اردو شاعری میں شیام رنگ
اردو زبان پر کسی خاص تہذیب، علاقہ اور مذہب کی اجارہ داری نہیں۔ یہ مختلف زبانوں کے الفاظ اور مختلف تہذیبی عناصر کے اختلاط سے وجود میں آئی ہے لہٰذا اس کا رنگ وآہنگ ہی الگ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردو زبان میں جس طرح اسلامیات پر مضامین ملتے ہیں اسی طرح دوسرے مذاہب کے متعلق بھی مواد حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں ہم نے صرف چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ اردو نظم ونثر میں اس قسم کے مضامین کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بھارتی سنسکرتی اور ہندوستانی ثقافت کی علامت کے طور پر کرشن کو دیکھا جاتا ہے۔ یہاں کے لوک ادب سے لے کر شاعری اور آرٹ ہر میدان میں کرشن کی حیثیت ایک علامتی نشان یا استعارے کی ہے۔ اردو کے شاعروں نے بھی کرشن کی شخصیت کے مختلف پہلووں کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ مہابھارت میں کرشن کے ساتھ ان کی بانسری کا بھی ذکر ملتا ہے اورشعروادب میں اس کا استعمال بھی استعارے کی طرح ہوتا ہے۔ فارسی میں مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی بہت مشہور ہے جس کی ابتدا ایک بانسری کے بیان سے ہوتی ہے اور یہی بانسری حقیقت ومعرفت کے رازہائے سربستہ کھولتی جاتی ہے۔ ہندوستانی ساہتیہ میں اس سے بھی اونچا مقام حاصل ہے کرشن کی بانسری کو۔ کیونکہ مولانا روم کی پانسری ان کی مثنوی تک محدود ہے مگر کرشن کی بانسری ایک ایسی علامت بن گئی ہے جوہندوستانی تہذیب، ہندوستانی ثقافت، ہندوستانی ادب، ہندوستانی آرٹ، اور ہندوستانی راگ، رنگ میں نمایاں نظر آتی ہے۔ کرشن سے رادھا کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور جہاں ایک کا ذکر آتا ہے وہیں دوسرے کا ذکر بھی لازمی ہے۔ کہانی، افسانے، شاعری، مصوری اور سنگ تراشی ہر جگہ رادھا اور کرشن کا رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ رادھا اور کرشن لفظ محبت کا استعارہ ہیں۔ محبت کا لفظ جب روحانیت کی بلندی کو جاپہنچتا ہے توجسم کرشن اور آتما رادھا بن جاتی ہے۔ اس محبت کا بیان قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے اور سنت، مہنت، سور، میرا اپنے اپنے طریقے سے اس کی تشریح کرتے آئے ہیں۔ باوجود اس کے ان کی محبت کی تشریح آج بھی ادھوری ہے۔ رادھا اور کرشن کی محبت تمام وعدوں اور ارادوں سے بلندتر ہے۔ ان کے بیچ میں کوئی معاہدہ نہیں ہے کیونکہ معاہدہ تعلق کو تنگ دائرے میں مقید کردیتا ہے۔ ان کی محبت تمام ریتی رواجوں اور روایتوں سے بالاتر ہے۔ ان کی محبت ہر رسم سے آزاد ہے۔ اس رشتے میں ازدواجی تقرب کا بندھن نہیں اور کسی سماجی بندش کا الزام نہیں۔ کیونکہ جب تک محبت بدن تک محدود ہو، اسے رشتے کا نام دیا جاتا ہے اور جب وہ روح کا حصہ بن جائے تو ہر رشتے سے بلند ہوجاتی ہے۔ اسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ لفظ اس کے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ کرشن کی بانسری کی صدا اصل میں روح کی آواز ہے جو کسی کو سنائی دے یا نہ دے مگر رادھا سن لیتی ہیں۔ کیونکہ روح کی آواز روح تک پہنچتی ہے اور ان دونوں کے بیچ روحانی رشتہ تھا۔ کرشن کون ہیں؟سناتن دھرم کے مطابق بھگوان وشنو دنیا کو پاپ سے نجات فراہم کرنے والے اہم دیوتا ہیں۔ جب جب اس زمین پر اسرُاور راکشسوں کے گناہوں کی دہشت پھیلتی ہے، تب تب بھگوان وشنو کسی نہ کسی طور پر اوترت ہو کر زمین کے بوجھ کو کم کرتے ہیں۔ ہندو اعتقاد کے مطابق بھگوان وشنو نے شری کرشن کا اوتار لیا تھا۔ اس وقت زمین پر پاپ پھیلا ہواتھا اور ظلم وتشدد کا دور دورہ تھا، جسے ختم کرنے کے لئے وشنو کو کرشن کا اوتار لینا پڑا۔ انھوں نے اس کے خاتمے کے لئے سام، دام، دنڈ، بھید سبھی کا سہارا لیااور اس زمین کو پاپیوں سے آزاد کرایا۔ کروشیتر کے میدان میں انھوں نے ارجن کا رتھ بان بن کر انھیں جنگ پر اکسایا اور جو وعظ ونصیحت کی اس سے گیتا کی تخلیق ہوئی۔ کرشن کی پیدائش اور ان کے کارناموں کے تاریخی شواہد تو نہیں ملتے مگر مذہبی روایات کے مطابق ان کے انتقال کے بعد کلیگ کا اندراج کیا گیا۔ اس لئے بھگوان کرشن کی پیدائش کا درست اندازہ شاید ہی کوئی لگا پائے۔ قدیم بھارتی کلینڈر کے حساب کے مطابق کلیگ کا آغاز عیسیٰ سے 3102 سال قبل 20 فروری کو 2 بجکر 27 منٹ پر ہوا تھا۔ پرانوں میں بتایا گیا ہے کہ جب سری کرشن کا سورگواس ہوا تب کلیگ کا اندراج ہوا، اس کے مطابق کرشن جنم 4500 سے 3 102 قبل مسیح میں ہوا ہوگا۔ جو لوگ اس قسم کا دعویٰ کرتے ہیں وہ دلیل کے طور پر موہنجوداڑو میں 1929 میں ہوئی کھدائی کے دوران ملی ایک مورتی کو قرار دیتے ہیں۔ یہاں ایک تصویر دستیاب ہوئی تھی جس میں دو درختوں کے درمیان کھڑے ایک بچے کو دکھایا گیا ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ کرشن کا بچپن ہے۔ دعووں کے مطابق مہابھارت کی جنگ 300 قبل مسیح میں ہوئی ہوگی اور اس سے قبل کرشن کا جنم ہوچکا تھا۔ شریمد بھاگوت گیتا شری کرشن کے خطبات کا مجموعہ ہے شریمد بھاگوت گیتا۔ یہ دنیا کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ہے اور ہندووں کا مقدس ترین گرنتھ ہے۔ مہابھارت کے مطابق کروشیتر جنگ میں سری کرشن نے گیتا کا پیغام ارجن کو سنایا تھا۔ اس میں توحید، کرم یوگ، اور لگن یوگ کی بہت خوبصورت طریقے سے بحث ہے۔ پس منظرشریمدبھاگوت گیتا کے پس منظر میں مہابھارت کی جنگ ہے۔ جس طرح ایک عام انسان اپنی زندگی کے مسائل میں الجھ کر ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیتا ہے اور اس کے بعد کی زندگی سے راہ فرار اختیار کرنے کا خیال اس کے دل میں آتا ہے اسی طرح ارجن، جو مہابھارت کا عظیم ہیرو ہے اپنے سامنے آنے والے مسائل سے خوفزدہ ہو کر زندگی اور چھتریہ دھرم سے مایوس ہوکر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے مگر کرشن اسے اس کی ذمہ دارایاں یاد دلانے کے لئے ایک طویل نصیحت کرتے ہیں۔ ارجن کی طرح ہی ہم تمام کبھی نہ کبھی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں اور حالات سے مایوس ہوکر اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ بھارت کے رشیوں نے شدید غور کے بعدگیتا کو جمع کیا ہے۔ خطبات کرشن کا آخری حصہ اپنشد کہلاتا ہے۔ انسانی زندگی کی خاصیت، انسان کو حاصل دانشورانہ طاقت ہے اور اپنشدوں میں موجود علم اس بات پر اکساتا ہے کہ عقل کی حدود کے باہر انسان کیا تجربہ کر سکتا ہے۔ شریمدبھگوت گیتا بدلتے سماجی منظرنامے میں اپنی اہمیت کو بنائے ہوئے ہے اور اسی وجہ سے تکنیکی ترقی نے اس کی دستیابی کو بڑھایا ہے، اور زیادہ قابل فہم بنانے کی کوشش کی ہے۔ دوردرشن پر نشر سیریل مہابھارت میں بھگوت گیتا خصوصی توجہ کا مرکز رہی، وہیں شری کرشن (سیریل) میں بھگوت گیتاکو تفصیل سے پیش کیا گیااور گیتا سے متعلق عام انسان کے شبہات کا ازالہ ارجن کے سوالات کے ضمن میں کرنے کی کوشش کی گئی۔ اردو میں گیتا کا گیانمہابھارت اور رامائن کے ہندی ترجمے سے پہلے اس کے فارسی اور اردو ترجمے ہوچکے تھے۔ مغل بادشاہ اکبر کے حکم سے ان کتابوں کو سنسکرت سے فارسی میں ڈھالا گیا تھا اورخوبصورت، رنگین تصویروں سے سجایا گیا تھا۔ مغلوں کے آخری دور میں انھیں اردو کا لباس بھی پہنادیا گیا۔ کئی منظوم ترجمے بھی ان کتابوں کے ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ردو زبان میں خاص گیتا کے بھی متعدد ترجمے کئے گئے ہیں۔ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں اس کے ترجمے اور تفاسیر اردو میں موجود ہیں۔ گیتا کا گیان اردو شاعری میں بھی ہے اور جہاں اس کے مفاہیم کو شعراء نے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے، وہیں کئی شعراء نے گیتا کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ گیتا کا اب تک کا آخری ترجمہ انورجلالپوری نے کیا ہے۔ ان کا یہ ترجمہ دیکھیں، ایسا لگتا ہے گویا قرآن کی آیت الکرسی کا منظوم ترجمہ ہے، خدا ہے ازل سے ابد تک خدانہیں اس کی قدرت کی کچھ انتہاوہ موجود ہے اور دیکھے سبھیوہ اِک لمحے کو بھی نہ سوئے کبھیلطافت بھی بے انتہا اس میں ہے جو گیانی سنیں وہ صدا اس میں ہے سبھی کچھ سنبھالے ہوئے ہے وہیمگر وہ نہ آئے تصور میں بھیوہ ظلمت نہیں نور ہی نور ہے اندھیرا تو اس سے بہت دور ہے اوپر درج مصرعوں میں جہاں سلاست وروانگی ہے وہیں زبان وہ بیان بھی بہت سادہ ہے۔ انھیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا قرآن کا پیغام توحید پیش کیا جارہا ہے۔ جس وحدت کا پیغام قرآن کریم میں دیا گیا ہے اسی کی تعلیم گیتا میں بھی ملتی ہے۔ نورِ وحدت سے معمور ان اشعار کو ذرادیکھیں جو گیتا کا ہی ترجمہ ہیں، فضائوں میں جیسے ہوائیں رہیں اسی طرح سب جیو مجھ میں بسیں مقدس ہوں، پھل دینے والا ہوں میں مجھے جان لے سب سے اعلا ہوں میں مرے بیج سے سب جگت جنم لے برہمانڈ کی سلطنت جنم لے کئی دیوتائوں میں اٹکے ہیں جومرے راستے سے بھی بھٹکے ہیں وہاردو شاعری میں جس قدر کرشن، راس لیلا، ہولی، اور کرشن کی بانسری وغیرہ کے موضوع پر نظمیں کہی گئی ہیں دوسرے کسی ایک موضوع پر اس قدر نظمیں شاید ہی ملیں۔ بہت سے شاعروں نے اس تعلق سے لاجواب نظمیں کہی ہیں اور بعض نے تو صرف ان کی بانسری پر طویل نظمیں کہہ ڈالی ہیں۔ ایسے ہی شاعروں میں ایک نظیر اکبرآبادی بھی ہیں، جنھوں نے اس قسم کی کئی نظمیں کہی ہیں۔ ان کی ایک نظم ہے بانسری۔ اس میں انھوں نے بانسری کی آواز کو ایک ایسی لاہوتی آواز کے مماثل قرار دیا ہے جو لوگوں کو بے خود ودیوانہ بنا دیتی ہے۔ جس کی آواز سن کر خلق خدا مدہوش ہوجاتی ہے اور الاماں کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔ جب مرلی دھر نے مرلی کو اپنی اَدھر دھریکیا کیا پریم میت بھری اُس میں دُھن بھریلے اس میں رادھے رادھے کی ہر دم بھری کھریلہرائی جو دھن اس کی ادھر اور ادھر ذریسب سننے والے کہہ اٹھے جے جے ہری ہریایسی بجائی کشن کنھیا نے بانسریکرشن اور مرلی ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ مرلی کے بغیر جناب کرشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کرشن کی بانسری ان کی فطرت کی مدھرتا کی علامت ہے۔ کرشن کے ہاتھ میں بانسری کا مطلب ہے کہ زندگی میں خواہ جتنی مشکل گھڑی آئے ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے۔ جب انسان کے اندر سکون ہو تب موسیقی زندگی میں اترتی ہے اور بانسری تو سکون کی علامت ہی ہے۔ کرشن کی بانسری محبت، فنکارانہ صلاحیتوں اور تخلیقیت کی علامت بھی ہے۔ کرشن کی بانسری ایک ایسی بانسری ہے جو سننے والوں کو جہاں ایک طرف مدہوش کرتی ہے تو دوسری طرف وہ انھیں حق آگاہ بھی بناتی ہے۔ یہ حقیقت ومعرفت کے لاکھوں سربستہ رازوں کا انکشاف بھی کرتی ہے۔ یہ بانسری ایسی بانسری ہے جس کی تان لاکھوں سال بیتنے کے بعد بھی آج تک لاکھوں اہل عقول کو مدہوش کئے جا رہی ہے۔ اس کی صدائے بازگشت کبھی میراؔ کے رس میں سرابور ہوکر آتی ہے تو کبھی سورداس کے نغموں میں ڈوب کر نکلتی ہے۔ کبھی نظیرؔ کی دھنوں سے نکلتی ہے تو کبھی عرشؔ کے ترنم سے پھوٹتی ہے۔ بہرحال نظیرؔاکلوتے شاعر نہیں جنھوں نے کرشن کو شاعری کا موضوع بنایا ہے بلکہ ایسے شاعروں کی طویل فہرست ہے جن میں مولانا حسرت موہانی، عرش ملسیانی، ساحر دہلوی، کیفی دہلوی جیسے شعراء شامل ہیں اور غزلوں میں کرشن کو استعارہ کے طور پر پیش کرنے کا کام تو اور بھی زیادہ ہوا ہے۔ دنیا میں ہوئے اے دل کتنے ہی مہابھارتارجن کی کی کماں تھا تو، تو بھشم کی پیکاں تھا(فراقؔ)