اردو شاعری میں تصوف کی روایت
میلکام مگرج، مشہور انگریزی مصنف نے کہا ہے کہ ’’ہندوستان میں اب صرف وہی انگریز باقی رہ گئے ہیں جو تعلیم یافتہ ہندوستانی ہیں۔‘‘ اس پر لطف طنز سے یہ نکتہ ابھرتا ہے کہ مغربی اثرات کی کتنی ہی برکتیں رہی ہوں (اور یہ برکتیں مسلم ہیں) مگر ان کی وجہ سے اپنی تہذیبی بنیاد، ادبی سر مائے اور علوم و فنون کے متعلق آج کے تعلیم یافتہ طبقے کا رویہ بیگانگی بلکہ بے اعتنائی کا ہوگیا ہے۔
سرسید کی تحریک نے یقیناً ہماری ذہنی زندگی میں بڑی بیداری پیدا کی جس کے بہت سے مفید اثرات بھی ہوئے مگر اس نے ایک ذہنی غلامی کو بھی فروغ دیا جس کی رو سے مغرب روشنی کا مینار اور مشرق تاریکی کا سمندر نظر آنے لگا۔ بیسویں صدی میں آزادی کی جدوجہد نے اپنے ملک، ماحول اور ماضی کا احساس دلایا مگر مادی ترقی کے جنون نے روحانیت کو مریض اور مشرقی ادب کے سرمائے کو دفتر پارینہ قرار دینے پر اصرار کیا۔ ہمارے ادب کی تاریخوں میں ہمارے کلاسیکل سرمائے کو بدیسی، مصنوعی اور تقلیدی قرار دینے کی روش خاصی عام رہی ہے۔ سکسینہ کی تخریبی تنقید، صادق کا ازمنہ وسطیٰ کے متعلق یک رخا رویہ اور کلیم الدین احمد کی مغرب پرستی، تینوں اسی عام مرض کی نشان دہی کرتے ہیں۔
حالی نے اپنے مقدمے میں متقدمین کے کارناموں کو سراہا تھا اور متاخرین پر نکتہ چینی کی تھی۔ آزاد نے نازک خیالی کے میلان کی مذمت کی تھی اور حقیقت نگاری کی طرف توجہ دلائی تھی مگر مقدمے سے زیادہ مسدس کے اشعار پر توجہ ہوئی اور ہماری کلاسیکل شاعری کا سرمایہ شعر و قصائد کا ناپاک دفتر سمجھا جانے لگا۔ دراصل ادب کے متعلق ہمارا سارا رویہ وقتی مصلحتوں کے تابع رہا ہے۔
ہم نے ادب کی مخصوص بصیرت کا آج تک بھرپور اعتراف نہیں کیا۔ ہم نے اس ہرن پر کوئی نہ کوئی گھاس لادنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ کبھی ہم نے نیچر کا راگ الاپا، کبھی عقلیت کا، کبھی حقیقت نگاری کا، کبھی حال کی ضروریات کا۔ ہم نے ہندوستان کی تاریخ میں اس کی تہذیب کی رنگارنگی، اس کے اجتماعی لاشعور، اس کی دھرتی اور اس کی فضا کا اس طرح لحاظ نہیں رکھا جس طرح ضروری تھا۔ نئی زندگی کی دوڑ میں ہم نے اپنے ماضی کو افسوں و افسانہ قرار دیا۔ ماضی کو یکسر رد کرنا خام خیالی ہے، ماضی کے عرفان کے بغیر ہم حال کی بھی کوئی حقیقی تصویر نہیں بنا سکتے۔ ماضی حال میں زندہ رہتا ہے اور حال کو متاثر کرتا ہے اور مستقبل کی تعمیر میں بھی ہم اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ ہاں ماضی پرستی اور چیز ہے اور ماضی کا عرفان دوسری چیز۔
اردو ادب کے کلاسیکل سرمائے پر نظر ڈالئے تو چند مضامین سامنے آتے ہیں۔ اردو ادب کے ارتقا میں تین تہذیبی اداروں کا رول مرکزی ہے۔ بازار، خانقاہ اور دربار۔ اردو زبان کی بنیاد ہندوستانی ہے اور اس کے ادب میں اولین سرمایہ صوفیوں کی دین ہے جن کے یہاں ہندی روایت سے پہلے کام لیا گیا اور عجمی روایت سے بعد میں۔ چھٹی صدی ہجری سے لے کر دسویں صدی ہجری تک ہندی روایت غالب رہی ہے، وہ ہندی تصوف جوناتھ پنتھیوں، بھکتی کال اور نرگن واد کی شکل میں رائج تھا۔ ہمارے یہاں خواجہ مسعود سلمان، امیر خسرو، بابا فرید، بوعلی قلندر، شرف الدین یحییٰ منیری، کبیر، شیخ عبد القدوس گنگوہی، شاہ باجن، قاضی محمود دریائی، علی جیوکام دھنی، گرونانک، میراں جی، شمس العشاق برہان الدین جانم کے یہاں اسلامی تصوف کے ساتھ اپنی بہار دکھاتا ہے اور جب ولی کے وقت سے عجمی اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں تو یہی تصوف فارسی کے رمز و ایما، اشارات اور علامات سے کام لیتا ہے۔
دربار کی وجہ سے شاعری میں شائستگی اور نازک خیالی، صناعی اور ہمواری آتی ہے۔ عیش امروز اور جسم کا احساس ابھرتا ہے۔ مگر اس دور میں فکری روایت وہی ہے جو صوفیوں کی دین ہے۔ یعنی ہم اپنی کلاسیکی شاعری میں جو سب سے بڑا فلسفہ زندگی پاتے ہیں وہ ہندی اور اسلامی تصوف کا مرکب ہے۔ آج تصوف کو ماورائیت، زندگی سے فرار، خانقاہیت اور ترک دنیا کہہ کر اس کے گوناگوں اخلاقی، سماجی اور تہذیبی کارناموں سے انکار کرنا یکے رخے پن کے مترادف ہے۔ بے شک دوسرے اداروں کی طرح تصوف میں بھی بہت سی خرابیاں راہ پاگئی تھیں مگر ہماری کلاسیکل شاعری میں اس کے اثر سے جو اخلاقی سماجی آدرش آئے اور جو قدریں اس شاعری کے رنگ محل میں صداقت خیز اور حسن کی علم برداری کرتی رہیں، ان کا ایمان داری سے تجزیہ، نہ صرف آج ہمارے لئے ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر ہم اپنے ماضی کا عرفان حاصل ہی نہیں کر سکتے۔
مصحفی نے کہا ہے، ’’والحق کہ درویشی وشاعری دوش بدوش راہ می رود۔‘‘ ایک صوفی شاعر کے تذکرے میں لکھتے ہیں: ’’درویشے است صوفی کہ اکثر مسائل صوفیا را کہ مراداز وحدت وجود باشد بدلائلی و براہین چناں کہ شیوۂ صوفیان بافضل و کمال ست از روئے نص و حدیث بہ اثبات رسانیدہ و در ریختہ موزوں ساختہ (تذکرہ مصحفی ص ۷۲) یہ بات از راہ تفنن کہی گئی ہوگی کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است، مگر اس نکتے کو لوگ فراموش کر جاتے ہیں کہ ہر زبان میں بڑی شاعری ایک منزل پر پہنچ کر صوفیانہ ہو جاتی ہے۔ میکش اکبرآبادی نے مسائل تصوف میں لکھا ہے کہ ’’تصوف رسم پرستی، ظاہر بینی اور دین کے دعویداروں اور ان کے زیر اثر حکومتوں کے استبداد و استحصال کے خلاف ایک باغیانہ تحریک ہے۔‘‘ مگر تصوف کی کشش کا راز صرف اس بات میں نہیں۔ شاعر جب ذات میں کائنات کو سمیٹ لیتا ہے تو مست و بے خود ہو کر پکار ہی اٹھتا ہے۔
اس سینے میں کائنات رکھ لی میں نے
کیا ذکر صفات ذات رکھ لی میں نے
ظالم سہی، جاہل سہی، نادان سہی
سب کچھ سہی تیری بات رکھ لی میں نے
تصوف کی اساس، تزکیہ نفس، عشق و محبت اور اطاعت الٰہی پر ہے۔ صرف اطاعت الٰہی کا دوسرا نام شریعت اور عشق و محبت کا دوسرا نام طریقت ہے۔ اسلامی تصوف میں احسان پر خاص زور ہے اور شریعت اور طریقت کے راستے علاحدہ نہیں ہیں۔ مگر یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ عشق و محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر صوفیوں نے طریقت پر زیادہ زور دیا۔ جس میں خدا اور اس کی مخلوق سے ہر رنگ میں محبت کو فضیلت حاصل تھی۔ شہنشاہیت کے دور میں فقہا کی موشگافیوں کے ہجوم میں، جنگوں کی تباہ کاری میں، رنگ و نسل اور طبقے اور درجے کے امتیازات میں، دولت کی فرعونیت کے مظاہروں میں، انسان دوستی، مساوات، اخلاق، عدل، نیکی، فرض شناسی، دلداری کی روایات صوفیوں سے زندہ رہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کچھ صوفی اپنے عشق کے نشے میں سرشار ہوکر دنیا اور اس کے معاملات کو نظر انداز کرنے لگے تو ابوصفیہ بن ابوالمنیر نے کہا کہ سچا صوفی لوگوں کے درمیان رہتا ہے۔ ان کے ساتھ کھاتا پیتا اور سوتا ہے۔ بازار میں خرید و فروخت کرتا ہے، شادی کرتا ہے اور سماجی لین دین میں شریک رہتا ہے اور خدا کو ایک لمحے کے لے فراموش نہیں کرتا۔ (بحوالہ مقالات نکلسن) ازمنہ وسطیٰ میں علوم کے سلسلے میں عام طریقہ یہ تھا کہ ’’سیکھو، تسلیم کرو، اور دہراؤ۔‘‘ صوفیوں نے اس معاملے میں حریت فکر کا ثبوت دیا۔ یعنی انہوں نے سوال کرنے اور مسلم نظریات کی نکتہ چینی کرنے کی بھی ہدایت کی۔ علماء ذہن پر زور دیتے تھے اور اس سے ایک طور پر سماجی مساوات کی بھی نفی ہوتی تھی۔ اس سے صوفیوں نے عشق کی عقل پر، فضیلت پر زور دیا اور معرفت کو علم سے بڑا درجہ دیا مگر اس کے معنی یہ ہرگز نہیں لینے چاہئیں کہ صوفیوں نے علم کو نظرانداز کیا۔ اسلام کا تاریخ میں صوفیوں کا علمی کارنامہ دوسرے علما سے کم نہیں ہے، ہاں انہوں نے بعض علماء کی طرح علم کو حجاب الاکبر نہیں بنایا بلکہ اس سے صداقت، خیر اور حسن کی قدروں کی ترویج کا کام لیا۔
شاعری کی زبان دو اور دوچار کی زبان نہیں ہوتی۔ شاعر کا ہر لفظ گنجینہ معنی کا طلسم ہوتا ہے۔ یہاں جو بات کہی جاتی ہے اس میں ماورائے سخن بات بھی ہوتی ہے۔ شاعر اپنے دل کا مطلب استعاروں میں بیان کرتا ہے۔ اشارہ، رمز و ایما اور علامت سے کام لیتا ہے۔ فارسی شاعری میں جو رموز و علامات استعمال ہوئے ان سے اردو شاعری نے بھی فائدہ اٹھایا۔ کچھ تنگ نظر حضرات نے اس پر اعتراض بھی کیا مگرعجمی روایت ایک شاندار شعری روایت ہے اور اس شعری روایت کو حقیقت نگاری اور واقعاتی حس (PRACTICAL SENSIBILITY) کے پیمانے سے نہیں ناپنا چاہئے۔ پروفیسر مجیب نے اپنی کتاب ہندی مسلمان (THE INDIAN MUSLIMS) میں اس سلسلے میں بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ یہاں ترجمہ پیش کیا جاتا ہے،
’’فارسی روایت (اردو میں) غالب رہی کیوں کہ شاعروں کے لئے ایک پس منظر ضروری ہے اور شاعر کی شخصیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی ذات کی تکمیل کی راہ میں دوسری شاعرانہ شخصیتیں اس کے لیے سنگ میل ہوں۔ اردو نے اس روایت سے کبھی رشتہ نہیں توڑا اور اگر یہ ایسا کرتی تو ایک نقصان عظیم ہوتا کیوں کہ فارسی روایت ایک منفرد انداز سے روحانیت اور مادیت کے امتزاج کی نمائندگی کرتی ہے، اس میں الٰہی اور انسانی صفات بلند ترین جمالیاتی سطح پر مل جاتے ہیں اور اس کی امیجری اور آداب ذہن کو اظہار کی جستجو میں لامحدود آزادی عطا کرتے ہیں۔‘‘
ایرانی شعرا کے یہاں تصوف کا گہرا اثر سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ بعض ایرانی شعرا کا شمار بڑے برگزیدہ صوفیوں میں ہوتا ہے۔ عطار، رومی، نظامی، سنائی، جامی، عراقی، سعدی اور حافظ وغیرہ شاعری اور تصوف دونوں کے لحاظ سے بڑے بلند ہیں۔ اردو میں بھی ایک قابل لحاظ حصہ صاحب سلسلہ و خانقاہ صوفیوں کا ہے۔ مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ محض تصوف کے مسائل بیان کرنا شاعری نہیں ہے جس طرح فلسفہ نظم کرنا یا سیاسی موضوعات پر طبع آزمائی کرنا شاعری نہیں ہے۔ حضرت شاہ نیاز بریلوی، شاہ تراب علی قلندر، شاہ رکن الدین عاشق اور حضرت جی غمگین گوالیاری تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعرانہ اہمیت کم ہے۔
دردؔ، مظہر جان جاناں بلند پایہ صوفی تھے مگر درد کے یہاں تصوف ایک رنگ ہے، پوری شاعری نہیں ہے اور مظہر کی شاعری بھی زیادہ بلندی تک نہیں پہنچی مگر ہمارے بعض شعرا مثلاً میرؔ، نظیرؔ، آتشؔ، غالبؔ، اکبرؔ، حسرتؔ، اصغرؔ، اقبال اور فانیؔ کے یہاں تصوف کی مرکزی حیثیت ہے۔ بقول حسرت موہانی ان کے یہاں فاسقانہ، عاشقانہ اور عارفانہ تینوں رنگ ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں آسی غازی پوری اور امجد حیدرآبادی کا نام لینا بھی ضروری ہے جن کے یہاں عاشق، عارف ہے اور فاسقانہ جذبات سے مکمل تنقیہ ہو گیا ہے۔
مسائل تصوف میں میکش اکبرآبادی نے صوفی شعرا کی ان اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جو وہ اپنے اشعار میں استعمال کرتے تھے۔ بت کدہ، شراب خانہ، دیر، عارف کامل کے باطن کو کہتے ہیں۔ پیر مغاں، مرشد کو ترسا اس سالک کو جس نے نفس امارہ سے نجات حاصل کرلی ہے۔ ترسا بچہ واردات غیبی کو، گبرو کافر وہ شخص ہے جو وحدت میں یک رنگ ہو جائے اور ماسوا سے منہ پھیر لے، ’نے‘ وہ ذوق ہے جو سالک کے دل سے پیدا ہوتا ہے اور اسے خوش وقت کر دیتا ہے، ساغر و پیمانہ مشاہدۂ انوار غیبی اور ادراک مقامات کو کہتے ہیں۔ زنار یک رنگ اور یک جہت ہو جانے کی علامت ہے۔ یار، دلبر، محبوب، صنم، دوست، تجلی صفاتی کو کہتے ہیں۔ لب ودہاں صفت حیات ہے، خال سیاہ، عالم غیب ہے، ساقی و مطرب، باطنی فیض پہنچانے والے ہیں، شراب و بادہ محبت کے معنی میں آتا ہے۔ مستی عشق کے تمام صفات کے ساتھ حاوی ہو جانے کا نام ہے۔ اوباش وہ ہے جو ثواب و عذاب کاغم نہ کرے، شمع خدا کا نور ہے۔ دیر عالم انسانی گیسو طالب کے ظاہر کو بھی کہتے ہیں۔ قلندر، ارباب صفا اور اہل فنا کو بھی کہا جاتا ہے۔ مجرد بیان میں لذت نہیں ہوتی۔ انسان خوگر پیکر محسوس ہے۔ اس لئے بقول غالب،
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
مطلب ہے ناز و غمزہ و لے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
اس لئے ان اصطلاحات سے واقف ہوئے بغیر اور ان کیفیات تک پہنچے بغیر صوفیانہ شاعری کو مطعون کرنا سراسر نادانی ہے۔ میرؔ کے یہ اشعار دیکھئے،
مسجد ایسی بھری بھری کب تھی
میکدہ اک جہاں ہے گویا
میرؔ کے دین و مذہب کو پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
فانیؔ کہتے ہیں،
عشق وہ کفر جو ایمان ہے دل والوں کا
عقل مجبور وہ کافر جو مسلماں ہو جائے
حرم و دیر کی گلیوں میں پڑے پھرتے ہیں
بزم رنداں میں جو شامل نہیں ہونے پاتے
ہے منع راہ عشق میں دیر و حرم کا ہوش
یعنی کہاں سے پاس ہے منزل کہاں سے دور
آسیؔ غازی پوری کا یہ شعر بھی ذہن میں رکھئے،
اتنے بت خانوں میں سجدے ایک کعبے کے عوض
کفر تو اسلام سے بڑھ کر ترا گرویدہ ہے
اس تناظر میں اقبال کے اس شعر کی معنویت آشکار ہوتی ہے،
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
صوفی شعرا نے خدا کو پہچاننے کا راستہ اپنے آپ کو پہچاننے اور انسان کو سمجھنے کا قرار دیا ہے۔ اس سے انسان کی عظمت روشن ہوتی ہے اور انسان دوستی کی راہیں کھلتی ہیں، انسان دوستی کا مسلک تصوف کی تعلیم کا مرکزی نقطہ ہے اور اردو کے شعرا نے اس پر طرح طرح سے زور دیا ہے۔ چند شعر ملاحظہ کیجئے،
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
میرؔ
ہم اگر آپ کو جانیں تو انہیں بھی جانیں
ان کے ارماں سے ہے پہلے ہمیں ارماں اپنا
میرؔ
آئینہ کیا ہے؟ جان ترا پاک صاف دل
اور خال کیا ہے تیرے سویدائے رخ پہ تل
زلف دراز فہم رسا سے رہی ہے مل
لاکھوں طرح کے پھول رہے ہیں تجھی میں کھل
ہر لحظہ اپنے جسم کے نقش و نگار دیکھ
اے گل تو اپنے حسن کی آپ ہی بہار دیکھ
نظیرؔ
جلوہ تر ہر ایک طرح کا ہر شان میں دیکھا
جو کچھ کہ سنا تجھ میں سو انسان میں دیکھا
دردؔ
انساں کی ذات سے ہیں خدائی کے کھیل یاں
بازی کہاں بساط پہ گر شاہ ہی نہیں
دردؔ
باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں
گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں
دردؔ
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میرؔ
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا یہ مگر قابل دیدار نہ تھا
میرؔ
انسان دوستی جو مغرب میں نشاۃ الثانیہ کے بعد پروان چڑھی، فرد کی اہمیت کے احساس سے چلی تھی لیکن رفتہ رفتہ قومیت کے تصور نے اس کی وسعت کو محدود کیا۔ اب یہ بات مغرب میں بھی تسلیم کی جانے لگی ہے کہ تصوف کی انسان دوستی چونکہ عالم گیر انسانی برادری پر زور دیتی ہے اور آدمی کو انسان بناتی ہے اس لئے اس کے سہارے مذاہب کے اختلافات، قوموں کے تصادم، طبقاتی کشمکش، سب کے حل کے لئے راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ آج آدمی کو ہر رنگ میں پہچاننے پر جو زور ہے اس کی طرف بڑے پرجوش لہجے میں انیسویں صدی کے آغاز میں نظیر اکبرآبادی نے اپنی نظم ’’آدمی نامہ‘‘ میں اشارہ کیا تھا،
دنیا میں بادشاہ ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
زردار، بے نوا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
ابدال و قطب و غوث و ولی آدمی ہوئے
منکر بھی آدمی ہوئے اور کفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے کشف و کرامات کے کئے
حتیٰ کہ اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی ہی نار ہے اور آدمی ہی نور
یاں آدمی ہی پاس ہے اور آدمی ہی دور
کل آدمی کا حسن و قبح میں ہے یاں ظہور
شیطاں بھی آدمی ہے جو کرتا ہے مکر و زور
اور ہادی رہ نما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی ہی تیغ سے مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اتارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
اور سن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اشراف اور کمینے سے لے شاہ تا وزیر
ہیں آدمی ہی صاحب عزت بھی اور حقیر
یاں آدمی مرید ہیں اور آدمی ہی پیر
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیرؔ
اور سب میں جو برا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
(آدمی نامہ)
یہ نظم اس قابل ہے کہ پوری سنائی جاتی، مگر قلت وقت کے خیال سے اس کے چند ہی بند پیش کئے گئے ہیں۔
غالب خاصے دنیادار تھے، مگر ان کی شاعری میں وحدت الوجود کے عقیدے کی مرکزی اہمیت ہے۔ انہوں نے صوفیوں کے کئی عقیدوں کو بڑے شاعرانہ کمال کے ساتھ نظم کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خدا کی تجلی میں تکرار نہیں ہے اور ہر آن وہ نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہے، اب غالب کا یہ شعر دیکھئے،
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
غالب کے ذہن کی تہہ داری اوراس کی جامعیت کا ثبوت یہ ہے کہ یہی شعر ارتقا اور تخلیق پیہم کے لئے بھی شمع ہدایت ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ غالب کے یہاں ابن عربی کے نظریہ تجدد امثال کی نشان دہی کرتا ہے۔ حضرت رابعہ بصری نے اس عبارت کی مذمت کی تھی جو خدا کے لئے نہ ہو بلکہ جنت کے لالچ یا دوزخ کے خوف سے ہو۔ غالب اس خیال کو کیسے دل کش انداز سے پیش کرکے ایک بلند اخلاقی معیار کی طرف ہماری رہ نمائی کرتے ہیں۔
طاعت میں تا رہے نہ مئے وا نگبیں کی لاگ
دوزح میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
منصور حلاج کا خیال تھا کہ تمام دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ ان کا فروعات میں اختلاف ہے لیکن اصل کا جہاں تک تعلق ہے، وہ ایک ہی ہے۔ تمام دینوں کا مرکز اور منبع خدا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ مذہب کی اصل ایک ہی ہے۔ اس کے طریقے اور راستے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ اب غالب کے ان اشعار پر غور کیجئے۔
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
اقبال نے یہی بات اپنے مخصوص اسلوب میں کہی ہے،
من کی دنیا میں نہ دیکھا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
تصوف نے دنیا کی بے ثباتی کی طرف توجہ دلاکر حب جاہ ومال پر کاری ضرب لگائی اور مکارم اخلاق پر زور دیا۔ میرؔ کا مشہور قطعہ ذہن میں ہے،
کل پاؤں ایک کاسہ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخواں شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پُر غرور تھا
صوفیوں نے دلداری اور خلق پر بہت زور دیا تھا۔ اردو شاعری میں اس کے اثر سے کسی کا دل توڑنے کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا۔ اقبال کے یہ اشعار غور طلب ہیں،
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
مگر یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
تصوف میں عشق کو علم پر فوقیت دی گئی تھی۔ موجودہ دور میں اسے رجعت پرستی اور ظلمت پسندی سمجھا گیا مگر اب مغرب کے مفکرین بھی ذہن کی نارسائی پر زور دینے لگے ہیں۔ ایچ جی ویلس نے اپنی آخری کتاب ’’ذہن اپنی آخری حد پر‘‘ (THE MIND AT THE END OF ITS TETHAR) میں عقلیت کے حدود کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس کتاب پر ریویو کرتے ہوئے لافیل ٹرلنگ نے کہا تھا کہ ’’ذہن پر ضرورت سے زیادہ زور سماجی مساوات کی نفی کرتا ہے اور جو لوگ ذہن کی پرستش کرتے ہیں ان کے ذہن میں خود کوئی کمی پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘ اقبال نے بانگ درا کے دور میں آگاہ کردیا تھا۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اور بال جبریل میں انہوں نے اعلان کیا،
خرد سے راہ رو روشن بصر ہے
خرد کیا ہے چراغ رہ گزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے
غرض اردو شاعری میں تصوف کی روایت سب سے زیادہ وسیع اور گہری رہی ہے۔ اس نے اپنی اصطلاحی اور رمز و ایما کے پردے میں انسان دوستی، رواداری، خدمت خلق، وسیع المشربی، اخلاقی بلندی اور قلبی طہارت پر زور دیا ہے۔ آج کا ذہن شعر کی زبان نہیں سمجھتا، وہ اسے بھی ایک نثری بیان سمجھتا ہے۔ پھر وہ قناعت، توکل، استغنا کو مذموم سمجھنے لگا ہے۔ وہ دل کی دولت کی قدر نہیں کرتا، دنیا کی دولت کے پیچھے پھرتا ہے۔ کچھ صوفیوں نے اشغال پر جو حد سے زیاد ہ زور دیا اس کی وجہ سے بھی وہ ان سے بدگمان ہو گیا۔ کچھ صوفیوں نے سیاست کی ہنگامہ آرائی اور ارباب اقتدار کی چیرہ دستی سے گھبرا کر جو خلوت نشینی اختیارکی، اس کی وجہ سے بھی صوفیوں کی داستان بے عملی اور تقدیر پرستی کی لے سمجھی جانے لگی۔ اقبال نے اس روش پر بجا طنز کیا ہے۔
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری
میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
اقبال نے صوفیوں پر جو اعتراضات کئے ہیں اور عجمی تصوف پر جو نکتہ چینی کی ہے اس کی وجہ سے کچھ حلقوں میں یہ خیال بھی پیدا ہوگیا ہےکہ اقبال تصوف کے مخالف تھے۔ اقبال کے کچھ اشعار اور ان کے خطوط اور مثنوی اسرار خودی کے دیباچے سے اس خیال کو تقویت بھی ملتی ہے مگر اقبال کے ذہنی ارتقا کو سمجھتے ہوئے اور ان کے سارے کلام نظم و نثر کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اقبال کی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے۔ اقبال کو تصوف کی روایت ورثے میں ملی تھی۔ انگلستان جانے سے پہلے وہ حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضر ہوئے تھے۔ بزرگوں اور درویشوں سے انہیں بڑی عقیدت تھی اوران کی زندگی میں باوجود نشیب و فراز کے ایک درویشانہ بے نیازی ملتی ہے۔ انہیں تصوف پر نہیں مزاج خانقاہی پر اعتراض تھا۔ وہ جب یہ کہتے ہیں،
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
تو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جس طرح ملا، کٹھ ملائیت کا ترجمان ہے، اسی طرح یہ صوفی حقیقی صوفی نہیں ہے۔ گو تصوف کا دم بھرتا ہے۔ حقیقی تصوف اور حقیقی فقر کے متعلق اقبال کے یہ اشعار دیکھئے،
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میرو ں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ
علم فقیہ و کلیم، فقر مسیح و حکیم
علم ہے جو یائے راہ فقر ہے دانائے راہ
فقر مقام نظر علم مقام خبر
فقر میں مستی ثواب علم میں مستی گناہ
علم کا موجود اور فقر کا موجود اور
اشہدان لا الہ اشہد ان لا الہ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ
دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو
تری نگہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ
وہ صوفی کے مرتبے کو جانتے ہیں، انہیں اس سے صرف یہ شکایت ہے وہ بتان عجم کے پجاریوں میں شریک ہو گیا ہے۔ ساقی نامہ میں کہتے ہیں،
وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا، حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
اقبال جو حرکت، کشمکش، عمل میں یقین رکھتے ہیں، وہ کسی طرح اس نتیجے پر پہنچے۔ یہ وحدت الوجود کا نظریہ فارسی شاعری میں بڑے پرفریب طریقے سے لوگوں کو بے عملی کی طرف لے جاتا ہے۔ اقبال کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے بھی اقبال کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے حافظ کی شاعری کی روح پر غور نہیں کیا اور ان کی شاعری کے ظاہری اثرات کو ہی اہمیت دی۔ عجمی افکار کی انہوں نے جابجا مذمت کی ہے مگر اپنی نظم ’مدنیت اسلام‘ میں وہ عجم کے حسن طبیعت کو بھی سراہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ نظم یوں شروع ہوتی ہے،
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے
یہ ہے نہایت اندیشۂ کمال جنوں
اور جس شعر کی طرف آپ کو توجہ دلانا ہے، وہ یہ ہے،
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال
عجم کا حسن طبیعت عرب کا سوز و دروں
اسٹیفن الینڈر نے کہا ہے کہ QUALITY تمدن کی وہ خصوصیت ہے جو اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ماضی کا احساس ایک حیات بخش قوت کی حیثیت سے اس سماج میں کام کرے۔ ہمارے یہاں حال کے کرب کا احساس ہے مگر ماضی کا یہ احساس اور عرفان نہیں ہے۔ اردو شاعری کے کلاسیکی سرمائے میں تصوف کی وجہ سے جو بلندی، بصیرت اور انسان دوستی آئی ہے، اس سے ہمیں اب بھی ذہنی غذا مل سکتی ہے اور شعر کی زبان میں جس طرح ان اسرار و رموز کو پیش کیا گیا ہے، ان کو سمجھنے سے حال کے آگہی کے بحران میں بھی ایک عزم تازہ حاصل ہو سکتا ہے۔ غالب نے غلط نہیں کہا تھا،
بے مے کسے ہے طاقت آشوب آگہی