اردو شاعری میں خمریات

شعر و ادب میں شراب کا ذکر اس کثرت سے کیوں ہوتا ہے یہ تو اس پرانے گنہگار سے پوچھئے جو مست جام شراب ہونا کافی نہیں سمجھتا بلکہ غرق جام شراب ہونا چاہتا ہے۔ میں تو توبۃ النصوح قسم کا آدمی ہوں، دور سے تماشہ دیکھنے والا! میں آپ کو صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ ہمارے رندکس شراب سے مست ہیں۔ ان کی شراب نئی ہے یا پرانی، شراب طہور ہے یا شراب پرتگالی، ان کی مستی بادہ و ساغر والی مستی ہے یا وہ صرف’’کیفیت چشم‘‘دیکھ کر مست ہوگئے ہیں، وہ بے پئے ہی جھومتے جاتے ہیں ’’یا نظر کو چند موجوں پر جما کر بے خبر‘‘ ہو گئے ہیں۔


اردو شاعری کا ابھی بچپن تھا کہ اس پر فارسی کا اثر شروع ہوا۔ فارسی غزل کی جا ن ہی عشق ومحبت کی داستانیں اور رندی و سرمستی کے مرقعے ہیں۔ یہ رندی و سرمستی اردو میں کیسے نہ آتی۔ آئی اور خوب آئی۔ پہلے پہل لوگ پیتے کچھ اور تھے اور ان کی مستی کسی اور قسم کی ہوتی تھی۔ آگے چل کر ان کی شراب اور ان کی مستی دونوں اس دنیا کی چیزیں ہو گئیں۔ پھر وہ زمانہ بھی آیا جب بے پئے مست ہوتے تھے اور اچھے اچھے پرہیزگار شراب کے مضامین اس وجہ سے باندھتے تھے کہ ان کے بغیر غزل مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ خمریات کے عناصر میں شراب، ساقی، پیر مغاں، جام وساغر، مستی و سرشاری، باغ وبہار سب آ جاتے تھے۔ میخانہ کا مقابلہ مسجد سے ضرور تھا اور واعظ، محتسب یا زاہد یاشیخ کی پگڑی اچھالنی بھی لازم تھی۔ یہی سب مضامین فارسی میں صدیوں تک باندھے گئے۔ اردو میں بھی ان کی تقلید ہوئی۔


جس طرح فارسی کے آغاز میں تصوف کا اثر بہت گہرا ہے۔ اسی طرح اردو کی ابتدائی شاعری بھی تصوف کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شاعری اور درویشی مترادف الفاظ تھے۔ صوفیوں کی طریقت کا راستہ شریعت سے الگ تھا۔ شریعت ظاہری حالت پر زور دیتی تھی، طریقت میں باطنی کیفیت سب کچھ ہوتی تھی۔ عالم باطنی کے مدارج طے کرنے اور معرفت الٰہی حاصل کرنے کے لیے عشق مجازی کے زینے سے بھی گزرنا پڑتا تھالیکن اس عالم میں اصطلاحات کے معنی کچھ اور تھے۔ یہاں شراب سے عرفان، ساقی سے ساقی روز اول اور پیر مغاں سے پیر طریقت مراد تھے اور شیخ یا زاہد کی تضحیک اس وجہ سے کی جاتی تھی کہ وہ ظاہری حالت کو دیکھتا ہے باطن پرنظر نہیں کرتا۔ جب تک تصوف کا دور دورہ رہا اس قسم کے مضامین میں کوئی چیز ایسی نہ ہوتی تھی جس کا اطلاق حقیقی رنگ پر نہ ہو سکے۔ تصوف کے مضامین کو اس طرح بیان کرنا کہ غزل کی لطافت قائم رہے او ر معرفت الٰہی کے مضامین عشق مجازی سے بالکل بے میل نہ ہوجائیں یہی قدماء کا کمال تھا۔


اردو میں ولی ؔسے لے کر دردؔ تک کا کلام دیکھئے۔ شراب کے مضامین ان بزرگوں کے یہاں بکثرت ملتے ہیں بلکہ ولیؔ اورنگ آبادی کے دیوان کی بعض ردیفوں سے معلوم ہوتاہے کہ وہ اس مادی حسن و عشق سے بھی ناآشنا نہ تھا مگر بحیثیت مجموعی ان کے یہاں شراب کے مضامین سے وہی شراب معرفت مراد ہے۔ یہ مضامین تغزل کے دائرے میں بیان ہوتے ہیں۔


آلودہ کیوں نہ ہوئے دامانِ پاک زاہد
جب دست نازنیں میں جام شراب ہووے
ولیؔ


شب وروز اس طرح گزرے ہیں اپنی تو نہ پوچھو کچھ
صراحی صبح کو گر ہاتھ ہے تو شام ہے شیشہ
درد


نگاہ مست ان نکھوں کی ٹک ایدھر بھی ہوساقی
کہ ہم کو حوصلوں کے حق میں ہر اک جام ہے شیشہ
درد


آتش مے سے جو زاہد نے اسے بھڑکایا
زاہد خشک ہوا خوب ہی ترپانی میں
دردؔ


اسی زمانہ میں ظاہری حالت پر طعن کرنے والوں کو شاعر کی طرف سے یہ زبردست جواب دیا گیا تھا،


تردامنی پر شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں


دردؔ اور میرؔ کا زمانہ ایک ہی ہے لیکن میرؔ کے یہاں جو اشارے ملتے ہیں ان میں تصوف کی چاشنی سے زیادہ عشق مجازی کی گرمی ملتی ہے۔ میرؔ کے والد ایک درویش صفت آدمی تھے۔ مرتے وقت بیٹے کو نصیحت کر گئے تھے کہ ’’عشق اختیار کرو۔‘‘ اس کے ساتھ دل نہایت درد منداور گداز پایا تھا۔ چنانچہ میرؔ کی شاعری میں عشق ومحبت کی سچی اور بے لاگ تصویر یں ملتی ہیں۔ ان کا عام نقطۂ نظر صوفیانہ ہے لیکن ایک غزل ان کے یہاں ایسی ہے جس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کچھ یہاں کی چیز بھی ملی ہوئی تھی۔ پوری غزل مرصع ہے اور خمریات کا بہترین نمونہ ہے۔ جو اشخاص میرؔ کو صرف مصور غم کا درجہ دیتے ہیں وہ دیکھیں کہ اس غزل میں کتنے جوش سے فلسفۂ عیش و مسرت کی تلقین کی گئی ہے۔


شیخ جی آؤ مصلیٰ کرو جام کرو
جنس تقویٰ کے تئیں صرف مے وجام کرو


فرش مستاں کرو سجادہ بے تہ کے تئیں
مے کی تعظیم کرو شیشہ کااکرام کرو


دامن پاک کو آلودہ رکھو با دے سے
آپ کو مغبچوں کے قابل دشنام کرو


نیک نامی وتفاوت کودعا جلد کہو
دین ودل پیش کش سادۂ خود کام کرو


ننگ و ناموس سے درگذر وجوانوں کی طرح
پر فشانی کرو اور ساقی سے ابرام کرو


اٹھ کھڑے ہو جو جھکے گردن مینائے شراب
خدمتِ بادہ گساراں بھی سر انجام کرو


خنکی اتنی بھی تو لازم نہیں اس موسم میں
پاس جوش گل ودل گرمیٔ ایام کرو


سایۂ گل میں لب جو پہ گلابی رکھو
ہاتھ میں جام کو لو آپ کو بدنام کرو


آہ تاچندر ہو خانقہ ومسجد میں
ایک تو صبح گلستاں میں بھی شام کرو


میرؔ کے علاوہ ان کے زمانے میں بھی اور بعد بھی شراب کے مضامین برابر ملتے ہیں۔ انشاؔ جیسا درباری شاعر بھی برف لگا کر صراحی مے طلب کرتاہے۔ ناسخؔ وآتشؔ کے بیان خمریات میں رسمی انداز آ چلا تھا۔ یہ لوگ نہ تو بادۂ تصوف کے ذوق چشیدہ تھے نہ رند شاہد باز۔ ان کے یہاں شراب کے مضامین اس وجہ سے باندھے گئے ہیں کہ ان سے پہلے باندھے جاتے تھے۔ خصوصاً محتسب کا ذکر تو تمام تر رسمی ہے اس لیے کہ ان کے زمانے میں اس کا ڈر بھی نکل گیاتھا ہاں ناصح و واعظ سے عداوت چلی آتی تھی۔ اس زمانے میں غالبؔ کی خمریات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جس طرح عربی میں ابونواس اور فارسی میں خیام کی خمریات مشہور ہیں اسی طرح اردو میں غالبؔ کی۔


غالبؔ نے ایک جگہ لکھا ہے مشاہدہ حق کی گفتگو میں بادہ و ساغر کے بغیر کام نہیں چلتا لیکن اس سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ غالبؔ کے یہاں شراب کے مضامین تصوف والی شراب کے یا رسمی طور پر ہیں۔ ان کی شراب صاف صاف شراب پر تگالی ہے۔ انہیں بہشت اگر عزیز ہے تو اس شراب کی وجہ سے۔ ان سے جب کوئی کہتاہے کہ شرابی کی دعا قبول نہیں ہوتی توہ وہ فوراً جواب دیتے ہیں کہ جسے شراب میسر ہو اسے اور کیا چاہئے؟ ان کے محبوب کا سب سے بڑا حسن یہ ہے کہ وہ چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے ہے۔ ان کی محفل کاہر گوشہ شیشہ باز کا سر ہے۔ ان کی ہوا میں شراب کی تاثیر ہے، وہ اپنی مستی کی آڑ میں محبوب سے بے تکلف بھی ہو جاتے ہیں۔ بہشت ودوزخ کا استہزاء بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ بہت سی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں، غالبؔ کے بیشتر اشعار عام طور پر لوگوں کی زبان پر ہیں۔ چند پر اکتفا کی جاتی ہے،


پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
دے بط مے کو دل دوست شنا موج شراب


پوچھ مت وجہ سیہ مستی ارباب چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہوا موج شراب


وہ شئے کہ جس کے لیے ہو ہمیں بہشت عزیز
سوائے بادہ گلفام مشک بو کیا ہے


کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد


قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


پر پروانہ شاید بادبان کشتی، مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دور ساغر کی


کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں


جانفزا ہے وہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں


گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا میرے آگے


اور دیکھئے توبہ کرلی ہے۔ ساغر و مینا توڑ چکے ہیں لیکن پھر بھی کس مزے سے ان کا ذکر کرتے ہیں۔


توڑ کر بیٹھے ہیں ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا
آسماں سے بادۂ گلفام گر برسا کرے


واعظ کے متعلق یہ بلیغ شعر بہت سی پھبتیوں سے اچھا ہے۔ اس میں نہ تو ذوقؔ کی طرح اس کی داڑھی کو شراب سے رنگا ہے نہ ناسخؔ کی طرح اس کی داڑھی کا ہر بال تبرک کرلیاہے بلکہ اس کے ظاہر و باطن پر عجیب لطف سے تبصرہ کیا ہے۔


کہاں میخانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے


غالبؔ کی خمریات میں ان کی رفعت تخیل اور لطافت بیان کے ساتھ ان کا شوق میکشی بھی شریک ہے۔ اس شوق میکشی کی وجہ سے ان کے اشعار میں شراب کی تمام مستی موجودہے اور کہیں کہیں تو اس کی یہ کیفیت ہے کہ،


آبگینہ تندیٔ صہبا سے پگھلا جائے ہے


اس تندی صہبا کے تمام مدارج پیش کئے جا سکتے ہیں لیکن یہ ایسی ہی کوشش ہوگی جیسے غالبؔ کے رشک کے مضامین کو سلسلہ وار بیان کرنے کی۔ آپ نے دیکھا کہ خمریات کا رنگ غالبؔ کے یہاں سب سے نمایاں ہے۔ یہ نہ رسمی ہے نہ صوفیانہ بلکہ یہ ان کی زندگی کا آئینہ دار ہے۔ ان کے بعد داغؔ نے بھی خمریات کے تمام مدارج کو اپنی غزلوں میں برتا۔ داغؔ کا حال بھی غالب کاسا ہے۔ دونوں ہم مشرب ہیں۔ داغؔ کی شوخی و بیباکی رندانہ مضامین میں خوب نمایاں ہوتی ہے۔ اور اگر انہیں کوئی محاورہ نظم کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو شعر اور بھی چمک جاتا ہے۔ ان کے یہاں طنز اور چھیڑ چھاڑ بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ طنزیا تو معشوق پر صرف ہوتی ہے یا پھر زاہد پر مثلاً،


زاہد کو ایک قطرۂ زمزم پہ ناز ہے
یاں خم کا خم اڑاتے ہیں پیر مغاں کے ساتھ


دیکھنا پیر مغاں حضرت واعظ تو نہیں
کوئی بیٹھا نظر آتا ہے پس خم مجھ کو


کی ترک مے تو مائل پندار ہو گیا
میں توبہ کرکے اور گنہگار ہو گیا


مئے انگور فرشتوں کی بھی قسمت میں نہیں
اس سے محروم ہیں اک قبلہ حاجات ہی کیا


کچھ زہر نہ تھی شراب انگور
کیا چیز حرام ہو گئی ہے


جاکے پی آئے وہاں آتے ہی توبہ کرلی
اس قدر دور ہے مسجد سے خرابات بھی کیا


یہ رنگ جو داغؔ کے یہاں ہے، حقیقی ہے۔ امیرؔ کے یہاں رسمی اور داغؔ کی تقلید میں ہے اس لیے اچھے شعر کم ہیں تاہم ایک شعر میں ضرور پڑھوں گا جس کے متعلق یہ یقین نہیں آتا کہ امیرؔ کا ہے،


انگور میں تھی یہ مے پانی کی چار بوندیں
پر جب سے کھنچ گئی ہے تلوار ہو گئی ہے


مگر ان کے ایک شاگرد ریاضؔ خیر آبادی نے جو مینائے امیرؔ کی مستی پر فخر کرتے ہیں، خمریات میں خاص طورپر کمال حاصل کیا۔ ریاضؔ کی طبیعت میں ایک غیر معمولی شوخی تھی۔ وہ ساری عمر جوان رہے اور ساری عمر عاشق۔ حسن کی شوخی کا تو سب نے ذکر کیا ہے مگر ریاضؔ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں ایسی چلبلی مسکراہٹ، ایک ایسی شوخی ہے جس کا جواب حسن کے پاس بھی نہیں۔ انہوں نے ساری عمر شراب کے مضامین لکھے۔ شراب کے لیے بڑے ہی پیارے پیارے نام وضع کئے۔ ان کے تمام لوازم اپنی غزلوں میں نظم کئے مگر امیرؔ جیسے پرہیز گار کے شاگرد کا دامن اس معصیت سے کیسے آلودہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ یہ مشکل سے یقین آتاہے کہ جس شاعر کے دیوان میں بقول مولوی سبحان اللہ صاحب رئیس گورکھپور تیرہ سو چھیاسٹھ اشعار خمریات کے ہوں وہ شراب سے بچ سکا ہو۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت اکثر تلخ بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ ریاضؔ کے حسب ذیل بے مثال شعر در اصل رسمی ہیں۔ یہاں شراب سے وہ کیفیت مراد ہے جو عشق میں حاصل ہوتی ہے یا جوانی کے راستہ سے آتی ہے،


چھلکائیں لاؤ بھر کے گلابی شراب کی
تصویر کھینچیں آج تمہارے شباب کی


جہاں ہم خشت خم رکھ دیں بنائے کعبہ پڑتی ہے
جہاں ساغر پٹک دیں چشمۂ زمزم نکلتا ہے


فرشتے عرصہ گاہ حشر میں ہم کو سنبھالے ہیں
ہمیں بھی آج لطف لغزش مستانہ آتا ہے


مر گئے پھر بھی تعلق ہے یہ میخانے سے
میرے حصہ کی چھلک جاتی ہے پیمانے سے


توبہ سے ہماری بوتل اچھی
جب ٹوٹی ہے جام ہو گئی ہے


جام مے تو بہ شکن۔ توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے


یہ اپنی وضع اور یہ دشنام مے فروش
سن کر جو پی گئے یہ مزا مفلسی کا تھا


اتری ہے آسماں سے جو کل اٹھا تولا
طاق حرم سے شیخ وہ بوتل اٹھا تولا


سایۂ تاک میں واعظ کو جگہ دی ہم نے
آج شیشہ میں اسے ہم نے اتار اکیسا


اٹھے کبھی گھبرا کے تو میخانہ کو ہو آئے
پی آئے تو پھر بیٹھ رہے یاد خدا میں


توبہ سے ڈرایا مجھے ساقی نے یہ کہہ کر
توبہ شکنی کے لیے اصرار نہ ہوگا


ان اشعار سے حقیقت میں اس عام طبقہ کی تسکین ہو جاتی تھی جو شراب اس لیے نہ چکھ سکتا تھا کہ مذہب نے اسے ممنوع قرار دے دیاتھا۔ یہ علامات جن کے ذریعہ سے قدما کے دور میں ایک خاص کیفیت کا اظہار ہوتا تھا، اب ادب اور شاعری کا جزو اعظم بن گئیں تھیں اور اچھے اچھے پرہیز گار اس کوچہ میں ساغر ومینا اچھالتے نظر آتے تھے۔ شادؔ عظیم آبادی کو دیکھئے انہیں اس دور کا میرؔ کہا جاتا ہے۔ ان کے یہاں اضطراب کا عالم کس طرح بیان ہوتا ہے،


کہاں سے لاؤں صبرِ حضرت ایوب اے ساقی!
خم آئے گا صراحی آئےگی تب جام آئےگا


اور ان کا یہ شعر دیکھئے۔ کیا یہ صرف میخانہ تک ہی محدود ہے؟


یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے


مگر اس دور میں جگرؔ کی شاعری خمریات کے لیے خاص طور پر ممتاز ہے۔ جگرؔ ایک رند مشرب، رند وضع شاعر ہیں۔ ان کے یہاں جو شراب ہے اسے بادۂ تصوف سے کوئی علاقہ نہیں۔ بقول ہمارے ایک نقاد کے ان کی دلچسپی اتنی ساقی سے نہیں جتنی صہبا سے ہے۔ وہ شراب کے لیے اور شراب ان کے لیے بنی ہے۔ جس جوش و خروش سے وہ اپنی مستی یا بادہ وساغر کا ذکر کرتے ہیں وہ ان کی اپنی زندگی سے لیا گیا ہے۔ ان کی شاعری ان کی زندگی ہے اور ان کی زندگی ان کی شاعری۔ دیکھئے،


مست جام شراب خاک ہوئے
غرق جام شراب ہونا تھا


شیشہ مست وبادہ مست عشق مست و حسن مست
آج پینے کا مزہ پی کر بہک جانے میں ہے


شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے نظر سے مستی ابل رہی ہے
چھلک رہی ہے اچھل رہی ہے پئے ہوئے ہیں پلارہے ہیں


ہم کہیں آتے ہیں واعظ تیرے بہکانے میں
اسی میخانے کی مٹی اسی مے خانے میں


سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے میخانے میں
خلد شیشے میں ہے فردوس ہے پیمانے میں


مے کشو مژدہ کہ باقی نہ رہی قیدمکاں
آج ایک موج بہالے گئی مے خانے کو


اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے


ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا لہرا کے پی گیا


سرمستی ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا


زاہد یہ میری شوخی رندانہ دیکھنا
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا


غزل کے علاوہ نظموں میں بھی خمریات کا عنصر کافی ہے۔ مثنویوں میں شاعر جب سلسلہ کلام شروع کرتاہے تو پہلے ساقی سے دوچار جام طلب کرلیتا ہے تاکہ نشہ سخن اور زیادہ ہو۔ یہ وہی چیز ہے جو انگریزی شاعری میں بھی ملتی ہے۔ وہاں شاعری کی دیوی سے خطاب ہوتاہے۔ یہاں ساقی سے۔ چنانچہ ملٹن کی مشہور نظم ’’فردوس گمشدہ‘‘ کے ہر باب میں یہ سلسلہ اسی طرح شروع ہوتاہے۔ مثنویوں کے علاوہ ساقی نامے علیحدہ بھی ملتے ہیں۔ ان سب میں شراب کے پردے میں کسی اور چیز کی خواہش ہے۔ ساقی نامے اس قدر مقبول ہوئے کہ مرثیہ جیسے مخصوص او ر محدود عنوان کے تحت میں بہار اور ساقی نامہ کا عمل دخل ہو گیا۔


انیس نے بہار کا ذکر کیا تو ان کے نواسے پیارے صاحب رشیدؔ نے ساقی نامہ کا اضافہ کردیا۔ ان مضامین کے ذریعہ سے صرف قدرت کلام دکھانا مقصود تھا۔ نظیرؔ اکبر آبادی کے یہاں بھی شراب کے مضامین ملتے ہیں۔ مگر بالکل اسی طرح جس طرح عشق وجوانی کے مضامین۔ نظیرؔ زندگی اور اس کی نعمتوں او رلذتوں کو بڑے مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ جہاں کہیں شراب کے مضامین ہیں ان میں علامتی رنگ غالب ہے۔ آج کل ساغرؔ اور جوشؔ کے یہاں خمریات کا عنصر بہت کافی ہے۔ ان کی خمریات بالکل جگر کی خمریات سے ملتی جلتی ہیں۔ جوشؔ کے چند جرعے چکھئے یا پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ چڑھتے ہوئے نشہ کے تجزیہ کی کیسی کامیاب کوشش ہے۔ ساغرؔ جب پکارتے ہیں کہ ’’بھر بھر کے پیالوں میں جوانی دے دے’‘ تو وہ بھی شراب مانگتے ہیں۔ ان دونوں شعراء کے یہاں شراب ہی شراب ہے۔ اس میں علامتی رنگ بالکل نہیں۔ یہ مستی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور ان کا فلسفہ زندگی لذتیت سے تعمیر ہواہے۔


اس مستی کو نیا کہئے یا پرانا، اس میں اور قدماء کی مستی میں یقیناً فرق ہے لیکن اس کے علاوہ ایک اور قسم کی تبدیلی بھی صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔ واعظ و زاہد سے چھیڑ چھاڑ جو خمریات کا محبوب مضمون تھا اب ایک مستقل چیز ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں قدامت کے پجاریوں کا سب سے بڑا سہارا اور جدیدیت کی طاقتوں کو سب سے زیادہ سختی سے روکنے والا یہی زاہد یا واعظ ہے۔ ہماری رندانہ شاعری میں اس کی داڑھی پر پھبتی اڑائی جاتی تھی۔ اس کی ریاکاری کا پول کھولا جاتا تھا۔ اس کے ظاہر و باطن کا فرق دکھایا جاتا تھا۔ اب اکبرؔ، جوشؔ اور اقبالؔ نے ان کی ذہنیت پر سے نقاب اٹھایا ہے۔ چنانچہ اقبالؔ کے یہاں صوفی یا ملا یا زاہدیا سالوس کے خلاف بہت کچھ ملتا ہے۔


اکبرؔ ملا پر اس لیے چوٹ کرتے ہیں کہ وہ بہت بڑے طنز نگار ہیں اور جہاں کہیں انہیں فساد نظر آتا ہے، وہ بغیر اپنا نشتر استعمال کئے نہیں چوکتے۔ جوشؔ کی طنز میں قدیم اور جدید رنگ کا اتصال ملتا ہے۔ واعظ پر یہ اعتراض ہے کہ وہ شرابی کیوں نہیں۔ اقبالؔ اس سے اس لیے ناراض ہیں کہ وہ صحیح معنی میں مسلمان نہیں ہے اور وہ ملّت کی رہنمائی کے قابل نہیں رہا۔ اس کے علاوہ چکبست نے کہیں کہیں بادہ وساغر کے پردے میں مشاہدۂ حق کی گفتگو کی ہے اور ’’نوحۂ قومی‘‘ چھیڑا ہے۔ اپنے زمانہ کی نیم خود مختار حکومتوں کی طرف اس طرح اشارہ کرتے ہیں،


ایک ساغر بھی عنایت نہ ہوا یاد رہے
ساقیا جاتے ہیں محفل تری آباد رہے


یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے


آزادی کا یہ تصور پیش کرتے ہیں،


مئے گل رنگ لٹتی یوں درمیخانہ وا ہوتا
نہ پینے میں کمی ہوتی نہ ساقی سے گلا ہوتا


اقبالؔ نے سب سے پہلے خمریات کے پرانے کوچہ میں ایک نیا ساز چھیڑا ہے۔ بانگ درا میں وہ ساقی سے اس طرح خطاب کرتے ہیں،


نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتاہے
مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی


جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی


کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری
سحر قریب ہے اللہ کا نام لے ساقی


لیکن اس سے زیادہ اہم ان کا وہ ساقی نامہ ہے جو بال جبریل میں شامل ہے اور جس میں انہوں نے دور حاضر کے اہم مسائل پر تبصرہ کیا ہے۔ یہ ساقی نامہ اقبالؔ کی بہترین نظموں میں شمار کئے جانے کے قابل ہے۔ یہاں شاعر ساقی سے جو شراب مانگتا ہے، وہ زندگی، حرکت عمل، خودی کی بلندی اور انسان کی معراج سے عبارت ہے۔ اس کے ایک ایک شعر میں بڑے سے بڑا مضمون آ گیا ہے۔ بہار کی آمد ایک شعر میں بیا ن ہوتی ہے،


جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں
لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں


اقبالؔ کیا مانگتے ہیں۔ ملاحظہ ہو،
وہ مے جس سے روشن ضمیر حیات
وہ مے جس سے ہے مستیِ کائنات


وہ مے جس سے ہے سوز و ساز ازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے راز ازل


اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے


دور حاضر پر تبصرہ ملاحظہ ہو،


زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے


پرانی سیاست گری خوار ہے
زیں میر وسلطاں سے بیزار ہے


گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھاکر مداری گیا


گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے


مسلماں ہے تو حید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنّار پوش


تمدّن، تصوف، شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام


حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی


وہ چاہتا کیا ہے۔ یہ بھی سن لیجئے،


جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مراعشق میری نظر بخش دے


امنگیں مری آرزوئیں مری
امیدیں مری جستجو ئیں مری


مرے قافلہ میں لٹادے اسے
لٹادے ٹھکانے لگا دے اسے


موجودہ سیاسی انقلاب تہذیبوں کے نکھرنے کے بعد کی زندگی نے بادہ و ساغر کو ایک نیا کیف دیا ہے اور ہمارے تمام اچھے شاعروں نے مے کدے کی ویرانی، ساقی کی بے پروائی اور رندوں کی لغزش کے پردے میں زندگی کے حقائق بیان کیے ہیں۔ اس طرح زندگی کو بہلانے کی بھی کوشش کی گئی ہے اور اسے سدھارنے کی بھی۔


جوش نے حال میں ’’ساقی سے خطاب‘‘ میں موجودہ تنگ نظری پر بڑی خوبی سے طنز کی ہے۔ غزل گو شعرا بھی اس رنگ میں پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے ساقی و میخانے کے رمز و ایما میں جدید ہندوستان کے سنہرے خواب اور تلخ حقائق دونوں کو اس طرح سمو دیا ہے کہ ہر پیمانے میں ماہ تمام کی تجلی آ گئی ہے۔