اردو شاعری میں دیوالی کی پھلجھڑیاں
بھارت میں منائے جانے والے تمام تہواروں میں دیپائولی۔ سماجی اور مذہبی دونوں نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ .اسے دیپ اتسو بھی کہتے ہیں۔ اسے ہندووں کے ساتھ ساتھ سکھ، بودھ اور جین مذہب کے لوگ بھی مناتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ دیوالی کے دن ایودھیا کے راجہ شری رام چندر اپنے چودہ سال کے بن باس کے بعد واپس آئے تھے۔ اہل اودھ کا دل اپنے انصاف پرور راجہ کی آمد سے خوش تھا، لہٰذا ان کے استقبال کے لئے گھی کے دیئے جلائے۔ کارتک ماس کی گھنی، کالی اماوس کی وہ رات دیوں کی روشنی سے جگمگا اٹھی۔ تب سے آج تک بھارت میں بسنے والے، ہر سال یہ روشنی کا تیوہار خوشی ومسرت سے مناتے ہیں۔ یہ تہوار زیادہ تر اکتوبر یا نومبر مہینے میں پڑتا ہے۔ اسے دیوالی یا دیپائولی کہتے ہیں۔ دیوالی اندھیرے سے روشنی میں جانے کی علامت ہے۔ ہندوستانیوں کا یقین ہے کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے اور باطل کا ناش ہوتا ہے۔ دیوالی یہی سبق دیتی ہے۔ پورے ملک میں کئی ہفتہ قبل ہی دیوالی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ لوگ اپنے گھروں، دکانوں وغیرہ کی صفائی کا کام شروع کر دیتے ہیں۔ گھروں میں مرمت، رنگ وروغن، سفیدی وغیرہ کا کام ہونے لگتا ہے۔ لوگ دکانوں کو بھی صاف ستھرا کرتے ہیں اور سجاتے ہیں۔ بازاروں اور گلیوں کو بھی سنہری جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے۔ دیوالی سے پہلے ہی گھر محلے، بازار سب صاف ستھرے اور سجے دھجے نظر آتے ہیں۔ دیوالی کا دن کچھ خاص ہے دیپ جلانے کی رسم کے پیچھے الگ الگ وجہیں یا کہانیاں ہیں۔ رام بھکتوں کے مطابق دیوالی والے دن ایودھیا کے راجہ رام، لنکا کے ظالم حکمراں راون کا قتل کرکے ایودھیا لوٹے تھے۔ ان کے لوٹنے کہ خوشی میں آج بھی لوگ یہ تہوار مناتے ہیں۔ کرشن بھکت دھارا کے لوگوں کا مت ہے کہ اس دن شری کرشن نے ظالم راکشس راجہ کو قتل کیا تھا، جس کے سبب عوام میں بے پناہ مسرت پھیل گئی اور خوشی سے بھرے لوگوں نے گھی کے دیئے جلائے۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ اسی دن سمدرمنتھن کے بعد لکشمی و دھنوتر ظاہر ہوئے۔ جین عقیدے کے مطابق مہاویر سوامی کے نروان کادن بھی دیوالی کو ہی ہے۔ سکھوں کے لئے بھی دیوالی اہم ہے کیونکہ اسی دن امرتسر میں 1577 میں طلائی مندر (گولڈن ٹمپل) کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 1619 میں دیوالی کے دن سکھوں کے چھٹے گرو گوبند سنگھ جی کو جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ نیپال والوں کے لئے یہ تہوار اس لئے عظیم ہے کیونکہ اس دن سے نیپال میں نیا سال شروع ہوتا ہے۔ پنجاب میں پیدا ہوئے سوامی رامتیرتھ کی پیدائش دیوالی کے دن ہوئی اور انہوں نے دیوالی کے دن ہی گنگاتٹ پر غسل کرتے وقت 'اوم' کہتے ہوئے سماد ھی لے لی۔ مہرشی دیانند نے اسی روز آریہ سماج کی بنیاد رکھی۔ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور اقتدار میں دیوالی کے موقع پردولت خانے کے سامنے 40 گز اونچے بانس پر ایک بڑی قندیل لٹکائی جاتی تھی۔ بادشاہ جہانگیر بھی دیوالی دھوم دھام سے مناتاتھا۔ مغل خاندان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر دیوالی کو تہوار کے طور پر مناتے تھے اور اس موقع پر منعقد پروگراموں میں وہ حصہ لیتے تھے۔ شاہ عالم دوئم کے وقت میں پورے شاہی محل کو دیوں سے سجایا جاتا تھا اور لال قلعہ میں منعقد پروگراموں میں ہندو، مسلم دونوں حصہ لیتے تھے۔ دیوالی کی یہ تقریب سماجی ہم آہنگی کی مثال ہوتی تھی۔ کئی تہوار ساتھ ساتھدیوالی کے دن ہندوستان میں مختلف مقامات پر میلے لگتے ہیں۔ دیوالی ایک دن کا تہوار نہیں بلکہ تہواروں کا گروپ ہے۔ دیوالی میں لوگ نئے نئے کپڑے سلواتے ہیں۔ دیوالی سے دو دن قبل دھنتیرس کا تہوار آتا ہے۔ اس دن بازاروں میں چاروں طرف جم غفیر امنڈ پڑتا ہے۔ کچے برتنوں کی دکانوں پر خاص سازسجا کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ ’’دھن تیرس‘‘ کے دن برتن خریدنا، مبارک سمجھا جاتا ہے۔ اس دن ہر خاندان اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کچھ نہ کچھ خریداری کرتا ہے۔ اس دن گھر کے دروازے پر ایک چراغ جلایا جاتا ہے۔ اس سے اگلے دن چھوٹی دیوالی ہوتی ہے۔ اس دن چراغ جلائے جاتے ہیں۔ اگلے دن دیوالی آتی ہے۔ اس دن گھروں میں صبح سے ہی طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں۔ بازاروں میں پھل، بتاشے، مٹھائیاں، کھلونے، لکشمی، گنیش وغیرہ کی مورتیاں فروخت ہونے لگتی ہیں۔ جگہ جگہ پر آتشبازی اور پٹاخوں کی دکانیں آراستہ ہوتی ہیں۔ صبح سے ہی لوگ رشتہ داروں، دوستوں، کے گھر مٹھائیاں و تحفے بانٹنے لگتے ہیں۔ دیوالی کی شام لکشمی اور گنیش جی کی پوجا کی جاتی ہے۔ پوجا کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کے باہر چراغ و موم بتیاں جلا کر رکھتے ہیں۔ چاروں طرف چمکتے چراغ انتہائی خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ رنگ برنگے برقی بلب سے بازار و گلیاں جگمگا اٹھتے ہیں۔ بچے طرح طرح کے پٹاخوں اور آتش بازیوں سے لطف لیتے ہیں۔ رنگ برنگی پھلجھڑیاں، آتشبازیاں ا و ر اناروں کے جلنے کا لطف ہر عمر کے لوگ لیتے ہیں۔ پورا ماحول قمقموں اور چراغوں سے منور ہوجاتا ہے۔ دیوالی سے اگلے دن گووردھن ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے گائے، بیلوں کو سجاتے ہیں اور گوبر کا پہاڑ بنا کر پوجا کرتے ہیں۔ اس سے اگلے دن بھائی دوج ہوتا ہے۔ دیوالی کے دوسرے دن تاجر اپنی دکانوں پر لکشمی پوجا کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے دولت کی دیوی لکشمی، ان پر خصوصی نگاہ ڈالتی رہے گی۔ کسان طبقے کیلئے اس تہوار کی خاص اہمیت ہے۔ نئی فصل پک کر تیار ہو جانے سے کسانوں کے کھلیان امیر ہو جاتے ہیں۔ کسان سماج اپنی خوشحالی کا یہ تہوار مسرت کے ساتھ مناتا ہے۔ سماجی روایتیں بھارت میں دیوالی کے تہوار کی خاص سماجی اہمیت ہے۔ ظلمت پر روشنی کی فتح کا یہ تہوار معاشرے میں مسرت، بھائی چارے اور محبت کا پیغام پھیلاتا ہے۔ یہ تہوار اجتماعی و انفرادی دونوں طرح سے منایا جانے والا ایسا مخصوص تہوار ہے جو مذہبی، ثقافتی و سماجی انفرادیت رکھتا ہے۔ ہر صوبے یا علاقے میں دیوالی منانے کی وجہ اور طریقے مختلف ہیں مگر تمام جگہ کئی نسلوں سے یہ تہوار چلا آ رہا ہے۔ لوگوں میں دیوالی کی بہت امنگ ہوتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں کا کوناکونا صاف کرتے ہیں۔ نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ مٹھائیوں کے تحفے ایک دوسرے کو باٹتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ گھر گھر میں خوبصورت رنگولی بنائی جاتی ہے۔ دیے جلائے جاتے ہیں اور آتشبازی کی جاتی ہے۔ بڑے چھوٹے تمام اس تہوار میں حصہ لیتے ہیں۔ اردو میں نظمیں اردو شاعری چونکہ عوامی شاعری ہے لہٰذا اس میں تمام عوامی موضوعات بھی ملتے ہیں۔ اردو کے شاعروں نے ہندوستان کے تیج تہواروں پر جی کھول کر لکھا ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ دیوالی جیسے اہم ہندوستانی تہوار کے موضوع پر اردو شعراء نظمیں نہ کہیں۔ انھوں نے اسے نہ صرف اپنے اشعار میں استعارہ کے طور پر استعمال کیا ہے بلکہ اس تعلق سے نظمیں بھی کہی ہیں۔ ایسے شاعروں میں سب سے مشہور نام نظیرؔ اکبرآبادی کا ہے جنھوں نے عید، شب برأت، دسہرہ اور ہولی کی طرح دیوالی کے موضوع پر بھی بہت خوب لکھا ہے۔ ان کی ایک نظم کا عنوان ہی ’’دوالی‘‘ ہے، ہراِک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کاہراک طرف کو اجالا ہوا دوالی کاسبھی کے دل میں سماں بھاگیا دوالی کاکسی کے دل کو مزہ خوش لگا دوالی کاعجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کادیوالی کے موضوع پر شادؔ عارفی کی بھی ایک خوبصورت نظم ہے جس کا عنوان ’’دیوالی‘‘ہے۔ اس کے چند مصرعے درج ذیل ہیں،ہو رہے ہیں رات کے دیوں کے ہر سو اہتمامصبح سے جلوہ نْما ہے آج دیوالی کی شامہو چکی گھر گھر سپیدی دھْل رہی ہیں نالیاں پھرتی ہیں کوچوں میں مٹّی کے کھلونے والیاں بھولی بھالی بچّیاں چنڈول پاپا کر مگناپنی گڑیوں کے گھروندوں میں سجی ہے انجمنرسم کی ان حکمتوں کو کون کہہ دے گا فضولرکھ دیے ہیں ٹھیکروں میں خانہ داری کے اصول’’حلوہ ٔبے دود‘‘ کی تھالوں کا بحرِ بے کراں ’’کشتیاں‘‘ بہتی ہیں یا آ جا رہی ہیں ’’مہریاں‘‘ یہ جھمکّا کر چکا آراستہ جب طاق و درصحن سے زینے پہ دوڑا اور پہنچا بام پرجونہی ’’روکاروں پہ چھایا‘‘ تھوڑے تھوڑے فرق سے اوڑھ کر کملی سوادِ شام نکلا شرق سے بجھ گئی شمعِ شفق نظروں میں کہرا بھر گیاشام کا گیسو کھْلی آنکھوں پہ جادو کر گیاآنکھ مَلنا تھی کہ نظارہ پلٹ کر رہ گیاطور کا جلوہ چراغوں میں سمٹ کر رہ گیامختلف آنچل ہوا کے رْخ پہ بل کھانے لگے روشنی میں ساریوں کے رنگ لہرانے لگے یہ دِوالی کے مناظر، یہ نگاہیں کامیابیا الٰہی تا قیامت بر نہ آید آفتابدیوالی کے موضوع پر جن شعراء نے لکھا ہے ان میں ایک بیکلؔ اتساہی بھی شامل ہیں۔ بیکلؔ ان شعراء میں گنے جاتے ہیں جنھیں اپنی مٹی سے لگائو ہے اور ان کی شاعری کا مٹی سے گہرا جڑائو بھی ہے۔ انھوں نے دیپائولی کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے جس کا بعض حصہ درج ذیل ہے۔ کاہکشاں ہر شاخ کو ہر اِک پھول کو چاند بنانا ہے یوں اپنا باغ سجانا ہے کلیوں کا منہ چوم چوم کے پروائی اٹھلاتی ہے لہک لہک کے ہن کی دیوی سکھ کے گیت گاتی ہے فصلِ گل کی انگنائی میں امرت رس برسانا ہے یوں اپنا باغ سجانا ہے صبح کو شاخ لدی پھولوں سے بات کرے رعنائی سے شام کو دیکھا ٹوٹ چکی ہے اِک پلکی پروائی سے نازک ہیں احساس کی بانہیں غم سے انھیں بچانا ہے یوں اپنا باغ سجانا ہے ان نظموں کے علاوہ بھی اردو میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور جس طرح ہندو شعراء نے نعتیہ کلام لکھے ہیں اسی طرح مسلم شعراء نے بھی ہندو شخصیات اور تیج تہواروں پر نظمیں لکھی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اردو وسیع القلب لوگوں کی زبان رہی ہے اور ہندوستان کی مٹی سے اس کی وابستگی رہی ہے۔