار ہیں جس کے خطرے کی طرف ویلکؔ نے اشارہ کیا ہے۔ ایک کٹّر عینیت پسند ہونے کی وجہ سے وہ زندگی کے دوسرے نظریوں کا بے لاگ اور بے تعصبانہ مطالعہ نہیں کر پاتے۔ ان کے یہاں ذوق سلیم کے بجائے ایک سرد علمیت ہے جو مدرسہ و خانقاہ میں پرورش پاتی ہے اور زندگی کو ہمالہ کی چوٹی سے دیکھنا چاہتی ہے، پھر بھی میں ان کی مغربیت کو جذباتی مشرقیت پر ترجیح دیتا ہوں۔
فرائڈؔ ایڈلر اور ینگ کے اثرات بھی اردو تنقید پر پڑے ہیں۔ میراؔ جی اور ان کے ساتھیوں نے فرائڈ کے خیالات کی سستی تاویلیں کرکے ادبی تنقید کو کیس ہسٹری بنا دیا تھا۔ خود فرائڈ کو جدید نفسیات نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مگر ہمارے یہاں تحلیل نفسی کی مدد سے فن کار کی شخصیت کے پیچ وخم متعین کرنے کی کوشش ابھی جاری ہے۔ گوحال میں یہ احساس بھی ہونے لگا ہے کہ ینگ کے افکار اور ماوہاڈکن کے نظریات پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ مگر جدید نفسیات نے جس طرح فن کے تجزیے پر زور دینا شروع کیا ہے اور لفظ اور معنی کے پراسرار رشتوں کی جس طرح گرہ کشائی کی ہے، میں اسے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔
آزادی کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے اردوادب میں ایک بنیادی فرق ہوا ہے۔ عسکری کی بڑھی ہوئی اور ایک حد تک مریض انفرادیت نے ادب کی خاطر انسان کے بجائے آدمی کی پرستش شروع کی ہے۔ یہ آدمی فرانسیسی اشاریت پرستوں سے بہت ملتا جلتاہے۔ ادب میں کسی دم چھلے کا قائل نہیں اور لاشعوری اور جبلی خواہشوں کو انسانی تہذیب کی اعلیٰ قدروں کے مقابلے میں زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ صحت مند سماجی شعور کے بے محاہا اظہار پر پابندیاں ہیں، اس لیے ادب کے فروغ کے نام پر ایک مریض انفرادیت پروان چڑھ رہی ہے، جو ادب کے کارناموں کو فقروں اور چٹکلوں میں ٹرخا دیتی ہے۔ ہندوستان میں اس کے بجائے شخصیت پرستی بڑھ رہی ہے جس نے ہندوستانی ادبیات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے غلط فائدہ اٹھایا ہے، مگر مجموعی طور پر ہندوستان میں اردو تنقید اب بھی خاصی غیر شخصی، سنجیدہ اور اعلیٰ افکار و اقدار کا سہارا لے کر چلتی ہے۔
تذکروں کے فنی معیار کے بجائے سرسید کی تحریک نے ایک مقصدی، افادی، اخلاقی اور اصلاحی نقطۂ نظر پر زور دیا اور یہ مغرب کے اثر سے ہوا۔ اسی مغرب کے اثر نے پھر ایک نئی مشرقیت کو ہوا دی، جو ایک طرف اپنے سرمائے کو کھنگالتی رہی اوراسے زیادہ وقیع ثابت کرتی رہی اور دوسری طرف رومانیت کی ترنگ میں کبھی تاثراتی ہوئی اور کبھی تجرباتی۔ پھر آزادی کی عوامی جدوجہد اور سیاسی حالات نے ترقی پسند تحریک کو جنم دیا جس کی مقصدیت واضح تھی، مگر جو عمل میں خام ہونے کے باوجود اپنے دائرے میں خاصا جدید اور جامع شعور رکھتی تھی۔ اس کے ردعمل کے طور پر ایک طرف سستا نفسیاتی تجزیہ شروع ہوا جسے جلد ہی سنجیدہ حقائق کے شعور نے روک دیا۔
دوسری طرف عالمی معیاروں کی متشدد پیروی شروع ہوئی، حال میں یہ احساس ہوا ہے کہ ادب کے مخصوص دائرے اور اس کے بنیادی تقاضوں کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں ایک ایسی نئی جمالیات کی ضرورت ہے جس میں سماجی اور اخلاقی قدروں کا احساس ہو اور جو فن کی نزاکتوں پر نظر رکھے مگر ان میں اسیر ہوکر نہ رہ جائے، اور جو اپنی سر زمین اور ماحول سے رشتہ رکھتی ہو۔ لسانیات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے چلن اور بول چال کی زبان کا نیا احترام سکھایا ہے۔ تحقیق نے ادبی تاریخ کو صحت عطا کی ہے اور ہندوستان کی پوری تاریخ پر توجہ نے اپنی تہذیبی بساط کے احساس کے ساتھ ہندوستانی زبانوں کے ایک دوسرے پر اثرات اور انگریزی کے ان سب پر اثرات کی اہمیت واضح کردی ہے۔
آج تنقید کا کام تخلیق کو اور باشعور اور تحسین کو اور باذوق بناتاہے۔ تنقید تہذیب کی تاریخ کا ایک جز ہے۔ اس میں ہندوستانی تہذیب کی روح کی بھرپور جلوہ گری ضروری ہے۔ اردو اس لحاظ سے دوسری ہندوستانی زبانوں سے زیادہ خوش قسمت ہے کہ اسے ایشیائی عناصر پر بھی دسترس ہے اور عالمی افکار سے اس کی شناسائی کسی سے کم نہیں، اس لیے ذہنی صحت کا معیار قائم کرنے کے لیے اسے تاریخیت یا مطلقیت کے بجائ جامعیت (Perspectivism) کے سہارے چلنا ہے اور ادب پاروں کے ذریعہ سے مہذب ومرتب ذہن کی جلوہ گری اور قدروں کی جو تنظیم ہوتی ہے اور حسن کے جس احساس میں یہ جلوہ گر ہوئی اسے عام کرنے کی خاطر ذوق سلیم کی اشاعت کرنا اور زندگی کی بصیرت میں اضافہ کرنا ہے۔