اردو کا واعظ شاعر
آج سے کوئی ۲۵ سال ادھر کی بات ہے۔ الہلال افق کلکتہ سے نیا نیا طلوع ہوا تھا اور ملک کی ساری فضا ابو الکلامی ادب و انشاء کے غلغلہ سے گونج رہی تھی، کہ ایک روز اس کے کسی مقالہ کے ذیل میں یہ شعر نظر سے گزرا،تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسببڑھتا ہے اور ذوقِ گنہ یاں سزا کے بعدپڑھتے ہی طبیعت بے چین ہو گئی، لطف لے لے کر خدا جانے کتنی بار پڑھا، درج صرف شعر تھا شاعر کا نام نہ تھا، دل نے کہا اور اس کہنے میں تامل وتذبذب کی کوئی ضرورت نہ سمجھی کہ شعر غالب کا ہے، دیوان غالبؔ میں پڑھنا یاد اگر نہیں پڑتا، نہ سہی، دیوان مطبوعہ میں اگر موجود نہیں نہ ہو، رہ گیا ہوگا۔ لیکن ہے یقیناً غالب کا۔ اس مسلم استاد کے سوا اور کون ایسا کہہ سکتا ہے؟ غالبؔ کا اتنا پختہ رنگ بجز خود غالبؔ کے اور کہیں مل ہی کہاں سکتا ہے؟حاضری اسی درمیان میں ایک روز مولانا شبلی کے ہاں ہوئی (اکثر ہوتی ہی رہتی تھی۔) ذکر اس شعر کا آیا، ارشاد ہوا کہ غالبؔ کا نہیں حالیؔ کا ہے۔ ہائیں یہ کیا ارشاد ہوا؟ کہاں مولوی حالیؔ اور کہاں یہ شعر؟ بے چارے ایک سیدھے سادے واعظ قسم کے آدمی، روکھے پھیکے اشعار کے ناظم، انہیں غزل اور پھر غزل کے کسی پھڑکتے ہوئے شعر سے مناسبت کیا؟ شعر کے سارے تیور استاد غالب کے، تخیل وہی، بند ش وہی، زبان وہی، حالیؔ کے کلام میں نہ حسن بیان، نہ لطف زبان، نہ یہ روح، نہ یہ جان!، نہ تخیل میں رعنائی، نہ طرز ادا میں زیبائی! غرض دل نے کچھ جھنجھلاکر اور کچھ خفیف ہوکر یہ ساری جرحیں کر ڈالیں لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہی رہتی ہے۔ دیوان حالی اٹھاکر دیکھا تو غزلیات کی ردیف دال میں شعر اپنی جگہ پر موجود!کون حالی؟ وہی جن کے تغزل وتشبیب کی کوئی وقعت دل میں تھی ہی نہیں، بس شروع سے یہ خیال ہوا تھا کہ غزل کی رنگینیوں اور رنگین بیانیوں سے انہیں واسطہ کیا، ایک خشک نظم نویس، کلام میں عاشقانہ مضامین کا قحط، بندشیں سست، خدا غریق رحمت کرے دور اول کے اودھ پنچ کو اور بھلا کرے اس کے نقادان فن اور شہسوار سخن کا۔ یہ اسی کا فیض تھا کہ کہ ایک عامی اور مبتدی طالب علم ہی کے نہیں خدا جانے کتنے پڑھے لکھوں، پختہ کاروں، لائق فائق زباں دانوں کے دل میں بس یہی رچا ہوا تھا۔ ادھر حالی کا نام آیا اور ادھر کلام کی بے نمکی، بے اثری، روکھے پن کی تصویر آنکھوں ک سامنے پھر گئی!بات دل سے نکلتے ہی نکلتی ہے، اس ایک شعر سے کیا ہوتا ہے۔ شعر کیسا ہی بامزہ سہی، بہرحال ہے تو ایک ہی۔ اور دو ایک بامزہ شعر کس کے ہاں نہیں ملتے؟ مشق کرتے کرتے معمولی شاعر بھی دوچار شعر تو اچھے سے اچھے نکال ہی لاتا ہے۔ اچھا تو آج کی صحبت میں یہی نہ ہوکہ ہم آپ مل کر دیوان حالی کے اوراق الٹ پلٹ، ادھر ادھر سے دیکھ ڈالیں۔ عجب نہیں کہ کچھ اور چیزیں بھی ہاتھ آجائیں اور یہ گھنٹہ پون گھنٹہ کی محنت محض رائیگاں نہ جائے۔ دیوان کھولیے ردیف الف میں ایک مطلع یہ ملےگا،فطرت میں تری صوفی، گر نور صفا ہوتاتو سب میں ملا رہتا اور سب سے جدا ہوتااس غزل میں فرماتے ہیں،ہم وقتِ وداع ان سے ہنس ہنس کے ہوئے رخصترونا تھا بہت ہم کو روتے بھی تو کیا ہوتاوداع و رخصت کے بڑے برے رقت انگیز مضمون آپ کی نظر سے گزر چکے ہوں گے لیکن حسرت ویاس کی جو تصویر اس رونے میں نہیں، ہنسی میں دکھا دی گئی ہے، اس کا بھی کوئی جواب ہے؟ اور پھر فرماتے ہیں،جو جان سے درگزرے، وہ چاہے سوکر گزرےگر آج نہ تم آتے کیا جانیے کیا ہوتاعاشق کی جانبازی کے افسانے بھی بھی سب دہراتے چلے آئے ہیں لیکن اس ’’کیا جانیے کیا ہوتا‘‘ کے کنایہ کے اندر جو بات ہے، وہ کی تصریح کے بعد پیدا ہونی ممکن ہے؟ ناصح اور عاشق کی مڈبھیڑ دنیائے شاعری کی بڑی پرانی حکایت ہے حالی بھی ایک بار ملتے ہیں۔جو دل پہ گزرتی ہے، کیا تجھ کو خبر ناصحکچھ ہم سے سنا ہوتا، پھر تونے کہا ہوتاحالی نہ لڑتے ہیں نہ جھگڑتے، ایک آہ سرد بھر کر صرف اتنا کہتے ہیں اور کہہ کر چپکے ہوجاتے ہیں کہ، کچھ ہم سے سنا ہوتا، پھر تونے کہا ہوتا۔ ناصح کو بے درد، بے حس، سب نے مانا ہے، یہاں عاشق کو اپنی داستان درد کی درد انگیزی پر اس درجہ اعتماد ہے کہ اس کے خیال میں وہ ناصح کے دل پر اثر کیے بغیر رہ نہیں سکتی، پتھر آخر کیسے موم ہوکر نہ رہےگا، کوئی فولاد اتنا گرم ہوبھی تو۔ نشان نہ تھا، گمان نہ تھا، اس زمین میں خوب خوب گل بوٹے کھلائے ہیں،آتے ہی ان کے بھول گئیں کلفتیں تمامگویا ہمارے سرپہ کبھی آسماں نہ تھارونا یہ ہے کہ آپ بھی ہنستے تھے ورنہ یاںطعن رقیب دل پہ کچھ ایسا گراں نہ تھاتھا کچھ نہ کچھ کہ پھانس سی اک دل میں چبھ گئیمانا کہ اس کے ہاتھ میں تیر و سناں نہ تھاکہیے خشک نظم نگاروں کا کلام ایسا ہی ہوتا ہے؟ اور آگے چلیے،بزم دشمن میں نہ جی سے اتراپوچھنا کیا تیری زیبائی کابدگمانی کے لیے غیر کا سایہ پڑ جانا بھی کافی ہو جاتا، یہاں عین بزم رقیب میں رونقِ محفل بنا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ کمال دل ربائی ہے کہ جی پھر بھی نہ ہٹا۔ کمال اپنا نہیں، اپنے وفورعشق کا نہیں، تمام تر انہیں کا، انہیں کے حسن بے پایاں کا ’’ پوچھنا کیا تیری زیبائی کا۔‘‘ گویا جمال بھی انہیں کا اور کمال بھی انہیں کا۔ غالب کا مشہور مطلع ہے،،محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کایاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کایہی زمزمہ ذرا حالی کی زبان سے سنیے اور واہ واہ کرتے رہ جائیے،تھی ہر نظر نہ محرم دیدار ونہ نہ یاںنہ خار نخل ایمن و ہرسنگ طور تھاتجلیات حق کہاں نہیں؟ دکھائی نہ دیں تو قصور اپنی نظر کا ہوا یا حسنِ نا محدود کا؟ شعر یہ کہا ہے اور اپنی ساری متانت و ثقاہت کے باوجود، حضرت زاہد کے دامن پر چھینٹے ڈالتے چلے گئے ہیں،جانی نہ قدر رحمت حق پارسانے کچھٹھہرا قصوروار اگر بے قصور تھازاہدوں کی قسمت میں تو مزدہی مزد ہے۔ محض رحمتِ حق کا نزول ظاہر ہے کہ انہیں پر ہوگا جو اپنی سیہ کاریوں کے باعث حقدار ذرا سے بھی اس رحمت کے نہ ہوں گے؟شوخی اور طراری، دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اور ظرافت کے لیے یہ ہرگز ضروری نہیں، کہ اس کے ڈانڈے عریانی وفحاشی سے مل مل جائیں۔ حالی شریف ہیں اور متین۔ اول میں بھی متین آخر میں بھی متین، ذہانت، شوخی، ظرافت، طنز، موجود ان کے ہاں سب کچھ لیکن متانت کی شان سب پر غالب، گویا حضرت اکبرالہ آبادی کا پورا جواب۔ یہاں ہر منظر پر ذہانت کا پردہ پڑا ہوا وہاں ہر چہرہ پر ظرافت کا غازہ لگا ہوا۔ ان کا یہ رنگ کہ روتے ہوئے کو بھی گدگداتے جائیں۔ ان کا یہ بھی ڈھنگ کہ ہنسی آئے بھی تو پہلے منہ پر رومال رکھا دیں۔ ایک کے ہاں تمام تر شوخی و رنگینی، دوسرے کے ہاں ایک ذرا اداسی اور غمگینی! ایک کے ہاں قہقہوں اور تالیوں کا شور، دوسرے کے ہاں ادب، لحاظ اور قاعدہ کا زور۔ ایک کی مجلس طرب افروز، دوسرے کی صحبت سبق آموز۔ ان کے میز پر شراب وکباب، ان کے دوا خانہ میں بید مشک اور عرق گلاب۔باتیں سب عاشقوں والی کہے جاتے ہیں لیکن وہینالہ رکتا ہوا، تھمتی ہوئی فریاد رہے!زبان سے جو بول ادا ہوتاہے نیچی نظروں، شرمیلی نگاہوں کے ساتھ۔ لغزش مستانہ کے بجائے ہر قدم سلامت روی کی تصویر، لیکن کلام میں حلاوت اس درجہ کہ پڑھتے جائیے اور دل ہی دل میں مزے لیتے جائیے،دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائےگاسینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائےگامطلع تو معمولی ہے لیکن آگے گلکاریاں ملاحظہ ہوں،تم کو ہزار شرم سہی، مجھ کو لاکھ ضبطالفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائےگاراضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگردشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائےگابڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچتے ہیں،کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کےپوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائےگاذرا ان بزرگ کی کم سخنی ملاحظہ ہو۔ کچھ نہ کہنے پر سب کہہ جاتے ہیں، رات کے نہ ملنے کی وجہ ظاہرہے، وعدہ تھا کس سے اور پورا جاکر کہاں ہوا وہی ’’کجا می نماید کجا می زند‘‘ کی پرانی داستان، کوئی دوسرا شاعر ہوتا تو کھل کھیلتا اور ’’معاملہ‘‘ کے پہچان جانے کی علامتیں خدا جانے کیا کیا بیان کر جاتا۔ ایک حالی کی متانت ہے کہ صراحت الگ ر ہی، کسی اشارہ کے بھی روادار نہیں، وہی نیچی نگاہیں اور زبان پر صرف اس قدر کہ عپوچھیں گے ہم سبب تو بتایانہ جائےگا۔ پھر آگے کہتے ہیں،ملنا ہے آپ سے تو نہیں حصر غیر پرکس کس سے اختلاط بڑھایا نہ جائےگایہاں استاد مومن کا بھی ایک مطلع یاد کر لیجئے،کیونکر یہ کہیں منتِ اعدا نہ کریںگےکیا کیا نہ کیا عشق میں کیا کیا نہ کریںگےخاکساری کے مضامین آپ نے بارہا سنے ہوں گے، کیسی کیسی نازک خیالیاں اس میں صرف ہو چکی ہیں اور تعلی تو ہمارے شاعر حضرات کی گویا جاگیر ہی ہے، اب ذرا دیکھیے کہ اردو کا واعظ شاعر ان دونوں اضداد کو کس بلاغت سے جمع کرتا ہے اور ایک مختصر سے شعر کے اندر کس نادر اور اچھوتے انداز سے تعلی سے خاکساری پیدا کر رہا ہے اور خاکساری سے تعلی نکال رہا ہے۔ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیاخاکساری اپنی کام آئی بہتبیت الغزل سن چکے تو اب مطلع اور ایک آدھ شعر اور بھی ملاحظہ میں آ جائیں،گو جوانی میں تھی کج رائی بہتپر جوانی ہم کو یاد آئی بہتوصل کے ہوہو کے ساماں رہ گئےمینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہتآ رہی ہے چاہ یوسف سے صدادوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہتکہیے اب بھی حالیؔ دہلی کے نرے کھرے ’’واعظ‘‘ رہے؟ وہی خشک اور بے مزہ پھیکی اور بے اثر نظم کہنے والے رہے؟ اور پھر اس غزل کے بعد یہ غزل،ان کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورتنہ وہ دیوار کی صورت نہ وہ درکی صورتکس سے پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبلکل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورتواعظو آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نےیہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورتان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماںدیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورتمقطع سے متعلق ایک لطیفہ، مولانا شبلی کی زبان سے سنا ہوا عرض کرنے کی اور اجازت دیجئے۔ علی گڑھ کے طالب علموں کی شوخیاں سارے زمانہ میں مشہور ہیں۔ حالیؔ کی یہ غزل جب اول بار شائع ہوئی تو کالج کے ایک نوجوان، داؤد احمد امروہوی مرحوم کو اس پر تضمین کی سوجھی۔ سننے کے قابل مقطع کا بند ہے،چاہیے جبکہ ارادہ کرے کوئی انساںدیکھ لے خوب کہ ہے شوق وہ اس کے شایاںسن کے لوگوں سے کہ آئے تھے وہ داؤد کے ہاںان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماںدیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورتتعزیر جرم عشق والا شعر شروع مضمون میں عرض ہو چکا۔ اب دوشعر اور اسی غزل کے پیش ہیں،گر درد دل سے پائی بھی اے چارہ گرشفاآتی ہے دل کی موت نظر اس شفا کے بعدمدت سے تھی دعا کہ ہوں بدنام شہر شہربارے ہوئی قبول بہت التجا کے بعدعاشقی میں بجز رسوائی اور بدنامی کے اور رکھا کیا ہے۔ عاشق کا کمال یہ ہے کہ اس زمانہ بھر کی رسوائی سے مغموم نہیں ہوتا۔ بچنا نہیں چاہتا ہے، الٹا خوش ہوتا ہے اور اس کی طلب و تلاش میں نکلتا ہے۔ معرفت کے رنگ میں یہ مطلع چھوڑتے نہیں بنتا،ہے یہ تکیہ تیری عطاؤں پروہی اصرار ہے خطاؤں پراکبر نے بھی ایک مصرع میں یہی مضمون ادا کیا ہے۔ اسی کی عظمت سے کوئی خائف، اسی کی رحمت پہ کوئی غافل!شاعر اردو کے تھے لیکن کہیں کہیں عربی مصر عے اس بے تکلفی، سلاست اور برجستگی کے ساتھ لگائے ہیں کہ جیسے شعر اپنی ہی زبان میں کہہ رہے ہیں۔یاد میں تیری سب کو بھول گئےکھودیے ایک دکھ نے سب امراضدیکھیے تو بھی خوش ہے یا ناخوشاور تو ہم سب سے ہیں کچھ ناراضکہتے کہتے، کہتے ہیں،لاابالی بان یعاتبنیکل ناس وانت عنی راضیہ وہی مضمون ہے جسے محمد علیؒ جوہرؔ اپنے رنگ میں یوں باندھ گئے ہیں،کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالفکافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہےایک اور عربی مصرعہ اسی غزل میں،ہے فقیہوں میں اور ہم میں نزاعہل لنا فی نزاعنا من قاضلیجئے، دیوان کی جلدی جلدی ورق گردانی کرتے کرتے ہم آپ، ردیف میم تک پہنچ گئے۔ ایک غزل پر نظم جم کر رہ گئی۔ معاملہ بندی کی ساری نزاکتوں کے ساتھ ساتھ، یہ متانت، یہ احتیاط، یہ ضبط، حالی کا حصہ ہے،
آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہمسب کچھ کہا مگر نہ کھلے رازداں سے ہماب بھاگتے ہیں سایۂ عشق بتاں سے ہمکچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہمجنت میں نہیں اگر اے زخم تیغ عشقبدلیں گے تجھ کو زندگی جاوداں سے ہماب شوق سے بگاڑ کی باتیں کیا کروکچھ پا گئے ہیں آپ کی طرز بیاں سے ہمیہ شعر اگر حالی کے دیوان سے نکال کر، مومن یا شیفتہ کے دیوان میں لگا دیے جائیں تو کسی کو کچھ پتہ بھی چلنے پائےگا؟ ’’گرانیاں، ’’کہانیاں ہیں‘‘ والی غزل اس زمانہ کی ہے جب حالیؔ شاعر، حالی واعظ کے قالب میں آچکے تھے، اس پر بھی ذیل کے دونوں شعر دیکھئے، شعر کی زمین ہے کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے،کہتے ہیں جس کو جنت وہ ایک جھلک ہے تیریسب واعظوں کی باقی رنگیں بیانیاں ہیںروتے ہیں چار ہم پر ہنستے ہیں چار ہم پریاں تک ہماری پہنچی اب ناتوانیاں ہیںغزلوں کے متفرق اشعار کثرت سے گزر چکے، اب پوری غزل نمونہ کے طور پر ملاحظہ میں آجائے کہ انتخاب اشعار میں رورعایت کا شبہ نہ رہے، فرماتے ہیں اور ہر ہر شعر پر پڑھنے والے سے داد وصول کیے جاتے ہیں،ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاںاب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاںہیں دور جام اول شب میں خودی سے دورہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاںیارب اس اختلاط کا انجام ہو بہ خیرتھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاںاک عمر چاہئے کہ گوارا ہونیش عشقرکھی ہے آج لذتِ زخم جگر کہاںبس ہو چکا بیان کسل ورنج راہ کا!خط کا میرے جواب ہے اے نامہ بر کہاںکون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیراس خانماں خراب نے ڈھونڈھا ہے گھر کہاںحالیؔ نشاط نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو ابآئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاںغزل نو شعر کی ہے، مراتب کا فرق یقیناً ان کے درمیان ہے لیکن فرمائیے اس میں پست ولغو شعر، نکال ڈالنے کے قابل کون سا ہے؟ کلام کی خشکی، اگر اسی کا نام ہے تو آخر’ تری‘ کے نمونے کہاں ملیں گے؟ ردیف یے، میں دو مختصر غزلیں ’گمان رہے، نشان رہے‘ کی زمین میں ہیں۔ اس زمین کے دو ایک شعر ایسے صاف، سجل اور گویا سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں کہ بے تکلف زبان پر چڑھ گئے ہیں۔کل مدعی کو آپ پہ کیا کیا کیا گماں رہےبات اس کی کاٹتے رہے اور ہم زباں رہےدیروحرم کو تیرے فسانوں سے بھر دیااپنے رقیب آپ رہے ہم جہاں رہےیارانِ تیز گام نے محمل کو جالیاہم محو نالۂ جرسِ کارواں رہےدریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کامکشتی کسی کی پار ہو یادرمیاں رہےحسن قبول اگر ایسے کلام کو حاصل ہو جائے، تو اس پر حیرت ہی کیوں کی جائے۔ مغز و معنی سے قطع نظر سلاست، شستگی، روانی، بے ساختگی کسی حیثیت سے بھی یہ کلام کسی بلند سے بلند نمونہ سے پست ہے؟ کہنے والوں نے کہا ہے کہ حالی جب تک قدیم رنگ میں قائم رہے، اچھی اچھی غزلیں کچھ نہ کچھ بہرحال نکالتے رہی رہے مگر جب سے جدید رنگ میں پڑے، اپنی شاعری کو غارت کرکے رکھ دیا۔ یہ قول کسی حدتک تو شاید صحیح ہو لیکن تمام تر صحیح تو یقیناً نہیں۔ ابھی ابھی جو نمونے کلام کے گزر چکے، ان میں دس شعر اگر دور قدیم کے تھے تو چار دور جدید کے بھی۔ دونوں میں کوئی فرق و امتیاز محسوس ہوا؟ کلام جدید کے بہت سے نمونے اوپر گزر چکے، اب دوچار شعر اسی دور کی ایک اور غزل کے ملاحظہ ہوں،جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہےقدم دشتِ پیما ہوا چاہتا ہےبہت کام لینے تھے جس دل سے ہم کووہ صرف تمنا ہوا چاہتا ہےندرت قافیہ ملاحظہ ہو۔وفا شرطِ الفت ہے لیکن کہاں تکدل اپنا بھی تجھ سا ہوا چاہتا ہےغمِ اشک کو تلخ سمجھے تھے ہمدمسو وہ بھی گوارا ہوا چاہتا ہےفزوں تر ہے کچھ ان دنوں ذوق عصیاںدرِ رحمت اب وا ہوا چاہتا ہےخشکی اگر متانت بیان ہی کا دوسرا نام ہے تو یقیناً یہ اشعار بھی خشک ہیں، لیکن اگر متانت بیان عیب نہیں ہنر ہے، تو خدارا کوئی بتائے کہ خشکی کا اطلاق ایسے کلام پر کس طرح کیا جائے؟ غزلیات کا حصہ اب اچھا خاصا ہو چکا، عجب نہیں کہ اہل بزم، مقالہ نگار کی آشفتہ بیانی وژو لیدہ نگاری سے افسردہ وملول ہو چلے ہوں۔ اس لیے اب صرف ایک غزل اور اسی دور جدید کی سن کر یہ ورق الٹ دیجئے،ملنے کی جو نہ کرنی تھی تدبیر کرچکےآخر کو ہم حوالۂ تقدیر کرچکےاے دل اب آزمائش کا ہے وقتوہ امتحان برش و شمشیر کرچکےکہتے ہیں طبع دوست شکایت پسند ہےہم شکوہ ہائے غیر بھی تحریر کرچکےبھولے رہے تصور مژگاں میں چند روزدیکھا تو دل کو ہم ہدف تیر کر چکےدل لے کے ایک میرا یہ فارغ ہوئے ہیں وہگویا کہ اک جہان کو تسخیر کر چکےحالی اب آؤ پیروئیِ مغربی کریںبس اقتدائے مصحفی ومیر کر چکےاور توجو کچھ ہے، خیر ہئی ہے، خود شوخی کے نمونوں سے یہ کلام کب خالی ہے؟ تیسرے شعر کے اندر لطیف شوخی کی جو کیفیت ہے، اسے لفظوں میں کوئی کیونکر بیان کر دے؟ بس بات کیا ہے وہی کہ نرم مخملیں پنجہ، آہنی دستانہ کے اندر چھپا ہوا، شوخی حدود متانت سے قدم باہر نہیں نکال سکتی اور اپنی لطیف ترین صورتوں ہی میں محدود رہ جاتی ہے۔قلم کا مسافر، اب ذرادم لے۔ شعر اب ایک آدھ نہیں رہا۔ دس بیس بھی نہیں سو پچاس شعر ہو چکے۔ کوئی تیر کوئی نشتر۔ اب بھی اس کلام سے وہی بدگمانی چلی جائےگی کہ خشک اور نرا واعظانہ ہے؟ خیال اب بھی یہی قائم رہےگا کہ حالی غزل گوئی میں ہیٹے ہیں؟ غالبؔ اور مومنؔ اور شیفتہؔ آسمان شعر کے آفتاب و ماہتاب ہوئے ہیں۔ انہیں کے معیار پر کیسے، جانچ لیجئے پرکھ لیجئے۔یہ سب کچھ ہے لیکن اس پر بھی حالیؔ کا اصلی میدان غزل کا میدان نہیں۔ ان کی شاعری ’واہ‘ کی نہیں ’آہ‘کی نہیں، جوش ولولہ کی نہیں، حزن وحسرت کی ہے۔ نوعمری میں جو کچھ بھی رہے ہوں لیکن عمر کی پختگی کے بعد تو گل و بلبل کے افسانے چھوڑ اور زلف و ابرو کے جنجال سے نکل، بس قوم کے ہو رہے تھے اور اب وہ تھے اور قوم کے اقبال کا ماتم۔ ساز کوئی سا بھی ہوتا، نغمہ یہی ایک نکلتا، کسی بڑے سے بڑے زندہ دل ظریف کا جوان، چہیتابیٹا، آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہا ہو، اس وقت باپ کے دل پر کیا گزر کر رہےگی؟ منہ قہقہوں کے لیے کھلے گا یا آہ وبکا کے لیے؟ زبان پر حسرت ویاس کے کلمے ہوں گے یا کوئی نئی پھبتی سوجھےگی؟ بس جو حال ہمارا آپ کا، ساری دنیا کا، بیٹوں کے لیے، بھائیوں کے لیے رہتاہے، حالیؔ کا وہی حال ساری امت اسلامیہ کے لیے، ساری ملت کے لیے۔ ساری قوم کے واسطے تھا۔یہ حال ان آنکھوں نے بعد کو مشہور قومی لیڈر محمد علی جوہر کا دیکھا، فرق یہ تھا کہ محمد علی کے ہاں طبیعت میں غضب کی تیزی تھی۔ حالیؔ کے ہاں آہ سرد بھی آئین وضابطہ کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی۔ ایک کے ہاں تمام تر جوش اور شوریدگی، دوسرے کے ہاں ضبط و تحمل سے ملی ہوئی سنجیدگی۔ محمد علیؒ جدھر سے گزرتے، ایک عالم تہہ و بالا کر دیتے، حالی دلوں میں اندر ہی اندر حزن وغم کی پھانس چبھوکر رہتے۔ محمد علیؒ چیخیں مار مار کر خود روتے ہیں، اور دوسروں کو رلا مارتے ہیں۔ حالی سر جھکائے اداس صورت بنائے چپکے چپکے بیٹھے کلمہ شریف کا ورد کر رہے ہیں، ٹھنڈی سانسیں بھرتے جاتے ہیں اور جب آنکھیں بے اختیار نم ہونے لگتی ہیں تو چٹ رومال نکال آنسو پونچھ ڈالتے ہیں۔ طبیعت پر حسرت، اداسی اور غمگینی مستقل طور پر غالب ہو گئی تھی۔ جو بات بھی منہ سے نکلتی در د کی کسک سے خالی نہ ہوتی۔دہلی کے طبیب اعظم، حکیم محمود خاں کا مرثیہ لکھنے بیٹھے، تو لگے بجائے فرد کے قوم کا ماتم کرنے۔ غم نصیب سانحہ زدہ بوڑھیوں کو آپ نے دیکھا کہ دل پر جب تازہ داغ کھاتی ہیں تو ساتھ ہی پچھلے داغ بھی تازہ ہو جاتے ہیں اور بین اپنے آج ہی پر نہیں گزرے ہوئے کل، اور بھولے بسرے ہوئے پرسوں پر بھی کرنے لگتی ہیں۔ حالیؔ کا سینہ بھی داغوں سے لالہ زار بنا ہوا تھا۔ محمود خاں کے مرثیہ کے آخری بند ملاحظ ہوں۔ اپنے اصل مذاق طبیعت کی مصوری خود ہی کردی ہے۔ پڑھتے جائیے، اور دل اگر درد مند ہے تو سرد آہیں بھرتے جائیے،شاید اب پہنچی ے ہم میں نوبت قحط الرجالایک اٹھ جاتا ہے دنیا سے اگر صاحبِ کمالدوسری ملتی نہیں دنیا میں پھر اس کی مثالذات باری کی طرح گویا کہ تھا وہ بے ہمالظاہراً اب وقت آخر ہے ہماری قوم کامرثیہ ہے ایک کا اب نوحہ ساری قوم کاسنتے ہی حالیؔ سخن میں تھی بہت وسعت کبھیتھیں سخنور کے لیے چاروں طرف راہیں کھلیداستان کوئی بیان کرتا تھا حسن وعشق کیاور تصوف کا سخن میں رنگ بھرتا تھا کوئیگاہ غزلیں لکھ کے دل یاروں کے گرماتے تھے لوگگہہ قصیدہ پڑھ کے خلعت اور صلے پاتے تھے لوگپر ملی ہم کو مجال نغمہ اس محفل میں کمراگنی نے وقت کی لینے دیا ہم کو نہ دمنالہ و فریاد کا ٹوٹا کہیں جاکر نہ سمکوئی یاں رنگین ترانہ چھیڑنے پائے نہ ہمسیہ کوبی میں رہے جب تک کہ دم میں دم رہاہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا’’ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا‘‘ اس ایک مصرعہ میں واعظ شاعری کی پوری آپ بیتی آگئی۔یہ نہ تھا کہ ظرافت نہیں آتی تھی، طنز تو ایسا کرجاتے اور اس کثرت سے کرگئے ہیں کہ کوئی اگر طنزیات حالی کو یکجا کرنے پر آ جائے تو طنزیات ومضحکات کا اچھا خاصہ مشتمل رسالہ تیار کرلے جائے لیکن وہی متانت کا طبعی رنگ ظرافت پر بھی چھایا ہوا۔ کھلکھلا کر ہنسنا تو جانتے ہی نہیں۔ جب دوسروں کو ہنسانا چاہتے بھی ہیں تو خود محض زیرلب مسکراکر رہ جاتے ہیں۔ گورے اور کالے کی قسمت کے فرق کا تماشا اپنے وطن کی سرزمین پر آپ بار ہا دیکھ چکے ہوں گے، اب ذرا ایک یہ منظر مرقع حالی میں بھی دیکھتے چلیے،دو ملازم ایک کالا اور گورا دوسرادوسرا پیدل مگر پہلا سوار راہوارتھے سول سرجن کی کوٹھی کی طرف دونوں رواںکیونکہ بیماری کی رخصت کے تھے دونوں خواستگارراہ میں دونوں کے باہم ہم ہو گئی کچھ ہشت مشتکوکھ میں کالے کی ایک مکا دیا گورے نے مارصدمہ پہنچا جس سے تلی کو بہت مسکین کیآگے گھوڑے سے لیا سائیس نے اس کو اتارٹھوک کر کالے کو گورے نے تواپنی راہ لیچوٹ کے صدمہ سے غش کالے کو آیا چند بارآخرش کوٹھی پہ پہنچے جاکے دونوں پیش وپسضارب اپنے پانوں اور مضروب ڈولی میں سوارڈاکٹر نے آکے دونوں کی سنی جب سرگزشتتہہ کو جاپہنچا سخن کی سن کے قصہ ایک باردی سند گورے کو لکھی تھی جس میں تصدیق مرضاور یہ لکھا تھا کہ سائل ہے بہت زار و نزاریعنی اک کالا نہ جس گورے کے مکے سے ے مرےکر نہیں سکتا حکومت ہند پر وہ زینہاراور کہا کالے سے تم کو مل نہیں سکتی سندکیونکہ تم معلوم ہوتے ہو بظاہر جاندارایک کالا پٹ کے گورے سے جوفوراً مرنہ جائےآئے بابا اس کی بیماری کا کیونکر اعتباراب کون ایسا بے انصاف ہوگا۔ جو اس کے بعد بھی حالی کی خشک نگاری کا شکوہ سنج رہے چلا جائےگا؟مشاعرے کی محفل گرم ہے۔ کاملین فن جمع ہیں۔ دہلی کے دور آخر کے استادوں کا مجمع ہے۔ لوگ منتظر ہیں کہ غالبؔ و شیفتہؔ کے شاگرد رشید کی زبان سے کوئی پھڑکتی ہوئی مزیدار سی عاشقانہ غزل سننے میں آئےگی۔ رندی و ہوسناکی کی روح تازہ ہو جائےگی۔ شاعر کا منہ کھلا تو یک بیک یہ معلوم ہوا کہ مشاعرہ نہیں مجلس عزا ہے اور غزل نہیں نوحہ پڑھا جا رہا ہے۔ اگلے عزیز و رفیق سب ایک ایک کرکے یاد آ رہے ہیں اور نام لے لے کر دل کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے۔ نوحہ آج بھی اور کاغذ پر چھپا ہوا دل والوں کے لیے موثر ہے۔ ساٹھ سال پیشتر کیسا کچھ رقت انگیز رہا ہوگا! خصوصاً جس وقت قدردانوں کے بھرے مجمع میں شاعر کی زبان سے ان کے پراثر لہجہ کے ساتھ ادا ہوا ہوگا،تذکرہ دہلی مرحوم اے دوست نہ چھیڑنہ سنا جائےگا ہم سے یہ فسانہ ہرگزصحبتیں اگلی مصور، ہمیں یاد آئیں گیکوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگزلے کے داغ آئےگا سینہ پہ بہت اے سیاحدیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگزچپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہہ خاکدفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگزمٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تواے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگزہم کو گر تو نے رلایا اے چرخہم پہ غیرکو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگزیار خود روئیں گے کیا ان پہ جہاں روتا ہےان کی ہنستی ہوئی شکلوں پہ نہ جانا ہرگزبخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دورزماںنہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگزغالبؔ و شیفتہؔ و نیر ؔو آزردہ ؔوذوقؔاب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگزمومن و علوی و صہبائی و ممنون کے بعدشعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگزکردیا مرکے یگانوں نے یگانہ ہم کوورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہر گزداغؔ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میںنہ سنےگا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگزرات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر وزبراب نہ دیکھوگے کبھی لطفِ شبا نہ ہرگزبزمِ ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔیاں مناسب نہیں رورو کے رلانا ہرگزآج اگر ہمارے آپ کے آنسو نہیں ٹپک پڑتے تو ہمیں ’’ دہلی مرحوم‘‘ کے مرحوم ہونے کا احساس ہی کب ہے؟ آنکھوں میں تو اب ’’نئی دہلی‘‘ بسی ہوئی ہے، شاہ جہان آباد جانتا کون ہے؟ اسمبلی ہال کے سامنے، لال قلعہ کو جھانکنے بھی کون جاتا ہے؟ افسانۂ ماضی کو تو ہم ماضی کے حوالے کر ہی چکے، اب رونا آئے بھی تو کس بات پر؟ بھائی اور بیٹے کی تازہ میت پر سب روتے ہیں، بھولے بھالے ہوئے دادا پر دادا کی موت کے ذکر پر آنسو نکلتے کس کے دیکھے ہیں؟مسدس مد و جزر اسلام فرط شہرت سے محتاج نہ کسی تعریف کا، نہ کسی تعارف کا، نہ کسی نئی مدح و توصیف کا، نہ کسی جدید تبصرہ کا۔ ایک مسلسل داستانِ درد شروع سے آخر تک ہے، آخر میں بہ طور سے ضمیمہ ایک قصیدہ لگا ہوا ہے۔ شاعر مسلمان ہے اور مسلمان کی حیثیت سے، اسلام اور مسلمانوں کا حال زار، دربار رسالت میں عرض کر رہا ہے۔ اس عرض و معروض میں اللہ اکبر کس قدر اخلاص ہے اور کس قدر نیاز، کس درجہ تعلق خاطر ہے اور اصلاح حال کے لیے کس درجہ بے قراری!اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہےامت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہےجو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سےپردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے۱۵، ۲۰ شعروں میں اپنے حال کا عبرت انگیز مقابلہ اپنے ’ماضی‘ سے کرتے چلے گئے ہیں، اس کے بعد کہتے ہیں،گو قوم میں تیرے نہیں اب کوئی بڑائیپر نام تیری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہےڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخرمدت سے اسے دورزماں میٹ رہا ہےآگے پھر وہی مدوجزر اقبال وزوال کی داستان سرائی ہے، لیکن پھر سنبھلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں شکوہ کس کا اور شکایت کس کی؟اے چشمۂ رحمت بابی انت وامیدنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہےجس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چھڑایاجب تو نے کیا نیک سلوک ان سے کیا ہےاس متن کی تھوڑی سی شرح کے بعد پھر متوجہ ہوتے ہیں،برتاؤ ترے جبکہ یہ اعدا سے ہیں اپنےاعدا سے غلاموں کو کچھ امید سوا ہےامت میں تیری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکندلدادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہےامت کا جو تعلق رسولؐ کے ساتھ ہے، اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی تعلق کر سکتا ہے؟،جو خاک تیرے درپہ ہے جاروب سے اڑتیوہ خاک ہمارے لیے داروئے شفا ہےجو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرفاب تک وہی قبلہ تیری امت کا رہا ہےجس شہر نے پائی تیری ہجرت سے سعادتکعبہ سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہےآخر میں گویا دل چیر کر سامنے رکھ دیتے ہیں،ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارےنسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہےخود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے ہیں خواہاںپر فکر تیرے دین کی عزت کا سدا ہےگردین کی جوکھوں نہیں ذلت سے ہماریامت تری ہر حال میں راضی برضا ہےعزت کی بہت دیکھ لیں دنیا میں بہاریںاب دیکھ لیں یہ بھی کہ جو ذلت میں مزا ہےاس منزل پر پہنچ کر معاً یاد پڑجاتا ہے کہ موقع ناز یوسفی کا نہیں، نیاز یعقوبی کا ہے۔ہاں حالیؔ گستاخ نہ بڑھ حدادب سےباتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گِلا ہےہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطبیا جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہےیہ دل کی شاعری اس کی تھی، جس کے محض ایک خشک وعظ گو ناظم ہونے کا ڈھنڈورا کس بے دردی اور ناانصافی کے ساتھ ایک عالم میں پٹ گیا تھا۔واعظ شاعر کی عام وعظ گوئی اور عام شاعری کے نمونے آپ نے دیکھ لیے۔ غزلیات کے حصہ کو چھوڑ کر باقی شاعری ایک مسلمان شاعر کے دل کی آواز تھی۔ ماتم تمام تر زوال امت اسلامیہ کا، مصوری تما م تر جذبات ملی کی۔ اب ختم صحبت پر ایک اچٹتی سی نظر حالیؔ کی آفاقی شاعری پر بھی ہو سکے تو بہتر ہے، آفاقی شاعری اسلامی شاعری سے الگ اور متغائر کوئی چیز نہیں، اس کے بلند ترین مقام کا نام ہے۔ بندہ اور پروردگار کے تعلق سے بڑھ کر وسیع وعالمگیر تعلق اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ شاعر نے جب براہ راست رب العالمین سے آہ و فریاد شروع کر دی، اور شاعری میں قید و تعینات کی جگہ وحدت نے لے لی، بس وہیں سے آفاقی شاعری ہو گئی۔ اور یہ ہیچمدان تو یہ عرض کرےگا کہ حالی نے عمر بھر بجز ایک ’’ بیوہ کی مناجات‘‘ کے اگر کچھ نہ کہا ہوتا، تو ان کے لیے یہی ایک نظم دنیا عقبیٰ دونوں میں بس تھی، باتیں اتنی سچی اور ایسی روح کی گہرائیوں سے نکلی ہوئیں کہ آسمان کے فرشتے بھی سن کر سر دھنیں۔ بول اتنے میٹھے کہ خود معصیت بڑھ کر بلائیں لینے لگے۔ ذرا سنیے اور دل تھا م کر سنیے۔اے سب سے اول اور آخرجہاں تہاں حاضر اور ناظراے بالا ہر بالاتر سےچاند سے سورج سے امبر سےسب سے انوکھے سب سے نرالےآنکھ سے اوجھل دل کے اجالےناؤ جہاں کی کھینے والےدکھ میں تسلی دینے والےجب اب تب تجھ سا نہیں کوئیتجھ سے سب ہیں تجھ سا نہیں کوئیبید، نرا سے بیماروں کاگاہک مندے بازاروں کاسوچ میں دل بہلا نے والابپتا میں یاد آنے والاحمد باری صدہا بار آپ سن چکے ہوں گے۔ اتنی سادہ، اتنی معصومانہ، ساتھ ہی اتنی مؤثر حمد کا کوئی جواب اردو کے خزانے میں کہیں ہے؟اے اٹکل اور دھیان سے باہرجان سے اور پہچان سے باہرعقل کوئی پا نہیں سکتابھید ترے حکموں میں ہیں کیا کیاایک کو تونے شاد کیا ہےایک کے دل کو داغ دیا ہےکھیتی ایک کی ہے لہراتیایک کا ہر دم خون سکھاتیحال غرض دنیا کا یہی ہےغم پہلے اور بعد خوشی ہےرنج کا ہے دنیا کے گلا کیاتحفہ یہی لے دے کے ہے یاں کامناجاتیں آپ نے بہتوں کی سنی ہوں گی۔ بڑے بڑے عابدوں زاہدوں کی سنی ہوں گی، اب فریاد اس بیکس وبے بس، بے آس اور نامراد دکھیاری کی بھی سنتے چلیے،یہاں نہیں بنتی رنج سہے بنرنج نہیں سب ایک سے لیکنتوہی کر انصاف اے مرے مولاکون ہے جو بے آس ہے جیتاخواہ دکھی ہے خواہ سکھی ہےجو ہے اک امید اس کو بندھی ہےکھیتیاں جن کی کھڑی ہیں سوکھیآس وہ باندھے بیٹھے ہیں مینھ کیایک ہے اس امید پہ جیتااب ہوئی بیٹی اب ہوا بیٹاپر نہیں اٹھ سکتی وہ ہے مصیبتآئےگی جس کے بعد نہ راحتشاد ہو اس رہگیر کا کیا دلمرکے کٹےگی جس کی منزلان اجڑوں کو کل پڑے کیونکرگھر نہ بسےگا جن کا جنم بھرآگے بڑھنے سے قبل، اگر خدا نخواستہ آپ کے حلقہ میں کوئی بپتاکی ماری نوجوان بیوہ ہوتو اس کا تصور ذہن میں جما لیجیے۔ نوعمری کا زمانہ، شوخی وشرارت کا ہونا، کھیلنا کھانا، دوڑنا، بات بات پر ہنسنا ہنسانا، ماں باپ نے بیاہ کس شوق کس خوشی سے رچایا۔ ہاتھوں پیروں میں مہندی لگی، نئے نئے بھاری جوڑے، نئے نئے زیور گہنے، طرح طرح کی رنگینیاں، نت نئی شوخیاں، دل میں کیسے کیسے ارمان بھرے ہوئے، نظروں میں کیا کیا نقشے جمے ہوئے! اتنے میں یک بیک یہ سب غائب۔ سارا منظر محض خواب و خیال۔ یہ ہاتھ اب عمر بھر چوڑیوں کو ترسیں گے۔ یہ کپڑے اب کبھی خوشبو سے آشنا نہ ہوں گے، خوشبو کیسی رنگین کپڑے تک اب نصیب نہ ہوں گے۔ دنیا اپنے عیش کے کاروبار میں مصروف، محلہ اور برادری میں شادیوں کو دھومیں، خاص اپنے گھر میں برسات کی ملاریں، جھولے پڑرہے ہیں، کھیل پرکھیل ہو رہے ہیں۔ ساتھ کی کھیلنے والیاں ساتھ کی مانگی بیاہی ہوئیں، نئی نئی ساڑیاں باندھے شوخ رنگ کے بلاؤز پہنے، کیسے کیسے طرحدار دوپٹے اوڑھے، آنکھوں کے سامنے کوئی ہنس رہی ہے کوئی دوڑ رہی ہے اور ایک یہ مصبیت کی ماری ہے کہ اپنی قسمت کو رورہی ہے،آئیں بہت دنیا میں بہاریںعیش کی گھر گھر پڑیں پکاریںپڑے بہت باغوں میں جھولےڈھاک بہت جنگل میں پھولےگئیں اور آئیں چاندنی راتیںبرسیں کھلیں بہت برساتیںپر نہ کھلی ہر گز نہ کھلے گیوہ جو کلی مرجھائی تھی دل کیآس ہی کایاں نام ہے دنیاجب نہ رہی یہ ہی تو رہا کیاحکم سے تیرے پر نہیں چاراکڑوی میٹھی سب ہے گواراتجھ سے کہیں گر بھاگنا چاہیںبند ہیں چاروں کھونٹ کی راہیںتو مارے ے اور نوازےپڑی ہوں میں تیرے دروازےتجھی کو اپنا جانتی ہوں میںتجھ سے نہیں تو کس سے کہوں میںسہیلیاں زیوروں سے لدی ہوئی ہیں، کس شوق سے کس چاؤ سے ایک دوسرے کو اپنے اپنے زیور دکھائے جارہے ہیں۔ ہاتھوں میں مہندیاں رچی ہوئی ہیں، پھولوں کے گہنے سر اور گلے کو زینت دیے ہوئے ہیں۔ نازک نازک پنڈے عطر کی خوشبوؤں سے مہک رہے ہیں، کہیں ذکر میاں کی چاہ پیار کا ہو رہا ہے، کہیں تذکرے سسرال کی نازبرداریوں کے ہو رہے ہیں، کہیں کسی پر فقرے کسے جا رہے ہیں، قہقہوں کا غل ہے، رنگ رلیاں منائی جارہی ہیں۔ ادھر ایک بیچاری اللہ کی بندی ایسی ہے جس کے ہاتھ بھی ننگے اور کان بھی۔ جسم رنڈاپے کی سفید چادر سے چھپا ہوا اس کا بھی آخر وہی ہے، کیا اس کے دل میں کوئی ارمان نہیں رہا ہے؟ اس کا قلب امنگوں سے، حوصلوں سے، ولولوں سے خالی بنایا گیا ہے؟ کیا اس دکھیاری کا جی نہیں چاہتا کہ کوئی اس کا بھی نازبردار ہوتا؟ یہ بگڑتی اور کوئی مناتا، یہ فرمائشیں کرتی اور کوئی دل وجان سے انہیں پوری کرکے دیتا؟ روتی جاتی ہے اور کہتی جاتی ہے،اے میرے زور اور قدرت والےحکمت اور حکومت والےمیں لونڈی تیری دکھیاریدروازے کی تیرے بھکاریموت کی خواہاں جان کی دشمنجان پہ اپنی آپ اجیرناپنے پرائے کی دھتکاریمیکے اور سسرال پہ بھاریایک خوشی نے غم یہ دکھائےایک ہنسی نے گل یہ کھلائےرو نہیں سکتی تنگ ہوں یاں تکاور روؤں تو روؤں کہاں تکدن بھیانک اور رات ڈرانییوں گزری ساری یہ جوانیبہنیں اور سہیلیاں میریساتھ کی تھیں جو کھیلیاں میریمل نہ سکیں جی کھول کے مجھ سےخوش نہ ہوئیں ہنس بول کے مجھ سےجب آئیں رو دھوکے گئیں وہجب گئیں بے کل ہوکے گئیں وہآگ کھلی دل کی نہ کسی پرگھل گئی جان اندر ہی اندرتہواروں کا آئے دن آنااور سب کا تہوار مناناوہ چیت اور پھاگن کی ہوائیںوہ ساون بھادوں کی گھٹائیںوہ گرمی کی چاندنی راتیںوہ ارمان بھر ی برساتیںکس سے کہوں کس طرح سے کاٹیںخیر کٹیں جس طور سے کاٹیںرہ گیا دے کر چاند دکھائیچاند ہوا پر عید نہ آئیرت بدلی پر ہوئی نہ برکھابادل گرجا اور مینہ نہ برساریت میں ذرے دیکھ چمکتےدوڑ پڑی میں جھیل سمجھ کےحسرت نصیب اپنے دن کو دیکھتی ہے اور آسمان کی طرف دیکھ کر رہ جاتی ہے، پھر بلک بلک کر اپنے اسی مالک و مولیٰ سے کچھ عرض کرنے لگتی ہے۔ جو کسک اس کی آواز میں ہے، وہ عابدوں اور زاہدوں کو بھی کہاں نصیب؟ عمر بھر کے مجاہدے ایک طرف، اور ایک گھڑی کی یہ شکستگی، یہ بےچارگی، یہ اپنی بندگی کا مشاہدہ دوسری طرف۔ کہتی جاتی ہے اورسننے والوں کے دل ہلائے لرزائے دیتی ہے،اے دین اور دنیا کے مالکاے راجا اور پرجا کے مالکسب پہ کھلا ہے در رحمت کابرس رہا ہے مینہ نعمت کاسب کو تیرے انعام تھے شاملمیں ہی نہ تھی انعام کے قابلاگر کچھ آتا بانٹ میں میریسب کچھ تھا سرکار میں تیریتھی نہ کمی کچھ تیرے گھر میںنون کو ترسی میں سانبھر میںپہر دن یہ سوچتی ہوں جی میںآئی تھی میں کیوں اس نگری میںرہی اکیلی بھری سبھا میںپیاسی رہی بھری گنگا میںقسمت نے جب سے منہ موڑاآدمیوں کا ہو گیا توڑاتیرے سوا اے رحم کے بانیکون سنے یہ رام کہانیکوئی نہیں لاگو اب میراباپ نہ بھائی ساس نہ سسراشاعر کی تخیل آرائی نہیں ہے، واقعات لکھ رہا ہے اپنے زمانے کے۔ واقعات و مشاہدات کہتے ہیں کہ شاعر وہ ہے جو جھوٹ کو سچ بناکر دکھائے۔ حالانکہ شاعری کا سب سے بڑا کمال واقعہ نگاری ہے، مشاہدات سے واقعات سے بڑھ کر مؤثر اور کون شئے ہو سکتی ہے،روئیے تو سب روتے ہیں گھر کےرونے نہیں دیتے جی بھر کےہنسئے، تو ہنسنا عیب ہے ہم کوکیونکر الہی کاٹئے، غم کومہندی میں نے لگانی چھوڑیپٹی میں نے جمانی چھوڑیکپڑے مہینوں میں ہوں بدلتیعطر نہیں میں بھول کے ملتیسرمہ نہیں آنکھوں میں لگاتیبال نہیں برسوں گندھواتیدو دو چاند نہیں سردھوتیاٹھواروں کنگھی نہیں ہوتیکان میں پتے ہاتھ میں کنگنپہن چکی سب جب تھی سہاگنآپ کو یاں تک میں نے مٹایاپر دنیا کو صبر نہ آیاوہم نے ہے اک ایک کو گھیراجب دیکھو تب ذکر ہے میراان دکھیاریوں پر جو جو ظلم ابھی ایک نسل ادھر تک عام تھے بلکہ کہیں کہیں اب بھی جاری ہیں، کس ادھیڑ سن والے کے علم میں نہیں؟ کن پرانی آنکھوں نے وہ جگر خراش منظر نہیں دیکھے ہیں؟ ا س وقت کے کس کان نے وہ فریادیں نہیں سنی ہیں؟ یہ دوروہ تھا، جب کسی بیوہ کے عقد کا نام لینا ہی ہمسایہ قوم کی دیکھا دیکھی، خود مسلمانوں میں خاندان کی ناک کٹ جانے کے مرادف قرار پا چکا تھا۔ آن پرمٹ جانے والی، شرافت پر جان دینے والی، کمسن، بیوہ، اپنی عزت پر گواہ آسمان کے چھٹکے ہوئے تاروں اور گھر کے دروں، دیواروں سب کو لاتی ہے،اے امبر کے چمکتے ہوئے تارواے گھر کے در و دیوارو!اے جانی پہچانی راتو!تنہائی کی ڈرانی راتو!ایک دن اس گندی دنیا سےجانا ہے مالک کے آگےجب وہاں پوچھ ہو میری تیریتم سب دیجو گواہی میریمیں نیکی کا دم نہیں بھرتیپاکی کا دعویٰ نہیں کرتیپر یہ خدا سے ڈر کے ہوں کہتیمنہ پہ یہ آئے بن نہیں رہتیخواہ بری تھی خواہ بھلی میںبات سے اپنی نہیں ٹلی میںساتھ نہ قوم اور دیس کا چھوڑااور نہ خدا کے عہد کو توڑااے ایمان کے رکھنے والےاے نیت کے پرکھنے والےمیں نہیں رکھتی کام کسی سےچاہتی ہوں انصاف تجھی سےحکم پہ چلتی تیرے اگر میںچین سے کرتی عمر بسر میںلیکن ہٹ پیاروں کی یہی تھیمرضی غم خواروں کی یہی تھیاپنے بڑوں کی رت نہ چھوٹےقوم کی باندھی رسم نہ ٹوٹےجان کسی کی جائے تو جائےآن میں اپنی فرق نہ آئےتجھ پہ ہے روشن اے میرے مولیٰوقت یہ کیسا مجھ پہ پڑا تھاآن سنبھالے جان تھی جاتیجان بچائے آن تھی جاتیطے کرنے تھے سات سمندرحکم یہ تھا ہاں پانوں نہوترجان نہ سمجھا جان کو اپنیدیا نہ جانے آن کو اپنیاے اچھے اور برے کے بھیدیکھوٹے اور کھرے کے بھیدیبھیدوں کے جاننے والےپاپ اور پن کے چھاننے والےعیب اور گن سب تجھ پہ ہیں روشنپاپ اور پن سب تجھ پہ ہیں روشنکان اور آنکھیں ہاتھ اور بازوجن جن پر تھایاں مجھے قابوسب کو بدی سے میں نے بچایاسب کو خودی سے میں نے ہٹایاروک کے اور یوں تھام کے آپامیں نے یہ کاٹا اپنا رنڈا پاتو ہے مگر اس بات کا دانامیں نے کہا دل کا نہیں ماناتھامنا دل کا کام تھا میرااور تھمانا کام تھا تیراپکڑے اگر تو دل کی خطا پرمیں راضی ہوں تیری رضا پراپنی تو خیر جیسی بھی گزری گزر گئی، اب دھیان ہے تو اس کا کہ اور بہت سی بہنوں پر بھی یہی وقت پڑا ہوا ہے، ان بیچاریوں کی تو مشکل کسی طرح آسان ہو، بندی اپنے چاہنے والے مالک اور مولیٰ سے کہتی ہے،اے غم خوارہر ایک بیکس کےحامی ہر عاجز بے بس کےہے اپنے عاجز بندوں پرپیار تیرا ماں باپ سے بڑھ کرجس نے گلی میں تجھ کو پکاراسامنے تیرے ہاتھ پساراپھرانہ خالی اس چوکھٹ سےگیا نہ پیاسا اس پنگھٹ سےگھر بسنے کی آس نہ رہنی ساری عمر جدائی سہنیہے وہ بلا جو سہی نہ جائےبپتا ہے جو کہی نہ جائےقدر اس کی یاتو پہچانےیا جس پر گزری ہو وہ جانےاے خاوند خداوندوں کےمالک خاوند اور بندوں کےواسطہ اپنی خداوندی کاصدقہ اپنی خداوندی کاتو یہ کسی کو داغ نہ دیجوکسی کو بے وارث مت کیجوجس دکھیا پر پڑے یہ بپتاکراسے تو پیوند زمیں کایا عورت کو پہلے بلا لےیا دونوں کو ساتھ اٹھا لےاس سوز دل سے نکلی ہوئی دعائیں کہیں رائیگاں جا سکتی تھیں؟ جہاں تک مسلمان کا تعلق ہے اس ۶۰، ۵۰، سال کے عرصہ میں ہندوستان میں رانڈوں کی بپتا تقریباً دور ہو گئی ہے اور کچھ اصلاح بڑی حدتک ہمسایہ قوم میں بھی ہوکر رہی ہے۔خاتمہ پر واعظ شاعر نے وہی کہا ہے جو آج تک سارے واعظ اور سارے حقیقی شاعر برابر کہتے چلے آئے ہیں۔ کیسی بیوگی اور کہاں کا سہاگ، نہ اس کو قیام نہ اس کو ثبات، ساری لذتیں فانی اور سارے عیش آنی۔ کسی کی پھولوں کی سیج پر لیٹ لیٹ کر گزری تو کیا اور کسی نے کانٹوں پر لوٹ لوٹ کے کاٹی تو کیا۔ بشریت کا تقاضا تھا جو زبان پر اتنی بھی حکایت و شکایت آ گئی، پیار ہوتو اسی من موہن کا جسے کبھی فنا نہیں، دل میں لگن ہوتو اسی ایک کی جس کا عہد کبھی ٹوٹنے والا نہیں، جس کی خداوندی کبھی ختم ہونے والی نہیں، بیوہ کی یہ مناجات واعظ شاعر کی وعظ گوئی اور شاعری دونوں کا نچوڑ ہے،دکھ سے یہاں کے گھبرانا کیاسکھ پہ ہے یاں کے اترانا کیاعیش کی یاں مہلت ہے نہ غم کیسب یہ نمائش ہے کوئی دم کیآنی جانی چیزہیں خوشیاںچلتی پھرتی چھاؤں ہیں ارماںمنگنی بیاہ برات اور رخصتمیل ملاپ سہاگ اور سنگتہیں دو دن کے سب بہلاوے آگے چل کرہیں پچتاوےریت کی سی دیوارہے دنیااوچھے کا سا پیار ہے دنیاہار کبھی اور جیت کبھی ہےاس نگری کی ریت یہی ہےخواہ ہو رانڈ اور خواہ سہاگنموت ہے سب کی جان کی دشمنایک ہے گو آج ایک سے بہترمرگئیں جب دونوں ہیں برابراور کوئی گر انصاف سے دیکھےمرکے اسے نسبت نہیں اس سےعیش گئی وہ چھوڑ کے یاں کے قید گئی یہ کاٹ کے یاں سےاس کو پڑی کل اس کی گئی کلیہ گئی ہلکی وہ گئی بوجھلشاعر کا آخری پیام وہی ہے جو عارفوں کا ہمیشہ رہا ہے، یہ سوز بھی اگر کسی دل میں آگ نہ لگا سکے تو یقیناً وہ دل نہیں ہے پتھر کا ٹکڑا ہے۔تیرے سوا یاں اے مرے مولیٰکوئی رہا ہے اور نہ رہےگاپڑی تھی سونی جب یہ نگر یاتیری ہی تھی یاں کھڑی اٹریاچاہتی ہوں اک تیری محبتاور نہیں رکھتی کوئی حاجتگھونٹ اک ایسا مجھ کو پلادےتیرے سوا جو سب کو بھلادےآئے کسی کا دھیان نہ جی میںکوئی رہے ارمان نہ جی میںدل میں لگن بس اپنی لگادےسارے غم اپنے غم میں کھپادےوہاں سے اکیلی آئی ہوں جیسیویسی ہی یاں سے جاؤں اکیلیدل نہ پھرے دنیا میں بھٹکتاکوئی رہے کانٹا نہ کھٹکتاجی سے نشاں پیاروں کا مٹادوںپیار کے منہ کو آگ لگادوںتو ہی ہو دل میں توہی زباں پرمار کے جاؤں لات جہاں پرپاؤں تجھے اک اک کو گنواکرخاک میں جاؤں سب کو ملاکریہ مناجات تو وہ ہے کہ اگر مناسب ماحول میں پڑھی جائے تو عجب نہیں جو در و دیوار بھی جھوم جھوم کر اپنی بولی میں اس پر ’’آمین‘‘ کہہ اٹھیں پھر انسان کا دل تو آخر انسان ہی کا دل ہے!حاشیہ(۱) انیسویں صدی عیسوی کے آخری میں لکھنؤ کا بہت مشہور و ممتاز ادابی اور ظریفانہ ہفتہ وار ظرافت اس دور میں شخصی تعریفیں وتمسخر اور کسی کو ’’بنانے‘‘ کی مترادف تھی۔