حضورؐ بحیثیت معلّمِ اِنسانیت :یوم تکریم اساتذہ کے موقع پرزبردست تقریر
۲۱؍اکتوبر ۱۹۹۰ء کو اس تقریر کو اول انعام یافتہ قرار دیا گیا تھا
۲۱؍اکتوبر ۱۹۹۰ء کو اس تقریر کو اول انعام یافتہ قرار دیا گیا تھا
زبان کی مسلسل توسیع اس کی صحت اور توانائی کی ضامن ہے۔ کسی بھی زندہ زبان میں نئے الفاظ اور اصطلاحات مسلسل شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اسی سے زبان میں توسیع ہوتی ہے۔ اردو کے ذخیرہء الفاظ میں شامل کوئی بھی لفظ کسی نہ کسی زبان سے آکر ہی شامل ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک سوال اٹھایا گیا کہ آیا "ڈاکٹر" اردو کا لفظ ہے یا نہیں۔ کیا انگریزی کے الفاظ اردو میں شامل نہیں کرنے چاہییں؟ یہ کون طے کرے گا کہ کون سا لفظ اردو کا ہے یا نہیں؟ آئیے ان کے جواب تلاش کرتے ہیں۔
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ہم اپنی زبان کی ترویج اور فروغ کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں؟ اسکولوں میں اردو کے اساتذہ اپنا حقیقی کردار ادا کررہے ہیں؟ اردو اساتذہ کو ہمارے ہاں "دوسرے درجے کا شہری" سمجھا جاتا ہے۔ بچوں میں اردو زبان سے محبت اور رغبت کیسے دلائی جائے؟ آج آپ کو ایسی تنظیم سے واقف کرواتے ہیں جو اردو کی چاشنی گھولنے میں مصروفِ عمل ہے۔ کیا آپ کو اس کا "پتا بتا" دیا جائے؟
اردو تدریس کے مسائل پر قابو پانے اور اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ استاد کو ان مسائل کا ادراک اور احساس ہونا چاہیے۔جدید زمانے کے تقاضوں،ماحول میں جدت اور مستقبل میں ہونے والی ترقی کو پیشِ نظر رکھنا اور ان کے مطابق تدریس کے میدان میں بھی جدت اختیار کرنا بہت ضروری امر ہے۔ ذیل میں اردو تدریس کے چند مسائل کو بیان کیا جارہا ہے۔ اگر ان مسائل اور رکاوٹوں کو دور کردیا جائے تو اردو کی تدریس میں تازگی اور توانائی لانا ممکن ہے۔
گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کیلئے چھوڑا جاتا ہے تو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے ،اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں، جسے"دھنگنا" کہتے ہیں۔گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ "اگاڑی' ' یا "پچھاڑی" کہلاتی ہیں۔گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ "لگام" کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی "راس" کہلاتی ہے۔
لسانیات کی بحث میں کہا جاتا ہے آواز سے حرف اور حرف سے لفظ بنتا ہے۔ لیکن یہ سفر اتنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔آگ کا دریا ہے اور ڈوب کرجانےکے مترادف ہے۔ہر لفظ طویل سفر کرتے موجودہ صورت تک پہنچتا ہے۔لیکن یہ سفر یہاں بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ آج ہمارا مقصد کوئی دقیق لسانی بحث کرنا نہیں ہے۔آج چند ایسے الفاظ کا تذکرہ کریں گے جو سیاسی وسماجی مباحث میں بہت اہم ہیں لیکن احتیاط نہ برتی جائے تو "سیاست" کی نذر ہوسکتے ہیں۔
روحانہ خٹک نے انگریزی لفظ "اوبلیویونیئر" تخلیق کرلیا۔ کسی نئے لفظ کو "گھڑنا" یا اختراع کرنا زبانوں کی توسیع کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ انگریزی کی لغات میں جب الفاظ کی تاریخ کے بارے میں پڑھتے ہیں تو بہت سے الفاظ کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ کسی نہ کسی فرد واحد نے تجرباتی طور پر اپنے "گھڑے" ہوئے لفظ کو استعمال کیا۔ اور رفتہ رفتہ اس نئے لفظ نے قبولیت عامہ حاصل کی۔
یاروں نے اس مشکل کا عجیب حل نکالا۔ ایک حسن بھائی بہت موٹے شیشوں کا چشمہ لگاتے تھے۔ ستم ظریفوں نے ان کا نام اندھے حسن رکھ دیا۔ دوسرے حسن بھائی چشمہ نہیں لگاتے تھے۔ کم بختوں نے انھیں چُندھے حسن کہنا شروع کردیا۔ ایک انور شاہ جی ہوگئے اور دوسرے انور حاجی۔ ایک کامی باس ہیں اور ایک کامی بھوں۔
پَس،سال یا برس کے معنوں میں سَن لکھنا فصحا کے نزدیک نا مناسب ہے۔سَن کے دیگر معنوں سے فرق کرنے کے لیے سنہ لکھنا ہی احسن ہے۔ اوپر ہم نے لکھا ہے کہ کچھ لوگ سنہ کو سن بھی لکھتے ہیں۔
جس شے سے کچھ ڈھانکا جائے اسے پوشش کہتے ہیں۔ غلاف ہی کو نہیں، لباس کو بھی پوشش کہا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی نشستوں پر جو کپڑا چڑھایا جاتا ہے وہ بھی پوشش کہلاتا ہے۔ انسانی پوشش کو لکھنؤ والے پوشاک کہتے ہیں۔ ہم بھی کہنے لگے ہیں۔ نوراللغات کے مطابق پوشش کا لفظ غیر ذی روح یا حیوانِ مطلق کے لباس کے لیے مخصوص ہے۔ مگر دلّی کے مرزا غالبؔ نے حضورِ شاہ جو درخواست، اپنی تنخواہ بڑھانے کو بھیجی تھی اُس میں خود اپنے لیے بھی پوشش ہی کی حاجت ظاہر فرمائی تھی: " کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش ؛ جسم رکھتا ہوں،ہے اگرچہ نزار "