قومی زبان… اصلاح ضرور کیجیے مگر حکمت کے ساتھ

کسی کو اس بات کی فکر ہی نہیں ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور  آخر  ملک کے اندر  اردو لکھنے پڑھنے کا رواج کیوں ختم ہو رہا ہے  ۔لوگوں نے   رسایل اور کتابیں خریدنا اگر  ختم نہیں تو اتنا کم کیوں کر دی ہیں  ۔ لوگوں میں رومن اردو کی جگہ اردو نسخ یا نستعلیق کو کیسے مقبول بنایا  جائے ورنہ  اردو کی اس تیز تنزلی کا   کس قیامت کا نامہ بنے گا ۔ ہم انفرادی طور پر  کیا ٹھوس قدم اٹھا سکتے ہیں  اردو کی ترقی کے لیے ہمارا انفرادی کردار کیا ہونا چاہیے ؟

جن کو اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے جو کچھ یہ کام کر سکتے ہیں بدنصیبی سے  وہ اپنی توجہ صرف  اس  بات پر مرکوز کیے ہوئے ہیں کہ کون کیا غلط بول رہا ہے اسے ٹھیک کرو اس کی اردو کو ٹھیک کرو ۔

یہاں اردو ختم ہو رہی ہے اور ان اردو دانوں کو صرف یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ ان کے دائرہ سماعت میں کوئی اردو بولتے ہوئے کسی بدیسی زبان کا لفظ منہ سے نا نکال دے کوئی اردو لکھتے ہوئے فارسی اور عربی الفاظ کا مرکب لفظ نا بنا دے ۔ کوئی گرائمر کی کوئی غلطی نا کر دے ۔

کیا بچہ اپنی ماں کی گود سے جب  مادری زبان سیکھتا ہے تو اسے سکھانے کے لیئے ماں  بھی  ایسے ہی اردو قواعد کے رٹے لگواتی ہے ؟

 ماں بچوں کو غلط بولنے سے کبھی  ٹوکتی نہیں ہے انہیں غلط بولنے دیتی ہے، کیونکہ  ماں کو معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز مشق ہے، بچہ غلط بول رہا ہے بولنے دو ،آج غلط بولے گا تو کل خود ہی ٹھیک بھی، مجھے صحیح بولتا دیکھ کر خود ہی وقت کے ساتھ ساتھ صحیح  بولنا شروع کر دے گا ۔

مجھے معلوم ہے کہ آج کل جو لوگ دوسروں کی  اردو ٹھیک کرنے کی  کوشش  سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں وہ اردو سے بہت  محبت کر تے ہیں  ۔ان کے خلوص کی مجھے  قدر ہے مگر ان کی حکمت عملی غلط ہے جس کے منفی اثرات بھی نکل سکتے ہیں

ایک لطیفہ یاد آیا

کسی کا انتقال ہو گیا گولی لگنے سے سب  آئے تعزیت کرنے کے لیئے ۔ ایک صاحب نے دعائے مغفرت پڑھی بڑے بیٹے سے پوچھا کہ

گولی کہاں لگی تھی ؟

سر پر

نہیں سر پر کہاں ؟ وہ جگہ بتاؤ

جی ماتھے پر

ماتھا بڑا ہوتا ہے بھائی ماتھے پر کہاں ؟

جی درمیان میں ؟

اللہ کے بندے درمیان سے کیا مراد ہے اوپر، بیچ میں یا ماتھے کے نیچے ؟

لڑکا بے بسی سے بولا جی نیچے کی طرف

نیچے سے کیا مطلب ؟ کیا  گولی آنکھ پر لگی تھی ؟

نہیں جی آنکھ پر نہیں لگی گی تھیں بلکہ آنکھوں کے درمیان ماتھے میں لگی ،  بیٹے نے جواب دیا

شکر ہے کم از کم آنکھ تو بچ گئی ۔ وہ صاحب خوشی سے چہکے

یہاں اردو کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا رواج ختم ہو رہا ہے ۔اردو اخبارات اور رسایل دونوں اردو دانوں کی خریداری سے نہیں  بلکہ ملنے والے  اشتہارت سے زندہ ہیں اور ہم  اردودانوں کو یہ عالم ہے  کہ  ملک کی نوے فیصد سے زاید آبادی کا کوئی فرد( جس کی مادری زبان اردو نہیں ہے )؛ جب اردو بولتا ہے تو ہمیں  تشویش لاحق ہو جاتی ہے ۔ یہ لفظ  تو اردو میں  مذکر ہے خان صاحب نے   مونث کیوں بولا  یا یہ کہ   لفظ تو قینچی والے ق سے تھا بٹ صاحب  نے بولتے وقت اسے  کوے والے ک  سے کیوں بولا  ؟ فارسی اردو مرکب لفظ ایک ساتھ کیوں بولے ۔ ہم لوگوں کی "اصلاح مسلسل " کر کر کے شاید انہیں خود سے دور اور اردو سے بیزار کر رہے ہیں ۔

اصلاح کا جذبہ بہت اچھا ہے مگر اصلاح کے لیےرویہ تو امام حسن اور امام حسین کا بھی اپنایا جا سکتا ہے  جنہوں نے بدو کو غلط طریقے سے وضو کرتے دیکھ کر کہا تھا کہ ہم آپ کے سامنے وضو کرتے ہیں جہاں غلطی کریں ہمیں بتا دیجے گا ہم ٹھیک کر لیں گے ۔ بدو کو پتا تھا، نبی ؐکے نواسے ہیں اگر میں ان کو وضو کرتا دیکھ لوں گا تو مجھے درست طریقہ آجائے گا ۔ سوچیں کہ اگر وہ دونوں اس بدو کو ٹوکتے کہ تم کیوں غلط طریقے سے وضو کررہے ہو تمہاری نماز قبول نہیں ہوگی تم جہنم میں جلو گے تو کیا وہ بدو اس سے زیادہ بہتر اثر لے لیتا جتنا اس نے  ان دونوں  کے عمل کا مشاہدہ کر کے اثر لیا ہو گا۔

کبھی کبھی ہمارے بھاشن وہ اثر پیدا نہیں کرتے ہیں جتنا اثر  ہمارے ایکشن سے ہوتا ہے ۔

آپ کو اللہ نے صلاحیت دی ہے آپ اچھا لکھتے رہیے، یقین کریں لوگ  آپ کو شوق سے پڑھیں گے  اور لاشعوری طور پر اپنی اردو بھی درست کر لیں گے ۔