اردو شاعری میں عورت کا شعور
اگر چہ برصغیر کے سماجی نظام میں یہ گنجائش بہت کم تھی کہ خواتین تخلیقی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر سکیں پھر بھی اس صدی کے دوران انہوں نے جو ادب تخلیق کیا اسے نظر انداز کر نا ممکن نہیں رہا۔ اس صدی میں خواتین نے جو ادب تخلیق کیا وہ اردو ادب کے ورثے میں بہت اہم اور باوقار اضافہ ہے۔ اس کے ذریعے سے تخلیقی اظہار کی کچھ ایسی جہتیں سامنے آئی ہیں جن کی وجہ سے ان کا خصوصی مطالعہ ضروری ہو گیا ہے۔ اس صدی کی ا بتداء سے خواتین نے تعلیمی اور تخلیقی سر گومیوں میں باقاعدہ حصہ لینا شروع کیا۔ لاہور سے محمدی بیگم (والدہ امتیاز علی تاج) رسالہ تہذیب نسواں نکال رہی تھیں۔ اس کا پہلا شمارہ یکم جولائی ۱۸۹۸ء کو منظر عام پر آیا۔ ۱۹۰۴ء میں علی گڑھ سے ماہنامہ خاتون جاری ہوا۔ یہ رسالہ شیخ محمد عبداللہ اور ان کی بیگم نے جاری کیا تھا یہ وہی شیخ عبداللہ اور بیگم عبداللہ ہیں جو مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے زبردست حامی تھے اور انہوں نے تعلیم نسواں کی تحریک کو آگے بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہی کی کوششوں سے ۱۹۰۶ء میں لڑکیوں کا پہلا اسکول علی گڑھ میں قائم ہوا۔ خواتین کے رسائل اور خصوصاً ۱۹۰۸ء میں رسالہ ’’عصمت‘‘ کے اجراء کے بعد لکھنے والی خواتین اردو ادب کے منظر نامے میں باضابطہ طور پر داخل ہوئیں۔ یہ رسائل وہ معتبر حوالے ہیں جس سے ابتدائی دور کی خواتین کی تخلیقات اور ان کے فکر و شعور کا پتہ چلتا ہے۔ ان لکھنے والیوں میں نذر سجاد حیدر، صغریٰ ہمایوں، فاطمہ بیگم، بیگم اختر سہروردی، شائستہ اکرام اللہ او رشاعرات میں ز۔ خ۔ ش۔ (زاہدہ خاتون شیروانیہء)، صفیہ شمیم ملیح آبادی، رابعہ پنہاں اور بلقیس جمال جیسی شاعرات شامل ہیں۔ ز۔ خ۔ ش اردو شاعری کا بہت اہم نام ہیں۔ یہ پہلی شاعرہ ہیں جنہیں ان کی توانا فکر اور طرز کلام کی وجہ سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر چہ انہوں نے اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کی پوری کوشش کی، کئی بار نام تبدیل کئے، کچھ عرصے تک نہ چھپنے کا فیصلہ بھی کیا مگر ان کی نظموں نے قارئین کو متوجہ کیا ان کی ایک نظم جو محمڈن یونیورسٹی کے لئے چندے کی اپیل کے سلسلے میں رسالہ ’’عصمت‘‘ کے اکتوبر ۱۹۱۲ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی بہت مقبول ہوئی۔ اس نظم کا ایک شعر دیکھئے۔ اے فخر قوم بہنو عصمت شعار بہنومردوں کی ہو ازل سے تم غم گسار بہنو۱۹۲۲ء میں ان کی وفات پر علامہ راشدالخیری نے لکھا تھا،’’وہ اس پائے کی عورت تھیں کہ آج مسلمانوں میں اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ علاوہ ذاتی قابلیت کے جوان کے مضامین نظم و نثر سے ظاہر ہوتی ہے ان کا دل قوم کے درد سے لبریز تھا۔‘‘ ز۔ خ۔ ش۔ نے کم عمر پائی۔ وہ دسمبر ۱۸۹۸ء میں پیدا ہوئیں اور ۲۴ سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ ان کے کلام کے دو مجموعے ’’آئینہ حرم‘‘ اور ’’فردوس تخیل‘‘ منظر عام پر آئے۔ فردوس تخیل کو انہوں نے اپنی زندگی میں مرتب کر دیا تھا۔ مگر یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ ۳۸۲ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ۱۲۱ نظمیں شامل ہیں جو متنوع مضامین اور تخلیقی اظہار کی وجہ سے ان کی شعری ذہانت اور قادر الکلامی کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی غزلیں اس مجموعہ میں شامل نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کے ایماء پر غزلوں کو جلا دیا گیا تھا۔ ز۔ خ۔ ش۔ ایک باشعور اور تعلیم یافتہ شاعرہ تھیں۔ وہ تمام عمر اس بات پر نالاں رہیں اور اس کا اظہار کرتی رہیں کہ عورت کی راہیں بند کر دی گئی ہیں۔ خود انہیں اپنی سیاسی او ر سماجی نظریات کی مکمل آزادی نہیں تھی۔ سیاسی نظریات کے اظہار میں والد کی انگریز پرستی اور داخلی کیفیات کے بیان میں خاندانی روایات حائل رہیں۔ وہ لکھتی ہیں۔ عورتوں کے حق میں ہر مذہب کا ہر ملت کا فردجانور تھا، دیوتا، عفریت تھا، شیطان تھاباپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو کہ ہو فرزند وہمرد کل اشکال میں فرعون بے سامان تھامرد کی نا آشنا نظروں میں عورت کا وجوداک مورت ایک کھلونا ایک تن بے جان تھاوہ خواتین کو بھی متحرک ہونے کی دعوت دیتی ہیں۔ نہ آئے گی نہ آئے گی نظر صورت ترقی کینہ ہوں گے ہم جو میدان عمل میں رونما بہنوز۔ خ۔ ش۔ کے بعد رابعہ پنہاں اور بلقیس جمال دونوں بہنیں وہ شاعرات ہیں جن کی شاعری میں نسائی اظہار اور نسائی شعور نمایاں ہے۔ رابعہ پنہاں ۱۹۰۶ء میں پیدا ہوئیں اور ۱۹۷۲ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی غزلیں ان کے ہم عصر مرد شعراء کے طرزِ اظہار سے مختلف نہیں تاہم ان کی کیفیات اور تجربات ایک عورت کے جذبات کے آئینہ دار ہیں۔ مثلاً یہ شعر پڑھیے۔ میری تو ہر نگاہ ہے وقف عبودیتوہ ہر ادا میں حسنِ کلیسا لئے ہوئے مردانہ حسن کے لیے حسن کلیسا اور نگاہ کا وقف عبودیت ہونا نسائی اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ رابعہ پنہاں کا ایک اور شعر دیکھئے۔ دل پر خوں نے بخشا رنگ چشم فتنہ ساماں کوسنوارا میری وحشت نے تری زلفِ پریشاں کووحشت میں محبوب کی زلفیں سنوارنے کا خیال کوئی شاعرہ ہی باندھ سکتی ہے۔ رابعہ پنہاں نے اپنی نظم ’’عورت سے خطاب‘‘ میں عورت کو براہ راست دعوت عمل دی ہے، وہ لکھتی ہیں۔ ہے تضادِ زندگی تیرا معمائے عجیبچشم ظاہر بیں پہنچ سکتی نہیں تیرے قریببلقیس جمال کا مجموعہ کلام عصمت بک ایجنسی نے ۱۹۳۳ء میں آئینہ جمال کے نام سے شائع کیا۔ انہوں نے صرف ۱۳ سال کی عمر میں غزل لکھ کر سونے کاتمغہ حاصل کیا۔ بلقیس جمال کو زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کی شاعری میں اعلیٰ جمالیات اور خوبصورت اظہار نمایاں ہے، ان کی غزل کے اشعار ہیں۔ اسے پاتی بھلا عقل رسا کیاہماری فہم و ادراک و ذکا کیاگریباں چاک اور پلکوں پہ آنسوسحر ہوتے ہی پھولوں کو ہوا کیانہیں ہے جو اسی کو ڈھونڈتی ہوں جمالہ اس جنوں سے فائدہ کیاانہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں میں تانیث کا صیغہ استعمال کیا ہے ان کی زیادہ تر نظموں کا حوالہ اور موضوع خواتین ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں متعدد شاعرات طبع آزمائی کر رہی تھیں۔ جمیل احمد کی کتاب ’’تذکرہ شاعرات‘‘ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی اس میں ۲۰۰ سے زائد ایسی شاعرات کا ذکر ہے جن کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ عفت مآب ’’اس بازار سے نہیں تھیں‘‘ اگر چہ اس بازار سے تعلق رکھنے والی خواتین میں مہ لقابائی چندا، جیسی شاعرہ بھی پیدا ہوئی مگر ان کے اور ان تمام شاعرات کے کلام پر شک و شبہے کا اظہار کیا گیا۔ ان شاعرات سے منسوب کلام کو ان کے استاد اور پرستاروں کا تحفہ سمجھا گیا۔ اس سلسلے میں مہ لقا بائی چندا کو استثنیٰ قرار دیا گیا ہے لیکن ان کے لیے بھی دو خیالات پائے جاتے ہیں کیو نکہ وہ علم وفضل میں یکتا تھیں اور شعر و سخن کا علم رکھتی تھیں۔ اس لئے کئی معتبر نقادان کی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ مہ لقا بائی چند اکا ذکر یہاں اس لئے آگیا ہے کہ انہیں اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کا دیوان ۱۸۹۸ء میں مرتب ہوا۔ ان کے لئے شفقت رضوی لکھتے ہیں۔ ولی ؔ کے بعد سراج او رسراج کے بعد چندا تاریخی تسلسل میں سامنے آتے ہیں تو زبان اور بیان کی منزلیں طے ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ ولی ؔ کے صفائی زبان کے سب معترف ہیں۔ سراج ؔ نے اس کو مزید نکھارا، سنوارا، چندا کے ہاں ترقی کی تکمیل نظر آتی ہے، جس میں محبوبانہ نسوانیت کی آمیزش بھی ہے۔ وہ بڑی شاعرہ نہ سہی اچھی شاعرہ ضرور تھی۔ مہ لقابائی چندا کے چند اشعارغمزہ و ناز و ادا شیوہ ہے خوبوں کا مگرہر سخن میں روٹھ جانا کون سا دستور ہے کوہ کن پر بھی کیا جور مگر شیریں نے تو نے اس طرح کیا ہے مجھے بیزار کہ بسگل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے چندا کی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین شاعرات ہر عہد میں موجود تھیں۔ شریف گھرانوں کی جو خواتین اس دور میں لکھ رہی تھیں ان کو اپنے کلام کو سنانے تو کیا شائع کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ خواتین کے ابتدائی رسالوں میں لکھے ہوئے مضامین شائع ہوتے تھے۔ مگر شاعری مردوں کی ہی ہوتی تھی۔ شاعرات میں ز۔ خ۔ ش۔ رابعہ پنہاں، بلقیس جمال کے علاوہ صفیہ شمیم ملیح آبادی، کنیز فاطمہ حیا، خورشید بانو، وہ نام ہیں جو رسائل میں شائع ہوئے اور پاکستان بننے کے بعد ان خواتین نے مشاعروں میں حصہ بھی لیا۔
پاکستان بننے کے بعد خواتین کو لکھنے کے لئے ساز گار ماحول ملا۔ خواتین کو مساوی حقوق دینے کے بعدجو تحریک ترقی پسند تحریک کے ساتھ چلی تھی اس کے اثرات برصغیر میں نمایاں ہونے شروع ہوئے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اد اجعفری شاعری کے افق پر پہلا معتبر اور مستند حوالہ بن کر ابھریں،ان کا پہلا مجموعہ ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ کے دیباچے جس پر یکم فروری ۱۹۴۷ء کی تاریخ ہے قاضی عبدالغفار لکھتے ہیں۔ ’’یہ واقعہ کہ جدید ادب کے تقاضوں نے ہمارے ملک کی خواتین کو اپنی طرف رجوع کر لیا ہے۔ ہندوستان کے موجودہ دور کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ قدامت اور جمود کے خلاف عوامی افکار نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس کے صحیح ہونے کا ثبوت اس سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ خواتین جو عموماً ہر قوم میں سب سے زیادہ قدامت پسندہوا کرتی ہیں اب زمانے کے تقاضوں سے متاثر ہو رہی ہیں اور ان کا ادب اور ان کی شاعری عمومی افکار کی آئینہ دار بننے پر آمادہ ہو گئی ہیں۔ ادا بدایونی جیسی خواتین کا یہ رجحان ادب کا نشانِ راہ ہے جس سے ہم ا س منزل کا پتہ پاتے ہیں جہاں ملک کے ذہنی انقلاب کی تمام قوتیں مجتمع ہو رہی ہیں۔۔۔‘‘ ادا جعفری کی شاعری میں روایت کا شعور اور نئے طرز احساس کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جس نے انہیں ہم عصر لکھنے والوں میں ممتاز کیا۔ پڑھنے والوں نے محسوس کیا کہ ان کی شاعری تمام مروجہ اسلوب، روایات کے مطابق ہونے کے باجود کچھ مختلف بھی ہے۔ ان کی شاعری نے یہ واضح کر دیا کہ شاعرات جو لکھ رہی ہیں ان میں ایک طرح کی تازگی ہے۔ یہ تازگی اپنے احساسات، کیفیات اور تجربات کی بنیاد پر پیدا ہوئی ہے کسی تجرباتی داؤ پیچ سے نہیں۔ انہوں نے شاعری میں سادگی، بے ساختگی کے ساتھ مختلف معنی و مضامین کا اضافہ کیا ہے۔ ادا جعفری کے چند اشعار دیکھئے۔ سب اجنبی ہوئے ہیں تو پہچان کے لئے کوئی وفا کو حوصلۂ بے وفائی دے دیکھو ادا کہ درد کی زنجیر ایک ہے اب کون کسی کو خلعت ناآشنائی دے نہ تم ملے نہ خود سے سامنا ہواسنا یہ تھا دل آئینہ صفات ہے قدم قدم پر خوف ہمسفر اداؔنہ جانے اور کتنی دور ساتھ ہے ادا ؔ جعفری کی شاعری میں ر وایت کا شعور اور نئے طرز احساس کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جس نے انہیں ہم عصر لکھنے والوں میں ممتاز کیا۔ وہ پہلی شاعرہ ہیں جنہوں نے نسائی ادب کو Significant بنایا۔ ادا جعفری کی خود نوشت ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ اس بات کی تائید کرتی ہے کہ وہ نہ صرف خواتین کے ادب سے واقف ہیں بلکہ نسائی اظہار پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ اپنی خود نوشت میں انہوں نے ایک تفصیلی باب انگریزی کے دو شاعرات ایملی ڈکنسن اور سلویا پلاتھ کے بارے میں لکھا ہے۔ یہ دونوں شاعرات نسائی شاعری کی بہترین مثالیں ہیں۔ انہوں نے ان کو پوری تفہیم کے ساتھ پڑھا ہے اور ان کا بہت خوبصورت تجزیہ کیا ہے۔ ایملی ڈکنسن کی شاعری اور زندگی دونوں میں ہی ایک مانوس مشرقیت ملتی ہے۔ اس کی شاعری کو اس کی زندگی کا روز نامچہ کہا جاسکتا ہے۔ سلویا پلاتھ کی شاعری اس کے اعترافات کی حیثیت رکھتی ہے جو اگر چہ اس کے اپنے احساسات و تجربات کی ترجمان تھی لیکن اس کے انداز بیان نے اس کے دکھوں کو صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رکھا۔ وہ اپنی شدت جذبات میں اپنی قاری کو بھی شریک کرتی چلی جاتی ہے۔ ہر سچے اور بڑے شاعر کی شاعری اس کی سوانح عمری ہوتی ہے۔ لیکن صرف سوانح عمری ہی نہیں ہوتی۔ سلویا کی شاعری اسی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ وہ پہلی مغربی شاعرہ تھی جس نے پہلی بار کھل کر ایک با شعور مکمل عورت کے جذبات کو عورت کے نقطۂ نظر سے پیش کیا۔ جب کہ ایملی ڈکنسن کبھی مکمل عورت نہیں بن سکی۔ وہ ترک دنیا کر کے گویا دوبارہ رحم مادر میں پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ خواتین کی شاعری میں نسائی زاویہ نگاہ کی جو تحریک چلی اسے نقطہ عروج تک یقیناًسلویا کی شاعری نے پہنچایا۔ اس نے عورت ہونے کے تمام سہانے اور ڈرؤانے منظر دیکھے اور برتے تھے اور ان کو بیان کرنے کی جرأت بھی رکھتی تھی۔ ایک نظم میں کہتی ہے۔ ’’کسی دیوتا نے میرے بالوں کو جڑوں تکگرفت میں لے کر مجھ پر قابو حاصل کر لیااور میں صحرا میں کسی سنت سادھو کی طرحاس کے برقی شکنجے میں پھنسی رہی‘‘ اس نے عورت کی نامرادی اور مظلومی کو اپنا موضوع سخن بنایا۔ اگر چہ وہ شاعری میں مردانہ اور زنانہ خانوں کے خلاف تھی۔ اس نے لکھاہے کہ ’’میرا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ میں عورت پیدا ہوئی‘‘ کہتی ہے۔ ’’ایک مسکراہٹ گھاس پر گر گئیاس کی واپسی ممکن نہیں‘‘ نسائی ادب کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی شاعری ایک نئے طرز احساس کی جانب سفر کرتی نظر آتی ہے جس میں عورت کے اپنے وجود کا بھرپور احساس نمایاں ہے۔ فہمیدہ کی عورت دوسروں کے وجود کا سایہ نہیں بلکہ مکمل شخصیت کے طور پر ابھرتی ہے۔ انہوں نے روایتی رویوں سے کنارہ کشی کی اور ایک نئی فضا میں سانس لینے کی کوشش کی۔ مغرب کے ادبی رجحانات کااثر بھی ان کی شاعری پر ہے۔ وہ بیک وقت کارل مارکس اور فرائیڈ دونوں سے متاثر نظر آتی ہیں۔ ان کے ور سٹائل ہونے میں علاقائی کلچر سے ان کی وابستگی کا بھی بڑا دخل ہے۔ فہمیدہ ریاض کے رپورتاژ اور ناولوں کوبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بدلتے ہوئے دور کے تضادات اور تقاضوں کا واضح ادراک رکھتی ہیں۔ ان کی تخلیقات گہرے سماجی شعور کی آئینہ دار ہیں۔ فہمیدہ کو مزاحمتی ادب کے حوالے سے بھی نمایا ں مقام حاصل ہے۔ ان کی مزاحمتی شاعری کی کئی جہتیں ہیں۔ فہمیدہ ریاض نے ایسے موضوعات پر بھی لکھا ہے جو بہت تلخ تھے۔ خواتین ان پر سوچتی تھیں مگر اظہار نہیں کرتی تھیں۔ خواتین کو خون خرابے اور فساد کی جڑ لکھا جاتا رہا ہے اور ایسا مال غنیمت سمجھا گیا ہے جس کی چھینا جھپٹی فساد کا سبب بن گئی ہے۔ مگر یہ کبھی نہیں دیکھاگیا کہ وہ بھی انسان ہے، اس کی بھی سوچ اور ذہن ہے وہ کوئی اثاثہ نہیں ہے جسے تقسیم کر دیا جائے یا تحفہ میں دے دیا جائے۔ نظم ’’اقلیما‘‘ میں ایسی سوچ کا اظہار بڑی شدت سے کیا گیا ہے۔ ’’مقابلہ حسن‘‘ فہمیدہ کی ایسی نظم ہے جس پر کافی لے دے مچی مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ نظم ایک ایسے روئیے کی طرف بھر پور احتجاج ہے جو صدیوں سے عام رہا ہے۔ عورت کا جسم ادیب، شاعر، مصور، مجسمہ ساز سب کا موضوع رہا۔ جب کہ عورت کا ذہن اگر موضوع بنا تو مزاح کے ساتھ۔ اس طرح عورت صرف تفریح اور تزئین و آرائش کی شے بن کر رہ گئی۔ فہمیدہ نے اس نظم میں اس رویے کی طرف شدید رد عمل کا اظہار کیا اور جس کے نتیجہ میں ان کے خلاف ایک محاذ بنایا گیا۔ اقلیمااقلیماجو ہابیل کی قابیل کی ماں جائی ہے ماں جائیمگر مختلفمختلف بیچ میں رانوں کے اور پستانوں کے ابھار میں اور اپنے پیٹ کے اندراپنی کوکھ میں ان سب کی قسمت کیوں ہے ایک فربہ بھیڑ کے بچے کی قربانیوہ اپنے بدن کی قیدیتپتی ہوئی دھوپ میں جلتے ٹیلے پر کھڑی ہوئی ہے پتھر پر نقش بنی ہے اس نقش کو غور سے دیکھولمبی رانوں سے اوپرابھرے پستان سے اوپرپیچیدہ کوکھ سے اوپراقلیما کا سر بھی ہے اللہ کبھی اقلیما سے بھی کلا م کرے اور کچھ پوچھے!(فہمیدہ ریاض) مقابلہ حسنکولہوں میں بھنور جو ہیں تو کیا ہے سر میں بھی ہے جستجو کا جوہرتھاپا رہء دل بھی زیر پستاں لیکن مرا مول ہے جوان ہے گھبرا نہ یوں گریز پا ہوپیمائش میری ختم ہو جباپنا بھی کوئی عضو ناپو! (فہمیدہ ریاض) کشور ناہید نے واضح طور پر نسائی شعور کی نشاندہی کی اور اسے متعارف کرانے میں ایک مؤثر کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف اس رجحان کو تخلیقی شکل دی بلکہ مغرب کے نسائی ادب پاروں کا ترجمہ بھی کیا۔ انہوں نے نسائی ادب میں ایک اہم نام سیمون دی بوائر کی معرکتہ الآرا Second Sex سے ماخوذ ایک کتاب لکھی ہے۔ ’’عورت زباں خلق سے زباں حال تک‘‘ ان کی ایک بہت اہم Compilaion ہے۔ ’’بری عورت کی کتھا‘‘ جو ان کی خود نوشت ہے، بہت فکر انگیز ہے۔ کشور ناہیدنے براہ راست عورت کے جذبات اور مسائل کو موضوع بنایا اور پورے شعورو ادراک کے ساتھ اپنی شاعری میں ان سماجی رویوں پر احتجاج کیا جن کا شکار خواتین تھیں۔ کشور کی شاعری نسائی شعور کی مزاحمتی شاعری ہے۔ ’’ہم گناہ گار عورتیں‘‘ ان کی نظموں میں ایک بہت اہم مثال ہے۔ ہم گنہگار عورتیں ہیں جو اہل جبّہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگوہ سر فراز ٹہریں نیابت امتیاز ٹہریں وہ داورِ اہل ساز ٹہریں یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ سچ کا پرچم اٹھا کے نکلیں تو جھوٹ سے شاہراہیں اٹی ملے ہیں ہر ایک دہلیز پہ سزاؤں کی داستانیں رکھی ملے ہیں جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملے ہیں یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گیکہ اب جو دیوار گر چکی ہے اسے اٹھانے کی ضد نہ کرنایہ ہم گنہگار عورتیں ہیں جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں (کشور ناہید) کشور ناہید کی شاعری میں خصوصاً نثری نظموں میں نسائی شعور اور تلخ حقائق ابھر کر سامنے آتے ہیں جن سے اس عہد کی خواتین دو چار ہیں۔ نثری نظم کی شاعرات میں نسرین انجم بھٹی۔ عذرا عباس، سیما خان اور کزئی، شائستہ حبیب، سارا شگفتہ، تنویر انجم نے نسائی شعور کو مزید وسعت دی۔ نثری نظم کی صورت میں انہیں تخلیقی اظہار کے لئے ایسا کینوس ملا جو نئے روئیے سے ہم آہنگ ہے۔ پروین شاکر کانام اردو شاعری کے حوالے سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے ان لہروں کو محسوس کیا جو مغرب سے مشرق کی طرف آرہی تھیں اور اس میں نسائی شعور کی لہر سب سے زیادہ طاقتور تھی۔ پروین شاکر کی شاعری میں ان لطیف جذبات اور مخصوص کیفیات کا اظہار ہے جو عورت کی شخصیت سے عبارت ہے۔ پروین شاکر کی شاعری پر کم لکھا گیا ہے اور باتیں زیادہ بنیں۔ وہ بھی صرف رومانی شاعری پر مگر ’’احتساب‘‘ جیسی نظموں کوبالکل نظر انداز کیا گیا۔ مرد نے ہمیشہ جنگ کو اہمیت دی اور خواتین نے امن کو۔ خواتین کے محبت و امن کے رویے کو ان کی بزدلی قرار دے کر مذاق اڑایا گیا۔ اس نظم میں دو واضح خوبیاں ہیں ایک تو جنگ اور اسلحے سے نفرت کا اظہار، مگر نفرت کے لہجے میں شاعرانہ نزاکت قائم ہے۔ دوسری طرف تراکیب و استعارات میں وہ لفظیات جو عورت کی ہی ہو سکتی ہے مرد کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نوجوان لڑکیوں میں بہت مقبول ہوئیں۔ مگر ان جذبوں کو جو معنی دئیے گئے وہ اس معصوم اظہار سے مختلف تھے جو نو عمری کے جذبات ہوتے ہیں۔ احتسابہوا۔۔۔ جو گندم کی پہلی خوشبو کے لمس سے لے کے کڑوے بارود کی مہک تکزمیں کے ہمراہ رقص میں تھیگماں یہ ہوتا ہے اس رفاقت سے تھک چکی ہے اور اپنی پازیب اتار کراجنبی زمینوں کی سرد بانہوں میں سو رہی ہے فضا میں سناٹا دم بخود ہے!ہوا کی خفگی ہی بے سبب ہے کہ ابن آدم نے اپنے نیپام سے بھی بڑھ کرکوئی نیا بم بنا لیا ہے؟(پروین شاکر) شاہدہ حسن کی غزلوں میں ہمارے عہد کی جھلک، کیفیات کی لہر اور لہجے کی تازگی ہے جس نے انہیں ہم عصر لکھنے والوں میں نمایاں کیا۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں نسائی لہجہ اور شعور نمایاں ہے۔ شاہدہ حسن کے یہاں خواتین کا ایک باوقار اور میچور اظہار ملتا ہے جس میں گھر، ماحول او ر سماج سے سمجھوتہ بھی ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خلش بھی۔ وہ ایک حساس شاعرہ جو سوچنے والا ذہن رکھتی ہے، ان کی غزلوں میں بھی نظر آتی ہے اور اس نظم میں بھی جہاں وہ اپنی ذمہ داریوں اور محبتوں میں خود تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کی غزل سے جو اشعار بہت مشہور ہوئے ان کے خوب صورت اظہار کے ترجمان ہیں،کون کہاں ہے؟حسن کہاں ہے؟تازہ دھوپ کی خوشبو میں یا ضدی رات کے گیلے تکیے پر!شور کہاں ہے؟دل کے لمبے آنگن میں یا عمر کی آدھی سیڑھی پر!آنکھ کہاں ہے؟میکے کے سونے دالان میں یا خاوند کے ہاتھ میں ٹھنڈی چائے کی پیالی پر!خوشی کہاں ہے!بیٹے کی کلکاری میں یا بچھڑے ہوئے محبوب کی یادوں میں!(شاہد ہ حسن) اور غزل کے اشعار،میں نے ان سب چڑیوں کے پر کاٹ دئیے جن کو اپنے اندر اڑتے دیکھا تھاڈھونڈتی تھیں شام کا پہلا ستارہ لڑکیاں کھیل کیا تھا بس یہ اک خواہش کہیں جانے کی تھیشبنم شکیل کی نظم ’’بانجھ پن کی دعا‘‘ میں عورت کی لفظیات، اس کا لہجہ اور تجربہ پوری طرح سامنے آیا ہے۔ یہ نظم خواتین کے طرز اظہار کی بہترین نمائندہ ہے جو صرف نسائی تجربے کی بنیاد پر لکھی جا سکتی ہے۔ بانجھ پن کی بد دعالو رات دردِزہ میں ہوئی پھر سے مبتلادردِ قدیم اس کا مقدر ازل سے ہے چہرہ سیاہ پڑنے لگادرد کرب سے رگ رگ میں دوڑتا ہوانس نس میں پھیلتا ہوااک خوف بھی ہے ساتھوہ موت اور حیات کی اس کشمکش میں ہے جو لازمی ہے اک نئی تخلیق کے لئے بس تھوڑی دیر ہی میں جنم دے چکے گی یہلتھڑا ہوا شکوک میں بے اعتبارِ دناور اس کو دیکھ کرآئے گی اس کے لب پر فقط ایک بد دعاساقط ہوا گلی بار حمل اس کا اے خدا(شبنم شکیل) ثمینہ راجہ نے جس فیوڈل ماحول میں پرورش پائی وہاں محبت جیسے جذبوں پر بہت سخت پہرے ہوتے ہیں۔ وہاں جرم محبت کی سزا موت ہے۔ عورت خواہ کسی بھی عمر کی ہو اس کی آزادی کا کوئی تصور نہیں۔ وہ صرف ملکیت ہوتی ہے اور ملکیت صرف مالک کا حق ہے۔ وہ اس وقت تک خوش رہ سکتی ہے جب تک اسے اپنے ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ نظم ایسی گھٹن کی آئینہ دار ہے جس میں ہمارے یہاں کی لڑکیاں پروان چڑھتی ہیں۔ قیداضطراب آمیز تاریکییہ ویرانییہ خاموشی، گھٹن، مردہ دلی، ویراں نگاہی، بے بسیمیں سوچتی ہوں، اس سے پہلے دلکشادہ اور روشن کائناتوں کا پرندہ تھافضا میں رنگ تھے، خوشبو تھی، فرحت تھیبدن آزاد تھااور روح بھی آزادمیرے گردزہریلی، اندھیری رات جیسییہ فضا کب تھینگاہیں، زندگی کے حسن سے لبریز تھیں اور سب حسین چہرے تھے آنکھوں کے لئے انعام فطرت کامگر اب ہر طرف وہ ایک ہی چہرہوہی یکساں مناظراور ہر اک چیز پر پردے نگاہوں پر کڑے پہرے کہ یہ دل، یہ بدن، یہ روح، سب محبوس ہیں اس کی محبت میں (ثمینہ راجہ) ان چند شاعرات کے حوالے میں نے نسائی شعور اور اس کے اظہار کی مثال کے طور پر پیش کیے ہیں ان کے علاوہ گذشتہ صدی سے آج تک متعدد شاعرات اردو ادب میں گرانقدر اضافہ کر رہی ہیں اوراپنی فکر و شعور کی وجہ سے الگ پہچان رکھتی ہیں۔ گذشتہ صدی میں خواتین ناول اور افسانہ نگاروں نے جو کارنامے انجام دئیے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے فن کا لوہا منوایا بلکہ اردو ادب کا دامن معرکتہ الآراء ناولوں سے بھر دیا۔ پہلی خاتون ناول نگار ’’رشیدہ النساء‘‘ ہیں جنہوں نے ۱۸۸۱ میں ناول ’’اصلاح النساء‘‘ لکھا تھا۔ ڈپٹی نذیر احمد اور اس دور کے دیگر ناول نگاروں کی طرز پر لکھا ہوا یہ ناول ان کے صاحب زادے محمد سلیمان نے ۱۹۹۴ء میں شائع کیا۔ جب وہ ولایت سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر کے واپس آئے۔ اس کی ابتدائی اشاعتوں پر مصنفہ کے بجائے والدہ محمد سلیمان لکھا گیا ہے۔ یہ کتاب نایاب تھی اس کا نیا ایڈیشن ۲۰۰۰ء میں مصنفہ کے اصل نام سے چھپا ہے۔ اصلاح النساء کی اشاعت میں ۱۳ سال کی تاخیر، اس کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں مصنفہ کا نام نہ ہونا اور سارے مردانہ رشتوں کے حوالے اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ انیسویں صدی کے اختتام تک ادب کے میدان میں قدم رکھنا محال تھا۔ تا ہم بیسویں صدی کے وسط میں خواتین ناول نگارں نے وہ معرکہ انجام دیا کہ اردو ادب کی تاریخ ان کے ناول اور افسانوں کے حوالے کے بغیر لکھنا ممکن نہیں رہا۔ عصمت چغتائی کا ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ اور قرۃ العین حیدرکا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اردو کے اہم ترین فن پاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان سے پہلے بیگم نذر سجاد حیدر اور بیگم حجاب امتیاز علی تاج کی تحریریں پڑھنے والوں کی توجہ حاصل کرچکی ہیں۔ مگر عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کے ناولوں اور افسانوں نے قارئین اور ناقدین پر مطالعے کے نئے باب کھولے۔ عصمت چغتائی کا ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ اور افسانہ ’’لحاف‘‘ نسائی اظہار کی بہت واضح مثال ہے۔ ٹیڑھی لکیر میں عصمت چغتائی نے بہت جرأت سے اس نسائی شعور کا اظہارکر دیا ہے جو اس وقت تک نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ اسی طرح قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ ایک ایسا ناول ہے جو پوسٹ ماڈرن فیمنسٹ نقادوں کے مطابق جن میں ژولیا کر سٹیوا سر فہرست ہیں، عورت کے تصور وقت کی مثال پیش کرتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں اور افسانوں میں نسائی شعور کا مکمل ادراک و اظہار ملتا ہے اور کہیں کہیں بہت نمایاں ہو جاتا ہے۔ ’’اگلے جنم موہے بٹیانہ کی جیو‘‘ اس کی مثال ہے۔ ترقی پسند تحریک خواتین کے لئے خصوصاً افسانہ نگار اور ناول نگار خواتین کے لئے بہت ساز گار ثابت ہوئی جس نے ڈاکٹر رشید جہاں، صدیقہ بیگم سہاروی، عصمت چغتائی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور جیسی لکھنے والیوں کو سامنے لا کر یہ غلط فہمی دور کر دی کہ خواتین کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتیں۔ خدیجہ مستور کے ناول ’’آنگن‘‘ کی پذیرائی ہوئی۔ ان کے فوراً بعد جمیلہ ہاشمی کے ناول ’’تلاش بہاراں‘‘ اور ’’دشت سوس‘‘ الطاف فاطمہ کا ناول ’’دستک نہ دو‘‘ رضیہ فصیح احمد کا ناول ’’آبلہ پا‘‘ مقبول ہوئے۔ ہاجرہ مسرور، بیگم اخترجمال، نثار عزیز بٹ، خالد ہ حسین، فرخندہ لودھی کی تحریروں نے ادبی مقام حاصل کیا۔ بانو قدسیہ اپنے افسانوں، ناولوں اور ڈراموں کے ساتھ ادبی افق پر نمودار ہوئیں اور بہت معتبر حوالہ بنیں۔ زاہدہ حنا۔ رشیدہ رضویہ، فردوس حیدر، نیلم بشیر احمد، نگہت حسن افسانے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں فہمیدہ ریاض کی کہانیوں کا مجموعہ ’’خط مرموز‘‘ اور عذرا عباس کا مجموعہ ’’راستے مجھے بلاتے ہیں‘‘ سامنے آیا ہے جن میں نسائی شعور نمایاں ہے۔ میری کہانیوں کے مجموعے ’’کہانیاں گم ہوجاتی ہیں‘‘ کے دیباچے میں ضمیر علی نے ان کہانیوں کو نسائی شعور کی مثال قرار دیا ہے۔ ہندوستان میں واجدہ تبسم اور جیلانی بانو نے ان موضوعات کا احاطہ کیا جو خواتین کے تجربے ہو سکتے ہیں۔ بیرون ملک لکھنے والی خواتین میں محسنہ جیلانی، نعیمہ ضیاء الدین، رفعت مرتضیٰ، پروین فرحت اور دیگر کئی خواتین اچھی کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ افسانوں کے حوالے سے خالدہ حسین کا نام ا س لئے بہت اہم ہے کہ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے افسانوی ادب کو جس مقام تک پہنچایا تھا خالدہ حسین نے وہاں سے ایک اور رخ کی طرف سفر اختیار کیا۔ ان کے افسانوں نے جدید ادب کے ناقدین کو اپنی جانب متوجہ کیا مگر ان کا اس طرح مطالعہ اب تک نہیں کیا گیا جیسا ’’سواری‘‘ جیسی کہانی لکھنے والی کا ہونا چاہیے تھا۔ خالدہ حسین نے اس کہانی میں علامت اور واقعہ نگاری کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا ہے جو معنی اور کیفیت دونوں سطح پر قاری کو متاثر کرتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں ایک ایسی فضا ہے جس میں ہمارے دور کی تلخیاں دل میں غبار سا بکھیر دیتی ہیں۔ ایسے افسانے جس کی کچکچاہٹ دانتوں میں محسوس ہو سانحہ بھوپال کے بعد ’’سواری‘‘ کی شدت کو پوری طرح محسوس کیا گیا۔ خالدہ حسین کی کہانیاں اس پراسراریت کے شعور کو بیدار کرتی ہیں جس پر آرٹ کی بنیاد ہے۔ جس کی مثال تمام بڑے شعرأاور فنکاروں کے یہاں ملتی ہے۔ تنقید میں خواتین کا نام صرف ممتاز شریں تک محدود رہ گیا۔ وہ اچھی افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ افسانوی ادب کی بڑی نقاد بھی تھیں۔ منٹو کی کہانیوں کا انہوں نے تفصیل سے تنقیدی جائزہ لیا اور اس میں شک نہیں کہ منٹو کے کرداروں کے تجزئیے سے ان کی کہانیوں کی جہتیں کھلتی ہیں اور بحیثیت افسانہ نگار منٹو کی قامت کا اندازہ ہوتاہے۔ ممتاز شیریں نے منٹوکی کردار نگاری کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان مقامات کی نشا ندہی بھی کی ہے جہاں ان کی گرفت کردار پر ڈھیلی پڑ گئی ہے جس کی وجہ ممتاز شیریں کے خیال میں غیر ضروری تفصیلات ہیں۔ وہ اس حوالے سے ایک کامیاب تجزیہ نگار ہیں کہ وہ کہانی لکھنے والے کو تبصرہ نگار نہیں دیکھنا چاہتیں۔ ان کے اس روئیے میں ان کے افسانوی ادب کے مطالعے کا بڑا دخل ہے۔ مثلاً انہوں نے موپساں اور چیخوف کا تقابلی موازنہ کرتے ہوئے منٹو کو موپساں کے قبیلے میں رکھا ہے۔ یہ درست بھی ہے کہ موپساں کے افسانوں اور ناول میں کہانی کردار نگاری سے بڑھتی ہے اور کردار اپنے رویوں سے ابھرتے ہیں، مصنف کے تبصرے سے نہیں۔ ممتاز شیریں کا وسیع مطالعہ ان کے تنقیدی روئیے کی تشکیل میں مدد گار ہے اور ان کے تخلیقی ذہن نے انہیں اس مقام تک پہنچایا جہاں نقاد او رتخلیق کار ایک ہو جاتا ہے۔ تنقید میں انہوں نے نئے موضوعات پر قلم اٹھایا۔ منفی ناول (Anti Novel) وجودی نقطۂ نظر، مغربی رجحانات پوری تفہیم کے ساتھ ان کا موضوع بنے اور اس طرح انہوں نے اردو ادب میں نئے دریچے کھولے۔ ان کی تحریروں میں آج کے عہد کی حسیت نمایاں ہے جس میں مشرق و مغرب کا متوازن ثقافتی امتزاج جھلکتا ہے۔ آج جب کہ تنقید میں عالمی تناظر (World View) پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے ان کے مضامین کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اردو کی پہلی نقاد ہیں جن کے یہاں World View ہے۔ بلا شبہ ممتاز شیریں نے تنقید کے شعبے میں خواتین کو صف اول میں لا کھڑا کیا ہے مگر ان کے بعد کوئی قابل ذکر نام سامنے نہیں آیا۔ خواتین ادیب و شاعرات کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ تنقید کے شعبے کو متوازن کرنے کے علاوہ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں ایک ایسی صورت حال کا سامنا بھی ہے جو نسائی ادب کی تفہیم کے لئے بالکل سازگار ہے۔ خواتین کی تحریروں کا بہتر تجزیہ خواتین ہی کر سکتی ہیں۔ مرد ناقدین کا رویہ یا تو سر پرستانہ (Patronizing) ہے یا جانب دارانہ (Prejudiced) یہ دونوں صورتیں تخلیقی ادب کے لئے نقصان دہ ہیں۔ بین الاقوامی صورت حال یہ ہے کہ ۱۹۶۰ء سے خواتین کی تحریک نے ادبی مطالعے کا رخ بدل دیا ہے۔ مغرب میں بھی تنقید کی ذمہ داریاں زیادہ تر مردوں کے کاندھوں پر تھیں لیکن اب جو خواتین نقاد سامنے آ ئی ہیں انہوں نے نسائی کلچر کو فائدہ پہنچایا ہے۔ اب تنقید خالصتاً مردانہ فلسفوں یا ادبی تھیوری کی بنیاد پر نہیں ہو رہی ہے بلکہ اس نقطہ نظر سے بھی ادب کو دیکھاجا رہا ہے کہ ان میں مردانہ اور نسائی اقدار کو کس حد تک سمویا گیا ہے اور نسائی تنقید ادبی تجزئیے کی ایک اہم بنیاد بن گئی ہے۔ ہمارے یہاں نسائی تنقید پر سنجیدہ توجہ کی بے حد ضرورت ہے کیوں کہ جب بھی نسائی ادب پر بات ہوتی ہے تو فوری رد عمل یہ سامنے آتا ہے کہ خواتین کا الگ ڈبہ بنایا جا رہا ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں۔ دوسرا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ خواتین کا مسئلہ کیا ہے؟ انہیں سب کچھ تو حاصل ہے وہ آخرچاہتی کیا ہیں؟ اور پھر اس بات پر اتفاق کر لیا جاتا ہے کہ نسائی ادب مغرب سے آنے والا فیشن ہے جسے کپڑوں اور میک اپ کی طرح خواتین نے اپنا لیا ہے۔ متعصب ناقدین جو کچھ بھی لیں وہ اس بات کا کوئی منطقی جواب نہیں دے سکے کہ نسائی شعور کا مطالعہ کرنے والوں کو کس خانے میں رکھا جائے اور کیا خواتین کی تخلیقات کا مطالعہ سماجی اور تاریخی رویوں کو نظر انداز کر کے کیا جا سکتا ہے جوان کی تحریروں پر اثرانداز ہوتے رہے ہیں اور ان کی تحریروں کی جانب مرد تنقید نگاروں کے رویوں پر بھی مغرب سے آنے والی تحریکوں نے جب بھی ہمارے پورے ادب پر اثر ڈالا ہے اتنا شدید رد عمل کیوں سامنے نہیں آیا۔ مثلاً ترقی پسند جدیدیت، وجودیت، ساختیات کی رو کہاں سے آئی؟ اب اگر خواتین مغرب میں لکھی جانے والی نسائی تنقید کو اپنے یہاں ادبی رویوں پر منطبق دیکھ رہی ہیں تو اسے صرف مغرب کی تقلید کہنے کا کیا جواز ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں خواتین کا نام نہیں ملتا؟کیا یہ درست نہیں کہ ادا جعفری کا ذکر صرف یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ وہ پہلی شاعرہ ہیں جس نے اردو شاعری میں اپنا مقام بنایا۔ مردانہ ڈبے میں یہ مقام کہاں ہیں؟ اس پر خاموشی ہے۔ نسائی ادب، اردو ادب کا قابل قدر حصہ رہا ہے۔ نسائی شعور کی روایت ہمارے ثقافتی رجحان Cultural Mindset کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ خواتین کی ادراک و شعور کی آئینہ دار ہے۔ نسائی اظہار کا رویہ تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ نسائی ادب و تنقید نہ تو مغرب کی نقالی ہے نہ اس کا کوئی تصادم ہمارے اقدار سے ہے بلکہ یہ ہماری آبادی کے نصف حصے کی ذہنی و فکری سفر کا مطالعہ پیش کرتا ہے۔ یہ خواتین قلم کاروں کا نقطۂ نظر (point of view) کو پیش کر رہا ہے اور آج ادب میں نقطہ نظر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدیدیت کے مختلف اسکول نسائی شعور کے نقطۂ نظر پر متفق ہیں۔