اردو تنقید ایک جائزہ
جناب وائس چانسلر صاحب، صدر شعبۂ ا ردو، مہمانان گرامی، خواتین و حضرات،
حالیؔ کا مقدمہ شعر و شاعری ۱۸۹۳ء میں شائع ہوا۔ مقدمہ ہماری تنقید کا پہلا صحیفہ ہے۔ مقدمہ سے پہلے محمد حسین آزادؔ کے افکار اور سر سید کے تہذیب الاخلاق میں بعض مضامین کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ آزادؔ اور حالیؔ دونوں کی تنقید پر ان کی تخلیق کا سایہ ہے۔ عالمی تنقید کا معلم اوّل ارسطو، ہومر کی ایپک نظموں اور یونانی ڈراما نگاروں کی روشنی میں (بوطیقا یا شعریات) مرتب کرتا ہے۔ انگلستان میں ڈرائیڈن، جانسن، کولرج، آرنلڈ اور ایلیٹ سب کی شاعری نے ان کی تنقید کے لیے راہ ہموار کی۔
اردو میں کئی اہم شاعروں نے شعراء کے تذکرے بھی مرتب کیے۔ میرؔ، مصحفیؔ، قائمؔ، شیفتہؔ کے نام اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں۔ ان تذکروں میں جو تنقیدی اشارے ہیں ان کی مدد سے شعراء کے تنقیدی شعور اور ان کے دور کے تنقیدی شعور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ غرض تنقید خلا میں وجود میں نہیں آتی۔ اس کے پیچھے معنی خیز تخلیقات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ تخلیق کی معنویت اور معیاروں کی طرف توجہ کے ذریعے سے یہ نہ صرف قاری کو ذوق سلیم تک لے جاتی ہے بلکہ بعد کے تخلیق کاروں کے لیے روشنی بھی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے ادب میں تخلیق کی اولیت کو تسلیم کرتے ہوئے تنقید کی اہمیت سے بھی کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔
جارج اسٹاینر George Steiner اپنی کتاب زبان اور خاموشی Language And Silence میں تو یہاں تک کہتا ہے کہ اسٹایل کی صفت کی وجہ سے تنقید بھی ادب ہوسکتی ہے۔ By Virtue Of Style Criticism Can Itself Become Literature اچھا نقاد وہ ہے جو قاری کو تخلیق کے متعلق نئی بصیرت دے۔ تنقید ایک کتاب کے مطالعہ کے لیے ذہن کو آمادہ کرتی ہے۔ فن کار اور قاری دونوں کے لیے تنقیدی شعور کی ضرورت ہے۔ فنکار کبھی اپنے آتش کدے کی راکھ کو ہی کریدتا رہتا ہے، کبھی اپنے ہی اسلوب کا شہید بھی ہو جاتا ہے۔ نقاد اس کے فن کو تنظیم سکھاتا ہے اور قاری کو تجربے اور تجربے کی پہچان عطا کرتا ہے۔ نقاد جج کی طرح فیصلہ بھی نہیں کرتا، نہ کوئی فرمان جاری کرتا ہے۔ وہ فتویٰ بھی نہیں دیتا، وہ تخلیق کار کا رہنما فلسفی اور ساتھی ہے۔
مگر تنقید ہے کیا؟ اپنے ایک مضمون میں جو ۱۹۴۶ء میں لکھا تھا میں نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی تھی، شاید اس کا اقتباس یہاں بے محل نہ سمجھا جائے۔
’’میرے خیال میں اس کے لیے پرکھ کا لفظ سب سے زیادہ موزوں ہے۔ اس میں تعارف، ترجمانی اور فیصلہ سب کچھ آجاتے ہیں۔ پرکھ کے لفظ کے ساتھ ہمارے ذہن میں ایک معیار یا کسوٹی آتی ہے۔ نقاد کے ذہن میں ایسا ایک معیار ضروری ہے۔ پرکھنے اور تولنے کے لیے ترجمانی اور تجزیہ ضروری ہے۔ مبصر یا پارکھ اپنا فیصلہ منوانے کے درپے نہیں رہتا اور تمام نقاد اس بات سے متفق ہیں کہ نقاد کو آمر نہیں ہونا چاہیے۔ ایلیٹ کہتا ہے کہ اہم معاملات میں نقاد کو زبردستی نہیں کرنا چاہیے اور نہ اسے اچھے برے کا فیصلہ (جھٹ سے) صادر کر دینا چاہیے۔ اسے صرف وضاحت کرنی چاہیے اور پڑھنے والا خود ہی ایک صحیح نتیجہ پر پہنچ جائے گا۔ مگر نقاد جب کسی کا تعارف کراتا ہے تو اس کا تعارف کسی نقیب کی پکار نہیں ہوتا۔ ایک سیاح کی دریافت ہوتا ہے۔ نقاد بھی اپنی دنیا کا کولمبس ہے۔ وہ پڑھنے والے کو ایک نئی فضا میں لے جاتا ہے جس کا حسن اس نے دریافت کیا ہے۔ ہر تنقید ایک ذہنی سفر کا آغاز ہے۔ تعارف کو اعلان نہ ہونا چاہیے اور نہ ترجمانی کو فلسفہ۔‘‘
آزادی کے بعد ہندوستانی ادبیات میں یہ میلان بڑھا ہے کہ تنقید میں ہمیں اپنی جڑوں، اپنی تاریخ اور اپنے ماحول کو ہی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ مغربی ادب میں جو معیار عام ہیں، ان کے مطابق اپنی ادبیات کو پرکھنا قطعی ضروری نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عربی، فارسی، سنسکرت میں جن ادبی اصولوں پر زور دیا گیا ہے یا شعری معیاروں کا تذکرہ ہے، ان پر ہی ہماری تنقید کی بنیاد ہونی چاہئے۔ مغربی ادب کی صورت حال ہماری ادبی صورت حال سے بالکل مختلف ہے۔ اس لیے اس سے اپنے فن کاروں اور فن پاروں کی تفہیم میں مدد نہیں مل سکتی۔ یہ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ ذہنی غلامی ہے اور نوآبادیاتی ذہن میں توسیع۔ یہ بات اس حد تک صحیح ہے کہ ہمیں اپنی بنیادوں، اپنی تاریخ اور اپنے ماحول کو بہرحال پیش نظر رکھنا چاہیے مگر مغربی معیاروں کو نظر انداز کرنا، جو بڑی حد تک اب بھی عالمی معیار ہیں، میرے نزدیک کسی طرح مناسب نہیں۔ ویسے بھی یہ دور صرف یہ یا صرف وہ کا نہیں، یہ بھی اور وہ بھی کا ہے۔
تقریباً دو سو سال سے مغربی اثرات ہماری زندگی، سماج اور ادب پر پڑ رہے ہیں، جس طرح قدیم ہندوستان کی کلید سنسکرت ہے اور ازمنہ وسطیٰ کی ایک حد تک فارسی، اسی طرح جدید دور کی کلید انگریزی ہے۔ مارکس کا یہ قول میرے نزدیک بڑی صداقت رکھتا ہے کہ خواہ مغرب کا اقتدار ہندوستان پر یہاں کی دولت کے استحصال کے لیے ہوا ہو، مگر اس نے تاریخ کے ایک آلے کا کام بھی انجام دیا۔ غور سے دیکھا جائے تو قومیت، جمہوریت، سیاسی وحدت کا تصور ہمیں مغرب نے دیا ہے۔ ہاں حب وطن اور گاؤں کی پنچایت میں جمہوری تصورات ہمارے یہاں پہلے سے موجود تھے۔ مغربی افکار کا سرچشمہ یونانی فکر ہے اور اس کے بعد روما کے قانون کا تصور، پھر انجیل مقدس۔
یونانی فکر، خلفائے عباسیہ کے زمانے میں عربی ادبیات اور علوم پر اثر انداز ہوئی۔ اس فکر نے ازمنہ وسطیٰ کے دھندلکے میں علم و عمل کی شمعیں روشن کیں۔ نشاۃ الثانیہ کے بعد یورپ میں جو تخلیقی سرگرمیاں شروع ہوئیں، ان میں عربوں کے خونِ جگر کی آب و تاب بھی شامل ہے۔ کہنا یہ ہے کہ مشرق اور مغرب اس طرح الگ دنیا ئیں نہیں ہیں جس طرح کپلنگ کی ہمنوائی میں کچھ لوگ کہتے رہے ہیں اور اپنی فکری بنیادوں کے ساتھ عالمی میلانات کا مطالعہ نہ صرف مفید ہے بلکہ میرے نزدیک ضروری بھی۔ اس لیے ہمیں اپنی تنقید میں مشرقی افکار کے ساتھ عالمی افکار کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
ازمنہ وسطیٰ کے تنقیدی افکار زیادہ تر ہدایات یا نکتوں اور اشاروں کی شکل میں ہوتے تھے۔ علمی و ادبی مشاغل ایک مخصوص طبقے کا کاروبارِ شوق تھے۔ جب متوسط طبقہ بڑھا تو ان اشاروں سے داستانیں مرتب ہونے لگیں۔ فن کے اسرار و رموز پر پہلے مضامین اور پھر کتابیں وجود میں آئیں۔ ادبی بساط پر ایک جدلیاتی طریق کار کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ یہاں ایک میلان جب اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے تو اس کا رد عمل شروع ہوتا ہے اور جب یہ رد عمل مکمل ہو جاتا ہے تو ایک نئے مجموعی میلان کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ یہ ایک طرح کا امتزاج ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو روایت ایک وحدت نہیں ہے۔ اس میں کثرتیں رفتہ رفتہ ایک وحدت کو جنم دیتی ہیں اور انہیں کے بطن سے بغاوت وجود میں آتی ہے جو کسی بھولی ہوئی روایت کی توسیع یا ترمیم بھی ہوتی ہے، اس لیے تنقید میں بقول رینی ویلک صرف تاریخیت یا مستقلیت Historicismیا Futurism رہنما نہیں ہوسکتی۔ تناظریت Perspectivism کی بھی ضرورت ہے۔ اس طرح ہم ماضی کے سرمائے اور حال کے موج در موج سمندر سے انصاف کر سکتے ہیں۔ ادب میں کوئی نظریہ اس طرح باطل نہیں ہوتا جس طرح سائنس میں، ادب وہ دریا ہے جس میں مختلف اوقات میں نئے دھارے آکر ملتے رہتے ہیں اور پورے دریا کی روانی کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ دریا ایک معنی میں وہی رہتا ہے اور ایک معنی میں کچھ اور بھی ہو جاتا ہے۔
زندگی میں تسلسل اور تغیر کی طرح ادب میں بھی تسلسل اور تغیر ہوتا ہے۔ اگر ہم اس نکتے کو ملحوظ رکھیں تو بہت سی غلطیوں اور گمراہیوں سے بچ سکتے ہیں۔ میں مغربی افکار سے استفادہ اردو ادب کے لیے مفید سمجھتا ہوں لیکن ان افکار کی روح کو دیکھتا ہوں، میں جدید کاری کا قائل ہوں، لیکن جدیدکاری کو تمام تر مغرب کی پٹری پر چلنا نہیں مانتا۔ نئی مشرقیت مغرب کے آشوب کو نظر میں رکھتی ہے۔ یہ ماضی پرست نہیں ماضی شناس ہے مگر اس کی توجہ کا مرکز حال کا آشوب اور مستقبل کے امکانات ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اردو میں تنقید کی اصطلاح پہلے کب اس صنف کے لیے استعمال ہوئی۔ عربی کا لفظ ’نقد‘ تو پہلے سے موجود تھا۔ انتقاد اور انتقادیات کو نیاز فتح پوری نے رواج دیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغازمیں لسان الصدق میں ایک مضمون میں ریویو اور تبصرہ پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا آزاد نے یہ لفظ استعمال کیا، لیکن اس سلسلے میں مزید تحقیق کی گنجائش ہے۔ کلیم الدین احمد نے اردومیں تنقید کے وجود کو فرضی قرار دیا تھا۔ یہ ویسی ہی بات تھی جیسے غزل کو نیم وحشیانہ صنف شاعری کہنا۔ دونوں اقوال میں کچھ سچ بھی ہے، مگر مجموعی طور پر یہ انتہا پسندی ہے اور اس لیے گمراہ کن۔
تذکروں میں ایک تنقیدی شعور ملتا ہے گو باضابطہ تنقید نہیں ہے۔ آب حیات میں ایک رچے ہوئے تنقیدی شعور سےکیسے انکار کیا جا سکتا ہے اور نیرنگِ خیال میں آزاد کے ایک صحت مند تنقیدی شعور کو کیسے نظر انداز کردیں۔ اس طرح تہذیب الاخلاق میں سرسید کے وہ مضامین جو انھوں نے سال تمام ہونے کے سلسلے میں لکھے تھے، ادب اور انشا پردازی کے متعلق سرسید کے نظریات کی ایک واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ خود حالیؔ نے مجموعۂ نظم حال کے دیباچہ، مسدس کے دیباچہ اور حیات سعدی میں اہم تنقیدی افکار پیش کیے ہیں۔ پھر بھی یہ درست ہے کہ مقدمۂ شعر و شاعری ہی اردو تنقید کا پہلی صحیفہ ہے۔ اس کی اہمیت تاریخی بھی ہے اور ادبی بھی۔ اس کے حوالے سے آج بھی بات ضروری ہے۔
ہمارے یہاں تنقید کی جو تاریخ اب تک بیان کی گئی ہے اس میں ناموں پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ میلانات پر اتنی توجہ نہیں۔ تاریخ کو بھی ایک زمانے میں مشاہیر کی سوانح عمری کہا جاتا تھا، مگر اب تاریخ اسباب وعلل کی داستان ہے اور اس میں سماج کے ارتقا کے منازل، تہذیب کے مظاہر، سیاسی تبدیلیاں اور عوام و خواص سبھی کی صورت حال کا جائزہ آ جاتا ہے۔ گہری تحقیق، اب صرف جنگل کے تصور پر قناعت نہیں کرتی بلکہ نامیار Namiar کے اثر سے پیڑ بھی گنتی ہے۔ اول تاریخ، تاریخ کے اس تصور سے مدد لے کر تحقیق کو اس کا جائز مقام دیتی ہے۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ گذشتہ سو سال میں اردو تحقیق اور اردو تنقید دونوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ گو ابھی دونوں میں جانب داری کی لے زیادہ ہے، سخن فہمی کی اتنی نہیں۔ ادب میں اعلیٰ روایت اور ادنیٰ روایت دونوں Great Tradition And Little Tradition پر زور دیا جانے لگاہے۔ گویا ادنی کی اصطلاح مجھے مناسب نہیں معلوم ہوتی اس کے بجائے روایت کی اصطلاح زیادہ موزوں ہے۔ علاقائی کارناموں کا جائزہ بڑھا ہے مگر اس میں رائی کو پہاڑ ثابت کرنے کی کوشش بھی ہے۔
مغرب میں تنقید کے جو دبستان سامنے آئے ہیں، ان پر یہاں ایک نظر ڈالنا ہمارے لیے اس لیے مفید ہوگا کہ ہمارے یہاں یہ اثرات کبھی برملا اور کبھی ڈھکے چھپے ملتے ہیں۔ ولبر اسکاٹ نے اپنی کتاب ادبی تنقید کی پانچ راہیں Five Approaches To Literature میں تو انسان دوست یا اخلاقی، نفسیاتی تنقید، سماجی تنقید، فنی یا فارمل تنقید اور اسطوری اور آرکی ٹائپل تنقید کے دبستان قائم کیے ہیں۔ اس نے تاثراتی تنقید کی طرف توجہ نہیں کی، اس لیے کہ اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح کسی دوسرے دبستان سے مل جاتے ہیں۔ ہمیں اسکاٹ کی درجہ بندی میں روسی فارملزم اور تشکیل یا ساخت اور لاتشکیل یا رد ساخت کے دبستانوں کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا۔
یہ اثرات گذشتہ چالیس پچاس سال میں ابھرے ہیں۔ اخلاقی زاویۂ نظر کی تاریخ سب سے پرانی ہے۔ افلاطون، سڈنی جانسن، آرنلڈ سب کا سروکار اخلاقیات سے تھا۔ آرنلڈ کی اعلیٰ سنجیدگی اس کی نمایاں مثال ہے۔ بیسویں صدی میں یہ اخلاقی نقطۂ نظر تو انسان دوستی میں ظاہر ہوتاہے۔ ادب تنقید حیات ہے۔ تکنیک کا مطالعہ وہ ذریعہ ہے جو ہمیں ادب کے مقصد تک لے جاتا ہے اور بالآخر تہذیب کے فروغ اور مہذب انسان کے نصب العین تک رسائی رکھتا ہے۔ یہ نیچرلزم اور رومانیت دونوں سے گریزاں ہے۔ ایلیٹ اور ایف آر لیوس دونوں کے یہاں یہ اخلاقی نقطۂ نظر اپنے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
ایلیٹ نے جب یہ کہا کہ ’’ادب کی عظمت صرف ادبی معیاروں سے متعین نہیں کی جا سکتی، اگرچہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ادب ہے یا نہیں اس کا تعین صرف ادبی معیاروں سے کیا جا سکتا ہے۔‘‘ تو اس نے بالآخر اخلاقی نصب العین یا سماجی نقطۂ نظر کے لیے بھی گنجائش چھوڑی، مگر ادبی معیاروں کی مرکزیت کو ملحوظ رکھا۔
نفسیات کے علم نے ادب کے مطالعے میں ایک تو رچرڈس کے ادبی تنقید کے اصول Principles Of Literary Criticism میں جمالیاتی تجربہ کا تجزیہ کیا اور حسن کو حواسوں کے ایک نئے توازن کا نام دیا۔
Beauty Is That Which Is Conducive To Synesthetic Equilibrium اس سے مراد قاری کا وہ موزوں رد عمل ہے جو ایک فن پارہ عطا کرتا ہے اور جس میں ایک حس کو دوسری حس کے ذریعے سے پیش کیا جاتا ہے۔ دوسرے جو ایڈمنڈ ولسن کے یہاں فن کاروں کی زندگی کے مطالعے کی طرف مائل کرتا ہے، تاکہ اس سے ان کے سمجھنے میں مدد ملے۔ ڈی ایچ لارنس نے بھی کہا تھا کہ حسن فن کار کو اپنے مرض سے چھٹکارا پانے میں مدد دیتا ہے۔ ’’زخم اور کمان‘‘ میں ولسن نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح نہ صرف فن کار کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ فن کے اندرونی سانچوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ پھر نفسیات، فکشن اور ڈرامے کے بعض کرداروں کے مطالعے کے ذریعے سے ان کے عمل اور رد عمل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
ہولٹ کا تجزیہ اس کی اچھی مثال ہے۔ فرائڈ کو مارکس کے ساتھ اس دور کا پیغمبر کہا گیا ہے لیکن فرائڈ کا نظریہ در اصل ادب کے ساتھ انصاف نہیں کرتا لیکن یُنگ کےنظریات کا اثر ادب پر بہت گہرا ہے اور اس نے بالآخر ایک اسطوری دبستان کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ فن بہرحال خواب سے واضح طور پر مختلف ہے۔ فن کار کو ایک حد تک اپنی تخلیق پر قابو ہوتا ہے جب کہ خواب دیکھنے والا مجبور ہے۔ اردو میں میرا جی نے فرائڈ کے نظریات سے متاثر ہوکر اردو کے بعض شعراء پر ادبی دنیا میں جو مضامین لکھے تھے ان میں یہی کمزوری تھی۔ گو یہ دلچسپ ضرور تھے۔ بہرحال اس دبستان کے ذریعہ سے تخلیقی عمل کے سلسلے میں کچھ معنی خیز باتیں ضرور کہی گئی ہیں۔
سماجی دبستان اس دور میں کافی مقبول رہا ہے، خصوصاً مارکسی نقطۂ نظر کی وجہ سے اسے خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔ دراصل اس کا آغاز تانیے سے ہوتا ہے جس کا لمحے، نسل اور ماحول کی وجہ سے اسے خاص اہمیت حاصل ہوئی، کا تصور ہی وہ بنیاد ہے جس کے سہارے مارکس نےذرائع پیداوار کو مرکزی اہمیت دی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مارکس کا ادب کا تصور اس کے جدلیاتی مادیت کے فلسفے کا ہی ایک پہلو ہے۔ ادیب بہرحال کسی سماج کا فرد ہوتا ہے، مگر اس کی انفرادیت کو صرف اس کے سماجی دائرے کی مدد سے ہی سمجھا نہیں جا سکتا۔ وہ ایک آزاد وجود بھی رکھتا ہے۔ سماجی تنقید خصوصاً مارکسی تنقید نے ادب پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں جیسا کہ ایک نقاد نے کہا ہے ادب اور سماج کا رشتہ باہمی (Reciprocal) ہے۔ ادب صرف سماجی اسباب کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ سماجی اثرات کا سبب بھی ہے۔ Literature Is Nor Only The Effect Of Social Cause, It is Also The Cause Of Social Effect بیشتر مارکسی نقادوں نے ادب کے مخصوص تجربے اور رول کے ساتھ انصاف نہیں کیا مگر کرسٹوفر کا ڈویل، لوکاج اور حال میں ٹیری ایگلٹن کے یہاں جو کوشش ہے وہ ہر لحاظ سے قابل قدر ہے۔
کچھ لوگ فارملسٹ تنقید کے دبستان کو اس دور میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کے نقطۂ نظر کی اتنی اہمیت نہیں جتنی اس کے طریقۂ کار Methodology کی ہے۔ اس دبستان کا رشتہ ایلیٹ سے دیکھا جا سکتا ہے جس نے فن کو فن کی وجہ سے اہمیت دی نہ کی سماج، مذہبی، اخلاقی یا سیاسی افکار کی وجہ سے اور جس نے فن پاروں کے گہرے مطالعے پر زور دیا۔ ایلیٹ کا یہ کہنا ہے کہ فن کار جذبے اور شخصیت سے اپنے فن میں فرار حاصل کرتا ہے۔ نقادوں کو فن کاروں کی سوانح کے بجائے فن پارے کے فنی نظام کی طرف متوجہ کرنے میں مؤثر ثابت ہوا۔ دوسرا راہ نما رچرڈس ہے جس نے معنیات پر توجہ کی اور اپنی کتاب عملی تنقید میں نوجوانوں کی کچھ نظموں کے رد عمل کا تجزیہ کیا۔ پھر اس کے شاگرد ایمپسن نے ابہام کی سات قسمیں لکھ کر اس نئے دبستان کے لیے میدان بالکل صاف کردیا۔
نئی تنقید کے علمبردار یہ کہتے ہیں کہ شاعری اپنی جگہ علم کا سرچشمہ ہے اور اس کا ابلاغ صرف اسی کے دائرے میں ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ ذاتی، سماجی اخلاقی قدروں کو خارجی چیز کہتے ہیں اور صرف نظم کی ساخت اور اس ساخت کے ان اجزاء سے سروکار رکھتے ہیں جو مجموعی شعری تجربے سے متعلق ہیں۔ R. P. Warren وارن کہتا ہے کہ شاعری کسی خاص عنصر میں محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دار و مدار ان رشتوں پر ہے، اس ساخت پر ہے جسے ہم نظم کہتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک معنی فارم سے وجود میں آتا ہے یعنی بحر، پیکر، اسلوب، ڈکشن وغیرہ اور مواد سے جس میں لہجہ موضوع وغیرہ آتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایگلٹن کا یہ اعتراض میرے نزدیک درست ہے کہ اس دبستان نے خواص پرستی کو فروغ دیا اور اصطلاحات کا ایک نظام بنا دیا جس تک عوام کی رسائی نہیں ہو پاتی قول محال Paradox بناوٹ Texture تناؤ Tension ابہام Ambiguity مصنف کا مقصد Intent of Author پر مباحث، ان تعبیروں کی طرح ہیں جن سے خواب پریشان ہو جاتا ہے۔
آر کی ٹائیپل یا اسطوری کا بھی ایک اہم میلان ہے۔ اس میں بھی متن کا گہرا مطالعہ ضروری ہے مگر یہ جمالیاتی تجربے کی قدر و قیمت کا تعین کرنے میں، اس کی بنیادی، تہذیبی اور انسانی اپیل کو مدنظر رکھتی ہے۔ فریز اور ینگ دونوں کے نظریات نے جیمس جوائز کی تخلیقات پر گہرا اثر ڈالا۔ ینگ کے اجتماعی لاشعور کا لب لباب یہ ہے کہ انسان غیر شعوری طورپر قبل تاریخ کے اس علم کو محفوظ رکھتا ہے جو اس دور کے اساطیر میں بالواسطہ مل جاتا ہے۔ اس سے یہ نکتہ نکلتا ہے کہ اساطیر کے فوق فطری عناصر پر عقیدہ نہ ہونے کے باوجود ان میں انسان اور انسانیت کے ارتقا کے کچھ ابدی نقوش ملتے ہیں۔ بقول ایرک فرام اسطور ایک ایسا پیام ہے جو ہماری طرف سے خود ہمیں کو دیا جاتا ہے۔ یہ وہ پوشیدہ زبان ہے جو ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ داخلی واردات کو خارجی واردات بنا سکیں، یعنی فن کار ایک اسطور ساز ہے۔ اس سلسلے میں ڈی ایچ لارنس کے لہو کے شعور اور ارنسٹ کسیرر کے Essay On Man کے اثرات بھی قابل ذکر ہیں مگر نارتھ روپ فرائی کی کتاب تنقید کی اناٹومی Anatomy Of Criticism کے اثرات زیادہ گہرے ہیں۔
اخلاقی یا انسانی، سماجی، نفسیاتی، فنی اور اسطوری دبستانوں کے علاوہ ایک میلان ترکیبی یا امتزاجی بھی ہے۔ کسی ایک دبستان کو رہ نما بنانے میں یہ خطرہ ضرور رہتا ہے کہ دوسرے دبستانوں سے جو روشنی مل سکتی ہے، اسے نظر انداز کر دیا جائے، اس لیے یہ میلان بھی مقبول ہو چکا ہے۔ اس صدی کی پانچویں دہائی میں روسی فارملسٹوں کا کارنامہ بھی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ اس حلقے میں رومن جیکبسن کا نام مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ فارملسٹوں نے ہی ساختیات اور پس ساختیات کے لیے راہ ہموار کی۔ لسانیات کی مدد سے انھوں نے ادب کی زبان اور اس کی ہیئت پر زیادہ توجہ مرکوزکی۔ ادبی زبان کو انھوں نے ایک طور پر عام زبان سے انحراف قرار دیا۔ شاعری کی تقلید کے سلسلے میں ان کے نظریے کی اہمیت ضرور ہے مگر ادب صرف شاعری میں محدود نہیں۔ ادھر کئی سوسال میں نثر کا سرمایہ بھی اتنا ہو گیا ہے کہ اب متمدن انسان کے اظہار کا ذریعہ شاعری سے زیادہ نثر ہو گئی ہے اور نثر وہ کام بھی کرنےلگی جو پہلے شاعری کرتی تھی۔ فکشن اور ڈرامے نے افراد ہی نہیں بلکہ قوموں اور سماجوں کی روح کی جس طرح عکاسی کی ہے، وہ شاعری سے کسی طرح کم نہیں۔
ساختیات یا تشکیلیات کا طریقہ کار تجزیاتی ہے، اسے قدر شناسی سے دلچسپی نہیں۔ یہ سامنے کے معنی کے مقابلے میں کچھ ایسی بناوٹوں کو ترجیح دیتا ہے جو گہرائی میں کہیں کہیں چھپی ہوئی ہیں۔ نشان Sign کیا کہتا ہے اس سے غرض نہیں۔ اسے صرف ان نشانات کے ایک دوسرے سے رشتے سے غرض ہے۔ ساختیات Structuralism آگے چل کر Semiology سے مل جاتی ہے۔ ساخیات ہر فن مولا ہے۔ سمیلوجی Semiology ادب کے مطالعے سے سروکار رکھتی ہے۔ ساختیات، فرد کو نظرانداز کرتی ہے۔ ادب کے اسرار کو فارمولوں میں مقید کرنا چاہتی ہے۔ ایگلٹن اسے Anti-Humanist انسان دوستی کی مخالف سمجھتا ہے۔ یہ تاریخ سے فرار کر کے زبان کی آغوش میں پناہ لیتی ہے۔ پس ساختیات، صداقت، حقیقت، معنی، علم، سب کے کلاسیکی تصور کی تخریب کرتی ہے۔
ہمارے یہاں حالیؔ کی اہمیت اور معنویت یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف ایک سنجیدہ اور قابل قدر نظریۂ شاعری پیش کیا، بلکہ اصناف شعری میں سے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی پر خاصی تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ ایک واضح نظریے کے بغیر کسی کونقاد نہیں کہا جا سکتا۔ نظریاتی تنقید کے ساتھ اصناف پر محاکمہ اور عملی تنقید کے نمونے بھی ضروری ہیں۔ حالیؔ نے ان دونوں پہلوؤں پر جو کچھ کہا ہے، اس سے جابجا اختلاف کی گنجائش ہے مگر اس کے باوجود ان کے افکار کی اہمیت باقی ہے۔ بڑا نقاد اپنی بصیرت کی وجہ سے ادب کا وژن بدل دیتا ہے اور ہمارے ادبی شعور اور ادبی حسیت میں تبدیلی پیدا کرکے ہمیں ادب اور زندگی کو اس طرح دیکھنےاور دکھانے پر مائل کرتا ہے جس طرح پہلے نہ دیکھا گیا تھا۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ اور ذوق اور شعور میں تبدیلی کے باوجود اس وژن سے کچھ نہ کچھ بصیرت برابر ملتی رہتی ہے۔
ادب میں کوئی سنجیدہ نظریہ یکسر رد نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کون سا نظریہ مرکزی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے اور کون سا لکیری مسائل پر۔ حالیؔ کا نظریۂ شعر مرکزی مسائل پر توجہ کی وجہ سے (ان سے بعض مقامات پر اختلاف کے باوجود) برابر اہم رہے گا۔ کلیم الدین نے اپنی انتہا پسندی کی رو میں حالیؔ پر جو اعتراض کیے تھے، ان کا خاصا شافی جواب ممتاز حسین نے اپنی کتاب ’’حالیؔ کے شعری نظریات، ایک تنقیدی مطالعہ‘‘ میں دے دیا ہے۔ حالیؔ نے تنقید کے لیے جو زبان اور اسلوب اختیار کیا وہ مستقل قدر و قیمت کا مالک ہے۔ گذشتہ سو سال میں تنقید میں بہت سی راہیں کھلی ہیں مگر حالیؔ کی شاہراہ کلیم الدین اور سلیم احمد کے فرمودات کے باوجود اردو تنقید کے لیے صراط مستقیم کہی جا سکتی ہے۔ بڑا نقاد وہ ہے جس سے اختلاف تو کیا جائے مگر جس سے انکار ممکن نہ ہو اور جس سے ہر دور میں بصیرت ملتی رہے۔ ادب اور سماج کے باہمی رشتے، شاعری کی خصوصیات، شعر کی زبان کے سلسلے میں حالیؔ کے چراغ سے چراغ برابر جلائے جاتے رہیں گے۔
حالیؔ کی اہمیت اور معنویت کے اعتراف کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ شبلیؔ نے چونکہ طرز ادا پر خاص توجہ کی اور موازنہ میں انیسؔ کی شاعرانہ عظمت اور دبیرؔ کی استادی کے فرق کو واضح کر دیا۔ اس لیے نظریاتی پہلو کو گہرائی عطا کرنے کے ساتھ عملی تنقید کا بھی ایک قابل قدر نمونہ پیش کیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ در اصل موازنہ کم ہے، انیسؔ کی شاعری کی خصوصیات کا جائزہ زیادہ۔ عبد الحق در اصل حالیؔ کے نقطۂ نظر کی توسیع کے مظہر ہیں۔ تحقیق نے ان کی تنقید کو وژن عطا کیا۔ انھوں نے قدیم دور کے بہت سے تاریک گوشوں کو منور کیا۔ زبان کی ہندوستانیت اور چلن سے اس کےرشتے کو اجاگر کیا۔ میرؔ کے مطالعے میں سماجی اثرات کی نشان دہی کی۔ گو وہ میرؔ کے فن کے جادو تک نہ پہنچ سکے مگر میرؔ کی عظمت کے نقش کو گہرا کرنے میں کامیاب ضرور ہوئے۔
نیازؔ کی دانشوری، ان کی تنقید سے زیادہ اہم ہے مگر زبان کی صحت پر اصرار کے ساتھ انھیں نظیر اکبرآبادی کی معنویت کا بھی احساس ہے اور اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب کے بت ہزار شیوہ کے پرستار، وہ بھی ہیں، اور فراقؔ کو انھوں نے ایک معنی میں دریافت کیا اور تبصروں کی ایک اچھی روایت قائم کی، مگر سخن فہم ہوتے ہوئے بھی وہ پاسداری کے چکر سے نہ نکل سکے۔ جوشؔ اور جگرؔ پر ان کے فرمودات اسی ذیل میں آتے ہیں۔ ان کا زبان کا تصور خاصا بے لچک کہا جا سکتا ہے۔ یہ لغت کو زیادہ ملحوظ رکھتاہے چلن کو کم۔
حالیؔ کے باوجود شعر کی زبان کے سلسلے میں ہمارا مزاج خاصا سخت گیر اور خواص پسند رہا ہے۔ متروکات کا سارا سلسلہ، صحت زبان کے سارے مباحث، بحور و قوافی کے سارے آداب پر بڑھا ہوا اصرار، ادبی اظہار کے ایک خاص معیار سے گہرا شغف، ایک خواص پسندی کا غماز ہے جو عوامی فضا کی ذرا سی گرد بھی پورا نہیں کرتی۔ نظیر کی اہمیت اور معنویت کا اتنی دیر میں اعتراف اس وقت ممکن ہوا جب حالیؔ کے نظریۂ شعر نے اس خواص پسندی پر نکتہ چینی کی اور شعر میں دل فریبی کے بجائے دل گدازی، صنعت کے بجائے، سادگی اور مضمون آفرینی کے بجائے اصلیت اور واقعیت پر زور دیا۔
ترقی پسند تنقید کا ایک کارنامہ یہ ضرور ہے کہ اس نے حقیقت پسندی اور عوامی فضا پر توجہ کم کی۔ پریم چند کا یہ جملہ کہ’’ہمیں حسن کا تصور بدلنا ہوگا‘‘ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ترقی پسند تنقید در اصل حالیؔ کی روایت کی توسیع ہے۔ اس نے ادب کے متعلق چند اہم سوال اٹھائے، ادب اور سماج کے رشتے پر ازسر نو غور کیا۔ مہذب شعور پر توجہ مرکوز کی۔ ذوقیات اور وجدانیات کے دھندلکے کو چاک کرنے کی کوشش کی۔ روشن خیالی پر اصرار کیا۔ غزل کی آمریت پر اعتراض کیا، ماضی کے طلسم میں اسیر رہنے پر ٹوکا، حال کے آشوب پر نظر کی، مگر سچی بات یہ ہے کہ اس نے نظریے پر زیادہ زور دیا، نظر پر کم۔ ترقی پسندی پر زیادہ اصرار کیا، ادب پر کم۔ یہ الگ بات ہے کہ ترقی پسندی بذات خود کوئی آئیڈیل یا آدرش ہونا چاہیے یا نہیں، اس لیے کہ ہر ترقی اپنے ساتھ کچھ تنزل بھی ضرور لاتی ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں انسان نے جو ترقی کی ہے وہ مسلم ہے مگر اس کے ساتھ انسانیت میں جو بحران آیا ہے اس کا بھی اعتراف ہونا چاہئے، آدرش اگر ہو سکتا ہے تو انسان دوستی اور آج اسی کو سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ترقی پسند تنقید سیاسی نقطۂ نظر کو ادبی حریت فکر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ یہ لٹریچر کی نہیں لینن کے جانبدار لٹریچر۔ Partisan Literature کی قائل ہے جس میں ٹالسٹائی کے لیے بھی محفوظات ذہنی ہیں۔
اختر رائے پوری کا ٹیگور اور اقبال کی شاعری کے متعلق یہ خیال تھا کہ ’’یہ بیماروں کی طرح زندگی سے گریز کرتی ہے۔‘‘ اور اکبر الہ آبادی کے متعلق انھوں نے فرمایا کہ ’’المیہ طنزیہ تُک بندی کے پیراے میں کفر کے فتوے صادر کرتی ہے۔‘‘ ترقی پسند تنقید میں تین نقاد ایسے ہیں جن کی ادبی اہمیت ہے۔ مجنوں، احتشام حسین اور ممتاز حسین۔ دوسرے اشخاص کے یہاں سیاست ادب سے زیادہ اہم ہے۔ سیاست ادب میں شجر ممنوع نہیں جس طرح اخلاق یا فلسفہ ٹاٹ باہر نہیں۔ اخلاق ہو یا فلسفہ یا سیاست۔ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ بالآخر ادب ایک اخلاقی شعور دیتا ہے۔ ایک مہذب اور منظم معیار عطا کرتا ہے اور سماجی زندگی جو رخ اختیار کر رہی ہے اس کا محاسبہ بھی سکھاتا ہے۔ ادب میں ہر نظریے کی گنجائش ہے مگر اس کا اظہار ادبی پیرائے میں ہونا چاہیے یعنی مرکزیت ادب کو حاصل ہونی چاہئے، سیاست یا اخلاق یا فلسفے کو نہیں۔
ادب متاثر کرنے کے ساتھ ذہن کو منور بھی کرتاہے۔ ترقی پسند تنقید میں مارکسزم سےجو شغف تھا وہ قابل اعتراض نہ تھا۔ مارکسزم روس میں اشتراکیت کے زوال کے باوجود آج بھی ایک اہم مکتبِ فکر ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ قابل اعتراض ادب کی ایک سیاسی پارٹی کے منشور کے مطابق تفہیم اور اسی کو سب کچھ سمجھنا تھا۔ ادب میں ہر نظریے کی گنجائش ہے۔ مارکسزم ہو یا وجودیت، ایلیٹ اور اقبال کا مذہبی اور اخلاقی وژن ہو یا ینگ کے اجتماعی لاشعور یا فرائڈ کے حظ اور کرب Pleasure And Pain کے متعلقات، مگر اس میں ادب کی مخصوص بصیرت، اس کے وژن اور اس وژن کے موزوں اظہار کا سوال مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ ادبی اظہار کے سانچے بدلتے رہے ہیں، مگر حسن کاری کے آداب کے مطابق یہ آرائش خم کاکل کے ساتھ اندیشہ ہائے دور دراز کا کاروبار انسان کے خوابوں اور ان خوابوں کی حقائق سے جنگ، مستی اندیشہ ہائے افلاکی کے ساتھ زمین کے ہنگاموں کو سہل کرنے کا عزم ابدی ہے۔
ادب وقتی، ہنگامی واقعات کو ابدی تناظر میں دیکھنے کا نام ہے۔ ہرلمحے کے ساتھ بدل جانے کا نام نہیں۔ یہ زندگی کے تسلسل اور تغیر دونوں کے تناظر کا نام ہے۔ یہ ذات کو کائنات کے احساس کی پہلو داری اور تہہ داری عطا کرتا ہے۔ مگر اس کی بات ذات کے گنجینہ معنی کا طلسم ہے۔ یہ زندگی کی کسی ایک سچائی کو نہیں، زندگی کی ساری اور بعض اوقات متضاد سچائیوں کو سامنے رکھتا ہے۔ یہ بریخت کو بھی مانتا ہے اور بیکٹ کو بھی، کافکا کو بھی اور کامیو کو بھی، اقبال اور ٹیگور کو بھی اور فیض میرا جی کے ساتھ راشد کو بھی۔ ترقی پسند تنقید ادب کے اس ہزار شیوۂ حسن کو سمجھ نہیں سکی۔
جدیدیت کا میلان ترقی پسندی کی توسیع نہیں تھا۔ یہ ایک رد عمل تھا، یہ ایک ذہنی افق پر نظر مرکوز کرنے کے بجائے فضا میں پرواز کا عزم تھا۔ یہ سیاسی وابستگی Commitment کے بجائے آزاد فکر سے وابستگی اور ادب سے وابستگی کا اعلان تھا۔ ترقی پسند تنقید تصویر کا ایک سیاسی رخ دیکھتی تھی۔ رد عمل کے طور پر اس نے دوسرے رخ پر زور دیا مگر ہمارے ملک میں ہر میلان بہت جلد کلیشے بن جاتا ہے۔ سرخ سویرے اور طبقاتی کش مکش کی جگہ کرب، ذات، تنہائی اور ریت کی دیوار کی تکرار نے لے لی۔ ماڈرنزم یعنی جدیدیت جلد Post-Modernism پس جدیدیت کی طرف مائل ہو گئی۔ میں ماڈرنزم کا قائل ہوں مگر پس جدیدیت نے جو انسان دوستی کی قدروں کے خلاف محاذ بنا رکھا ہے اسے اسٹائنر Steiner کے الفاظ میں ’’بربریت‘‘ سمجھتا ہوں۔
اردو تنقید کو آج جدیدیت سےآگے جا کر نئی انسان دوستی کی طرف جانا ہے۔ جدیدیت نے ایک اہم نقاد اردو کو دیا ہے۔ یہ ہیں شمس الرحمن فاروقی۔ یہ مشرقی اور مغربی دونوں معیاروں کا لحاظ رکھتےہیں۔ پرواز میں نشیمن پر ان کی نگاہ رہتی ہے۔ میرؔ اور غالبؔ کی عظمت کو اور واضح کرنے میں ان کی تحریروں سے مدد ملی ہے۔ زبان کے اسرار و رموز پر ان کی نظر ہے۔ خود ان کی زبان تنقید کی مدلل اور پُرمغز زبان ہے۔ شاعری کی تہہ داری کا انھیں بھرپور احساس ہے۔ مگر انھوں نے افسانے کی اہمیت کا راز نہیں سمجھا۔ منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ اور بیدی کا لاجونتی جس طرح افسانے کے کوزے میں زندگی کا سمندر بھر دیتے ہیں، اس پر ان کی نظر نہیں گئی۔ جس طرح حسن شناس حسن کی ہر ادا کو پہچانتا ہے، اسی طرح ادبی نقاد کو بھی فن کے ہر جلوے کو اہمیت دینی چاہیے۔ کوئی کرن کسی دوسری کرن سے کمتر نہیں ہوتی۔ اس کا بھی لحاظ کرنا چاہیے۔
دوسری زبانوں کے تنقیدی سرمائے کی طرح ہمارے تنقیدی سرمائے میں بھی شاعری کی تنقید زیادہ ہے۔ نثر خصوصاً فکشن کی تنقید کم۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہرزبان کی شاعری کی ایک خاصی، قدیم، ترقی یافتہ اور رچی ہوئی روایت ہے۔ پھر اس میں معنی خیز تجربوں کی رنگا رنگی ہے۔ نثر پر توجہ بہت بعد میں ہوئی اور مغرب میں فکشن کی روایت تو دو ڈھائی سو سال سے زیادہ کی نہیں۔ ہمارے یہاں ڈیڑھ سو سال کی ہے۔ نثر کی ترقی میں بیانیہ کے ارتقا کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے مقابلے میں حقیقت نگاری کی داستانوں میں اس کی جھلک ضرور ہے، مگر اس کی ترقی فکشن کے ارتقا سے وابستہ ہوتی ہے اس میں بھی ’’چاہیے‘‘ پر زیادہ زور رہا ہے، پر توجہ کم ہوئی۔ مگر بیسویں صدی میں مختصر افسانے نے گہرائی اور بلندی کی جو منزلیں طے کی ہیں اور پچھلے چالیس سال میں ناول پر جو توجہ ہوئی ہے، ہمارے نقادوں نے ابھی تک اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
شاعری کی بلندی اور پرواز کو تسلیم کرتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ متمدن انسان کی روح، سماج کے میلانات، زندگی کی رنگا رنگی، فرد کے باطن کی جو عکاسی ادھر ناول میں ہوئی ہے اس کی قدر شناسی کی لے ابھی مدھم ہے، اسے تیز تر کرنا ہوگا کہ اس کے بغیر ہم اپنے ادبی سرمائے کے بڑے حصے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیںگے۔ عملی تنقید کے ضرور قابل قدر کارنامے سامنے آرہے ہیں۔ لیکن تقابلی تنقید بہت کم ہے۔ ہماری نثر ایک عرصے تک یا تو شاعری کے زیور سے کام لیتی رہی یا خطابت کی پرواز کے جوہر دکھاتی رہی۔ اسے لفظ کی وہ کفایت دیر میں آئی جسے کافکا ’’برف کاٹنے کے کلہاڑے‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ ادھر تنقید نے شاعری کی زبان اور نثر کی زبان کے فرق کو بھی واضح کیا۔ شاعری میں لفظ اکائی ہے، نثر میں جملہ، نثر کا بھی ایک آہنگ ہے مگر بقول ڈرایڈن یہ ’’دوسرا آہنگ‘‘ ہے۔
باغ و بہار سے پہلے اردو نثر میں اردو پن تھا ہی نہیں۔ یہ فارسی کی بھونڈی نقل تھی۔ وجہیؔ کی ترنگ دربار کی پر تکلف فضا کے دھندلکے میں غائب ہوچکی تھی۔ میرا من، اردو خطوط کے غالب، سرسید، حالیؔ، شبلیؔ، نذیر احمد، عبد الحق، عابد حسین، منٹو اور عصمت کی نثر، نثر کے جوہر سے آشنا ہے۔ محمد حسین آزاد ہوں یا ابوالکلام آزاد طرحدار ضرور ہیں مگر ایک تمثیل اور دوسرا خطابت کےبغیر لقمہ نہیں توڑتا۔ ہماری نثر کو ابھی جذباتیت سے اور بلند ہونا ہے۔ مقصدیت کے دباؤ سے آزاد ہوکر زندگی کی معنویت کے ان گنت پہلوؤں کی عکاسی کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرنا ہے۔ پھر تنقید کے کسی ایک دبستان میں اسیر ہونے کے بجائے اخلاقی، نفسیاتی، سماجی، فنی اور اسطوری ہر دبستان سے بقدر ضرورت استفادہ کرنا ہے مگر ادب کی مرکزیت کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا ہے اور اس کی مسرت اور بصیرت دونوں کی پاسداری کرنا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس سلسلے میں امتزاجی تنقید پر زور دیا ہے۔ اس کے لیے میں نے ۱۹۸۵ء میں انتخابی کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ مشرقی اصول تنقید ناقص نہیں محدود ضرور ہیں۔ مغربی اصول تنقید بھی آنکھ بند کر کے تسلیم نہیں کیے جا سکتے۔ ہمارے رنگ محل میں ہر کھڑکی کھلی رہنی چاہئے تاکہ تازہ ہوا برابر آتی رہے۔ مگر ایسی آندھی سے خبردار رہنا چاہیے جوہمارے رنگ و محل کو ہی تہہ و بالا کردے۔ اقبال نے اس سلسلے میں پتے کی بات کہی ہے،
مشرق سےہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
آج جب صارف سماج کا زور بڑھتا جا رہا ہے اور ادب کے وجود، اس کی معنویت، زندگی میں اس کی اہمیت، اشتہاریت اور مارکیٹ Market کے جال کی وجہ سے جمالیاتی تجربے، روح کی بیداری، تہذیب اور انسان دوستی میں یقین محکم کی لے کمزور ہوتی جا رہی ہے، آرنلڈ کے جہاد کی یاد آنی قدرتی ہے۔ آج تنقید کا کام صرف فن پاروں کی تشریح، توضیح، تفسیر اور تعبیر ہی نہیں، خود فن کی، تہذیب کی، ادب کی، انسانی قدروں کی، علم برداری کی اہمیت اور معنویت کی طرف سماج کی رہ نمائی کرنا بھی ہے۔
سائنس کے رول کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ادب کے رول کو واضح کرنا، انسان کو انسان بنائے رکھنا، تہذیب اور اخلاق کی قدروں کو دلوں کی دھڑکن بنانا اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔ اپنی زبان کے شاندار سرمائے، لفظ کی کائنات، آداب سخن سے بیگانگی برتی جا رہی ہے۔ ہمارے نئی نسل کی تربیت ادب کی ناقص تعلیم کے ماحول میں ہوتی ہے۔ اسے اچھی اردو آئی، نہ اچھی ہندی، نہ اچھی فارسی، نہ اچھی انگریزی۔ اپنے علاقے کی زبان پر بھی کم لوگوں کو عبور ہے۔ نقاد کو زبان کی اہمیت اور ادب کی معنویت کا خاص طور سے احساس دلانا ہے۔ پھر اسے کلاسیکی ادب کے معیاروں کی پاسداری کے ساتھ نئے ادبی میلانات کا شعور بھی عطا کرنا ہے۔ اسےمہذب قاری پر اصرار کرنا ہے۔ اس کا مطلب خواص پسندی نہیں، معیاروں پر توجہ ہے۔
تنقید علوم سے مدد لیتی ہے مگر اسے کسی مخصوص علم کی شاخ نہیں بنانا چاہیے۔ اس کا کام ادب کے رمز و ایما سے آشنا ہونا، اس کی مسرت اور بصیرت کا رمز شناس ہونا، روح انسانی کے سفر کا محرم ہونا ہے اور پس جدیدیت کی بڑھتی ہوئی بربریت کے مقابلے میں تہذیب انسانی کی بقا، جمالیاتی تجربے کی معنویت، شعر کی تہہ داری اور نثر کی بلاغت کو عام کرنا ہے۔ ادب سستی تفریح نہیں عطا کرتا، زندگی کے معنی خیز تجربات اور خواب اور حقیقت کے تصادم کے احساس کے ذریعے سے زندگی کا عرفان عطا کرتا ہے۔ انسانیت کی اس دولت کی طرف توجہ دلانا نقاد کے لیے آج اور ضروری ہو گیا ہے۔ انجیل مقدس میں کہا گیا ہے کہ ’’پہلے لفظ تھا اور لفظ خدا کے ساتھ تھا اور لفظ خدا تھا۔‘‘ نقاد کا کام اس نکتے کی روشنی میں آج کے بدلتے ہوئے سماج میں زبان و ادب کے بنیادی کردار پر زور دینا ہی ہو سکتا ہے۔