اردو شاعری پر غالب کا اثر
بڑا شاعر اپنا کوئی اسکول قائم نہیں کرتا، یہ بات عجیب ضرور ہے لیکن اتنی عجیب نہیں جتنی یہ حقیقت کہ بڑے شاعر کی آنکھ بند ہوتے ہی جو شعری اسلوب نمودار ہوتا ہے، وہ اس کے اسلوب کی تقریباً ضد ہوتا ہے، اور اگر ضد نہیں ہوتا تو اس سے قطعاً مختلف ضرور ہوتا ہے۔ یہ بات کوئی صرف اردو پر صادق نہیں آتی۔ یونان کے تینوں بڑے ڈرامانگار ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف ہیں، بلکہ اکثر متغائر بھی ہیں۔
سکندر کے باپ کے سامنے جب ایتھنز کے قیدی لائے گئے تو وہ یوری پڈیز کے شعر پڑھ رہے تھے۔ بادشاہ اشعار سے اس درجہ متاثر ہوا کہ اس نے انھیں آزاد کر دیا۔ لیکن اس عہد میں جو شاعری ہوئی، وہ یوری پڈیز سے بالکل بے گانہ تھی۔ شیکسپیئر کے بعد آنے والوں نے اس سے بالواسطہ اکتساب فیض تو کیا لیکن ان کی شاعری نے تقریباً وہ تمام اسالیب ترک کر دیے جو شیکسپیئر کا طرۂ امتیاز تھے۔ یہاں تک کہ جب ملٹن نے نظم معرا کو پھر سے برتا تو اس جیسے بددماغ شاعر کو بھی ایک تمہید لکھنا پڑی جس نے اس میں نظم معرا کا جواز پیش کیا۔ اور خود ملٹن کا اسلوب سیکڑوں برس تک انگریزی شاعری کی مستند برادری سے ٹاٹ باہر رہا۔ میر کا ایک زمانہ معترف تھا لیکن ناسخ و آتش کیا، مصحفی تک نے میر کی پیروی نہ کی۔
یہی حال غالب کا ہوا۔ ان کی شاعری نے رفتہ رفتہ اپنے مداح تو پیدا کر لیے لیکن ان کی طرح کا شعر کہنا کسی نے پسند نہ کیا۔ غالب کے ساتھ اگرچہ دو تاریخی حادثات بھی ایسے پیش آئے جنھوں نے ان کے طرز کی پیروی کی راہیں مسدود کر دیں، (میری مراد حالی کے تنقیدی کارناموں، آزاد کی کوششوں اور داغ کی مقبولیت سے ہے، جس کی وجہ عام مسلمان ذہن کی وہ شکست خوردگی اور سہل پسندی تھی جو انیسویں صدی کے اواخر میں عام ہوئی۔)
لیکن اگر یہ حادثات نہ بھی پیش آتے تو بھی شاید شاعری کا رنگ غالب سے مختلف ہی رہتا۔ میرکی مثال میں پیش کر چکا ہوں۔ اقبال کی مثال سامنے کی ہے۔ ان دونوں کے فوراً بعد جو شاعری ہوئی وہ کسی بھی طرح ان کی مقلد نہیں کہی جا سکتی۔ میر کا حال تو تب بھی غنیمت ہوا لیکن اقبال کے بعد تو ترقی پسند تحریک نے فروغ پایا جو اقبال کے نظریۂ شعر اور نظریۂ حق دونوں کی تکفیر کرتی تھی۔ مغربی اسالیب سے اقبال جس قدر آشنا تھے، اتنا شاید کوئی ترقی پسند شاعر نہ تھا۔ لیکن اردو کو مغربی اسالیب سے آشنا کرنے کا سہرا اقبال کے سر نہ بندھا، یہ کارنامہ ترقی پسندوں نے انجام دیا۔
اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بڑا شاعر اپنے فوراً بعد ایک عظیم اور دور رس منفی اثر چھوڑ جاتا ہے۔ بڑے شاعر کی پہچان یہ نہیں ہے کہ اس کے بہت سے Camp Follower ہوں بلکہ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے پیچھے آنے والے اس کا اسلوب ترک کر دیں۔ یہ صورت حال صرف ایک استثنا رکھتی ہے، اور وہ یہ کہ بڑا شاعر اپنے تنقیدی شعور کو کام لاتے ہوئے کچھ ایسے نظریات واضع کرے جس میں دوسرے بھی متاثر ہوں۔ یا یہ کہ چند بڑے شاعر کسی ایسی تحریک کو جنم دیں جو دوسرے بڑے یا کم سے کم اہم شعرا کو بھی اپنی گرفت میں لے لے۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
نظریہ سازشاعر کی مثال ٹی ایس الیٹ کی ہے۔ (یہ اور بات ہے کہ وہ خود بہت سے چھوٹے بڑے شاعروں خاص کر لافورگ، ڈن اورڈینٹی سے متاثر ہوا۔ ) اور تحریک ساز شاعروں کی مثال ورڈز ورتھ اور کولرج کی یا بودلیئر، ریں بو اور ورلن کی ہے۔ ورنہ حالی جن کے تنقیدی اور شعری نظریات کا اثر ایک زمانے پر پڑا، خود کوئی بڑے شاعر نہ تھے۔ غالب اور میر بہت بڑے شاعر تھے لیکن وہ نظریہ ساز یا تحریک ساز نہ تھے۔ لہٰذا ان کے بعد جن لوگوں نے شاعری کی وہ ان کے معتقد تو رہے لیکن ان کی شاعری کو اپنا ماڈل بنانے سے دامن کشاں رہے۔ یہ غیرشعوری فرار اس قدر شدید تھا کہ غالب جیسی مسلم انفرادیت رکھنے والے شاعر کے ذہین ترین شاگردوں (مثلاً حالی) نے بھی ان کا لب ولہجہ اختیار نہ کیا۔
نواب ناظم کی البتہ ایک انوکھی مثال ہے کہ انھوں نے غالب کا اثر خاصا قبول کیا، یہاں تک کہ شیخ محمد اکرام نے ان کے کلام کو غالب کا کلام کہہ دیا لیکن مماثلت بہت سطحی ہے۔ اگر شیخ اکرام نے لفظی تجزیہ کے ابتدائی اصولوں کی ہی روشنی میں ان دونوں کے کلام کو پرکھا ہوتا تو انھیں یہ دیکھنے میں کوئی دشواری نہ ہوتی کہ ناظم اور غالب کا ذہن ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ ناظم نے غالب کے آہنگ کو تو کہیں کہیں پیدا کر لیا لیکن غالب کا بنیادی عمل یعنی پیچ در پیچ استعارہ اور جذبہ پر فکر کا غلبہ جس کا اظہار ہمہ جہت ابہام کی شکل میں ہوتا ہے، ناظم کی دست رس میں نہ تھا۔
کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منفرد شاعر خود بھی اپنے بعد آنے والوں کے ایسے کلام کو پسند کرتا ہے جو اس کے رنگ کا نہ ہو۔ غالب داغ کے بڑے مداح تھے اور امیر مینائی کی غزلیں سفارش کے ساتھ چھپوایا کرتے تھے۔ اقبال سے ایک صاحب نے روشنی طلب کی تو انھوں نے ان کو عروض کی کتابیں اور جلال کا رسالہ تذکیر وتانیث وغیرہ پڑھنے کی رائے دی! میر یہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ لوگ ان کی پیروی کریں، بلکہ وہ ان سے یہی کہا کرتے تھے کہ میرا کلام حافظ وسعدی کا کلام نہیں جس کی شرحیں موجود ہوں۔ اس کو سمجھنا کچھ ہنسی کھیل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ لوگوں کو اپنی تقلید کرنے کی کیا رائے دے سکتے تھے۔ اثر لکھنوی جو میر کے کلام کی قسم کھاتے تھے اور غالب سے ہر اچھے شعر کے جواب میں میر کے اس سے بہتر درجنوں اشعار دکھانے کا دعویٰ رکھتے تھے، کبھی اتباع میر نہ کر سکے۔
لہٰذا صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ ایک طرف تو بڑے شاعر کے معتقدین بھی اس کے مخصوص اسلوب کو ترک کرنے میں مجبور ہوتے ہیں اور دوسری طرف بڑا شاعر خود یہ نہیں چاہتا کہ اس کا طرز عام ہو، شاید اس وجہ سے کہ اسے بہ خوبی علم ہوتا ہے کہ اس کی تقلید ممکن نہیں۔ لیکن تقلید کی ایک صورت ممکن ہوتی ہے اور وہ یہ کہ بڑے شاعر کا کلام سامنے رکھ کر اس کے الفاظ وقوافی کو اپنے شعر میں داخل کیا جائے۔
یہ صورت استادوں کی زمینوں میں غزلیں کہنے سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ وہاں تو یہ مسئلہ رہتا ہے کہ کسی استاد کی زمین میں اس سے بہتر شعر کس طرح نکالے جائیں یا اس کے قافیے کو اچھوتے ڈھنگ سے کس طرح نظم کیا جائے۔ تقلید کا منشا یہ ہوتا ہے کہ جس شاعر کو نمونہ بنایا گیا ہے بالکل اس کی طرح کا شعر نکلے۔ ایسی تقلید صرف معمولی درجہ کے شاعر کاحصہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اصل اور نقل کا فرق نمایاں رہتا ہے بلکہ یہ فرق اس درجہ نمایاں رہتا ہے کہ دوسروں کو بھی سبق ہو جاتا ہے، چنانچہ اقبال اور امین حزیں سیالکوٹی کی مثال ایسی ہی ہے۔
امین حزیں نے ہر وہ ترکیب آزمانے کی کوشش کی ہے جو اقبال نے استعمال کی، لیکن نتیجہ کچھ نہ ہوا۔ فانی اور عزیز نے غالب کے اتباع کی جو کوششیں کی ہیں وہ اسی زمرہ میں آتی ہیں، اگرچہ وہ اس حد تک ناکام نہیں ہیں کیونکہ عزیز اور فانی بہرحال امین حزیں سے بہت بہتر اور لائق شاعر تھے لیکن دونوں طرح کی ناکامیوں میں فرق صرف درجہ کا ہے، نوع کا نہیں کیونکہ بنیادی بات یہ ہے کہ بڑا شاعر جن خصوصیات کا مرکب ہوتا ہے وہ شاذ تو ہوتی ہی ہیں بلکہ انھیں کوئی دوسرا پیدا نہیں کر سکتا۔ شاعروں میں ایسی مماثلتیں جن پر مکتبی تنقید کا دارومدار ہے، زیادہ تر فرضی ہوتی ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ رویہ یعنی طرز وفکر و استدلال کے اعتبار سے شاعروں کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایک گروہ کے تمام شاعروں میں ایسی خصوصیات پائی جائیں جو سب کی سب مشترک ہوں۔
میں اقبال، میر، فیض اور غالب کو ایک ہی زمرہ میں رکھتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ غالب کو میر سے یا فیض کو اقبال سے متاثر سمجھتا ہوں۔ اگر اور بھی درستی کے ساتھ کہنا ہو تو میں اقبال اور غالب کو ایک طرف اور میروفیض کو ایک طرف رکھوں گا۔ لیکن اس کا مطلب بھی یہ نہ ہوگا کہ میر وفیض میں تمام باتیں مشترک ہیں۔ شاعر کی انفرادیت، اس کے تجربات اور الفاظ کی طرف اس کے رویہ میں مضمر ہوتی ہے اور ہر شاعر کے تجربات اور رویے دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ جتنابڑا شاعر ہوگا اتنا ہی اس کا تجربہ دوسروں کی پہنچ سے باہر ہوگا اور تجربہ دوسروں کی پہنچ کے باہر ہوگا تو اس کی نقل ممکن نہ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے شاعر کا اسلوب دوسروں کو راس نہیں آتا اور خاص کر ان کے لیے تو وبال جان ہو جاتا ہے جو اس کے چھتنا رسائے میں اپنا پودا اگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
داغ کا اسلوب جس شدت سے ملک میں پھیلا وہی ان کے چھوٹا شاعر ہونے کی دلیل ہے۔ بڑے شاعر کا اتباع اول تو ممکن نہیں لیکن اگر ممکن بھی ہے تو اس کے بہت بعد ہی ممکن ہے، کیونکہ اس وقت تک اس کی شاعری کے بہت سے پہلوؤں کو اچھی طرح کھنگالا جا چکا ہوتا ہے۔ اس کے افہام کی سطح بلند ہو چکی ہوتی ہے اور وہ اپنے صحیح تواریخی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی صدیوں کے بعد شاعرو ں کا ذہن پھر اسی قسم کے تجربات سے روشناس ہونے لگے جو ماضی میں ہمارے بڑے شاعر کو پیش آئے تھے۔ اس صورت میں بھی بڑے شاعر کے اسلوب کا ایک حد تک احیاء ممکن ہوتا ہے۔ ہمارے عہد میں میر کی طرف مراجعت اسی حقیقت کا نمونہ ہے۔
لیکن جیسا کہ واضح ہے یہ مراجعت کبھی مکمل نہیں ہوتی اور اکثر و بیش ترمیر کے لہجہ سے جدید استفادہ ناکام رہا ہے، کیونکہ میر کے مزاج میں قول محال کی جو کیفیت ہے اور جو ان کے قلندرانہ استغناء اور انسانی ہم دردی سے بھرپور دل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس عہد کے شعرا میں نہیں ملتی اور اگر مل بھی جائے تو صورت حال کو بالکلیہ قبول کرکے، اس کا بہ یک وقت مکمل اظہار جو میر کی زبان کا خاصہ ہے، دوسرے شاعر کو نصیب نہیں۔
لہٰذا شعر کی تاریخ اور خود شاعری کا مزاج اس کلیہ کی تائید کرتے ہیں کہ بڑے شاعر کی تقلید ممکن نہیں اور بڑے شاعر کا اثر اس طرح نہیں پھیلتا جس طرح بڑے نقاد کا پھیلتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بڑے شاعر بھی جو تحریک ساز ہوتے ہیں کسی نہ کسی تنقیدی تناظر کے سہارے بات کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑا شاعر اپنے گردوپیش اور اپنے پس رووں کو متاثر نہیں کرتا۔ غالب نے کوئی مکتب قائم نہیں کیا۔ لیکن میر کی طرح ان کا بھی اثر بہت پھیلا، بلکہ میر سے زیادہ پھیلا۔ تمام بڑے شاعروں کی طرح ان کا اثر بھی بے نام اور غیرمحسوس طریقے سے پھیلا اور اکثر اس طرح کہ خود ان کا نام کہیں نہ آیا، لیکن جو شاعری ہوئی وہ ان کے زیر اثر ہوئی۔
اس کے علاوہ غالب کا سب سے بڑا اثر اردو شاعری پر اس طرح ہوا کہ انھوں نے اپنے بعد کی تنقیدی فکر کو بہت متاثر کیا اور اردو کی بہت سی تنقید شعوری اور غیرشعوری طور پر غالب کی توجیہ Justification کے لیے لکھی گئی۔ پھر اس تنقید نے شاعری کو براہ راست متاثر کیا۔ اس طرح اثر دراثر ایک طویل سلسلہ قائم ہو گیا۔ بجنوری کی کتاب اس کا ایک اچھا نمونہ ہے۔ ’’یاد گار غالب‘‘ بھی اسی طرح کی ایک غیرشعوری تنقیدی کوشش ہے جو غالب کے اصول شاعری کا دفاع کرتی ہے۔
جدید نفسیات کا ایک اصول یہ ہے کہ کسی شخص کے قد وقامت کا تاثر اس کی شہرت و وقعت کے تناسب سے گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی شخص کا تعارف آپ سے یہ کہہ کر کرایا جائے کہ وہ اہل حرفہ میں سے ہے تو آپ اس کی لمبائی اس کی اصل لمبائی سے کم فرض کریں گے۔ لیکن وہی شخص اگر اس تعارف کے ساتھ آپ سے ملایا جائے کہ وہ ہندوستان کا سب سے بڑا ادیب ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ اس کو اس کی اصل لمبائی سے زیادہ لمبا سمجھیں۔ بعینہ یہی بات تنقید پر صادق آتی ہے اور اس کی مثال برسوں پہلے رچرڈس نے اپنی کتاب Practical Criticism کے ذریعہ دی تھی۔ اگر یہ معلوم ہو کہ شعر کسی بڑے شاعر کا ہے تو کمزور شعر کو بھی کمزور کہنے میں جھجک محسوس ہوگی۔
غالب بہت بڑے شاعر تھے۔ وہ اردو کے غالباً سب سے بڑے شاعر تھے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھوں نے خراب شعر نہیں کہے۔ لیکن جب ان کی شہرت مسلم ہو چکی تو لامحالہ ان کے کلام میں خوبیاں ڈھونڈی جانے لگیں۔ اس تاثر کے زیر اثر کہ جب وہ اتنے بڑے شاعر تھے تو ان کے یہاں فلاں فلاں خوبیاں بھی ضرور ہوں گی۔ چنانچہ تنقید نے ان میں ہر طرح کے محاسن تلاش کرنا شروع کیے اور جب غالب کے کلام کے محاسن متعین ہو گئے تو دوسروں نے بھی اپنے یہاں وہ محاسن پیدا کرنے یا ڈھونڈنے شروع کر دیے۔
یہ تاریخ شعر کا ایک دل چسپ حادثہ ہے کہ خود غالب کا تنقیدی شعور زیادہ تر روایتی تھا۔ چونکہ ان کے زمانے تک تنقید کی کوئی زبان متعین نہ ہوئی تھی، اس لیے انھوں نے چند ایک جگہوں کو چھوڑکر ایسی تنقیدی زبان استعمال کی ہے جو زیادہ تر بے معنی ہے۔ چنانچہ وہ شعر کا سب سے بڑا وصف ’’شیوا بیانی‘‘ قرار دیتے ہیں اور اس کی تعریف یوں کرتے ہیں، ’’سخن عشق وعشق سخن کلام حسن وحسن کلام۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ تقریباً مہمل ہے۔
سہل ممتنع کو وہ کمال حسن کلام کہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’سخن فہم اگر غور کرےگا تو فقیر کی نظم ونثر میں سہل ممتنع اکثر پائےگا۔‘‘ سخن فہموں نے بہت غور کیا لیکن ان کے یہاں سہل ممتنع کم تر ہی نظر آیا مگر دوسری خوبیاں جو ان کے کلام میں صراحتاً یا اشارتاً پائی گئیں، انھوں نے ایک پورے تنقیدی مکتب کو جنم دیا جو شعر میں فکر کا زیادہ قائل تھا اور جذبہ کا کم۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے شاعروں کا بازار سرد ہو گیا اور لوگ غالب کا طرز فکر مستحسن جاننے لگے۔
میں نے اوپر حالی اور ’’یادگار غالب‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ ’’یاد گار غالب‘‘ نے غالب کی ادابی حیثیت کو مستحکم کرنے اور اس طرح ان کا اثر وسیع کرنے میں بڑا کام کیا۔ لیکن اردو کی سب سے زیادہ بااثر تنقیدی کتاب ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ ہے۔ حالی غالب کے شاگرد تھے۔ انھوں نے جب شعروقصائد کے ناپاک دفتر کو مطعون کرنا شروع کیا اور غزل خوانی کو بے وقت کی راگنی کہا تو انھیں خوب معلوم تھا کہ ان کی تنقید سے اس تمام شاعری پر ضرب پڑتی ہے جس کا ایک اہم اور نمایاں حصہ خود ان کے استاد کی شاعری ہے۔ وہ لایعنی مضمون آرائی، عشق ووصال کے ڈھکوسلوں اور فرضی رخسار وکمر کے افسانوں کو قوم کے مفاد کے خلاف جانتے تھے۔
اس نظریہ کو مستحکم کرنے کے لیے انھوں نے اپنے واجبی مغربی مطالعہ سے بھی مدد لی۔ لیکن اگر وہ اس ساری شاعری کو مطعون کرتے تو غالب بھی زد میں آ جاتے، لہٰذا انھیں اپنے نظریہ میں اس کا التزام رکھنا تھا کہ غالب پر ضرب نہ آنے پائے۔ یہ اردو ادب اور غالب کی خوش نصیبی تھی کہ حالی کے نظریات میں غالب کی نہ صرف گنجائش نکل آئی بلکہ ان کا جواز بھی پیدا ہو گیا۔ تنقید کی دنیا میں جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا کہ گنجائش نہیں ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر نہایت دل چسپ اور معنی خیز ہے کہ حالی اگر غالب کے بجائے مومن یا ذوق یا ناسخ کے شاگرد ہوتے تو ان کے شعری نظریات کیا ہوتے۔ بہت ممکن تھا کہ ان کی تنقید اس صورت میں اتنی انقلابی نہ ہوتی۔
اس وقت تو عالم یہ ہے کہ ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ میں شعر کی خوبیوں کا جو بیان کیا گیا ہے اور جس کی اساس ملٹن پر رکھی گئی ہے، وہ تقریباً پورے کا پورا غالب پر منطبق ہو سکتا ہے، بلکہ سادگی کی تعریف میں وہ جملے، جہاں انھوں نے سادگی کی اضافیت کی بات کی ہے اور اصلیت کی تعریف میں وہ عبارات جہاں انھوں نے ان خیالات کو بھی اصلیت پر مبنی قرار دیا ہے، جو شاعر کے عندیہ میں موجود ہوں یا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاعر کے عندیہ میں موجود ہیں، غالب کے علاوہ اور کسی اردو شاعر پر پورے ہی نہیں اترتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شعر کی خوبیوں کی ساری بحث غالب کا کلام سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔
دراصل حالی کی وہی صورت حال تھی جو ہمارے عہد میں بعض نقادوں (مثلاً جیلانی کامران) کی ہے جو شاعری میں اسلامی تہذیب کے دعوے دار ہیں لیکن چونکہ جس قسم کی خیال آرائی سے غالب کا کلام عبارت ہے، اس کے لیے کٹر اسلامی بوطیقا میں کوئی جگہ نہیں اور وہ غالب سے ہاتھ بھی نہیں دھونا چاہتے، اس لیے وہ غالب کو حضرت ابن عربی کے حوالے سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ جیلانی کامران کو اپنے مقصد میں اتنی کامیابی نہیں ہو سکی ہے جتنی حالی کو اپنے مشن میں ہوئی۔ حالی نے پوچ، لچر اور سطحی مضامین پر مشتمل شاعری کا قصر منہدم کر دیا، جس کے نتیجے میں جدید شاعری وجود میں آئی۔ لیکن چونکہ ان کی تنقید غالب کا جواز اپنے اندر رکھتی تھی اس لیے غالب کی عظمت میں کوئی تخفیف نہ ہوئی اور جوں جوں غالب کی وقعت میں اضافہ ہوتا گیا پرانی شاعری کا وقار گھٹتا گیا۔
یہاں تک کہ لکھنؤ کی خاک سے اٹھنے والے عزیز لکھنوی نے غالب کی تقلید کو اپنے لیے طرۂ امتیاز جانا، حالانکہ حالی کی تمام تنقید لکھنؤ کی تقریباً پوری شاعری کی نفی کرتی تھی اور لکھنؤ کی تقریباً تمام شاعری غالب کے تقریباً پوری شاعری کی نفی کرتی تھی۔ غالب اور ان کے ساتھ یا ان کے توسط سے، حالی کا اس سے بڑا کارنامہ کیا ہو سکتا تھا کہ کفر از کعبہ برخیزد کی صورت پیدا ہو گئی اور اتنا ہی نہیں بلکہ یگانہ نے، جو زندگی بھر غالب کو برا بھلا کہتے رہے، غالب ہی سے کسب فیض کرکے غیرعشقیہ غزل کی بنیاد ڈالی، جو اگر ایک طرف میر کے سیدھے دل نشیں انداز کو مسترد کرتی تھی تو دوسری طرف ان روایتی خیالی مضامین سے بھی پہلو بچاتی تھی، جن کے خلاف حالی معرکہ آرا ہوئے تھے۔ یگانہ نے غالب سے بہ ظاہر کچھ نہیں سیکھا لیکن غالب کے عقلی استدلال اور پروقار اسلوب کے بغیر یگانہ کا وجود ہی ممکن نہ تھا۔ یگانہ نے غالب پر سرقہ کا الزام ضرور لگایا لیکن اپنے ہم عصروں میں کسی کے ساتھ حتی کہ جوش کے ساتھ بھی ان کی شاعری کا کوئی جوڑ نہ تھا، اگر تھا تو غالب ہی کے ساتھ۔
حالی کے زیر اثر جب شعر کے افادی اور مصلحانہ پہلوؤں پر زور دیا جانے لگا اور داخلیت کے بجائے ایک قسم کی خارجیت نے فروغ پایا اور ہر وہ شاعری خارجیت کا مظہر قرار پائی جس میں عشق کے غم رونا نہ ہو تو تنقید کو غالب کے کلام سے بڑی مدد ملی۔ حالی نے کہا تھا کہ ہماری شاعری سفیہانہ جذبات، عامیانہ تصورات اور پست خیالات کی شاعری ہے، جس میں شاعر خود کو ذلیل کرکے پیش کرنے میں خوشی اور معشوق کو شاہد بازاری فرض کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے شاعری کو دوبارہ پڑھا گیا تو غالب کے کلام میں علویت مزاج، خودداری، وقار، رکھ رکھاؤ اور عظمت انسان کے وہ پہلو نظر آئے جو عام اردو شاعری میں نہیں ملتے تھے۔
جب تصوف جو برائے شعر گفتن خوب تھا، مسترد کیا جانے لگا اور اصغر کو بھی اپنے کلام میں تصوف کے ہمہ اوست والے سستے مضامین کی جگہ عشق حقیقی کی سرشاری کے اجزاء داخل کرنے پڑے تو غالب کی مدلل دنیاداری اور ان کی شاعری کے عملی پہلوؤں پر نظر پڑی۔ اس طرح اگرچہ عزیز وفانی کے علاوہ کسی شاعر نے غالب کی شعوری تقلید نہیں کی، لیکن غالب کی تقلیدومطالعہ نے جو شعری فضا بنا دی تھی، اس سے وہ سب شاعر مستفید ہوئے جنھوں نے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ کے زیر اثر آنکھ کھولی، یعنی جنھوں نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی کے وسط میں شاعری شروع کی۔ ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ کا اثر، یگانہ اور فانی کی نثری تحریروں میں جابہ جا نظر آتا ہے۔
نقادوں کو میر کی صحیح عظمت کا اندازہ لگانے میں ابھی کوئی پچیس تیس برس کی دیر تھی۔ لیکن غالب کے پیغام عمل، جذبۂ خودداری اور حقائق حیات پر حکیمانہ غوروفکر پر سب کی نظریں حالی کی وجہ سے پڑ چکی تھیں۔ غالب کے یہاں وہ فدویانہ عنصر مفقود ہے جس نے جدید تعلیم یافتہ ذہن کو میر سے متنفر کر دیا تھا۔ زمانے سے ساز کے بجائے ستیز اور گردن اٹھاکر چلنے کی جو ادا غالب کے یہاں پائی جاتی ہے اور قدم قدم پر عملی رائے زنی جو غالب کے کلام میں ملتی ہے، نئے ذہن کو لامحالہ زیادہ مرغوب و مقبول تھی۔
اس حقیقت پر کم نقادوں کی نظر گئی ہے کہ غالب نے ذہنوں کو اپنی پیچیدہ خیالی اور بلندیٔ اظہار کی وجہ سے بہت بعد میں متاثر کیا۔ شروع شروع میں غالب کے خیال کی ندرت اور ان کے لہجے کے بانکپن نے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا۔ اگرچہ ’’بانکپن‘‘ کوئی تنقیدی لفظ نہیں ہے لیکن جس کیفیت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، اس کے لیے کوئی مناسب لفظ مجھے نہیں معلوم ہے۔ معشوق کے بانکپن کا ذکر اکثر ہوتا ہے، لیکن اس بانکپن میں ذہنی کاوش یا رویہ کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ بانکپن سے میری مراد وہ لہجہ ہے جس میں سنجیدہ مضامین کے غیرمتوقع پہلوؤں کو بیان کیا جائے اور اس طرح بیان کیا جائے کہ مضمون کی سنجیدگی یا وقعت برقرار رہے لیکن انداز ایسا ہو کہ اس کی وقعت بہ ظاہر کم معلوم ہو۔
اس اسلوب میں طنز یعنی Irony کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ غالب نے ان اشعار میں طنز کا تناؤ قصداً نہ پیدا کیا ہوگا۔ (میں طنز کو وسیع ترین معنوں میں استعمال کر رہا ہوں۔ ) لیکن ان کے یہاں بانکپن میں زائد حسن اسی طنز کی وجہ سے نظر آتا ہے۔ ذوق نے محمد حسین آزاد کو غالب کے جو اپنی نظر میں اچھے شعر سنائے تھے، ان میں ایک یہ بھی تھا،
دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا
دریائے معاصی میں غوطہ لگانا ایک سنجیدہ اور گمبھیر موضوع ہے۔ اسے سر دامن کے مقابلے میں تنک آب بتانا اس کی وقعت کو کم کر دینا ہے لیکن موضوع کی گمبھیرتا برقرار رہتی ہے۔ غالب کے معاصرین کو ان کے یہاں روایتی مضامین سے نئی چھیڑ چھاڑ کے یہ پہلو زیادہ پسند آئے تھے۔ ان کے نازک اور مبہم اشعار کو وہ عام طور پر ٹال جایا کرتے تھے۔ غالب کو ایسے لوگ شاذ ہی ملے جو ان کے واقعی دقیق کاوشوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ وہاں تو یہ عالم تھا کہ ’’ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے‘‘ پر بھی اہمال کے اعتراضات وارد کرنے والے موجود تھے۔ غالب کی قدرومنزلت بہت ہوئی لیکن انھیں ساری عمر یہ شکایت ہی رہی، اور ایک حد تک بجا رہی کہ ان کے کلام کی صحیح قدر کرنے والے کم ہیں۔
جب حالی اور آزاد کے زیر اثر شعر کے عملی زندگی میں کارآمد ہونے کا نظریہ عام ہوا تو غالب کے ان اشعار نے توجہ کو کھینچا جن میں شاعر ایک کم نشیں، حقیر اور فدویانہ شخصیت کا مالک نظر آنے کے بجائے زندگی کے عملی پہلوؤں پر غوروتفکر کرکے سنجیدہ رائے زنی کرنے والا انسان معلوم ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب غزل کے مضامین میں توسیع کی فکر ہوئی تو غالب کے اشعار بنے بنائے ماڈل کی شکل میں نظر آئے جن کی مثال دوسروں کی کوششوں کا جواز بنی۔
زندگی کے معاملات پر عملی رائے زنی کا عنصر جو غالب نے صائب وغیرہ سے لے کر اردو غزل میں داخل کیا تھا، خود ان کی اپنی انفرادیت سے عبارت تھا اور اس طرح کہ جہاں صائب کے یہاں شعر کا دوسرا مصرع تمثیل یا دلیل کے لیے لایا جاتا ہے، وہاں غالب کے یہاں پہلا مصرع بھی تمثیلی انداز کا ہوتا ہے۔ تمثیل در تمثیل کے علاوہ غالب کا لہجہ (جس میں خفیف سا تمسخر، احساس برتری کے ساتھ دوستانہ یگانگت اور کبھی کبھی شدید واقعیت جو غیر رومانیت کی سرحدوں کو چھو لیتی ہے۔ ) صائب سے بہت مختلف ہے۔ اردو میں بھی یہ لہجہ کسی نے اختیار نہیں کیا لیکن اصغر، فانی، حسرت، یگانہ، عزیز، ثاقب (لکھنوی و کانپوری) وغیرہ کو ایسے اشعار کہنے میں کوئی دقت نہ ہوتی جو روز مرہ کی زندگی کے واقعات یا زندگی کے عام پہلوؤں پر رائے زنی کے حامل تھے۔
اس رائے زنی کی اہمیت ترقی پسند نظریہ شعر کے تحت اور زیادہ بڑھی۔ جس طرح حالی نے غالب کے لیے جواز پیدا کر لیا تھا اور حالی اور ترقی پسند نظریہ کے درمیان ہونے والی شاعری کو غالب کا سہارا حاصل تھا، اسی طرح ترقی پسند نظریے نے بھی غالب سے مسائل حیات پر تفکر اور زندگی کے غیررومانی یعنی غیرشاعرانہ پہلوؤں کو شعر میں برتنے کے طریقے سیکھے۔ ترقی پسند نظریہ انسان کی بنیادی عظمت اور خوبی کا قائل تھا اور انسان پر انسان کے جبر کے خلاف صف آرا تھا۔ ترقی پسند نظریہ اور حالی میں یہ بات مشترک تھی کہ دونوں روایتی شاعری سے نالاں تھے اور انسان کو شاعری میں اس کا اصل مقام دلانے پر مصر۔
یہاں بھی غالب ان کے کام آئے کیونکہ غالب کا تفکر اور حقائق تک پہنچے کا میلان روایتی شاعری کی نفی کرتا تھا اور ان کا خوددار، خود بیں، باوقار انسان وہ پس ماندہ اور قدموں تلے کچلا ہوا شخص نہیں تھا جس کی تصویر ترقی پسند نقادوں کو عام اردو شاعری میں دکھائی دیتی تھی۔ ترقی پسند نقادوں کو غالب میں احتجاج اور بغاوت کے عناصر نظر آئے۔ وہ انھیں زوال آمادہ تہذیب کا مرثیہ پڑھتے ہوئے دکھائی دیے اور اس طرح غالب کے زیر اثر ان کے اس نظریہ کو تقویت پہنچی کہ شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ قوم کا ضمیر بن جائے۔
ترقی پسند تحریک اردو میں پہلی تحریک تھی جو شعر کے علاوہ زندگی کا بھی ایک مستقل نظریہ اور فلسفہ کا ایک نظام رکھتی تھی۔ غالب کے پہلے اور غالب کے علاوہ ان کے بہت بعد شعر میں کسی منظم فکر کا وجود نہ تھا اور اگرچہ غالب کے یہاں بھی کوئی باقاعدہ فکری نظام نہ تھا جسے خارج سے لاکر شعر کے داخل پر منطبق کیا گیا ہو، یا جس کے زیر اثر انھوں نے شاعری کی ہو، (اور ایسے فکری نظام کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی) لیکن غالب کے یہاں ایک عمومی حکیمانہ فضا ضرور ملتی ہے، اور اس فضاکی تعمیر میں ان تمام اجزاء کا حصہ ہے یعنی سنجیدہ غوروفکر مسائل حیات پر رائے زنی (انسان کی عظمت اور بےچارگی کا احساس) جن کی طرف میں اشارہ کرتا رہا ہوں۔ اس حکیمانہ فضا کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے ایسے مسائل جو اب تک نثر کے لیے مخصوص تھے، شعر میں بھی معرض بحث میں آنے لگے۔ اب تک اردو شاعروں نے صرف تصوف کے نکات تک خود کو محدود رکھا تھا۔
غالب نے پہلی بار یہ دکھایا کہ تصوف کے علاوہ (جس کی فکر میں وجدان کو زیادہ دخل ہوتا ہے) دوسری طرح کی فکر بھی شعر میں بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔ ترقی پسند تحریک کو غالب کے متفکرانہ میلانات کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ اس کا تفکر خارجی اور غیراصلی تھا۔ ترقی پسند نظریہ عام ہونے سے پہلے اقبال اور فانی نے غالب کے دیے ہوئے اس اسلوب سے بہت فائدہ اٹھایا۔ فانی نے تو بہرحال زندگی پر عمومی تفکر پر اکتفا کی اور وہ بھی ایسا تفکر جس میں ذاقی عشق کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، لہٰذا انھوں نے ایک نقلی مفکرانہ لہجہ تو پا لیا لیکن اصل مفکرانہ لہجہ کے امکانات ان کی نظر سے پوشیدہ رہے۔ لیکن اقبال نے جنھوں نے غالب کی زبان کا بہ غور مطالعہ کیا تھا اور جو غالب کے تخلیقی استعارے کے راز سے ایک حد تک واقف تھے، غالب کے مفکرانہ لہجہ سے گہرا اور دوہرا استفادہ کیا۔
دوہرا اس معنی میں کہ انھوں نے غالب کی طرح داخلی اور پیچیدہ استعارہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ فارسی آمیز زبان اختیار کیے بغیر مفکرانہ لہجہ نہیں پیدا ہو سکتا۔ اس فارسی آمیز لہجہ سے میری مراد فارسی کی مجرد تراکیب نہیں ہیں جو دوسرے شعرا مثلاً فانی اور اصغر کے یہاں بھی پائی جاتی ہیں، بلکہ وہ پرشکوہ، ٹھہرا ہوا اسلوب مراد ہے جو ہندی الاصل الفاظ کے ذریعہ نہیں پیدا ہو سکتا۔ اس فارسی آمیز زبان میں صرف تراکیب کا فارسی ہونا کافی نہیں، بلکہ ارتکاز کی اس کیفیت کی ضرورت ہے جو اردو کے عام ڈھانچے کے حصے میں نہیں آئی ہے۔ غالب کے یہاں مراقبہ اور ساکت تفکیر کی وہ کیفیت نہیں ہے جو درد کے یہاں اکثر اور میر کے یہاں بھی کبھی کبھی پائی جاتی ہے۔ ان کے یہاں فکر جلد جلد پہلو بدلتی رہتی ہے اور افعال و اشیاء کے مختلف گوشوں کو یکے بعد دیگرے یا بہ یک وقت منور کرتی رہتی ہے۔
اگر اس فکری فضا کو متحرک، رواں دواں آہنگ کے ساتھ قائم کیا جائے تو اس کی وقعت میں فرق آتا ہے اور اگر بہت ہی خواب ناک لہجہ میں قائم کیا جائے تو اس کی برق وشی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اقبال کی فکر میں جو درد بھری احتیاط تھی، اس کے اظہار کے لیے انھوں نے غالب سے مختلف طریقے لامحالہ استعمال کیے لیکن وجدانی فکر کے بجائے تعقل کوش فکر شعر میں کیوں داخل کیا جائے۔ یہ مسئلہ انھوں نے غالب کی مدد سے حل کیا۔
اردو شاعری میں دماغ کی کارفرمائی کا عمل، جس کی انتہا اور اکثر روکھی پھیکی انتہا، اقبال کے یہاں ملتی ہے، غالب نے شروع کیا تھا۔ اقبال کی شاعری کی قدر متعین کرنے میں بھی تنقید کو وہی معاملہ پیش آیا جو پہلے ہو چکا تھا، یعنی اقبال کو غالب کے حوالے سے پڑھا گیا۔ اس نظریے سے اختلاف شاید ممکن نہ ہو کہ غالب کی شاعری بیسویں صدی کی بہت ساری تنقید کا Term of Reference ہے اور بیسویں صدی کی بہت ساری شاعری کو غالب کے حوالے سے سمجھا اور پڑھا گیا ہے۔
میں نے اب تک غالب کی زبان کا تذکرہ بہت کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ے کہ لسانی اور ہیئتی نقطۂ نگاہ اردو ادب کے مطالعہ میں بہت حال ہی میں عام ہوا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ غالب کی زبان اور اس کے اثر کا مطالعہ دراصل غالب کی پوری شاعری کے مطالعہ کے برابر ہے کیونکہ زبان ہی شعر کی اساس ہوتی ہے۔ اب تک جن تغیرات کا ذکر میں کرتا رہا ہوں، ان میں غالب کی زبان کا ذکر بہرحال کسی نہ کسی حد تک پوشیدہ Implied ہے۔ ہر تغیر چاہے وہ فکری ہو یا لسانی، زبان ہی کے ذریعہ ظہور میں آتا ہے، لہٰذا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ غالب نے شعر میں فکر کا عنصر داخل کیا تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے ایسی زبان استعمال کی جو فکر کی متحمل ہو سکے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے عام انسانی مسائل پر رائے زنی کی تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے ایسی زبان استعمال کی جو رائے زنی کا بوجھ اٹھا سکے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں غالب نے انسان کو پس ماندہ اور حقیر ظاہر کرنے کے بجائے خود دار، گردن افراز اور المیہ وقار کا حامل قرار دیا تو ہمارا مدعا یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ایسی زبان استعمال کی جو رویہ کی اس تبدیلی کو برداشت کر سکے۔ یہاں پر یہ سوال ضرور اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس زبان کی نوعیت کیا تھی اور وہ کن معنوں میں پچھلی زبان سے مختلف تھی کہ ان کے بدلے ہوئے تجربات ومحسوسات کا اظہار کر سکی۔ لیکن اس مسئلہ پر بحث کرنے کے لیے ہمیں غالب کی ان تمام لسانی ترکیبوں اور تدبیروں کا مطالعہ کرنا پڑےگا جو ان کی زبان کو ممتاز کرتی ہیں۔ اس بحث کو یہاں اٹھانا موجودہ مسائل کو سمجھنے میں مدد نہیں کر سکتا۔ یہاں اس مسئلہ پر ضرور بحث کی جاسکتی ہے کہ بہ حیثیت مجموعی زبان کے بارے میں غالب کا کیا رویہ تھا اور اس رویہ نے ان کے بعد کی شاعری پر کیا اثر ڈالا۔
غالب نے ایک جگہ دعویٰ کیا تھا، ’’جب تک قدما یا متاخرین مثل کلیم، صائب، اسیروحزیں کے کلام میں کوئی لفظ یا ترکیب نہیں دیکھ لیتا، اس کو نظم یا نثر میں نہیں لکھتا۔‘‘ اس بات سے قطع نظر کہ اردو کے لیے قدما یا متاخرین فارسی کی شرط لگانا نہایت مہمل ہے۔ اس بات سے بھی قطع نظر کہ خود غالب نے جا بہ جا انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں اور دوسروں کو ان کے استعمال کی تلقین کی ہے، بلکہ ایسے الفاظ کی بھی انھوں نے اجازت دی ہے جو غلط العام فصیح کی مد میں آتے تھے اور اس بات سے بھی قطع نظر کہ انھوں نے اپنے اجتہاد کے آگے کبھی کسی اساتذہ کو بلکہ جبرئیل تک کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، بنیادی سوال یہ ہے کہ غالب نے اگر تمام تراکیب اساتذہ کے کلام میں دیکھ کر ہی لکھی تھیں تو اردو غزل کی زبان کو انھوں نے کیا دیا؟
ظاہر ہے کہ یہ غلط فہمی خود غالب نے کسی موقع پر کسی خاص مطلب سے پھیلائی تھی اور حالی نے عام کی۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ غالب نے شعر کی زبان میں تغیر نہیں کیا تو ان کی عظمت کا ایک بڑا حصہ خاک میں مل جاتا ہے۔ شعر کی زبان میں تغیر دو طرح سے لائے جاتے ہیں۔ ایک تو نئے الفاظ و تراکیب کے استعمال سے (نئے سے میری مراد وہ الفاظ بھی ہیں جو شعر میں پہلے مستعمل نہیں تھے اگرچہ زبان میں موجود تھے۔ ) اور دوسرے الفاظ کو نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے سے۔ غالب کا بڑا کارنامہ، اور جس کا اثر آہستہ آہستہ اردو شاعری پر بہت دور تک پھیلا، دراصل یہی ہے کہ انھوں نے الفاظ کو نئے ڈھنگ سے استعمال کیا۔ اس استعمال کی بنیادی صفت استعارہ اور استعارے کے ذریعہ پیدا ہونے والا ابہام ہے۔
غالب کے کلام میں اشکال (جس کو میں ابہام کہتا ہوں) کا احساس لوگوں کو شروع سے ہی تھا۔ یہ اس وقت بھی باقی رہا جب انھوں نے بہ قول خود بیدل کا رنگ ترک کرکے آسان گوئی اختیار کی۔ غالب کے بہت سے شعر حقیقتاً مشکل ہیں یعنی ان میں معنی کی کوئی نئی جہت نہیں، صرف ایک دقیق خیال مشکل یا نامانوس زبان میں پیش کر دیا گیا ہے لیکن غالب کا زیادہ تر کلام ابہام کے زمرہ میں آتا ہے اور اردو شاعری پر غالب کے مسلسل بڑھتے ہوئے اثر کی زندہ مثال جدید شاعری کا ابہام ہے جو قدم قدم پر غالب کے کلام سے اپنا جواز ڈھونڈتا ہے۔ استعارے کی پیچیدگی جو غالب کے کلام کی بنیادی صفت ہے، مختلف طریقوں سے اردو شاعری پر اثرانداز ہوتی رہی ہے، لیکن اس کا انتہائی اثر جدید شاعری پر ہی ملتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید نظریہ شعر کے عام ہونے سے پہلے استعارہ ایک خارجی صفت تھا جو کلام میں زور یا حسن یا اختصار پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ غالب کے یہاں استعارہ ایک خارجی صفت نہیں ہے بلکہ شعر کی ہیئت ہے اور شعر میں حسن پیدا کرنا اس کا ثانوی عمل ہے۔ غالب کے کلام میں استعارہ کا اولین عمل مختلف معانی کو یکجا کرنا ہے۔ معنی آفرینی کو غالب جس درجہ اہمیت دیتے تھے، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کسی شاعرکی اس سے زیادہ تعریف ہی نہیں کی کہ وہ معنی آفریں تھا۔ اس قسم کی روایتی تعریفوں یا سطحی تحسینی جملوں سے قطع نظر جو انھوں نے اپنے خطوط یا تقریظوں میں استعمال کیے ہیں، انھوں نے سوائے مومن کے کسی کو ’معنی آفریں‘ نہیں کہا۔
ذوق کے بارے میں انھوں نے لکھا کہ ’’یہ شخص بھی اپنی وضع کا ایک اور اس عصر میں غنیمت تھا۔‘‘ لیکن مومن کے بارے میں لکھا کہ ’’یہ شخص بھی اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا۔ طبیعت اس کی معنی آفریں تھی۔‘‘ شاعری کو وہ معنی آفرینی نہ کہ قافیہ پیمائی کہہ چکے تھے اور ’’یہ شخص بھی‘‘ کا فقرہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ مومن کو اپنے ساتھ گنتے تھے۔ مومن کے یہاں بھی پیچیدہ خیالی کے انداز ملتے ہیں لیکن ان کا ذہن چونکہ غالب کی طرح ہمہ گیر نہ تھا، اس لیے بقول آل احمد سرور، وہ ہمیں دل کی گلیوں کے باہر نہیں لے جاتے۔ اس کے برخلاف غالب ہمارے سامنے جو بساط بچھاتے ہیں وہ پوری کائنات پر بسیط ہوتی ہے۔ اس فرق کے باوجود مومن کی شاعری غالب کے لیے ذوق سے زیادہ قابل قبول تھی، کیونکہ دونوں کی مشکل پسندی محض برائے مشکل پسندی نہ تھی۔ اگر مومن بھی غالب کی طرح ہمہ گیر استعارے پر قادر ہوتے تو ان کی شاعری کی دنیا اور ہی کچھ ہوتی۔
استعارے کے اس غیرمعمولی استعمال سے جو الفاظ کے تمام معنوی امکانات کو کھنگالتا ہے اور ان کے صوتی آہنگ سے بھی پورا پورا فائدہ اٹھتا ہے، غالب نے خلاقانہ شاعری کی آخری حدوں کی طرف اشارہ کیا۔ ان کی یہ جرأت انگیزی اب جاکر باروبر لائی ہے۔ جدید شاعری میں مغربی اثرات کی نشان دہی پر نقادوں نے سیکڑوں صفحے سیاہ کیے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید استعارے کا بیش تر ڈھانچا غالب کا دیا ہوا ہے۔ غالب کو اگر مشکل پسندی محض بالذات مقصود ہوتی تو وہ ان مہمل اور بےبہرہ زمینوں کو ضرور اختیار کرتے جن میں شعر کہنا انشاء، مصحفی، ناسخ اور شاہ نصیر وغیرہ کے لیے مایۂ افتخار تھا، مجرد مشکل پسندی کا الزام لگانے والوں نے اس بات پر غور نہیں کیا ہے کہ غالب نے زنجیر پشت آئینہ نخچیر پشت آئینۂ لکیر پیٹا کر، نصیر پیٹا کر، حور کی گردن، لنگور کی گردن، تابوت میں انگلی، یاقوت میں انگلی تو کجا، وہ مشکل زمینیں بھی کم اختیار کیں جو ذوق ومومن نے روا رکھی تھیں۔
ان کے مسترد دیوانوں میں مشکل زمینوں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ سب معنویت سے بھرپور ہیں یا کم سے کم ایسا آہنگ رکھتی ہیں جو روایتی مشکل زمینوں میں ناپید ہے۔ اگر مشکل الفاظ وتراکیب کا ہی گورکھ دھندا کھڑا کرنا تھا تو اس کے لیے شگفتہ معنویت سے لبریز اور نئی صوتیات کی حامل زمینوں کی کیا قید تھی؟ یا اگر جدت ہی پیدا کرنا تھی تو چند اور مہمل زمینیں ڈھونڈلی جاتیں اور دل کھول کر جدت کی داد دی جاتی۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ غالب کی مشہور مشکل زمینوں میں بھی بہت سے شعراء نے شعر کہے ہیں لیکن انشاء ومصحفی کی اتنی ہی مشہور مشکل زمینوں میں کوئی سنجیدہ کوشش بہ مشکل ہی نظر آتی ہے؟
لہٰذا غالب کو مشکل یا جدت طراز کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا۔ ان کے شعر کا بنیادی مقصد ایک ایسا لفظی ڈھانچا خلق کرنا تھا جس کا تناؤ اور توازن الفاظ کے صرف سطحی معنوں کا مرہون منت نہ ہو۔ اب یہ اور بات ہے کہ غالب کے زمانے میں اور غالب سے پہلے یورپ کے بھی چند شاعروں نے شعر کا یہی نظریہ خلق کیا اور غالب سے ملتی جلتی شاعری کی۔ لیکن اردو کی جدید شاعری کی تشکیل میں غالب کے شعری ڈھانچے کا کم سے کم اتنا ہی بڑا حصہ ہے جتنا ان مغربی نظریات کا جن سے سراسر استفادہ کرنے کا الزام جدید شاعری پر رکھا جاتا ہے۔ جدید عہد پر غالب کا اثر صرف ان کی تشکیک یا یاس انگریزی یا المناک احساس کا ہی مرہون منت نہیں اور نہ ہی صرف ان کے بلند آہنگ کا عطا کردہ ہے۔ یہ خصوصیات فرداً فرداً میر، سودا، انیس بہت سے شاعروں کے یہاں مل جائیں گی۔
اس کی کیا وجہ ہے کہ آج سے کوئی پندرہ برس ادھر اچانک میر کی تقلید کی ایک لہر اٹھی جو تقریباً اتنی ہی تیزی سے سست ہو گئی اور آج کی شاعری پر میر کے لہجہ کا اثر بس اتنا ہی نمایاں ہے جتنا حسرت وفانی کے عہد میں تھا، لیکن غالب کے لہجہ کی کھلی نقل نہ ہونے کے باوجود ہمارے عہد کے شعر کی داخلی مشینیات جگہ جگہ غالب سے مستعار معلوم ہوتی ہے۔ اس کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ غالب کا شعری اظہار اپنے استعارے کی وجہ سے شعر میں بیان کی ہوئی صورت حال کے تمام پہلوؤں پر پوری طرح حاوی نظر آتا ہے اور جدید شاعری بھی ایسے ہی اظہار کی تلاش میں ہے۔ اپنے مشہور شعر،
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
کی تشریح کرتے ہوئے غالب نے لکھا تھا، ’’اس میں کوئی اشکال نہیں، جو لفظ ہیں وہی معنی ہیں۔ شاعر اپنا قصد کیوں بتائے کہ میں کیا کروں گا۔ مبہم کہتا ہے کہ کچھ کروں گا۔ خدا جانے شہر میں یا نواح شہر میں تکیہ بناکر فقیر ہوکر بیٹھ رہے، یا دیس چھوڑکر پردیس چلا جائے۔‘‘
اس میں نکتہ یہ ہے کہ جو لفظ ہیں وہی معنی ہیں اور معنی مبہم ہیں۔ ایک طرف تو لفظ ومعنی کے اتحاد کا یہ اہتمام اور دوسری طرف معنی میں یہ ابہام۔ پھر اس کی تشریح بھی تشریح طلب ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے کہ ’’کوئی دن گر زندگانی اور ہے‘‘ کا تاثر کہاں سے پیدا ہوا۔ وہ کون سے تجربات اور کیفیات ہوں گے جنھوں نے بہ یک وقت زندگی سے ناامیدی اور پھر بہ شرط زندگی کچھ ’’مبہم‘‘ ارادے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ فان ٹیہم Van Tiegham نے اپنی کتاب ’’یورپی ادب میں رومانیت‘‘ میں رومانی طرز فکر کے تین بنیادی عناصر بتائے ہیں، عصر حاضر سے بے اطمینانی، زندگی کے بالمقابل بے چین تردد اور بلا کسی وجہ کے یاس انگیزی۔
غالب کا کلام جس فطرت کا پتہ دیتا ہے اس میں ان تینوں عناصر کی کارفرمائی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے عہد پر غالب کا جو اتنا گہرا اثر پڑا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عہد کے ادیبوں کی افتاد مزاج بھی رومانی ہے لیکن غالب کی رومانیت میں عقلیت کا بھی عنصر موجود تھا جس نے انھیں لمحہ بہ لمحہ زندگی پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے پر مجبور کیا، ورنہ خالص فنی نقطۂ نظر سے غالب کے شعر کی Relevance ہمارے عہد کے لیے اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ انھوں نے بھی رومانی تخئیل سے کام لیا جس کی پہچان بہ قول ومزٹ Wimsatt یہ ہے کہ ’’وہ مماثلتوں کے اس مرکزی اور واضح بیان‘‘ سے احتراز کرتا ہے جو ارسطو اور تمام نشاۃ ثانیہ کے شعری نظریات کا خاصہ ہے۔
مماثلتوں کے اس واضح بیان سے گریز کرنے کا نتیجہ لفظ ومعنی کے اسی وصال واتحاد کی شکل میں ظہور پاتا ہے جس کی طرف میں اشارہ کر چکا ہوں۔ ہمارے عہد نے غالب سے یہ تو حاصل کر لیا لیکن ان کی ہوش مندی ابھی حاصل کرنا باقی ہے۔ ہمارا عہد جنوں کا دور ہے اس لیے بار بار میر کی طرف بھاگتا ہے، لیکن اس کا فنی مزاج سمجھنے کے لیے غالب کا لفظ ومعنی والا استعارہ ناگزیر ہے،
اسد ارباب فطرت قدر دان لفظ و معنی ہیں
سخن کا بندہ ہوں لیکن نہیں مشتاق تحسیں کا