اردو کا ایک بدنام شاعر یا گنہگار شریف زادی

لکھنؤ ہے اور واجد علی شاہ ’’جان عالم‘‘ کا لکھنؤ۔ زمانہ یہی انیسویں صدی عیسوی کے وسط کا۔ آج سے کوئی ستر پچھتر سال قبل۔ ہر لب پر گل کا افسانہ، ہر زبان پر بلبل کا ترانہ، ہر سر میں عشق کا سودا، ہر سینہ میں جوش تمنا، ہر شام میلوں ٹھیلوں کا ہجوم، ہر رات گانے بجانے کی دھوم یہاں رہس کا جلسہ، وہاں اندر سبھا کی پریوں کا پرا، ادھر زبان پر ضلع جگت اور پھبتیاں، ادھر گلے سے تانیں اور ہاتھوں سے تالیاں، گلی گلی ’’جنت نگاہ فردوس گوش‘‘، چپہ چپہ ’’دامان باغبان و کف گل فروش۔‘‘ بڑے بڑے متین اور ثقہ، گویوں اور سازندوں کی سنگت میں، اچھے اچھے مہذب اور مقطع بھانڈوں اور ڈھاریوں کی صحبت میں سفید پوشوں کے دامن عبیر اور گلال کی پچکاریوں سے لالوں لال، جبے اور عمامے والے، پیشوازوں کی گردش پر نثار۔ غرض یہ بیسویں صدی کی اصطلاح میں ’’آرٹ‘‘ اور ’’فائن آرٹ‘‘ کا دور دورہ، عشق کا چرچا، حسن کا شہرہ۔ اس فضا میں ایک صاحب حکیم تصدق حسین نامی آنکھیں کھولتے ہیں، کوئی عالم دین نہیں، صوفی اور درویش نہیں، واعظ و مصلح نہیں، چونچلوں کے آدمی، یار باش، رند مشرب، اہل بزم کے خوش کرنے کو شعر و شاعری کا ساز لے کے بیٹھے تو انگلیاں انہیں پردوں پر پڑیں جن کے نغمے کانوں میں رچے ہوئے تھے اور منہ سے بول نکلے تو وہی، جن کے نقش دلوں میں جمے ہوئے تھے۔ غزلیں شاید زیادہ نہیں کہیں، کہیں ہوں گی بھی تو اس وقت کسی کی زبان پر نہیں، تھوڑا بہت جو کچھ کہا۔ اس کا نمونہ ملاحظہ ہو،کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سےپھرتے ہیں انہیں غیر ابھارے کئی دن سےاک شب مرے گھر آن کے مہمان رہے تھے ملتے نہیں اس شرم کے مارے کئی دن سےآخر مری آہوں نے اثر اپنا دکھایاگھبرائے ہوئے پھرتے ہو پیار سے کئی دن سےپھر شوقؔ سے کیا اس بت عیار سے بگڑیہوتے نہیں باہم جو اشارے کئی دن سےحکیم صاحب کی حکمت و طبابت سے یہاں غرض نہیں، شاعری کی دنیا میں حکیم صاحب کا نام نواب مرزا ہے اور تخلص شوقؔ اور ان کے نام کو قائم رکھنے والی ان کی غزلیں نہیں، مثنویاں ہیں۔ تذکروں میں ہے کہ خواجہ آتش کے شاگرد تھے، ہوں گے لیکن یہ مثنویاں یقیناً یا تو استاد کے بعد کی ہیں یا ان کی زندگی میں ان سے چرا چھپا کر کہی ہیں۔ ورنہ آتش کی نظر پڑنے کے بعد عجب نہیں کہ نذر آتش ہو جاتیں۔ خواجہ آتشؔ کی متانت و ثقاہت کب اس کی روادار ہوتی کہ سعادت مند شاگرد آوارگی اور تماش بینی کی بولی ٹھولی میں وہ نام پیدا کر جائیں کہ تہذیب کی آنکھیں ان کا نام آتے ہیں نیچی ہو جائیں، اور عریاں نگاری کے وہ شرارے چھوڑ جائیں کہ ان کی یاد کی چمک دمک قائم رہے بھی تو اسی روشنی میں۔ ان مثنویوں کا نام پڑھے لکھوں کے مجمع میں لیا جائے؟ تہذیب جدید کی اجازت ہے کہ ایک مشرقی شاعر کی عریاں نگاری کی لفظی یادگاروں کا نام لیا جائے؟ نواب مرزا غریب لکھنؤ کا تھا۔ انگلستان کا نہ تھا، فرانس کا نہ تھا، امریکہ کا نہ تھا کہ اس کی ہر بے حیائی ’’آرٹ‘‘ کا کمال سمجھ لی جاتی، اس کی ہر عریاں نگاری پر کمال فن کی داد ملتی، اور اس کا ہر عیب ہنر بن جاتا۔ بیسویں صدی کا نہیں، انیسویں صدی عیسوی کے وسط کا تھا۔ ’’نئے ادب‘‘ کے دور سے بہت قبل کا تھا۔ آج کے ’’ترقی پسند‘‘ ہندوستان کا نہ تھا کہ ا س کی ہر فحش نگاری ’’ترقی پسندی‘‘ کی سند اور دستاویز بن جاتی۔ بہر حال مثنویاں منسوب تو ان کی جانب کئی ایک ہیں لیکن لذت عشق کی زبان قطعاً شوق کی زبان نہیں 1 اور فریب عشق بھی مشکل ہی سے ان کی تسلیم کی جا سکتی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے، نو مشقی کے زمانہ کی کوئی ابتدائی کوشش ہو۔ یقین کے ساتھ جن دو مثنویوں کو ان کی تصنیف تسلیم کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک کا نام بہار عشق ہے اور دوسری کا زہر عشق۔ شہرت عام زہر عشق ہی کے نصیب میں ہوئی۔ دونوں میں نہ کوئی پلاٹ ہے اور نہ کوئی طلسم کشائی، نہ شاعر منبر پر بیٹھ کر اخلاق کا وعظ کہہ رہا ہے، نہ کالج کے لکچر روم میں تحلیل نفسیاتی کر رہا ہے۔ اسے محض اپنی ہوس ناکی کی کہانی سنانی ہے، اوریہی وہ خوب مزہ لے لے کر سنا رہا ہے۔ پھر چونکہ محض ’’آپ بیتی‘‘ ہی سنانی ہے اس لئے جگ بیتی سنانے والوں کی طرح کسی دوسرے کو عاشق فرض کرنے کی بھی ضرورت نہیں پیش آتی ہے۔ بہار عشق میں افسانہ کا انجام، شادی پر ہوتا ہے۔ پیش نظر نسخہ کانپور کے مطبع علوی علی بخش خاں کا چھپا ہوا ہے۔ 1277ھ بمطابق1861ء کا یہ نسخہ نسبتاً صحیح ہے۔ حال کے مطبوعہ نسخے، علاوہ بہت زائد اغلاط مطبعی کے آخر سے ناقص بھی ہیں۔ شادی کا ذکر ان میں غائب ہے۔ کل نظم میں آٹھ سو سے اوپر شعر ہوں گے، اشعار کی خاصی بڑی تعداد ایسی ہے جو بزرگوں کے سامنے کیا، بے تکلف دوستوں کی صحبت میں بھی پڑھنے کے قابل نہیں۔ خدا معلوم ان ذات شریف سے لکھے کیونکر گئے۔ کتاب کے شروع میں حسب دستور زمانہ بادشاہ کے مدح ہے اور سننے کے قابل ہے، ارشاد ہوتا ہے،

نوبت مدح شاہ آئی ہے
اے قلم وقت جبہ سائی ہےکر رقم اب دعائے شاہ زماںکہ ہے وہ ملک ہند کا سلطانآفتاب سپہر جاہ و حشمشاہ واجد علی شہ عالمیہ ’’شاہ زماں‘‘ اور ’’سلطان ہند‘‘ اور ’’شہ عالم‘‘ اور آفتاب سپہر جاہ وحشم‘‘ کے خطابات اس وقت عطا ہو رہے ہیں جب حکومت اور بادشاہت کے سارے اختیارات چند ایکڑ اگر نہیں تو چندمیل کے رقبہ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ اس محدود و چار دیواری کے اندر بھی مجال نہ تھی کہ ’’صاحب عالیشان ریزیڈنٹ بہادر‘‘ کے حکم کے خلاف کوئی انگلی تک ہلا سکے۔ آگے اور سنیئے! خلق پر سایہ الٰہی ہےمالک تاج و تخت شاہی ہےہے بشر، پر خدا کی قدرت ہےنیک سیرت ہے، خوبصورت ہےسرور خسروان عالم ہےسچ تو یہ ہے کہ جان عالم ہےدل تمنا ئی وصل او دارد! چہ بلا شکل آرزو داردان آخری شعروں میں بادشاہ کی تعریف رعایا کی زبان سے ہو رہی ہے، یا جہاں پناہ اپنے کسی محل کو یاد فرما رہے ہیں؟ قصہ کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک روز لب بام ایک ماہ لقا دکھائی دیتی ہے۔ اس کے حسن کا عکس اس آئینہ میں ملاحظہ ہو،بام روشن ہے طور کی صورتسر سے پا تک تھی فور کی صورتحسن یوسف بھی اس کے آگے ماندچہرہ زلفوں میں جیسے ابر میں چاندگل سے رخسار، گول گول بدنگات جس طرح قمقمے روشنناک میں نیم کا فقط تنکاشوخی چالاکی مقتضا سن کاآستینوں کی وہ پھنسی کرتیجسم میں وہ شباب کی پھرتیقد میں آثار سب قیامت کےگوری گردن میں طوق منت کےعکس رخ موتیوں کے دانوں میںبجلیاں چھوٹی چھوٹی کانوں میںرگ گل سی کمر لچکتی ہوئیچوٹی ایڑی تلک لٹکتی ہوئییہ منظر دیکھتے ہی حکیم صاحب اپنی ساری حکمت بھول بھال سو جان سے عاشق ہو جاتے ہیں، گھر تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے اور جب کسی طرح گرتے پڑتے پہنچتے ہیں تو اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ جاتے ہیں، غش پر غش آنے لگتے ہیں، زندگی سے یاس ہو جاتی ہے۔ ماں باپ، بھائی، بہن، دوست و احباب سب گھبرا جاتے ہیں اور طرح طرح کا دوا علاج کر کے جب اسے بے اثر پاتے ہیں تو رونے دھونے میں لگ جاتے ہیں۔ ان مرحلوں کے بعد ایک روز ایک راز دار دوست آ کر حکیم صاحب کے دل کی نبض ٹٹول ان کے مرض کی تشخیص کرتے ہیں اور اس مقدس مشن پر روانہ ہو جاتے ہیں کہ ان کے گھائل کرنے والی ستم گر پری پیکر کے گھر کا پتہ لگائیں گے اور کسی دم دلاسے سے اسے گھیر گھار ان سے لا ملائیں گے۔ دریا پر پہنچ کر پہلے گھر کی مہری کو گانٹھتے ہیں۔ یہ مہری بنی ٹھنی ہوئی خود اس انتظار میں کھڑی ہیں۔ آپ ان کی چھب تو دیکھتے ہی چلیں، زبان سے لاحول پڑھتے ہوئے لیکن نظر کو نظر سے دو چار کرتے ہوئے۔ سانولا رنگ چلبلی صورتلال نیفہ ازاربند بڑاگچھا ایک کنجیوں کا اس میں پڑاکھیلتی ہنستی کھلکھلاتی ہوئیآنکھ ایک ایک سے ملاتی ہوئیآنکھ اک ایک پر لگاوٹ کیبات اک ایک سے گھلاوٹ کیحسن کے دن جوانی زوروں پررات کی باسی مہندی پوروں پریہاں ٹہری کبھی وہاں ٹہریدو منہ ہنس بول لی جہاں ٹہریآگے اور پیچھے مار، فوج کی فوجدھینگا مشتی کسی سے گالی گلوجیہ نہ دیکھئے کہ کیا کہا، نظر اس پر رکھئے کہ کیسا کہا۔ جیسی روح ویسے ہی فرشتہ، اگر عاشق صاحب تماش بینی میں طاق تھے تو ان کے دوست صاحب بھی کٹناپے میں شہرہ آفاق، زنانی ڈیوڑھی تک رسائی پیدا کر کرا، ان نام کی بیگم صاحبہ پر کچھ ایسا افسوں پڑھا اور ’’عاشق صادق‘‘ پر حالت نزع کے طاری ہونے کا کچھ اس طرح سماں باندھا کہ آخر وہ ان کے بھرے میں آ گئیں۔ یہ بیگم صاحبہ بھی خیر سے کچھ معصوم نادان نہ تھیں، خوب کھیلی کھائی ہوئی تھیں، لیکن پھر آخر ناقص العقل، ایک شریف بد معاش کی قسما قسمی اور خدا رسول کے واسطوں پر یقین کر بیٹھیں، اور درگاہ حضرت عباس 2 کی حاضری کا بہانہ کر، گھر سے سوار ہو گئیں۔ کہاروں کو پہلے ہی سے پٹی پڑھا دی گئی تھی۔ سواری آ کر لب مرگ ’’عاشق بیار‘‘ کے دروازہ پر رکی۔ خدمت گار خبر دینے آتا ہے ڈیوڑھی پر ایک سواری آئی ہے لیکن خدمت گار صاحب بھی آخر کس دل پھینک مخدوم کے خادم تھے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرماتے جاتے ہیں ’’ایک ماما بھی آئی ہے ہم راہ۔ کتنی چالاک ہے خدا کی پناہ۔‘‘ ماما پردہ نشین نہیں بے پردہ ہے اور ’’حسن رہ گذرے‘‘ آپ کے اخلاق کے دار الافتاء میں ’’سرود خانہ ہمسایہ‘‘ ہی کی طرح وقف عام ہے۔ موقع ہے کہ آپ اپنی متانت اور ثقاہت کو خطرہ میں ڈالے بغیر چپکے سے ایک نظر، اچٹتی سہی، ادھر بھی ڈال لیں،پوچھتی آئی ہے یہاں تک گھرہاتھ رکھے کھڑی ہے کولہے پراپنے سایہ سے بھی بھڑکتی ہے بوٹی بوٹی پڑی پھڑکتی ہےشرم ہے آنکھ میں نہ دل میں خطرپھبتیاں کہہ رہی ہے اک اک پرہنسی ٹھٹھا ضلع جگت میں طاقچل رہی ہے زبان تڑاق پڑاقکھڑی اک اک کا منہ چڑھاتی ہے ہنسے دیتی ہے لوٹی جاتی ہےچوٹی نپٹی ہے باسی ہاروں سے لڑ رہی ہی جگت کہاروں سےراستے والے جو گذرتے ہیںسن کے کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیںبہر حال سواری اترتی ہے۔ تخلیہ میں یکجائی ہوتی ہے۔ شہد پن کو کھیل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ شرم و حیا کے حجابات اٹھ جاتے ہیں اور بے حیائی و نفس پرستی کے پردے ہر طرف چھوڑ دیے جاتے ہیں، ایک طرف ہوس ناکی کی تمنائیں ہیں، وسری طرف انکار کی ادائیں ہیں، منت و سماجت کی دھیمی آوازیں تو خلوت گاہ کی دیواروں کے اندر گونج کر رہ جاتی ہیں، البتہ ڈانٹ پھٹکار، گرما گرم صدائیں پردہ کے باہر بھی صاف سنائی دے رہی ہیں۔ بل بے فقرہ ترا معاذ اللہمیرے تو ہوش اڑ گئے واللہلوگ کہتے تھے ہے لبوں پر جانمکر کے صدقے جھوٹ کے قربانکون کہتا ہے زہر کھایا ہےیہ بھی اک شعبدہ بنایا ہےتوبہ کس درجہ بے حیائی ہے واہ کیا دیدہ کی صفائی ہےکیا کہوں اور بے حیا تجھ کو پھٹے منہ لعنت خدا تجھ کومیں بڑا چکمہ کھا گئی افسوسجو ترے جل میں آ گئی افسوسجھوٹا بد ذات فلیسیا مکاران گنوں پر ترے خدا کی سنوارمکر کا بانی جھوٹوں کا سر تاجسنتے تھے فیلسوف دیکھا آجایسے فقروں کو کوئی کیا سمجھےاور تو کیا کہوں خدا سمجھےلیجئے اب تو آواز اور بلند ہو گئی، اور لہجہ میں غصہ کی تھرتھراہٹ نمایاں ہو گئی،چربی آنکھوں پر تیرے چھائی ہے کچھ نگوڑے کی شامت آئی ہےکبھی آفت نہ یہ اٹھائی تھیچھائیں پھوئیں میں نوج آئی تھیکیا دھما چوکڑی مچائی ہے تیری بختاوری کچھ آئی ہےموذی، بد ذات، بے حیا شرمجانتا ہے کہ ہم ہیں گرما گرمکس قدر صاف تیرا دیدہ ہے ایک نٹ کھٹ حرامزادہ ہےکون سمجھے تھے تو ادھورا ہےارے تو سب گنوں میں پورا ہےمیں اگر بولنے پہ آؤں گیلاکھوں دُھرّے ترے اڑاؤں گیابھی سب کہہ کے سن کے رکھ دوں گیسات پیڑھی کوپن کے رکھ دوں گیاور وہ ہو تیاں، ہیں البیلیمیں نہیں کچی گولیاں کھیلیگالیاں کیسی، کوسنے دوں گیمیں بھی اک اپنے نام کی ہوں گیرحم کرنا ہے تجھ پہ نادانیوہاں ماروں جہاں نہ ہو پانیتیری پیسہ پہ بوٹیاں کاٹوںچیل کوؤں کو بیٹھ کر باٹوںیہ جو شعر آپ نے سنے پھر بہت صاف اور سنجیدہ ہیں۔ باقی اشعار کی ایک بڑی تعداد نقل کے قابل کسی طرح بھی نہیں۔ بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے شرم و حیا کا لباس اتار کر پھینک دیاہے، تہذیب و شائستگی کی جانب سے آنکھیں بند کر لی ہیں اور آواز گو نکل رہی ہے انسان کے حلق سے، لیکن ہے تمام تر جذبات سفلی و حیوانی۔ ظالم نے مصوری کی یہ خدا داد قابلیت کاش کسی شریفانہ نظم میں صرف کی ہوتی۔ شاعر جس ماحول میں تھا اس میں اخلاق کی پستی، جذبات کی فرومائیگی رکاکت، بے حیائی و عریاں نگاری کی کمی کچھ نہ تھی، حمام میں سب ہی ننگے تھے۔ آخر دربار اودھ کے شعرائے با کمال اور سخن گویان شیریں مقال میں کون اس میدان کا مرد نہ تھا؟ بایں ہمہ ان کاملوں کی سرداری کا تاج شوقؔ ہی کے سر پر رکھا گیا، اس بزم کی صدر نشینی نواب مرزا ی کے حصہ میں آئی، لیکن اس صدارت و سرداری کا نتیجہ جو کچھ ہوا، وہ بھی سب پر عیاں ہے۔ آج اردو شاعری کی تاریخ میں کہیں اس غریب کے لئے کوئی جگہ ہے؟ اردو مشاہیر شعراء کی فہرست میں کسی نمبر پر ان کا نام آتا ہے؟ اکثر تذکرہ نویسوں نے ان کا یا ان کی مثنویوں کا ذکرتک بھی کیا ہے؟ شاعروں کا کوئی طبقہ آج تلمذ یا کسی دوسری حیثیت سے اپنا انتساب ان کی جانب پسند کرتا ہے، یا اس کے بر عکس ان کا نام آتے ہی کچھ جھیپ سا جاتا ہے اور بے اختیار اپنی تبری کرنے لگتا ہے؟ نقادان شعر کے حلقوں میں، سخن سنجوں کی صحبتوں میں، پڑھے لکھے اور شریف گھرانوں میں نواب مرزا شوقؔ اور ان کی مثنویوں کی کچھ بھی وقعت اور پرسش ہے؟ کلام کا کچھ نمونہ اوپر گذر چکا اور بہت کچھ ابھی آنے کو ہے۔ محاورات پر یہ عبور، بیگمات کے روز مرہ پر یہ قدرت، زبان کی یہ صحت، بیان کی یہ سلاست، جذبات نگاری کی یہ قوت، کیا ہر شاعر کے نصیب میں آتی ہے؟ ان تمام حیثیات سے شوقؔ کا کلام اردو کے کسی شاعر سے فرو تر ہے؟ پھر آخر اس بے التفاتی کی وجہ؟ شوقؔ کی کس مپرسی کا کوئی سبب؟ وجہ ظاہر اور سبب واضح ہے۔ مشرق، کم از کم اسلامی مشرق، اپنی جبلت کے لحاظ سے مجبور ہےکہ قدر شرم و حیا کے جذبات کی کرے، عزت کی مسند پر جگہ شرافت کے لئے خالی کرے اور اپنا سر عصمت و عفت کی تصویروں کےا ٓگے خم کر دے۔ بے حیائی، عریاں نگاری، اور تحریری شہد پن کی عزت و وقعت اس کی سرشت کے مخالف ہے۔ جس طرح فرد ایک مخصوص طبیعت اور خاص مزاج رکھتا ہے، ہر قوم کا بھی ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے، ہر تمدن کی بھی ایک مخصوص سرشت ہوتی ہے۔ قومی زندگی کی جو کارروائیاں اس عام مزاج و سرشت کے مخالف ہوتی ہیں، وہ کبھی قوم کے قوام میں نہیں داخل ہونے پاتیں، قومی تمدن کا مستقل نظام انہیں اپنے میں جذب کرنے، قبول کرنے اور اپنا جزو بنانے سے انکار کر دیتا ہے۔ نظام تمدن کا یک بڑا مظہر ہر قوم کا شعر و ادب ہوتا ہے۔ شوقؔ کی کھلی ہوئی عریاں نگاری، مشرق کے ذوق سلیم کے مخالف تھی، بگڑی اور اجڑی ہوئی تہذیب اسلامی کے بھی منافی تھی، اس لئے اسلامی مشرق نے شوقؔ کی تمام دوسری شاعرانہ خوبیوں کے باوجود ان کے لئے اپنی فہرست مشاہیر میں کوئی جگہ نہ رکھی۔ اور نام کو بالکل ’’گم نام‘‘ ہونے سے بچا کر کھا بھی تو ’’بد نام‘‘ کر کے زندہ رکھا۔ مشرق کا صوفی بگڑےگا، بہکےگا، تو بندگی میں خدائی کے دعوے کرنے لگے گا۔ یہ نہ ہوگا کہ مغرب کے ترقی یافتہ حکیم کی طرح اپنی انسانیت کو بھلا کر فخر اپنے بندر ہونے پر کرنے لگے، بے ہوش ہو جائےگا، بد حواس نہ ہوگا۔ ’’بگڑنے پر بھی بات اس کی بنا کی۔‘‘ جان عالم کا ہندوستان، بھانڈوں اور سازندوں کا ہندوستان، لاکھ بگڑنے پر بھی اپنے سے اتنا بیگانہ نہیں ہوا، اپنے کو اتنا نہیں بھولا کہ کوئلہ کا نام ہیرا رکھ دے، اور پیتل کو سونا سمجھنے لگ جائے۔ غرض نواب مرزا کی اپنی پست مذاقی اور مبتذل نگاری کی سزا، مشرق کی معدلت گاہ سے ملی اور بجا طور پر ملی، لیکن وہ خود بھی آخر مشرقی ہی تھا، باوجود انتہائی بے حیائی کے یہ ناممکن ہوا کہ چوری کے جرم پر سینہ زوری کا بھی اضافہ کرے۔ لارڈ بائن اور آسکر وائلڈ کی سی یہ جرأت و جسارت کہاں سے لا سکتا تھا کہ گندہ نظم اور گندہ تر نثر کو شعر و ادب کا بہترین نمونہ کہہ کر پیش کرتا۔ یہ بے باکی اور ڈھٹائی نیویارک کے ایوننگ گریفک، لندن کے نیوز آف دی ورلڈ اور لندن لائف، ممبئی کے ٹائمز آف انڈیا، السٹر یٹڈ ویکلی اور اسی مرتبہ کے اور اونچے اونچے فرنگی اخباروں رسالوں ہی کے حصہ میں آئی ہے، لفظ و عبارت ہی نہیں، فوٹو اور تصویریں تک زیادہ سے زیادہ عریاں چھاپتے رہیں، اور نام ’’آرٹ‘‘ کی ترقی کا یا صحت کے رکھ رکھاؤ کا لے دیا کریں!غریب مشرقی کا تخیل بھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ عمل میں کیسی ہی شرمناک کمزوریاں اور کوتاہیاں ہوں لیکن ایمان میں فحش وبے حیائی کا جواز داخل نہ تھا۔ اپنے شہدپن کی کہانی سنانے کو تو سنا ڈالی لیکن معا ًیہ خیال بھی سامنے آ گیا کہ خود تو جی بھر کے تباہ ہو چکے، نہ ہو کہ داستان فسق دوسروں کے لئے سامان تباہ کاری بن جائے۔ آخر مشرقی تھے، مسلمان تھے، بات کوانجام تک پہنچاتے پہنچاتے خود اپنے انجام کا بھی خیال آ گیا۔ اٹھے تھے، شیطان پورہ کی دلالی کرنے، رخ خود بخود خانقاہ کی جانب پھر گیا۔ اور ابتدامیں جس کی حمد میں زبان کھلی تھی،کس زباں سے کروں صفات خدا کیا بشر سمجھے کنہ ذات خداجب نبی یوں کہے کہ اے مالکما عرفناک حق معرفتکانتہا میں بھی اسی کا خوف غالب آ گیا اور اسی کی خشیت نے قلب کو لرز ا دیا۔ زبان اب چل رہی ہے اور مضمون عشق ہی پر چل رہی ہے لیکن اب وہ سراپا فسق نہیں، ذرا کان لگا کر تو سنیئے یہ ایوان عشق میں داستان فسق بیان ہو رہی ہے، یا ذکر و شغل کے حلقہ میں تسبیح و تہلیل ہو رہی ہے؟ اب سنیں صاحبان عقل و شعورہے یہ دنیا تمام مکر اور زورشہد ظاہر میں زہر اندر ہےجس قدر اس سے بھاگے بہتر ہےصاحب عقل کو نہیں ہے زیبکہ اٹھائے جہاں میں رہ کے فریبسب یہ دنیا سرائے فانی ہے عشق معبود جاودانی ہےہائیں! یہ کیا سے کیا ہو گیا! ابھی تو شرافت اور متانت کانوں میں انگلیاں دیےہوئے تھی اور اب ہے کہ آنکھیں بچھا دینے کو تیار! کہاں ابھی گلفام و سبز پری کا سوانگ جما ہوا تھا اور کہاں رومی و غزالی کے مواعظ کا دفتر کھل گیا۔ کہتے ہیں صوفیان صافی دلکہ ہے عشق خدا بہت مشکلعشق اللہ کا جو مائل ہو ترک دنیا کرے تو حاصل ہواب یہ لازم ہے جو کہ ہے انساں ترک دنیا کرے بہر عنواںکوئی الفت نہ بے وفا سےکرےعشق کرناہے تو خدا سے کرےچار دن کی یہ زندگانی ہےجو ہے اس کے سوا وہ فانی ہےہے وہ مستجمع جمیع صفاتلائق سجدہ ہے اسی کی ذاتوہی اول میں ہے وہی آخر وہی باطن میں ہے وہی ظاہرکون سی جا ہے جس جگہ وہ نہیںچاہئے ہے نگاہ وحدت بیںتلقین زہد و موعظہ معرفت سے طبیعت اکتا چلی ہو، تو بس تھوڑے صبر کی اور ضرورت ہے۔ چند ہی شعر باقی رہ گئے ہیں،لکھتے ہیں صوفیان با توقیر عشق اللہ ہے عجب اکسیرجس کو اس در تلک رسائی ہےدین و دنیا کی بادشاہی ہےمثل سیماب دل کی ہے تاثیرخاک ہو جائے تب بنے اکسیردنیا کہتے ہیں جس کوپردہ ہےباقی اللہ کے سوا کیا ہےمنکشف اس کی کیا حقیقت ہووہی جانے جسے بصیرت ہوپردے اٹھ جائیں جب جدائی کےحال اس دم کھلیں خدائی کےیہ کس کا کلام ہے؟ کسی صوفی خرقہ پوش کا؟ کسی زاہد خلوت گزیں کا؟ کسی فقیر تارک دنیا کا؟ یاا سی حیا دشمن کا جو ابھی ابھی اپنی سیہ کاری کی داستان مزے لے لے کے سنا رہا تھا؟ اس بد نام مشرقی کے مقابلہ میں مغرب کے نیک ناموں کے پاس کیا ہے؟ یہ ننگ مشرق تھا۔ جو فخر مغرب ہیں، سوال ان کی بابت ہے۔ یہ مشرقی تخیل کا اسفل سافلین تھا، لیکن جو مغربی تخیل کا اعلیٰ علیین ہے اس کے صحن چمن میں گلگشت کے بعد، پند و موعظت، سلوک و معرفت، عبرت و اخلاق کے کتنے گلدستے تیار ہو سکتے ہیں؟ (۲)
نواب مرزا کا شاہکار بہار عشق نہیں زہر عشق ہے، اس کے نام کو بری یا بھلی جو کچھ بھی شہرت حاصل ہے، اسی زہر عشق کے طفیل میں ہے۔ یہ مثنوی بہار عشق سے چھوٹی ہے۔ کوئی پانچ سو شعر ہوں گے، بحر وہی، زبان وہی، طرز بیان وہی، لیکن درد و اثر کے اعتبار سے اس سے بڑھ چڑھ کر۔ بہار عشق کا خاتمہ وصل کی شادمانی پر ہوا تھا، زہر عشق کا انجام ہیروئن کی خودکشی اور عاشق کے اقدام خودکشی پر ہوتا ہے۔ بہ حیثیت مجموعی یہ نظم بہار عشق کے مقابلہ میں بہت مہذب اور سنجیدہ ہے۔ عریانی اس میں اگر ہے بھی تو بس اتنی جتنی ہر عاشقانہ افسانہ میں ہوتی ہی ہے۔ ہیروئن اس کی بھی کوئی عصمت مآب نہیں لیکن دوسری طرف کوئی ’’لکھا بیسوا‘‘ بھی نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی شریف گھرانے کی ایک الھڑ لڑکی، نو عمری کی نادانیوں میں مبتلا ہو گئی ہے، تا ہم غیرت وعزت سے بالکل ہاتھ نہیں دھو بیٹھی ہے۔ لکھنؤ میں شروع شروع تھیٹر کا رواج ہوا تو کسی کمپنی نے اس تماشہ کو اسٹیج پر بھی دکھایا تھا۔ پرانے لوگوں سے یہ روایت سننے میں آئی ہے کہ گنہگار کنواری کے جنازہ کا اٹھنا اور اس کے پیچھے غم زدہ والدین کا ماتم کرتے ہوئے چلنا اور پچھاڑیں کھا کر گرنا، جب دکھایا گیا تو تماشہ گاہ ایک بزم عزا بن گئی، لکھنؤ کی نزاکت، قیامت خیز واقعیت کی نقل کا بھی تحمل نہ کر سکی۔ ہچکیوں اور سسکیوں کا تار بندھ گیا۔ بعض کو غش آ گئے اور ایک آدھ نے شاید خودکشی کی بھی ٹھان لی۔ اس پر تماشہ کا دکھانا قانوناً ممنوع ہو گیا اور کتاب کی اشاعت بھی عرصہ تک بند رہی۔ اب چند سال ہوئے لکھنؤ کے مطبع مجتبای نے پھر شائع کیا ہے۔ میرے پیش نظر اس مطبوعہ نسخہ کے علاوہ ایک بد خط قلمی نسخہ بھی ہے، اندازے سے کوئی پچاس ساٹھ سال ادھر کا لکھا ہوا۔ کتاب کے سرنامہ پر حمد باری و نعت رسول کی مہریں ثبت ہیں،لکھ قلم پہلے حمد رب ودودکہ ہر ایک جا پہ ہے وہی وجودذات معبود جاودانی ہےباقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہےہمسر اس کا نہیں، ندیم نہیںسب ہیں حادث، کوئی قدیم نہیںمدح احمد زبان پر کیونکر آئے بحر کوزہ میں کس طرح سے سمائےذات احمدؐ کو کوئی کیا جانےیا علی جانے یا خدا جانےآگے چل کر بجائے جہاں پناہ کی مدح کے 10-12 اشعار عشق کی تعریف و تعارف میں ہیں، ان میں سے بعض شعر اپنی صفائی اور روانی کی بنا پر عام زبانوں پر چڑھ گئے ہیں۔ عشق سے کون ہے بشر خالیکر دیے اس نے گھر کے گھر خالیپڑتے ہیں اس میں جان کے لالےڈالتا ہے جگر میں یہ چھالےاس سے امید رکھنا ہے بے جابھائی مجنوں سے کیا سلوک کیاآتش ہجر سے جلاتا ہےآگ پانی میں یہ لگاتا ہےمار ڈالا تماش بینوں کوزہر کھلوا دیا حسینوں کوقصہ کا آغاز یوں ہوتا ہے،جس محلہ میں تھا ہمارا گھروہیں رہتا تھا ایک سوداگراس کے ایک نو عمر حسین لڑکی تھی، ماں باپ کی آنکھ کا تارا، لکھی پڑھی، نستعلیق، ایک روز اپنے کوٹھے پر آئی، نواب مرزا سے آنکھیں چار ہو گئیں۔ یہ حضرت تو اپنا دل نذر کرنے کے لئے ہر وقت ہتھیلی پر لئے پھرتے ہی تھے، کھٹ سے عاشق ہو گئے اور اپنے ماں باپ کےسامنے خوب خوب فیل لائے۔ اب کی عشق یک طرفہ نہ تھا، ادھر بھی اثر ہو چکا تھا، ایک روز ایک ماما نامہ شوق چپکے سے لا کو شوقؔ کے ہاتھ میں دے گئی۔ خوشی سے کانپتے ہوئے ہاتھوں اور خوشی سے پر نم آنکھوں کے ساتھ کھول کر پڑھا،ہو یہ معلوم تم کو بعد سلامغم فرقت سے دل ہے بے آرامشکل دکھلا دے کبریا کے لئےبام پر آذرا خدا کے لئےدل کی چوٹ بری ہوتی ہے۔ لڑکی محبت کی ماری، عقل و ہوش سے اندھی ہو چکی ہے۔ پھر بھی شریف زادی ہے، اس لئے قلم اس سے زیادہ بے حیائی پر نہیں اٹھ سکتا، فوراً اپنی خود داری کو یوں سنبھالتی ہے،سارے الفت نے کھو دیے اوسانورنہ یہ لکھتی میں خدا کی شاناب کوئی اس میں کیا دلیل کرےجس کو چاہے خدا ذلیل کرےاس محبت پہ ہو خدا کی مارجس نے یوں کر دیا مجھے نا چارعاشق صاحب یہ پڑھ کر بھلا جامہ میں کہاں سما سکتے تھے۔ ایک جواب بحر طویل میں دھر گھسیٹا۔ جاو بیجا، نا مناسب سب ہی کچھ زبان قلم نے اگل ڈالا، ادھر سوداگر زادی بھی بڑی برق دم نکلیں، انہیں کے جوڑ کی۔ کھوٹے کھرے مال کی خوب پرکھ رکھتی تھیں۔ پیام شوق پڑھ کر خوب لطف لیا۔ اور ہنس کے بولی کہ ’’ واہ واہ کیا خوب۔‘‘ جواب لکھنے بیٹھی تو بسم اللہ یوں کی ’’کچھ قضا تو نہی ہے دامن گیر۔‘‘ اور پھر خوب خبر لی،ذکر ان باتوں کا یہاں کیا تھاچھیڑنے کو یہ تیرے کہا تھایہ تو لکھے تھے سب ہنسی کے کلامورنہ ان باتوں سے ہے کیا کاممجھ کو ایسی تھی تیری کیا پروابام پر تو بلا سے آ، کہ نہ آتم پہ مرتی، میں کیا قیامت تھیکیا مرے دشمنوں کی شامت تھیمیری جانب سے یہ گماں کیا خوبجھوٹ جم جم سے ہے بہت مرغوبکالا دانہ ذرا تروا لو! رائی لون اس سمجھ پہ کر ڈالودیکھ تحریر فیل لائے آپخوب جلدی مزے میں آئے آپچند روز اسی طرح مزہ مزہ کی نوک جھونک جاری رہی۔ اس کے بعد ایک جمعرات کو وہی درگاہ کی زیارت کا چلتا ہوا فقرہ کام آیا۔ شامت کی ماری کی سواری، والدین کے گھر سے چلی ا ور نواب مرزا کی ڈیوڑھی پر آ کر رکی۔ آگے جو کچھ ہونا تھا ہوا۔ شرافت لٹی، عزت ڈوبی، آمد و رفت کا سلسلہ اس کے بعد قائم ہو گیا۔ لیکن یہ چوری چھپے کی ملاقات کب تک راز رہ سکتی تھی۔ گھر والوں کو ٹوہ لگ گئی، اور والدین نے اپنی رسوائی دفع کرنے کو یہ تجویز کیا کہ لڑکی کو لکھنؤ سے دور شہر بنارس میں کسی عزیز کے پاس پہنچا دیا جائے۔ ادھر لڑکی کو بھی سن گن مل گئی۔ دل نے کہا کہ ہاتھ کٹ جانے کی بات ہے۔ باپ کو بھی آخر اس رو سیاہی کی خبر ہو گئی۔ اب ان کا سامنا کیا کیسے جائےگا؟ اس زندگی سے تو موت بھلی! نو عمری کا زمانہ، دل دنیا کی تلخیوں سے نا آشنا، حوصلے زندہ، اور ولولے تازہ، سامنے دنیا اور اس کی بہاریں۔ ابھی لڑکی ہی ہے، کوئی پیر زال نہیں۔ کچھ بیمار دکھی بھی نہیں۔ بس بات کیا ہے، صرف اتنی کہ رگوں میں مشرقی شرافت کا خون گردش کر رہا ہے۔ دماغ میں خاندانی روایات کی یاد محفوظ ہے، دل میں غیرت و حمیت کی آن باقی ہے۔ جان جیسی عزیز چیز سے ہاتھ دھونا گوارا لیکن اس کی برداشت نہیں کہ سب عزیزوں، قریبیوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا ہو کر زندگی بسر کی جائے۔ بس یہ دل میں ٹھان آخری ملاقات کے لئے عاشق کے پاس آتی ہے۔ جان دینا تو عاشقوں کا کام سمجھا جاتاہے یہاں جان دینے پر وہ آمادہ ہے جو خود اس قابل ہے کہ دوسرے اس کے اوپر اپنی جانیں فدا کرتے! تھی نہ فرصت جو اشک باری سےاتری روتی ہوئی سواری سےشیکسپیر نے اپنے ڈراموں میں عاشق و معشوق کی جدائیوں اور وداعی ملاقاتوں کے منظر بارہا دکھائے ہیں۔ خودکشی، اقدام خود کشی، اور مصنوعی خودکشی کے منظروں سے بھی اس کے صفحات خالی نہیں۔ اور رومیو جولیٹ کے بعض سماں تو بہت ہی مؤثر اور درد انگیز سمجھے جاتے ہیں لیکن ہے اس فرنگستان کے مشہور و ممتاز ڈرامہ نگار کے ہاں کوئی منظر جو اثر و عبرت انگیزی میں مشرق کے اس بد نام شاعر کے کھینچے ہوئے نقشہ کا مقابلہ کر سکے؟ خیر وہ حسرت نصیب آتی ہے اور کہتی ہے،اقربا ہو گئے مرے آگاہتم سے ملنے کی اب نہیں کوئی راہوہ چھٹے ہم سے جس کو پیار کریںجبر کیونکر یہ اختیار کریںگو ٹھکانے نہیں ہیں ہوش و حواسپر یہ کہنے کو آئی ہوں ترے پاسلیجئے کہاں ابھی غفلت کے قہقہے بلند ہو رہے تھے اور کہاں عبرت کا درس شروع ہو گیا۔ دنیا اور اس کی ساری دلفریبیاں ایک ایک کرکے رخصت ہو رہی ہیں، اب سابقہ پڑنے کو ہے بندی کا اپنے مالک سے، کمزور کا زور والے سے، بے بس کا قدرت والے سے، غفلتیں دور ہو گئیں، مدہوشیاں کافور ہو چلیں، شمع جھلملانے لگی، چہرہ پر زردی چھا گئی، اب نہ جوانی میں وہ لذت و سرور، نہ حسن و رعنائی میں وہ پندار و غرور۔ اب ندامتیں ہیں اور اشکبار یاں، عبرتیں ہیں اور آہ و زاریاں۔ موت کی آمد بے شک ہر غافل کو اسی طرح جھنجھوڑ کر ہوشیار کر دیتی ہے،جائے عبرت سرائے فانی ہےمورد مرگ ناگہانی ہےاونچے اونچے مکان تھے جن کےآج وہ تنگ گور میں ہیں پڑےکل جہاں پر شگوفہ و گل تھےآج دیکھا تو خار بالکل تھےبات کل کی ہے نوجوان تھے جوصاحب نوبت و نشان تھے جوآج خود ہیں نہ ہے مکاں باقینام کو بھی نہیں نشاں باقیغیرت حور مہ جبیں نہ رہےہے مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہےکوئی لیتا نہیں اب اس کا نامکون سی گور میں گیا بہرامکل جو رکھتے تھے اپنے فرق پہ تاجآج وہ فاتحہ کو ہیں محتاجتھے جو خود سر جہان میں مشہورخاک میں مل گیا سب ان کا غرورعطر مٹی کا جو نہ ملتے تھے نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھےگردش چرخ سے ہلاک ہوئےاستخواں تک بھی ان کے خاک ہوئےتاج میں جس کے ٹکتے تھے جوہرٹھوکریں کھاتے ہیں وہ کاسہ سررشک یوسف جو تھے جہاں میں حسیںکھا گئے ان کو آسمان و زمیںہر گھڑی منقلب زمانہ ہےیہی دنیا کا کار خانہ ہےہے نہ شیریں نہ کوہ کن کا پتہنہ کسی جانل و دمن کا پتہبوئے الفت تمام پھیلی ہےباقی اب قیس ہے نہ لیلیٰ ہےصبح کو طائران خوش الحانپڑھتے ہیں کل من علیہا فانموت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہےموت کے تصور سے اچھے اچھے دلیر اور سورما لرز اٹھتے ہیں، یہ تو بے چاری ایک پردہ نشیں لڑکی ہی تھی، کمسن و نادان، یہ وصیتیں کرتے وقت اس کے جسم نازک کے اندر کے قلب نازک کیا حالت ہوگی؟ آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے، دل کا ہول بڑھتا جا تا ہے، چہرہ پر ایک رنگ آتا ہے ایک جاتا ہے۔ کلیجہ میں پنکھے لگے ہوئے ہیں، زبان لڑ کھڑا رہی ہے، آواز تھرا تھرا رہی ہے۔ الفاظ پورے پورے ادا نہیں ہو پاتے۔ پھر بھی تقدیر کے نوشتہ پر صبر کرکے، طبیعت کو سنبھالتی جاتی ہے، آنسو پونچھتی جاتی ہے اور کہتی ہے۔ ہم اگر جان دے دیں کھا کے سمتم نہ رونا ہمارے سر کی قسمدل کو ہم جولیوں میں بہلانایا مری قبر پر چلے جاناجا کے رہنا نہ اس مکان سے دورہم جو مر جائیں تیری جان سے دورروح بھٹکے گی گر نہ پائےگیڈھونڈنے کس طرف کوجائےگیرو کے رہنا بہت طبیعت کویاد رکھنا مری وصیت کومیرے مرنے کی جب خبر پانایوں نہ دوڑے ہوئے چلے آناجمع ہولیں سب اقربا جس دمرکھنا اس وقت تم وہاں پہ قدمکہے دیتی ہوں جی نہ کھونا تمساتھ تابوت کے نہ رونا تمہو گئے تم اگر چہ سودائیدور پہنچے گی میری رسوائیلاکھ تم کچھ کہو نہ مانیں گےلوگ عاشق ہمارا جانیں گےطعنہ زن ہوں گے سب غریب و امیرقبر پر بیٹھنا نہ ہو کے فقیرگنہ گار سوداگر زادی اپنے گناہ کا احساس رکھتی تھی، خلق میں اپنی رسوائی سے شرماتی تھی، کوئی امریکی آرٹسٹ، کوئی فرنگی ’’فلم اسٹار‘‘ نہ تھی، کہ فخر اپنی بے حیائی پر اور ناز اپنی سیاہ کاری پر کرتی۔ گناہ گار بننا قسمت میں لکھا کر آئی تھی، سو بن چکی، لیکن گناہ کی اشاعت کی روادار کسی حال میں نہ تھی۔ دامن عصمت داغدار ہونا تھا، ہو چکا، پھر بھی عزت کے معنی سے واقف تھی، شرافت کی قدر و قیمت پہچانتی تھی۔ پردہ پوشی کے لئے کیسی کیسی منت و سماجت کرتی ہے،سامنا ہو ہزار آفت کاپاس رکھنا ہماری عزت کاجب جنازہ مرا عزیز اٹھائیں آپ بیٹھے وہاں نہ اشک بہائیںمیری منت پہ دھیان رکھئےگابند اپنی زبان رکھئےگاتذکرہ کچھ نہ کیجئےگانام منہ سے نہ لیجئےگا مرااشک آنکھوں سے مت بہائیےگاساتھ غیروں کی طرح جائیےگاآپ کاندھا نہ دیجئے گا مجھے سب میں رسوا نہ کیجئےگا مجھےساتھ چلنا نہ سر کے بال کھلےتا کسی شخص پر نہ حال کھلےذکر سن کر نہ میرا رو دینامیری عزت نہ یوں ڈبو دیناکہتے ہیں مرد کی خاطر عورت اپنے کو مٹا دیتی ہے، فنا کر ڈالتی ہے۔ کم از کم ہندوستان کی عورت کا تو بے شک یہی حال ہے۔ خود تو جان دے رہی ہے مگر یہ اب بھی گوارا نہیں کہ مرد کا رویاں میلا ہو، تشفی و تسلی کا دھیان آخری سانس تک قائم ہے،رنج کرنا نہ میرا میں قرباںسن لو گر اپنی جان ہے تو جہاںدے نہ اس کو خدا کبھی کوئی دردہوتا نازک کمال ہے دل مرددل میں کڑھنا نہ مجھ سے چھوٹ کے توجان دینا نہ گھونٹ گھونٹ کے توروکے کرنا نہ اپنا حال زبوںتا نہ ہو جائے دشمنوں کا خوںکبھی آ جائے گر ہمارا دھیانجاننا ہم پہ ہو گئی قرباندل میں کچھ آنے دیجئو نہ ملالخواب دیکھا تھا کیجئو یہ خیالپھر ملاقات دیکھیں ہو کہ نہ ہوآج دل کھول کر گلے مل لوخوب سا آج دیکھ بھال لو تمدل کی سب حسرتیں نکال لو تمدل میں باقی رہے نہ کچھ ارمان خوب مل کر گلے سے میں قربانحشر تک ہوگی پھر یہ بات کہاںہم کہاں، تم کہاں یہ رات کہاںدل کو اپنے کر و ملول نہیںرونے دھونے سے کچھ حصول نہیںاپنی آنکھوں سے ندی نالے جاری کر رکھے ہیں، لیکن مرد کے چہرہ کی اداسی دیکھنا بھی گوارا نہیں،رو نہ اس طرح سے تو زار و قطاردشمنوں کو کہیں چڑھے نہ بخارکر نہ رو رو کے اپنا حال زبوںارے ظالم ابھی تو جیتی ہوںاشک ہوتے ہیں نا گوار ترےتو نہ رو ہو گئی نثار ترےایسے قصے ہزار ہوتے ہیںیوں کہیں مردوئے بھی روتے ہیںتو سلامت جہاں میں رہ میری جاننکلیں ماں باپ کے ترے ارمانواسطے میرے اپنا دل نہ کڑھاچاند سی بنو گھر میں بیاہ کے لاہے یہی لطف زندگانی کادیکھ سکھ اپنی نوجوانی کاحسن بے ثبات کی نیرنگیاں ختم ہو رہی ہیں، عشق فانی کی ساری لذتیں ایک ایک کر کے یاد آ رہی ہیں، اور چل چلاؤ کے وقت نفس پر ہجوم کر رہی ہیں،کل گلے سے کسے لگاؤگےیوں کسے گود میں بٹھاؤگےہم تو اٹھتے ہیں اس مکان سے کلاب تو جاتے ہیں اس جہان سے کلیاد اتنی تمہیں دلاتے جائیںپان کل کے لئے لگاتے جائیںدیکھ لو آج ہم کو جی بھر کےکوئی آتا نہیں ہے پھر مر کےختم ہوتی ہے زندگانی آجخاک میں ملتی ہے جوانی آجسمجھ اس کو شب برات کی راتہم ہیں مہمان تمہارے رات کی راتپھل اٹھایا نہ زندگانی کانہ ملا کچھ مزہ جوانی کاباغ عالم سے نا مراد چلےدل میں لے کر تمہاری یاد چلےپھر کہاں ہم کہاں یہ صحبت یارکر لو پھر ہم کو بھینچ بھینچ کے پیارلہر پھر چڑھ رہی ہے کالوں کیبوسنگھا دو تم اپنے بالوں کیپھر ہم اٹھنے لگیں بٹھا لو تمپھر بگڑ جائیں ہم منا لو تمپھر لبوں کو چبا کے بات کروپھر ذرا مسکرا کے بات کرویہ آخری راز و نیاز کتنی دیر؟ یہ زندگی کا آخری اختلاط کے گھڑی؟ جھلملاتی ہوئی چراغ کے آخری بھڑک کب تک؟ مادی لذتیں ختم ا ور جسم کے مزے ایک ایک کر کے تمام ہو رہے ہیں۔ ناسوتی صحبتوں کا تار تار بکھرنے کو ہے۔ نفس کی ماری ہوئی لیکن غیرت دار گنہگار مگر گناہ کی معترف، عزت لٹائے ہوئے لیکن بہر حال پاس عزت رکھنے والی پردہ نشیں کی آنکھوں سے پردے ہٹ رہے ہیں۔ آج ختم ہو رہا ہے، کل شرو ع ہو رہا ہے، حسن و جوانی، نزاکت و رعنائی، چہرہ کا رنگ و روغن، سب کی نمود مٹی ہی سے تھی او ر سب مٹی میں ملے جا رہے ہیں۔ رفاقت پر کوئی آمادہ نہیں۔ حاضری اس دربار میں در پیش ہے، جہاں بد کاری الگ رہی، ایک ایک بد نظری کا پورا پورا حساب درج ہے، سامان اس مالک کا کرنا ہے جس نے خلاف قانون آنکھ اٹھانے تک پر باز پرس رکھی ہے۔ روبکاری اس حاکم کی عدالت میں ہے جس کی ہیبت سے بڑے بڑے متقی اور صالحین لرزتے رہتے ہیں۔ یہ نازک جسم اور نازک تر قلب رکھنے والی، گناہوں کے بوجھ سے لدی ہوئی، حرام موت مرنے والی لڑکی، اس نازک گھڑی میں آخر کس کا سہرا پکڑے، اور کس کی نگاہ کرم کی آس لگائے؟ اے ہر مشکل کوآسان کرنے والے! اس دکھیاری کی مشکل کو تو ہی آسان کر، تیری ہی ستاری کا دامن اس بے چادر کی پردہ پوشی کر سکتا ہے۔ تیرے ہی بحر مغرفت کا ایک قطرہ اس بد نصیب کے نامہ عمل کی سیاہیاں دھو ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ تیری یاد سے غفلت بے شبہ تھی، پر تیری حکومت سے سر کشی نہ تھی۔ نفس کی لغزشیں یقیناً تھیں پر تیرے احکام سے جان کر بغاوت نہ تھی۔ ایمان کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی ڈھارس بندھاتی ہے۔ فاتحہ، قرآن خوانی اور دعائے خیر کی قدر ’’آج‘‘ کنگھی چوٹی کے مشغلہ نے نہ کرنے دی، ’’کل‘‘ کے لئے سب سے زیادہ قیمتی چیزیں یہی نظر آ رہی ہیں،اب تم اتنی دعا کرو میری جانکل کی مشکل خدا کرے آساناگر آ جائے کچھ طبیعت پرپڑھنا قرآن میری تربت پرغنچہ دل مرا کھلا جاناپھول تربت پہ دو چڑھا جانادیکھئے کس طرح پڑے گی کلسخت ہوتی ہے منزل اولمیرے مرقد پر روز آنا تمفاتحہ سے نہ ہاتھ اٹھانا تمگو میں دنیا سے رو سیاہ چلیلیکن اپنی سی میں نباہ چلیجی کو تم پر فدا کیا میں نےحق وفا کا ادا کیا میں نےکانپتے ہوئے جسم، زار و قطار آنکھوں، لرزتی ہوئی زبان کےساتھ، دل کی بیتی بیان ہو رہی تھی کہ رات تمام ہو جاتی ہے۔ اور اس کمسن نازنین کے ڈوبتے ہوئے دل کی طرح آسمان کے تارے بھی ایک ایک کر کے ڈوبنے لگتے ہیں۔ صبح کا گھڑیال بجتا ہے اور اس کے ساتھ ناسوتی کرشموں کے جنجال میں پھنسے ہوئے جوڑے کی آخری ملاقات بھی اس عالم آب وگل میں ختم ہو جاتی ہے۔ کلمہ کی آواز کبھی کی سنی سنائی کان میں پڑی ہوئی تھی، وہی اس آڑے وقت پر کام آتی ہے،ہو گیا فرط غم سے چہرہ زرددست و پا تھر تھرا کے ہو گئے سردبید کی طرح جسم تھرایاسر سے لے پاؤں تک عرق آیاباتیں جو کرتی تھی سو بھول گئیدم لگا چڑھنے سانس پھول گئیبولی گھبرا کے رہیو اس کے گواہکہا لا الہ الا اللہاب فقط ہے یہ خون بہابخش دیجو کہا سنا میراسر سے لے کربلائیں تا بقدمبولی تم پر نثار ہوتے ہیں ہمآگ لگ جائے وہ گھڑی کم بختبام پر آئی تھی میں کون سے وقتیہ کہا اورسوار ہو گئی، چند گھنٹوں کے بعد محلہ میں شوروشین برپا ہوا، جا کر دیکھا تو سوداگر کے گھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔ گنہگار شریف زادی نے جو کہا تھا کر دکھایا، جوانی کی نیند مشہور ہے لیکن یہ زہر کھا کر وہ نیند سوئی تھی جس میں قیامت تک بیداری نہیں۔ یہ ہے ’’آغاز‘‘ کی بد مستیوں کا ’’انجام۔‘‘ پھولوں کی سیج پر رات بسر کرنے والی کو آخری چادر وہی کفن کی نصیب ہوئی، اتنی جلد، کم سنی میں ایسی ایسی آناً فاناًجوان جہان اولاد، نازوں کی پالی اکلوتی اولاد، کون انسانی سینہ ہے جو اس داغ کو آسانی سے برداشت کر سکے؟ لڑکی ماں کی آنکھ کا تارا، باپ کے کلیجہ کا ٹکڑا، اندھیرے گھر کا چراغ، سات بیٹوں سے بڑھ کرپیاری تھی، گھر بھر میں کیا معنی، محلہ بھر میں ہنگامہ محشر برپا ہو گیا۔ بوڑھے والدین کی یہ حالت کہ کھڑے پچھاڑیں کھا کھا کر گرتے تھے، اور بین کچھ اس درد کے ساتھ کر رہے تھے کہ اپنے تو خیر اپنے تھے، راہ چلتے بیگانوں کی ہچکیاں بندھ بندھ جاتی تھیں۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں جنہوں نے گودوں میں کھلا کھلا کر پالا تھا، نہالچوں پر تھپک تھپک کر سلایا تھا، ساتھ کی کھیلی ہوئی سہیلیاں اور ہمجولیاں، کوئی پردہ کے اندر، کوئی پردہ کے باہر، دوپٹہ کا ہوش نہ چادر کی خبر، منہ پیٹنے، بال نوچنے میں مصروف، غسل و کفن کے بعد جب جنازہ مرتب ہو کر چلا ہے تو اس سج دھج کےساتھ کہ بن بیاہی نامراد کے تابوت پر دھوکا بیاہی ہوئی دلہن کے ڈولے کا۔ بے شک دلہن ہی تھی۔ آج رخصتی اس دیس کو ہو رہی تھی جہاں سے پھر کوئی میکہ واپس نہیں آتا،شامیانہ نیازری کا ہےنیچے تابوت اس پری کا ہےسہرا اس پر بندھا ہے اک زر تارجیسے گلشن کی آخری ہو بہارعود و سوز آگے آگے روشن تھے مر گئے پھر بھی لاکھ جوبن تھےبھیڑ تابوت کے تھی ایسی ساتجیسے آئے کسی دلہن کی براتخیر اور تو جس پر جو بیت رہی تھی، تھی ہی، اس مامتا کی ماری کا کیا حال تھا جس کی ہری بھری گودابھی کالی کرائی گئی تھی۔ عمر بھر کی کمائی دم کے دم میں واپس لے لی گئی تھی۔ کلیجہ ابھی ابھی تیروں سے چھد چکا تھا۔ کس انسانی قلم میں قدرت ہے کہ اس کےد اغ دل کا نقشہ صفحہ کاغذ پر کھینچ سکے! آہ کہ جس کے دل میں بیٹی کی مانگ بھرنے کا ارمان ڈالا گیا تھا، اسی کے ہاتھوں اس لاڈلی کو کفن پہنوایا جا رہا ہے! آہ کہ جوآنکھیں بیٹی کا سہاگ دیکھنے کے انتظار میں نور حاصل کر رہی تھیں، انہیں کو اسے سیکڑوں من مٹی کے نیچے دفن ہوتے دکھا کر بےنور کیا جا رہا تھا۔ نواب مرزا! تجھ پر رحمت، تیری روح پر رحمت کہ تونے کوکھ اجڑ جانے والی ماں کے جذبات کی تصویر بھی کاغذ پر اتار کر رکھ دی ہے۔ ماں کے منہ سے یہ بول نکل رہے ہیں یا دل و جگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر آنکھ اور زبان کی راہ سے خارج ہو رہے ہیں،تیری میت پہ ہو گئی میں نثارکم سخن ہائے میری غیرت داردل پہ جو گذری کچھ بیان نہ کیکچھ وصیت بھی میری جان نہ کیکچھ نہیں ماں کی اب خبر تم کوکس کی یہ کھا گئی نظر تم کودل ضعیفی میں میرا توڑ گئیںبیٹا ماں کو کس پہ چھوڑ گئیںتازہ پیدا جگر پہ داغ ہواگھر مرا آج بے چراغ ہوادل کو ہاتھوں سے کوئی ملتا ہےجی سنبھالے نہیں سنبھلتا ہےزہر دے دے کوئی تو کھا جاؤںیا زمیں شق ہو میں سما جاؤںداغ تیرا جگر جلاتا ہےچاند سا مکھڑا یاد آتا ہےبیا ہ تیرا رچانے پائی نہ میںکوئی منت بڑھانے پائی نہ میںتیری صورت کے ہو گئی قربانچلیں دنیا سے کیسی پر ارمانہوئی کس بات پر خفا بولواماں واری ذرا جواب تو دوبولتی تم نہیں پکارے سےاب جیوں گی میں کس سہارے سےکیا قضا نے جگر پہ داغ دیا آج گھر میرا بے چراغ کیانکلا ماں باپ کا نہ کچھ ارمان ہائے بیٹی نہ تم چڑھیں پروانایسی اماں سے ہو گئیں بے زارلی نہ خدمت بھی پڑ کے کچھ بیمارعمر کٹنی تھی ایسے صدمہ میںٹھوکریں تھیں بدی بڑھاپے میںمشرق کے بد نام سخن گو، اردو کے بدنام شاعر، رخصت! تو درد بھرا دل رکھتا تھا، تیری یاد بھی درد والوں کےدلوں میں زندہ رہے گی۔ تونے موت کو یاد رکھا، تیرے نام پر بھی موت نہ آنے پائے گی۔ تونے غفلتوں اور سرمستیوں کی داستان کو خوب پھیلایا، شاید کسی کی رحمت بے حساب پر تکیہ کر کے لیکن انہیں غافلوں اور سر مستوں کو موت و انجام کی یاد دلا دلا کر بھی خوب رلایا، کسی کی عظمت بے پایاں کا خوف کر کے۔ عجب کیا کہ خدائے آمروزگار، اس عالم کا ستار اور اس عالم کا غفار، تیری خطاؤں اور لغزشوں کو اپنے دامن عفو و مغفرت کے سایہ میں لے لے، اور تیرے کلام کے درد و عبرت، تیرے بیان کے سوز و گداز کا اثر بھی تجھے عطا کرے، اپنی ہی رحمت کی مناسبت سے، اپنے ہی کرم کے حساب سے!

حاشیے
(1) 1927ء میں یہ محض قیاس سے لکھا گیا تھا۔ 1942ء میں لذت عشق کا ایک بہت قدیم مطبوعہ نسخہ لکھنؤ یونیورسٹی کے پروفیسر مسعود حسن صاحب رضوی کے کتب خانہ میں نظر سے گذرا۔ اس کے سر ورق پر تصریح ہے کہ یہ مثنوی شوق کی نہیں، شوق کے ہمشیرہ زادہ ایک اور حکیم صاحب کی ہے۔ (2) لکھنؤ کے غربی حصے میں ایک مشہور شیعی زیارت گاہ۔(3) یہ صورت حال 1927ء کی بیان ہوئی۔ دور ’’ترقی پسندی‘‘ کے طلوع ہونے سے بہت قبل۔ اس وقت خود اس مقالہ کا لکھنا اور اسے بھری مجلس میں سنانا، ذرا جرأت ہی کا کام تھا۔ (4) اور اب تو وہ دونوں غریب بھی ڈی۔ ایچ، لارنس اور جوائس اور ان جیسے بیسیوں اہل قلم مردوں اور خاتونوں کے آگے گرد ہو کر رہ گئے ہیں۔ (5) ملاحظہ ہو انگلستان کے رسالہ Healfer Effeincy کے چند نمبر۔