اردو کا تہذیبی پس منظر


اردوزبان کی ابتدا کے بارے میں آج تک جو نظریات پیش ہوئے ہیں ان میں مقبول ترین یہ ہے کہ اردو ترکی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ‏لشکر اور اردووہ زبان ہے جو مغلیہ دور میں لشکر کی زبان تھی۔ مراد یہ کہ چونکہ یہ لشکر برصغیر ہند و پاک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے ‏سپاہیوں پر مشتمل تھا، اس لیے افہام وتفہیم کے لیے ایک ایسی آسان سی زبان ازخود پیدا ہوگئی جو سب کے لیے قابل قبول اورکارآمد تھی۔یہ نظریہ ایک بڑی حد تک سطحی ہے۔ اس لے کہ یہ الفاظ کے لین دین سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ایک نئی زبان یعنی اردو کی ابتدا ‏گردانتا ہے۔ حالانکہ زبان کا امتیازی وصف تواس کا وہ لسانی ڈھانچہ اور تہذیبی گوشت پوست ہے جوکسی اقدام یا حکم سے نہیں بلکہ ایک طویل ‏ارتقائی عمل سے وجود میں آتا ہے۔ ابتداءً ہرزبان خود رد ہوتی ہے اوراپنے اسی ابتدائی دور میں ان بنیادی اوصاف سے متصف ہوجاتی ہے ‏جن کا اجتماعی روپ اس زبان کے لسانی ڈھانچے میں متشکل ہوتا ہے۔ پھر جیسے جیسے اس زبان کے بولنے والے ایک منضبط اور متوازن ‏معاشرے میں ڈھلتے جاتے ہیں، وہ خود بھی اس کے سارے تہذیبی خدوخال کواختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ تو اپنے بولنے ‏والوں کی تاریخ اور تہذیب کی جملہ کروٹوں کی دستاویز بھی بن جاتی ہے۔آج ماہرین ماقبل تاریخ کے واقعات کو زبانوں کے مطالعہ سے مرتب کرنے کی فکر میں ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسانی ‏کھوپڑی کے اندر دماغ اور دماغ میں نسل کا سارا سرمایہ محفوظ پڑا ہے، بالکل اسی طرح زبان کے لسانی پیکر کے اندر بھی اس کے بولنے والوں ‏کا سارا تہذیبی مغز موجود ہوتا ہے اوراگر کلید ہاتھ لگ جائے تواس تک رسائی کچھ ایسا مشکل کام نہیں۔ چنانچہ اردو زبان کی ابتدا کے مسئلہ کو ‏بھی محض الفاظ کی لین دین کے ایک خاص واقعہ تک محدود کرنے کے بجائے اسے اردو کے وسیع تر لسانی اور تہذیبی پس منظر کی روشنی میں ‏حل کرنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اردو کے لیے ’’ریختہ‘‘ کالفظ بھی مستعمل رہا ہے اوریہ ایک دلچسپ بات ہے کہ لفظ ’’ریختہ‘‘ اردوزبان کے ‏طویل تہذیبی ارتقا کو سمجھنے کے لئے موزوں ترین لفظ ہے کیونکہ یہ لفظ بجائے خود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ زبان ایک طویل ‏عرصہ پر پھیلی ہوئی تہذیبی آمیزش بلکہ آویزش کوخود میں سمیٹتی چلی گئی ہے۔ یہ کہنا (اور اردو کی ابتدا کے بارے میں یہ دوسرا نظریہ ہے) ‏کہ برصغیر ہند وپاک میں مسلمانوں کی آمد سے ریختہ کی ابتدا ہوئی، درست نہیں۔ گومسلمانوں کی آمد سے اس کا وہ رنگ ضرور چوکھا ہوا ‏جوآج ہمیں عزیز ہے۔ دراصل ریختہ کی ابتدا آج سے ہزاروں برس پہلے اس زمانے میں ہوئی جب یہاں مختلف نسلوں کے قبائل کا پہلا بڑا ‏اختلاط رونما ہوا۔ موہن جوڈرو اور ہڑپہ کی کھدائی میں جو انسانی ڈھانچے ملے ہیں وہ پروٹوآسٹرولائڈ ‏‎(PROTO-AUSTRALOID) ‎‏(جس ‏میں منڈاسنتھل، کورو اپرجاکھونڈ اور یانٹری سب شامل ہیں) میڈی ٹیرینین ‏‎(MEDITERRANEAN) اور آرمینائڈ ‏‎(ARMENOID) ‎نسلوں سے متعلق ہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب سے پہلے کسی زمانے میں ان ‏مختلف نسلوں کا اختلاط ہوا ہوگا۔ 1ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ وادی سندھ کے باشندے بحیرہ روم کی نسل سے متعلق تھے اور کسی زمانے میں ہجرت کرکے یہاں پہنچے تھے مگر ‏جب ہم دیکھتے ہیں کہ وادی سندھ کی تہذیب میں مادی تہذیب کے شواہد بھی ہیں (بحیرۂ روم کی نسل مادری تہذیب کی علم بردار تھی) اور ‏مانا ‏‎(MANA) ‎پرستی کے شواہد بھی (پروٹو اسٹرولائیڈ نسل مانا پرستی میں مبتلا تھی) اور یہاں ان دونوں نسلوں کے ڈھانچے بھی برآمد ہوئے ‏ہیں تواس سے یہی قیاس کیاجاسکتا ہے کہ تین اور چار ہزار سال قبل مسیح کے درمیانی عرصہ میں ان دونوں نسلوں کا اختلاط ہوا ہوگا اور ان ‏کی زبانوں کی آمیزش سے وادی سندھ میں پہلی بار زبانوں کا ریختہ وجود میں آیا ہوگا۔اس ریختہ نے بعدازاں ترقی پذیر ہوکر وادی سندھ کی زبان کا روپ دھارا اور یہ زبان اس قدر نکھر سنور گئی کہ اس کے بولنے والوں نے اس ‏کے لیے لپی یا رسم الخط بھی ایجاد کرلیا۔ ہرچند یہ رسم الخط ابھی تک پڑھا نہیں جاسکا لیکن جب سرمار ٹیمروہیلر کہتے ہیں کہ اس کے ۹۹۶ ‏نشانات ہیں جو تعداد میں قدیم سمیریاؔ کے رسم الخط کے نشانات سے آدھے ہیں تواس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وادیٔ سندھ کی زبان کا رسم الخط ‏کس قدرترقی پذیر ہوچکا ہوگا۔۱۵۰۰ ق م کے لگ بھگ وادی سندھ پر آریائی نسل کی یلغار کا آغاز ہوا۔ یہ قبائل خانہ بدوش تھے اورایک طویل مسافت طے کرکے وسط ایشیا ‏سے یہاں پہنچے تھے۔ ان کی زبان ویدک تھی جو ان کی ایرانی شاخ کی زبان اوستاؔ سے گہری مماثلت رکھتی تھی۔ یہ قبائل کئی لہروں میں وارد ‏ہوئے اور زبان کے اس خاص رنگ کی وجہ سے جوہر قبیلے کا طرۂ امتیاز ہوتا تھا، وہ یہاں کی دیسی زبان میں بھی متعدد رنگ پیدا کرنے میں ‏کامیاب ہوگئے کہ دیسی زبان کا قدیم لسانی ڈھانچہ جوں کا توں قائم رہا۔ تاہم ان قبائل کی آمد سے آریائی تہذیب اور وادی سندھ کی تہذیب ‏میں ایک بہت بڑا اختلاط بھی رونما ہوا جس کے نتیجہ میں ویدک اور دیسی زبان ایک دوسری کے ساتھ مل کر ایک بار پھر ریختہ کووجود ‏میں لانے کا باعث بنیں۔ یہ ریختہ محض دیسی اور بدیسی لفظوں کے ملاپ ہی کی ایک صورت نہیں تھا بلکہ اس میں آریائی اور وادی سندھ کی ‏تہذیبوں کی آویزش کے شواہد بھی موجود تھے۔ گویا دیسی زبان کا لسانی ڈھانچہ توبرقرار رہا لیکن ریختہ میں ڈھلنے کے باعث اس کے تہذیبی ‏گوشت پوست میں اضافہ ہوگیا۔ ریختہ (اردو) کے تدریجی ارتقا میں یہ دوسرا اہم مرحلہ تھا۔تیسرا اہم مرحلہ وہ تھا جب مسلمان اس برصغیر میں داخل ہوئے۔ مگرآریاؤں اورمسلمانوں کی آمد کے درمیانی عرصہ میں بھی باہر سے ‏یلغار کا سلسلہ بند نہ ہوا۔ چنانچہ جب چھٹی صدی قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ دارا نے پنجاب اور سندھ کواپنی عظیم الشان سلطنت کا حصہ ‏بنالیا تو ایرانی زبان اور دیسی زبان کے ملاپ سے ریختہ کا رنگ شوخ تر ہوگیا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اردو میں ایرانی الفاظ کے نفوذ کا سلسلہ ‏گیارہویں صدی سے شروع ہوا کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ نفوذ کا یہ عمل نہایت قدیم ہے۔ داراؔ کی فتح پنجاب اور سندھ کے بعد سکندراعظم ‏نے اس علاقے پر چھاپہ مارا اور اس کی فوج تقریباً پچاس برس تک اس علاقہ پر قابض رہی ہے۔ اس کے بعداس کا نام ونشان تک باقی نہ رہا ‏تاہم مجسمہ سازی میں بالخصوص اور ریختہ کے ارتقا میں بالعموم یونانی اثرات ایک حد تک باقی رہے۔ یونانی یلغار کے بعد سکائتھ بالخصوص ‏کشن نسل نے برصغیر کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتسم کیے اور زبان کے سلسلے میں آمیزش کے عمل کو تحریک دی۔پھر ہن ‏HUNSآئے اور انہوں نے بھی مٹھی بھر الفاظ (بطورنمک) ریختہ کی عظیم الشان ضیافت میں شامل کیے۔ لیکن تہذیبی اور لسانی ‏اعتبار سے ان کی اہمیت آیائی قبائل کے مقابلے میں بالکل معمولی تھی۔ وہ تہذیبی یلغار جو نتائج کے اعتبار سے آریاؤں کا ہم پلہ قرار پاسکتی ‏ہے، مسلمانوں سے متعلق ہے مگر مسلمان بھی اس برصغیر میں دو واضح لہروں کی صورت میں آئے۔ پہلی لہر محمدبن قاسم کی فتح سندھ کی ‏صورت میں اور دوسری شمال کی طرف سے افغانوں کے حملے کی صورت میں۔محمدبن قاسم سامی النسل تھے اور ان کی زبان عربی تھی۔ وہ جب وادی سندھ کے ایک بڑے حصے پر چھا گئے تو نہ صرف عربی اور دیسی زبان کی ‏آمیزش وجود میں آئی بلکہ مسلمانوں کی برتر تہذیب نے یہاں کی دیسی تہذیب پر گہرے اثرات ثبت کرکے ایک ایسی نئی تہذیب کو جنم دیا جو ‏بعد ازاں ایرانی اثرات کے نفوذ سے ہندی مسلمانوں کی تہذیب قرار پائی۔ شمال کی طرف سے آنے والے مسلمان اپنے ساتھ فارسی زبان ‏لائے۔ چنانچہ عربی، فارسی اور دیسی زبان کی آمیزش سے ریختہ کی وہ تیسری صورت وجود میں آئی جسے بعدازاں ’’اردو‘‘ کا نام ملا مگر اردو ‏محض تین زبانوں کی آمیزش کا ثمر نہیں تھا۔ یہ تہذیبوں کی آمیزش کا نتیجہ بھی تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کے سادہ اسلوب حیات، ذات واحد پر ‏ایمان اور ذات پات کی نفی کے میلان نے برصغیر کے معاشرے کو جس نئی نہج پر استوار کیا، وہ نہ صرف اردو زبان میں لکھے گئے ادب میں ‏منعکس ہوئی بلکہ اردو زبان بجائے خود اس نئی نہج کی علامت بھی بن گئی۔امرواقعہ یہ ہے کہ اردوزبان ہی ہماری تہذیب کا دوسرا نام ہے۔ وجہ یہ کہ اردو نے ہماری تہذیب کی روح کو اپنے اندر سمیٹا ہے اور تہذیب ‏کے لطیف ترین ابعاد کو منعکس کرتی چلی گئی ہے۔ یہاں قدرتی طورپر یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا ہماری علاقائی زبانیں بھی ہماری تہذیب کی ‏روح کو اپنے اندر سمیٹنے میں کامیاب نہیں ہوئیں؟ اور اگر ایسا ہوا ہے توپھر اردو کا طرۂ امتیاز کس بات میں ہے؟ یہاں لحظہ بھر کے لیے ‏توقف کیجئے تاکہ مںر تین بنیادی اصطلاحوں یعنی کلچر ‏‎(CULTURE) ‎، تہذیب ‏‎(CIVILIZATION) اور تمدن ‏‎(URBAN CULTURE) ‎کے فرق کو ذرا سا بیان کردوں۔جب کوئی خطہ زمین کسی پہاڑ، سمندر، دریا، جنگل یا صحرا کے باعث دوسرے خطوں سے کٹ جائے تو اس کی زبان، رہنے سہنے کے آداب، ‏تہواروں نیز زندگی کرنے کی بیشتر رسوم میں ایک انفرادیت سی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی انفرادیت اس خطے کا کلچر ہے۔ اسی طرح جب کوئی شہر ‏اپنی انفرادیت (خوشبو) کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوجائے تو ہم اس کی تہذیبی حیثیت کو تمدن کا نام دیتے ہیں کہ تمدن کا تعلق مدنیت ‏سے ہے۔ جیسے مثلاً شہرلاہور کی انفرادیت کو ہم ’’لاہوریت‘‘ کا نام دے کر اسے لاہور کا تمدن کہہ سکتے ہیں۔ مگرجب تمدن یا ثقافت کے ‏نقوش اپنی جنم بھومی سے باہر آکر چہاراکناف میں پھیلنے لگیں اورایک وسیع تر خطے کی آبادی کو اپنے تصرف میں لے آئیں توگویا تہذیب ‏میں ڈھل جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ثقافت، تہذیب کا وہ ابتدائی اورتخلیقی روپ ہے جو جغرافیائی حالات کے تحت جنم لیتا ہے اور ‏تہذیب، ثقافت اور تمدن کا وہ ارتقائی یا عمومی روپ ہے جو چھوٹے چھوٹے جغرافیائی خطوں کو عبور کرکے ایک وسیع علاقے کے آداب ‏معاشرت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔مغربی پاکستان کلچر یا ثقافت کے اعتبار سے چھوٹے چھوٹے خطوں میں بٹا ہوا ہے۔ 2 حد یہ کہ ایک ہی ضلع کو ثقافت کی رو سے کئی علاقوش ‏میں تقسیم کرنا ممکن ہے لیکن قومی اور تہذیبی اعتبار سے سارے کا سارا مغربی پاکستان ایک عظیم الشان ’’اکائی‘‘ کے طورپر صاف دکھائی دیتا ‏ہے۔ اسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں کے ہر علاقے کے باسی بعض ایسی ثقافتی قدروں کے تابع ہیں جو دوسرے علاقوں میں ناپید ‏ہیں مگر ان سب علاقوں میں بعض مشترک اجتماعی قدریں بھی ہیں جو ثقافتی امتیازات کے باوصف اپنی جگہ قائم ہیں۔ یہی پاکستانی تہذیب کی ‏وہ صورت ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانیں اپنے اپنے علاقے کی نسبت ‏سے ایک خاص رنگ وروپ کی حامل ہیں لیکن اردوزبان پاکستان کی اجتماعی قدروں کی امین ہونے کے باعث ان سب علاقوں سے یکساں ‏طور پر متعلق ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب بلوچستان کا بلوچ، سرحد کا پٹھان، سندھ کا سندھی اور پنجاب کا پنجابی آپس میں ملتے ہیں تو نہ صرف اردوکا سہارا لینے پر ‏خودکومجبور پاتے ہیں بلکہ جب اردو زبان اور ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو اردوکا تہذیبی مزاج اپنے دل سے بہت ‏قریب محسوس ہوتا ہے۔ اردو کے اس تہذیبی کردار کا اندازہ اسی بات سے لگائے کہ مغربی پاکستان کے مختلف علاقوں میں اردو کے ادیب اور ‏شاعر توپیدا ہوئے لیکن ایسا بہت کم ہوا کہ پنجاب یا سرحد میں سندھی زبان کا کوئی ادیب یا سندھ میں پنجابی یا پشتو کا کوئی ادیب پیدا ہوا ‏ہو۔اردوہمارے وطن کے کسی خاص علاقے کی زبان نہیں یعنی جس طرح پنجاب میں پنجابی اور سندھ میں سندھی بولی جاتی ہے اس طرح کوئی ‏ایک علاقہ ایسا نہیں (ایک آدھ شہر چھوڑ کر) جہاں اردوعام طورسے بولی جاتی ہو مگراردو ہمارے تمام علاقوں اورزبانوں میں رابطے کا کام ‏ضرور دیتی ہے۔ گویا ثقافتی یا علاقائی تشخص کے اعتبار سے توپنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی وغیرہ کواہمیت حاصل ہے لیکن قومی یا تہذیبی نقطہ ‏نظر سے اردوہی کو مقام امتیاز حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علاقائی زبانیں اپنے اپنے علاقے کے مخصوص ثقافتی ورثے کی امین ہیں ‏لیکن اردو ہمارے ملک کے مشترک تہذیبی ورثے کی علم بردار ہے۔ چنانچہ اردو میں علاقائی باس کو اپنے اندر سمونے کا وہ والہانہ انداز ‏توشاید نہ ملے جو علاقائی زبانوں سے خاص ہے لیکن اس میں پاکستانی قوم کے بنیادی میلانات، مذہبی اعتقادات، فلسفہ اور قومی احساسات ‏علاقائی زبانوں کے مقابلے میں کہیں بہتر اور خوب تر انداز میں ملیں گے۔ یہی ایک علاقائی زبان اور قومی زبان کا فرق ہے۔مقدم الذکر کے مزاج میں ماں کی گود کی خوشبورچی بسی ہوتی ہے اور وہ اپنی جنم بھومی سے بری طرح وابستہ ہونے کے باعث اس کے ان ‏تمام پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے جن کا تعلق ثقافت یا کلچر سے ہوتا ہے۔ لیکن مؤخرالذکر کے مزاج میں ماں کی گود کی خوشبو کے علاوہ ایک ‏منفرد اور بالغ انداز نظر بھی موجود ہوتا ہے اور وہ پوری قوم کے تہذیبی میلانات کی عکاس بن جاتی ہے۔ اس لیے مغربی پاکستان میں اردو ‏ہی واحد قومی زبان ہے، باقی سب علاقائی زبانیں ہںم۔ چونکہ یہ ہماری اپنی زبانیں ہیں، اس لیے ہمیں عزیز بھی ہیں لیکن قومی زبان کی ‏حیثیت اردو ہی کومل سکتی ہے جوہر اعتبار سے ہماری تہذیب کی نفیس ترین علامت ہے۔حاشیہ(‏۱) ریلف لنٹن ‏‎(RALPHLINTON) نے اپنی کتاب ‏TRELL OF CULTURE‏ میں لکھا ہے کہ پرانے پتھر کے زمانے ہی سے برصغیر ہند ‏وپاک دوبالکل مختلف انسانی نسلوں کی آماجگاہ ہے۔ ان میں سے ایک نسل نو اس ‏HAND AXECULTURE ‎کی علمبردار تھی جو افریقہ ‏اورایشیا کی مشترکہ روایت سے وابستہ تھا اور دوسری نسل اس ‏CHOPPER AND FLAKE USING CULTURE ‎کی امین تھی جو جنوب ‏مشرقی ایشیائی روایت سے متعلق تھا۔(‏۲) حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک ثقافتی اعتبار سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹا ہوتا ہے۔