اردو رسم الخط کی اصلاح

سبط حسن صاحب کا یہ مضمون روزنامہ امروز نے دو قسطوں میں اپنی ۶ اور ۷ جون ۱۹۵۵ء کی اشاعتوں میں شائع کیا (مرتب)


جناب ڈاکٹر مولوی عبد الحق صاحب کا ایک مضمون اردو کے رسم الخط کے بارے میں اخبار ’’امروز‘‘ مورخہ ۳۰ مئی میں نظر سے گزرا۔ اس مضمون میں محترم مولوی صاحب نے میاں افضل حسین صاحب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کی اس تجویز کی مخالفت کی ہے کہ اردو کے مروجہ رسم الخط کو ترک کر کے رومن رسم الخط اختیار کیا جائے۔ محترم مولوی صاحب کا دعوی ہے کہ اردو رسم الخظ ’’خط تاریخ میں آخری ارتقائی صورت ہے۔‘‘ یہ رسم الخط رومن رسم الخظ سے ’’زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب‘‘ ہے۔ اور ’’جو حضرات ہمیں اسے ترک کر کے رومن حروف اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، وہ گویا ہمیں ترقی سے نکال کر تنزل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور تہذیب سے رجعت کر کے بربریت کی طرف لے جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘‘


مولوی صاحب قبلہ نے ابتدا میں فن تحریر کی مختصر تاریخ بیان کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تحریر کے ارتقا میں انسان کا رجحان اختصار کی طرف رہا ہے اور اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے خیالات، جذبات اور تجربات کو تحریر کے ذریعہ دوسروں تک پہنچانے کے لئے جو علامتیں استعمال کی جائیں وہ مختصر ہوں اور جگہ کم لیں۔ ان کے خیال میں رومن رسم الخط اختصار نویسی کی ایک خاص منزل پر پہنچ کر رک گیا۔ چنانچہ رومن رسم الخظ میں (ہاتھ سے لکھتے وقت) حروف کو ایک دوسرے سے ملایا تو جاتا ہے لیکن اس طرح کہ حروف اپنی پوری شکل برقرار رکھتے ہیں۔ ’’ہم نے اس پر قناعت نہیں کی۔ ہم نے اختصار کے عمل کو اور بڑھایا۔۔۔ ہم نے ان مختصرعلامتوں یعنی حروف کو اور مختصر کیا اوران کے جوڑ سے لفظ بنائے۔‘‘


مولوی صاحب کی رائے میں رومن رسم الخظ نہایت ناقص اور ناکافی ہے کیونکہ،


(۱) رومن ابجد کے حروف سے ہماری تمام آوازیں ادا نہیں ہوتیں۔


(۲) رومن ابجد بے قاعدہ ہے۔


(۳) رومن ابجد میں مرکب حروف سے بعض اوقات ایک آواز کا کام لیا جاتا ہے جو معیوب بات ہے۔ اردو رسم خط کے حق میں مولوی صاحب نے اختصار نویسی کے علاوہ یہ دلیل بھی دی ہے کہ ’’علاوہ اس کے رسم خط زبان کا جز ہو جاتا ہے۔ وہ محض صوتی علامات پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس سے جملوں کی ترتیب و تزئین میں بھی مدد ملتی ہے۔ ہمارا یہ رسم خط ابتدا سے جب اردو زبان وجود میں آئی اس کے ساتھ ہے۔‘‘


آخر میں مولانا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اردو رسم خط کی جگہ رومن رسم خط رائج کرنے سے ہمارا وہی حشر ہوگا جو ترکوں کا ہوا۔ ہماری آنے والی نسلیں عربی، فارسی اور اردو کے عظیم سرمائے سے محروم ہو جائیں گی۔


اردو رسم خط میں تبدیلی اور اصلاح کا مسئلہ نیا نہیں ہے اور نہ رومن رسم خط کی تجویز کے پہلے محرک میاں افضل حسین ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں اس سے پیشتر بھی کئی باراٹھ چکی ہیں۔ ایک زمانے میں خود انجمن ترقی اردو نے رسم خط کی اصلاح کی طرف توجہ کی تھی اور چند تجویزیں بھی منظور کی تھیں۔ ان میں سے بعض تجویزیں توایسی تھیں کہ ہماری مختصر نویسی جسے ہم اردو کا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں، خطرے میں پڑ جاتی اور عربی کے بعض ہم آواز حروف کا استعمال ختم ہو جاتا۔ مگر اس سے میں آگے چل کر تفصیل سے بحث کروں گا۔ اسی طرح رومن رسم خط کی حمایت میں بھی اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔


انجیل اور عیسائیوں کی دوسری مذہبی کتابیں مدت سے رومن رسم خط میں چھپتی ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں فوجیوں کو ہندوستانی زبان رومن رسم خط میں پڑھائی جاتی تھی۔ ۱۸۷۹ء میں لاہور سے ایک ماہنامہ ’’رومن اردو جرنل‘‘ نکلا کرتا تھا اور اس کے سر ورق پر عبارت لکھی ہوتی تھی۔ ’’مشرقی زبانوں کی تحریر رومن حروف میں مروج کرنے کے لئے۔‘‘ (رسالہ ادبی دنیا اکتوبر ۱۹۳۷) رومن رسم خط کی حمایت فقط مغرب پرستوں کی جانب سے نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ انجمن ترقی اردو کے سرکاری ترجمان رسالہ اردو میں بھی رومن رسم خط کی موافقت میں لکھا جا چکا ہے۔ چنانچہ رسالہ اردو جنوری ۱۹۴۴ء میں مولوی حیات اللہ انصاری فرنگی محلی کا ایک مختصر مضمون رومن رسم خط کے متعلق چھپا تھا۔ مولوی حیات اللہ انصاری صاحب فرماتے ہیں،


’’رومن رسم الخط سے ایک طرح کا فائدہ ہی پہنچے گا۔‘‘


مگر اردو رسم خط کی اچھائیوں اور برائیوں سے بحث کرنے سے پیشتر زبان اور رسم الخط کے تعلق کو واضح کر دینا ضروری ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ رسم خط یا تحریر کسی زبان کا جزو لاینفک نہیں ہے۔ تحریر اظہار خیال کی ایک ایسی علامت ہے جسے انسان نے بولنے کے لاکھوں سال بعد ایجاد اور اختیار کیا۔ درمیان کے اس طویل وقفہ میں بھی جب تحریر اور رسم خط کا کوئی وجود نہ تھا اور نہ حروف ابجد بنے تھے، زبانوں میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ تحریر کے فن کی عمر مشکل سے چھ ہزار برس ہے۔ اس فن کے موجد اہل سومیر تھے۔ جو اب سے تین ہزار قبل مسیح جنوبی عراق میں رہتے تھے۔ یہ لوگ سامی نسل سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔


دوسری بات یہ ہے کہ آج بھی دنیا میں۔۔۔ بالخصوص ایشیا اور افریقہ میں۔۔۔ کروڑوں انسان ایسے موجود ہیں جوفن تحریر سے ناواقف ہیں لیکن اپنے خیالات کو زبان کے ذریعے دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ وہ کوئی رسم خط نہیں جانتے۔ نہ رومن نہ دیوناگری اورنہ عربی۔ مگر وہ اپنی زبانوں میں بات چیت کرتے ہیں۔ گیت گاتے ہیں۔ شعر کہتے ہیں۔ عشق کرتے ہیں اور عبادت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ افراد ہی نہیں بہت سی ایسی قومیں بھی ملیں گی جن کو سرے سے خبر ہی نہیں کہ لکھنا پڑھنا ہے کیا۔ دنیا میں ایسی کوئی قوم، ایسا کوئی انسان یا گروہ موجود نہیں جس کی اپنی زبان نہ ہو۔ البتہ ایسے لوگ اب بھی بہ کثرت موجود ہیں جو تحریر کی علامتوں سے آگاہ نہیں۔ بچوں کو لیجئے، وہ بھی تحریری علامتوں کو پہنچاننے سے قبل بولنا سیکھ چکے ہوتے ہیں۔


زبان اور رسم خط کے ارتقا کی منزلیں بھی ضروری نہیں کہ ایک ہی ہوں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زبان میں تبدیلیاں ہوئیں مگر رسم خط متغیر نہ ہوا۔ کبھی رسم خط میں تغیرات پیدا ہوئے مگر زبان میں تبدیلی نہ ہوئی۔ مثلاًعربی زبان میں ظہور اسلام سے لے کر اٹھارہویں صدی تک بہت کم تبدیلی ہوئی ہے۔ لیکن عربی زبان کے رسم الخط میں بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ عربی رسم الخط ابتدا میں کوفی تھا جس کی بنیاد بناطی رسم الخط پرقائم تھی۔ عربوں میں یہ رسم الخط ظہور اسلام سے تین سو برس بعد تک رائج رہا۔ قرآن شریف اول اول اسی رسم الخط میں جو اسلام سے پہلےعرب میں رائج تھا، لکھا گیا۔ یروشلم میں خلیفہ عبد الملک کی تعمیر کردہ مسجد میں جو کتبے ہیں، وہ بھی اسی قدیم رسم خط میں ہیں۔ اسوان کے علاقے میں جو سکے اس دور کے برآمد ہوئے ہیں وہ بھی اسی تحریر میں ہیں۔ خط نسخ دسویں گیارہویں صدی عیسوی میں اورخط نستعلیق تیرہویں صدی میں مکمل ہوئے۔ خط کوفی اورخط نسخ میں اتنا فرق ہے کہ آج عربی کا بڑے سے بڑاعالم بھی قرآن شریف کو خط کوفی میں نہیں پڑھ سکتا۔ اس کے برعکس اردو زبان کو لیجئے کہ اس زبان میں پچھلے پانچ سو برس میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اتنی تبدیلیاں کہ ہمارے اچھے خاصے ادیب بھی دکن کی قدیم مثنویوں اور جائسی کی پدماوت کو فرہنگ کے بغیر سمجھ نہیں سکتے حالانکہ اس درمیان میں رسم خط میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی۔


ایک بات اور۔۔۔ قدیم اردونہ صرف یہ کہ ہندی کہلاتی تھی بلکہ دیوناگری رسم الخط میں بھی لکھی جاتی تھی۔


زبان اور رسم خط کے فرق کو واضح کرنے سے ہمارا مقصد یہ تھا کہ اردو رسم خط کی بحث میں زبان کے مسائل کو نہ الجھایا جائے کیونکہ رسم خط زبان کا جز نہیں ہے۔ بہت سے لوگ عقیدت کے جوش میں جذبات سے مغلوب ہو کر مروجہ رسم خط کی اس طرح حمایت کرتے ہیں گویا اس کا تعلق بھی ہمارے مذہب سے ہے۔ گویا قرآن شریف اور احادیث نبوی کا رسم خط یہی تھا۔ یہ بات ٹھیک نہیں۔ رسم خط کا تعلق نہ مذہب سے ہے، نہ اسلامی تہذیب سے۔ رسم خط ہماری آوازوں کی صوتی علامتیں ہیں۔ ان علامتوں کو انسان نے متعین کیا۔ ان میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں اور جب تک انسان زبان سے بولتا ہے اور اس کی زبان میں تبدیلیاں ہوتی ہیں، ان علامتوں میں بھی ترمیم اور اضافے ہوتے رہیں گے۔


لسانیات کے عالموں نے دنیا کی زبانوں کو الگ الگ خاندانوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک خاندان انڈویورپین زبانوں کا ہے۔ جس میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، یونانی، روسی، فارسی، پشتو، پنجابی، ہندی، اردو، بنگالی، راجستھانی، مرہٹی، اڑیہ اور گجراتی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے بولنے والوں کی تعداد ایک ارب ہے۔ دوسرا خاندان سامی حامی زبانوں کا ہے جس میں عبرانی، عربی، شامی، حبشہ کی قوشتی زبانیں، قدیم قطبی اورشمالی افریقہ کی دوسری زبانیں شامل ہیں۔ ان کے بولنے والوں کی تعداد آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ تیسرا خاندان یورال التائی زبانوں کا ہے۔ اس خاندان کی رکن ہے فن لینڈ کی فنش، اتھوپیا کی لستھونی، ہنگری کی گلیار، ترکی، منگول اورمنچوریا کی زبان۔ اس خاندان کی کل تعداد سات کروڑ ہے۔ چوتھا خاندان چینی تبتی زبانوں کا ہے۔ اس خاندان میں چینی، تبتی، برمی اور سیامی زبانیں شامل ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والوں کی کل تعداد ساٹھ کروڑ ہے۔ پانچواں خاندان جاپانی اورکورین کا ہے۔ چھٹا خاندان ملایا پولی نیشیا کا ہے۔ جس میں ملا گاسی، مادری، ملائی، انڈونیشی، فلپینو اور بحر الکاہل کے دوسرے جزیروں کی زبانیں ہیں۔ ساتواں خاندان دراوڑ زبانوں کا ہے جوجنوبی ہند میں بولی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ زبانوں کے ایک دو اور خاندان بھی ہیں لیکن وہ بہت چھوٹے ہیں۔


اردوزبان انڈویورپین خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ گو اب تک یہ دریافت نہیں ہو سکا ہے کہ انڈویورپین زبانوں کی مورث اعلی کون سی زبان تھی۔ لیکن جدید زبانوں میں جو زبان اپنے مورث اعلیٰ سے سب سے قریب سمجھی جاتی ہے وہ لتھوائی زبان ہے جسے بحربالٹک کے ساحل کے بیس لاکھ باشندے بولتے ہیں۔ البتہ اس خاندان کی سب سے پرانی زبان سنسکرت ہے۔ اس کے بعد یونانی اور اس کے بعد لاطینی۔ سنسکرت زبان کا سراغ دو ہزار قبل مسیح تک لگایا جا چکا ہے۔ اردو، ہندی، فارسی، پنجابی اور بنگالی کا شجرہ نسب سنسکرت ہی سے ملتا ہے۔


یہ انڈویورپین زبانیں بنیادی طور سے سامی زبانوں سے مختلف ہیں۔ دونوں خاندانوں کے صرف و نحو اور لغات ہی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں، ان کے فقروں کی بناوٹ کے طریقے اور الفاظ کے ذخیرے ہی مختلف نہیں بلکہ ان کی آوازوں کے مخارج میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ سامی زبانوں کی بعض آوازیں انڈو یورپین زبانوں میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ اسی طرح انڈو یورپین زبانوں کی بعض آوازیں سامی قوم کے لوگ ادا نہیں کر سکتے۔


زبانوں کے یہ خاندان الگ الگ جزیروں میں نہیں رہتے اور نہ الگ الگ صندوقوں میں بند ہیں کہ ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ مختلف خاندانوں کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ آپس میں لین دین کرتے ہیں اور اس طرح ایک خاندان کی زبان کا اثر دوسرے خاندان کی زبان پر بھی پڑتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے الفاظ کو اپناتے ہیں۔ ان کے محاوروں کو استعمال بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی آوازوں کی نقل بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان خاندانوں کی انفرادیت بدستور قائم رہتی ہے۔ ان کے مزاجوں پراس ربط ضبط سے کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔


تحریر کے موجد اہل سومیر تھے۔ لیکن حروف ابجد آج کل انڈویورپین اور سامی حامی زبانوں میں رائج ہیں۔ ان کے موجد فونیشیا (ساحل شام) کے قدیم باشندے تھے۔ فونیشیا کے لوگ اس تحریر کو دائیں سے بائیں اور پھر بائیں سے دائیں جانب مسلسل لکھتے تھے۔ جس طرح کھیت میں ہل چلاتے ہیں۔ یونانیوں نے جب فونیشی رسم خط کو اپنایا تو ابتدا میں وہ بھی اسی طرح لکھتے تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے یہ طریقہ ترک کردیا اور بائیں سے دائیں جانب لکھنے لگے۔ البتہ سامی قوم کے لوگوں نے دائیں سے بائیں لکھنے کا طریقہ برقرار رکھا۔ آج پوزیشن یہ ہے کہ تمام آریائی قومیں (اردو اورفارسی کے علاوہ) بائیں سے دائیں کی جانب لکھتی ہیں۔ اور سامی قومیں دائیں سے بائیں جانب۔ فارسی بھی عربوں کے تسلط سے قبل بائیں جانب سے لکھی جاتی تھی اور اردو بھی جو بقول مولوی عبد الحق صاحب ’’ہندی کی ترقی یافتہ شکل ہے‘‘ اپنے ابتدائی دور میں دیوناگری رسم خط میں بائیں سے دائیں جانب لکھی جاتی تھی۔


فونیشیا کے یہ حروف ابجد صوتی اصول پر مرتب کئے گئے تھے۔ لیکن وہ انسان کے منہ سے نکلنے والی ہر آواز کی نمائندگی نہ کرتے تھے۔ وہ فقط انہیں آوازوں کے علامتی نشان تھے جو فونیشیا کے باشندوں کے منہ سے نکلتی تھی اور یہ امربھی مشتبہ ہے کہ یہ صوتی علامتیں اہل فونیشیا کی تمام آوازوں پر محیط تھیں۔ دوسری قوموں نے جب اس رسم خط کو اپنایا تو اپنی صوتی ضرورتوں کے مطابق اس میں مناسب اضافے اور ترمیم کرتی گئیں۔ اہل فونیشیا نے یہ رسم خط اپنی کاروباری ضرورتوں کے لئے ایجاد کیا تھا۔ انہیں اس بات کا ہرگز احساس نہ تھا کہ آگے چل کر دنیا کی سیکڑوں قومیں ان کے رسم خط کو اختیار کر لیں گی۔ چنانچہ ہر قوم نے اس رسم خط میں تبدیلیاں کیں۔ اور جو آوازیں اس رسم خط سے ادانہ ہوتی تھیں ان کے لئے نئے نئے نشانات مقرر کئے۔ مثلاً عربوں نے اپنے اعراب کی ضرورتوں کے لئے پہلے نقطوں کی علامتیں اختیار کیں۔ زبر کے لئے حروف کے اوپر زیرکے لئے نیچے اور پیش کے لئے کنارے پرایک نقطہ دیا جاتا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اورخلفائے راشدہ کے زمانے میں یہی طریقہ رائج تھا۔ اعراب کی موجودہ شکلیں دوسری صدی ہجری میں ایجاد ہوئیں۔ اسی طرح عربوں نے اپنی مخصوص چھ آوازوں کے حروف (ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ) نقطے لگا کر حاصل کئے۔


رسم خط میں اصلاح اور ترمیم کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا ہے۔ کوئی رسم خط خواہ وہ رومن ہو یاعربی یا دیوناگری، مکمل نہیں ہے۔ یعنی کوئی رسم خط ایسا نہیں جومنہ سے نکلی ہوئی آوازکی مکمل نمائندگی کر سکے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا کا کوئی رسم خط ایسا نہیں جو خود اپنی زبان کی تمام آوازوں کو ادا کرنے پر پوری طرح قادرہو۔ اسی لئے کوئی رسم خط خواہ وہ رومن ہویا عربی یا دیوناگری یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی موجودہ شکل میں دنیا کی تمام صوتی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔


جو لوگ رومن رسم خط پریہ اعتراض کرتے ہیں کہ رومن ابجد کے حروف سے ہماری تمام آوازیں ادا نہیں ہوتیں، وہ اس تاریخی حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ اگر رومن ابجد کے حروف ہماری تمام آوازوں کو ادا نہیں کرسکتے تو عربی ابجد کے حرف بھی ہماری تمام آوازوں کو ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی بنا پر ایرانیوں کو اپنی چار مخصوص آوازوں کے لئے پ، چ، ژ، اور گ ایجاد کرنے پڑے اور جب اردو نے فارسی رسم الخط اختیار کیا تو اردو کو کچھ نئے حروف بنانے پڑے۔ جو ان خالص ہندی آوازوں کی نمائندگی کرتے تھے، جونہ عربی ایجاد میں موجود ہیں اورنہ فارسی میں مثلا ٹ، ڈ، ڑ۔ لیکن اس اضافے کے بعد بھی ہمارے حروف ابجد ہماری تمام آوازوں کو ادا نہیں کرتے مثلا کھ، گھ، تھ، چھ اور دھ کی آوازیں کہ ان کے لئے ہمیں مقرر حروف کے بجائے مرکب حروف سےکام لینا پڑتاہے۔ چنانچہ مولائے محترم کا یہ اعتراض کہ ’’رومن ابجد میں مرکب حروف سے ایک آواز کا کام لیا جاتا ہے۔ اردو ابجد پر بھی حرف بحرف صادق آتا ہے۔‘‘


جہاں تک اردو رسم خط کا تعلق ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ رسم خط اور اس کے حروف ابجد ہماری صوتی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ ہم نے اوپر ان چند آوازوں کی مثال دی تھی جو ہماری اپنی آوازیں ہیں مگر جن کے لئے ہمارے رسم خط میں کوئی حرف موجود نہیں اور جنہیں رومن کی طرح ہم بھی دو حرفوں سے ملاکر بناتے ہیں۔ اس رسم خط میں حرو ف علت بھی نہیں ہیں۔ اس لئے ہم اردو کے ہرلفظ کو اٹکل سے پڑھتے ہیں اور حروف کے ملانے کا کوئی قاعدہ نہیں بنا سکتے۔ ممکن ہے کہ اعراب کا حوالہ دیا جائے۔ مگراعراب حروف ابجد کا جز تو نہیں۔ اور کتنے لوگ ہیں جو ہر لفظ پراعراب لگاتے ہیں یا اعراب لگا سکتے ہیں۔ اگر اردو کی ہر کتاب، ہر اخبار کی تحریر کو اعراب سے مزین کیا جائے تو اس کا کیا حشرہوگا۔ اعراب تو وہ علامتیں ہیں جن سے اہل عرب بھی حتی الامکان احتراز کرتے ہیں۔ انگریزی زبان میں دس، بیس، سو، پچاس لفظ رومن ابجد کی بے قاعدگی کے باعث اٹکل پڑھے جاتے ہیں۔ ہمارے رسم خط میں تقریباً ہرلفظ کا یہی حال ہے۔


ہمارے رسم خط کی تیسری خرابی یہ ہے کہ ہمارے نو حروف منفصل ہیں اور بقیہ متصل۔ مقصل حروف وہ ہیں جن کے آخر میں کوئی دوسرا حرف جوڑا نہیں جا سکتا۔ مثلاً ادڈذرژوء۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے اگر کوئی حرف کسی لفظ کے درمیان میں آجائے تو لفظ ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلا کریم، گھرکنا، کھرچنا، دھڑکنا، بھڑکنا، غور سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ حروف منفصل کے باعث ان لفظوں کے ارکان ٹوٹ گئے ہیں۔ وسطی رکن کا ایک حرف ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف لکھا گیا اور درمیان میں خلیج قائم ہوگئی۔ اس سے بھی بری صورت اس جگہ پیدا ہوتی ہے جس جگہ حروف منفصل مخلوط بھی ہوں۔ مثلا دھ، ڈھ، ٹھ، ڑھ لفظوں کے بیچ میں آجائیں جیسے پڑھنا، کڑھنا، سدھنا (تفصیل کے لئے دیکھئے رسالہ اردو ۱۹۴۴)


چوتھا مسئلہ حروف متصل کا ہے۔ رومن میں چونکہ تمام حروف متصل ہیں۔ اس لئے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی اور دوسری رومن زبانوں میں ایک لفظ کے تمام حروف ملا کر لکھے جاتے ہیں۔ خواہ لفظ کے ارکان دوہوں یا دس۔ وہاں تحریر کی حد تک ایک لفظ وحدت ہوتا ہے۔ لیکن ہماری تحریر میں اس اصول پر عمل کرنے سے بڑی دشواریاں ہوتی ہیں۔ مثلاً کنکٹا، بیہزکہ مرکب مگر ایک لفظ ہیں اور ان کے درمیان میں کوئی حروف منفصل بھی نہیں آتا۔ لیکن ہم ان لفظوں کو ملا کر نہیں لکھتے۔ کیونکہ ملا کر لکھنے سے ان کا پڑھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۴۴ء میں انجمن ترقی اردو کے مرکزی دفتر کی جانب سے یہ تجویز پیش ہوئی تھی کہ ’’مرکب الفاظ کے اجزائے ترکیبی کو لازماً علاحدہ علاحدہ لکھا جائے۔‘‘ اورعلامت مصدر کو بھی ملا کر نہ لکھا جائے بلکہ جدا تحریر کیا جائے۔ جیسے لکھ نا۔ مگرافسوس ہے کہ انجمن کی تجویزوں کو نہ اردوداں طبقے نے مانا اورنہ خود انجمن اس پرعمل کر سکی۔


پھر ہم آوازعربی حروف کا مسئلہ ہے۔ ان کی پانچ قسمیں ہیں،


۱۔۔۔ ع
ت۔۔۔ ط
س۔۔۔ ث، ص
ز۔۔۔ ذ، ض، ظ
ح۔۔۔ ہ


عربی میں یہ تیرہ الگ الگ آوازیں ہیں جن کے مخارج جدا ہیں۔ لیکن یہ سامی قوموں کی آوازیں ہیں جن کو ہم لوگ اور دوسرے غیر سامی لوگ ٹھیک ٹھیک ادا نہیں کر سکتے اور نہ کرتے ہیں۔


عربی رسم الخط کی خرابیاں بیان کرنے سے ہمارا مقصدیہ تھا کہ رومن رسم خط کی برائیاں گنواتے وقت ہم عربی رسم خط کی ناموزونیت کو بھی نظر میں رکھیں اور رسم خط کی اصلاح کی بحث کو مذہبی رنگ نہ دیں کیونکہ رسم خط کا تعلق مذہب سے نہیں ہے۔


اردو رسم خط کے حامی اس کی اختصار نویسی کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ چنانچہ محترم مولوی صاحب نے بھی اپنے مضمون میں اردو رسم خط کی اس خوبی پر بڑا زور دیا ہے۔ ان کی رائے میں رومن رسم خط ہم سے بچھڑا ہوا ہے۔ کیونکہ رومن رسم خط اختیار کرنے والے لفظ حروفوں کو ایک دوسرے سے ملانے پر اکتفا کر گئے۔ بدنصیبوں نے جرأت سے کام لے کر اپنے حرفوں کی شکل مسخ نہیں کی۔ اس کے برعکس ہم نے اختصار کے عمل کو اور بڑھایا۔ یہاں تک کہ حرفوں کے جوڑ سے لفظ بنا لئے۔ اس اختصار نویسی کا مقصد یہ تھا کہ لکھنے میں وقت کم صرف ہو اور جگہ کم لگے۔


یہ درست ہے کہ زبان کی طرح رسم خط میں (اور دوسرے تخلیقی کاموں میں بھی) انسان کا فطری رجحان سہولت کی جانب ہے۔ وہ کم سے کم محنت صرف کرکے زیادہ سے زیادہ مفید نتائج کا خواہش مند رہتا ہے۔ مگر اس اختصار کی بھی ایک تاریخ ہے اور اس کے بھی بعض قاعدے ہیں اور حدود بھی۔ عربی رسم خط کے ابتدائی دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ حرف الگ الگ ہوتے تھے۔ البتہ ایک خاص دور میں آکر انہیں ملایا گیا اور پھرایک خاص دور میں آکر ان حرفوں کے جوڑ سے لفظ بنائے گئے۔ پھربھی نوحروف ایسے نکلے جن کے ٹکڑے نہیں کئے جاسکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لفظوں کے ارکان میں خرابی پیدا ہوگئی۔


اختصار کا عمل کئی طریقے سے ممکن ہے۔ اختصار کا ایک طریقہ تو وہ تھا جو حرفوں کی شکل بگاڑ کر انہیں چھوٹا کر کے اختیار کیا گیا۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ حرفوں کی شکل برقرار رکھی گئی اور لفظوں کو مختصر کیا جائے۔ ان کے بنیادی حروف رکھ لئے جائیں اور بھرتی کے حروف چھانٹ دیے جائیں۔ انگریزی اور دوسری ترقی یافتہ زبانوں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ چنانچہ ان زبانوں کا رجحان پچھلے چھ سات سوسال سے لفظوں کو مختصر کرنے کی طرف ہے۔ اس سے دہرا فائدہ ہوتا ہے۔ انہیں بولنے میں بھی کم محنت کرنی پڑتی ہے اور لکھنے میں بھی۔ بولنے میں بھی ان کا کم وقت صرف ہوتا ہے اور لکھنے میں بھی۔ اس کے برعکس حرفوں کی شکل بدل کر اور ان کے جوڑ سے لفظ بنا کر ہمیں فقط لکھنے میں سہولت ہو جاتی ہے لیکن بولنے میں کوئی سہولت نہیں ہوتی۔ ا س کےعلاوہ حروف کی شکل بدلنے، ان کے جوڑ جوڑ الگ کرنے کے باعث مبتدیوں کو اردو رسم خط سیکھنے میں جو دشواریاں ہوتی ہیں ان کا اندازہ وہی لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں جن کو بچوں یا ان پڑھ بالغوں یا غیرملکیوں کو اردو پڑھانے کا تجربہ ہوا ہو۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ان مسائل پر غور کرتے وقت ہم عام طور سے اپنے بچپن کو بھول جاتے ہیں۔


مزید بر آں رسم خط کی ترقی یافتہ ہونے کی واحد کسوٹی اس کی اختصار نویسی نہیں، ورنہ ہم شارٹ ہینڈ کو کب کا اپنا رسم خط بنا چکے ہوتے۔ دنیا کے کسی زبان نے شارٹ ہینڈ کو اپنا رسم خط نہیں بنایا۔ اس کی ایک معقول وجہ ہے۔ زبان کے مانند رسم خط بھی ایک سماجی فعل ہے۔ جس طرح زبان کے لئے بولنے والے کے علاوہ ایک سننے والا بھی ضروری ہے جس تک انسان اپنے خیالات پہنچاتا ہے، اسی طرح لکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تحریر کو آسانی سے سمجھنے والے بھی موجود ہوں۔ اختصار نویسی اگر اس حد تک تجاوز کر جائے کہ وہ شارٹ ہینڈ یا چیستاں بن جائے تو وہ اپنی سماجی افادیت کھو دیتی ہے۔ وہ ماہرین فن کے ایک مختصر گروہ کا مشغلہ بن جاتی ہے۔ پوری سماج اس سے فیض یاب نہیں ہو سکتی۔


ہمارے پاس ایسی کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ عربوں نے وقت اور جگہ بچانے کی غرض سے اختصار نویسی کا مروجہ طریقہ اختیار کیا۔ البتہ قیاس یہ کہتا ہے کہ اس ایجاد کے حرکات جمالیاتی اور تزئینی ہوں گے نہ کہ افادی۔ مسلمانوں میں مصوری اور بت تراشی ممنوع تھی۔ ایسی حالت میں فن کار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو انہیں فنون میں بروئے کار لا سکتے تھے، جو ممنوع نہ تھے۔ ایسا ایک فن خطاطی کا تھا۔ خلفائے بنی عباس عالم دوست تھے۔ ان کا دار الخلافہ علم وادب کا مرکز بنا ہوتا تھا۔ تصنیف و تالیف کے کاموں کو ریاست کی سرپرستی حاصل تھی۔ فن خطاطی کوانہیں خوشگوار حالات میں فروغ ہوا۔ بعد میں مسلمانوں نے فن خطاطی کو اتنی ترقی دی کہ دنیا اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔ اور خطاطی کی فنی ضرورتوں کا تقاضا تھا کہ حرفوں کو ملا کر لکھا جائے۔ اور ان کے جوڑوں کو بھی الگ کیا جا سکے اس کے بغیر فن کی ہیئتی وحدت ناممکن تھی۔


ہمیں اردو کے موجودہ رسم خط پر افادی نقطہ نظر سے غور کرنا چاہئے۔ اگر وہ ہماری تمام صوتی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور زبان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا تو ہمیں خواہ مخواہ کوئی دوسرا خط اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ رومن رسم خط کے حق میں یہ کوئی دلیل نہیں کہ یورپ میں یہی رسم خط رائج ہے۔


جاپان میں تویہ رسم خط رائج نہیں پھرجاپانیوں نے اپنے بچھڑے ہوئے رسم خط کے باوجود کیسے ترقی کی۔ میری حقیر رائے یہ ہے کہ اردو رسم خط موجودہ شکل میں ہماری تمام آوازو ں کو ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اگر آپ جائسی کی پدماوت یا پرانے دکنی شعرا کی مثنویاں یا کبیر کے دوہے یا امیر خسرو کی پہیلیاں، دو سخنے اور مکرنیاں اردو رسم خط میں پڑھیں تو آپ کو اس رسم خط کی خامیوں کا اندازہ ہو جائے گا۔


اب سوال یہ ہے کہ اصلاح کی نوعیت کیا ہو۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ وہ حروف ابجد جن کوہم زبان سے ادا نہیں کرتے، خارج کر دیے جائیں اور ان کی جگہ نئے حروف کا اضافہ کیا جائے جو ان آوازوں کی نمائندگی کریں جن کے لئے ہمارے پاس منفرد حروف نہیں۔ مگر حروف متصل اور منفصل کا جھگڑا پھر بھی باقی رہے گا اورحرف علت کی کمی پھر بھی محسوس ہوگی۔


دوسری صورت یہ ہے کہ رومن رسم خط اختیار کیا جائے۔ بشرطیکہ اس میں اپنی صوتی ضرورتوں کے مطابق مناسب ترمیم کی جائے۔


تیسری صورت یہ ہے کہ رومن (دیوناگری؟؟؟؟) رسم الخظ کو دوبارہ اختیار کر لیا جائے کہ ہمارا قدیم رسم الخط یہی ہے اور ہماری صوتی ضرورتوں کو دوسرے رسم خطوں کے مقابلے میں بہتر طریقے پر پورا کرتا ہے۔ مگر اس زمانے میں ہر مسئلہ خواہ وہ زبان کا ہویا رسم الخط کا مسئلہ، سیاسی رنگ اختیارکر گیا ہے۔ اس لئے دیوناگری رسم خط کی تجویز پیش کرنے سے خواہ مخواہ غلط فہمیاں پیدا ہوں گی اور رسم خط کی گتھی سلجھنے کے بجائے اور الجھ جائے گی لیکن خالص لسانی اور صوتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہماری زبان کا رسم خط دیوناگری ہی ہونا چاہئے۔


پچھلے بیس پچیس سال سے اردو رسم خط میں اصلاح کی کوشش ہو رہی ہے۔ مضامین لکھے جاتے ہیں۔ کمیٹیاں بنتی ہیں۔ تجویزیں پاس کی جاتی ہیں۔ مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ البتہ اس سے یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ لوگوں میں اس رسم خط کی خرابیوں کا شدید احساس ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس میں اصلاح کی جائے۔ یہ احساس ہماری سماجی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں نے ہم میں پیدا کیا ہے۔ مگر رسم خط کی اصلاح کا کام اتنا بڑا ہے، اس کی راہ میں اتنی مشکلیں اور دشواریاں ہیں کہ پرائیویٹ ادارے اس کام کو ریاست کی سرپرستی اورارباب حکومت کے تعاون کے بغیر انجام نہیں دے سکتے۔ ہماری سماجی زندگی دوسرے ملکوں کے مانند منظم نہیں ہے کہ پرائیویٹ اداروں کے فیصلے پورے ملک میں رائج ہو جائیں اور نہ ہم میں اتنا ڈسپلن ہے کہ ہم فقط لسانیات کے عالموں کی بات مان کر اس پرعمل درآمد شروع کر دیں۔ اس مسئلے پر آزادی سے بحث ضرور ہونی چاہئے تاکہ اس کے تمام پہلو نمایاں ہو جائیں اور رائے عامہ نئی اصلاحات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو سکے۔ رہ گئی حکومت تو اسے ان قومی مسائل پر سنجیدگی اور آزادی سے غور کرنے کی فرصت کہاں۔ آٹھ سال میں تو ابھی وہ یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکی کہ ملک کی سرکاری زبان کیا ہوا۔ ابھی تو انگریزی ہی کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اس غیر ملکی پرچم سے نجات ملے تو رسم خط کی طرف توجہ کی جائے۔