پاکستانی شخصیات: احمد مرزا جمیل کا اردو پر احسان
انگریزی زبان کے لیے کمپیوٹر کی کتابت بہت سہل عمل تھا کیونکہ انگریزی کے 26 حروف ، لفظ بنانے کے دوران اپنی شناخت قائم رکھتے ہیں۔ لیکن اردو زبان میں یہ عمل بہت پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اردو زبان لکھتے وقت، جب حروف کو آپس میں ملایا جاتا ہے تو ان حروف کی ساخت میں واضح تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ یہی وہ پیچیدگی تھی جس کی وجہ سے 1980 کے عشرے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ اردو زبان کو کمپیوٹر پر ٹائپ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن صرف ایک شخص "احمد مرزا جمیل" نے یہ نا ممکن کام، ممکن کر دکھایا۔ اردو زبان پر ان کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جناب احمد مرزا جمیل کی ایجاد’’نوری نستعلیق" اردو زبان اور صحافت کیلئے ایک عظیم کارنامہ ہے کیونکہ اس ایجاد نے اردوکی ترقی میں پر لگا دیئے ہیں ۔ اردو رسم الخط کے بارے میں عام تاثر تھا کہ یہ جدید برقیاتی دور کا ساتھ نہیں دے سکتا لیکن نوری نستعلیق کی ایجاد نے اردو کی اس خامی کو دور کر دیا ہے ۔اردو زبان کا معروف سافٹ وئیر "ان پیج" (Inpage) اسی نوری نستعلیق کا ہی مرہون منت ہے۔
آج ہم جو بیشمار اردو اخبارات ، جرائد و رسائل اور کتا میں بازار میں دیکھتے ہیں ، اسی ایجاد کی وجہ سے ممکن ہوئیں جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ دراصل اس ایجاد نے ہی اردوکی کمپیوٹری کتابت کا آغاز کیا۔ نوری نستعلیق کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کم سے کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ الفاظ سمٹ جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود الفاظ صاف اور واضح رہتے ہیں ، یعنی پڑھنے والے کو گنجلک محسوس نہیں ہوتے نوری نستعلیق کی کہانی دراصل احمد مرزا جمیل کی کہانی ہے، اس لئے احمد مرزاجمیل کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ جاننا ضروری ہے ۔
احمدمرزا جمیل 21 فروری 1921ء کے روز دہلی میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم سینٹ جوزف ہائی اسکول بمبئی سے حاصل کی اور جے جے اسکول آف آرٹس سے ڈپلوما کیا۔ آپ نے بہت سے تعلیمی ایوارڈ حاصل کئے جن میں ’’آل انڈیا آرٹ انڈسٹری" کا پہلا انعام بھی شامل ہے ۔
1950 ء میں پاکستان آئے اور ایک سال نیشنل ایڈورٹائزرس کراچی میں آرٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ احمد مرزا جمیل بہت اچھے خطاط اور آرٹسٹ تھے۔ انہوں نے اردو کے ہر حرف کو بہت خوش خط انداز میں لکھ کر کمپیوٹر کی میموری میں محفوظ کرنے کے قابل بنایا اور 1981ء میں برطانوی کمپنی’’الیکٹرا نک ٹائپ سیٹنگ‘‘کواردو کی ٹائپ کاری کے تجربہ کے لیے آمادہ کیا جس کے بعد سے آج تک اردو کی ٹائپ کاری ، یعنی بذریعہ کمپیوٹر تحریر جاری ہے۔ –
کمپیوٹر پر اردو لکھنے میں مشکلات
خط نستعلیق کو کمپیوٹری کتابت سے ہم آہنگ کرنے کیلئے 1973ء سے کوششیں ناکام ثابت ہورہی تھیں، جس کی وجہ سے اردو کے بارے میں عام تاثر پایا جا تا تھا کہ اردو جدید دور کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔ احمد مرزا جمیل اردو زبان کو کمپیوٹر میں کمپوز کرنے کا تجربہ کرنا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس پر کام کرنے کیلئے جد ید مشاورت یا تجر بات کی سہولت موجودنہ تھی ۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس منصوبے کو ان لوگوں کے سامنے پیش کیا جاۓ جو فوٹو ٹائپ سیٹنگ یا الیکٹرانک ٹائپ سیٹنگ کا کام کر رہے ہیں، تا کہ اس منصوبے کے بارے میں راۓ معلوم کی جاسکے۔ انہوں نے اس سلسلے میں اس شعبے سے وابستہ کئی اداروں کو خطوط لکھے تا کہ ان اداروں سے تعاون حاصل کیا جاسکے ۔لیکن بہت سے اداروں نے جواب دینے کی بھی زحمت گوارہ نہ کی جبکہ چند نے کہا کہ پاکستان اس تحقیق وترقی کے اخراجات برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
1979ء میں احمد مرزا جمیل کو سنگاپور کی ایک نمائش میں جانے کا موقع ملا۔ وہاں انہوں نے انگریزی ٹائپ فیس کی مشینیں دیکھیں ۔ یہ فوٹو ٹائپ سیٹنگ کی بجاۓ ڈیجیٹل کمپیوٹرائزڈ مشینیں تھیں ۔ یہاں موجود ایک سیلزمینیجر سے، جو ان کے واقف کار تھے، مرزا احمد جمیل نے کمپیوٹری کتابت کے بارے میں گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس منصوبے پر پہلے ہی سے کچھ تجربات کر چکے ہیں اور انہوں نے مقتدرہ قومی زبان کو ایک نمونہ پیش بھی کیا تھا۔ لیکن مقتدرہ نے اسے پسند نہیں کیا۔ دراصل یہ ایک ایسی زبان ہے جو جسے کمپیوٹر پر لانا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اس پر احمد مرزا جمیل نے ان سے کہا میرے پاس کچھ تجاویز ہیں ، آپ کراچی آئیں تو مجھ سے ضرور ملاقات کیجئے گا۔ جب مینیجر صاحب ، مرزاحمد جمیل سے ملنے کراچی آئے تو انہوں نے مینیجرصاحب سے پوچھا کہ اگر انہیں اردو کے تمام الفاظ ٹکڑوں یا جوڑوں کے بغیر، پورے کتابت شدہ مل جائیں تو یہ مسئلہ حل ہوگا یا نہیں؟ منیجر صاحب نے کہا کہ اگر چہ یہ ناممکن ہے لیکن اگر ایسا ہو جائے تو پھر اردو کمپوزنگ کاحل نکل سکتا ہے ۔اس کے بعد وہ برطانیہ واپس چلے گئے اور انہوں نے اپنے سیلز ڈائریکٹر کے سامنے یہ تجویز رکھی ۔ لیکن یہاں کی ٹیکنیکل کمیٹی نے یہ شرط عائد کی کہ اگر تجر بہ نا کام ہوا تو اس کے تمام اخراجات احمد مرزا جمیل کو ادا کرنے ہوں گے ۔ احمد مرزا جمیل نے ہامی بھر لی اور برطانوی ادارے مونو ٹائپ کارپوریشن کو بھی ضمانت دی کہ تجر بہ نا کام ہونے کے صورت میں تمام نقصان احمد مرزا جمیل کی کمپنی ایلیٹ پبلشرز خود برداشت کرے گی ۔ جدید کمپیوٹری طریقہ کتابت میں’’الفاظ" نہیں بلکہ الفاظ کے ٹکڑےیعنی " ترسیمے‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کی تیاری ہی دراصل سب سے مشکل کام تھا۔ احمد مرزا جمیل ایک اچھے آرٹسٹ تھے چنانچہ انہوں نے گرافک آرٹ کی ساری تکنیکیں جو انہیں آتی تھیں ، اپنے اس کام میں استعمال کیں اور دن رات کام کیا۔
16 ہزار الفاظ کی خطاطی
اب مسئلہ الفاظ کے انتخاب کا تھا جو بہت مشکل کام تھا۔ اسے مطلوب الحسن سید نے اپنے ذمے لیا۔ دراصل حروف کے ٹکڑوں میں کسی زبان کا احاطہ کرنا ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ کام ہے ۔ جب نستعلیق میں حروف کو جوڑا جاتا ہے تو ان کی کئی شکلیں بدلتی جاتی ہیں اور ان میں موٹے اور بار یک جوڑ کا رواج ہے ۔ نستعلیق کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے جگہ کی یہ بچت ہوتی ہے کیونکہ حروف کو جوڑنے سے ان کی کئی منزلیں بن جاتی ہیں اور ان منزلوں سے جگہ کی بچت ہوتی ہے ۔ لیکن ان منزلوں کے نتیجے میں کسی لفظ کا کوئی ایک ٹکڑا ایسا نہیں ملتا جو ہر جگہ بیچ بیٹھ جائے۔ اسی لئے انہیں اردو کے جوڑوں نے سخت پریشان کئے رکھا۔ بالآخر انہوں نے جوڑوں کی بجاۓ پورے پورے الفاظ تیار کئے ۔ اس سے یہ مشکل مرحلہ بھی طے ہو گیا اور رفتار میں اضافہ ہو گیا۔ اس طرح مرزا احمد جمیل نے چھ مہینے میں تقریبا سولہ ہزار ترسیمے تیار کئے جن سے تقریبا ڈھائی لاکھ الفاظ بن سکتے ہیں ۔ انگریز چونکہ ابجد نہیں جانتے تھے اس لئے احمد مرزا جمیل نے ہر حرف پر نمبر لگا ئے تا کہ مشین ابجد کے حساب سے انہی الفاظ کو تلاش کرے۔اس طرح آخر اردو زبان کے الفاظ کو کمپیوٹر پر منتقل کرنا ممکن ہوا۔
اردو اس ایجاد سے میکانکی دور سے الیکٹرا نک دور میں داخل ہوئی ، جس نے نہ صرف صحافت میں انقلاب برپا کر دیا بلکہ اردو کتابوں کی اشاعت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوااور اس طرح 1981ء میں روزنامہ جنگ نے لاہور سے پہلی کمپیوٹرائزڈ اردو کتابت کے ساتھ اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔احمد مرزا جمیل نے اس خط کا نام اپنے والد محترم جناب مرزا انواراحمد کے نام پر "نوری نستعلیق" رکھا، جو آج تک مستعمل چلا آرہا ہے۔ حکومت پاکستان نےاس عظیم کام پراحمدمرزا جمیل کو تمغہ امتیاز سے نوازا ،جبکہ کراچی یونیورسٹی نے ان کی خدمات پر انہیں 1999 میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔
نوری نستعلیق اور جمیل نوری نستعلیق میں کیا فرق ہے؟
یہاں پر ایک نکتے کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ عام طور پر نوری نستعلیق اور جمیل نوری نستعلیق ایک ہی فونٹ کے دو نام سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ غلط فہمی ہے۔ ایک بلاگر اور محقق یاسر حسنین نے اپنی ایک تحریر میں نوری نستعلیق اور جمیل نوری نستعلیق کے فرق کو تکنیکی پہلوؤں سے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کی تحریر کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
"نوری نستعلیق کئی فونٹ فائلز پر مشتمل ہے۔ اور ان پیج کے علاوہ براہ راست کہیں بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔اس کی کرننگ، پروگرامنگ مکمل طور پر ان پیج کا حصہ ہے۔ جبکہ جمیل نوری نستعلیق ایک یونی کوڈ فونٹ ہے اور ویب کے ساتھ ساتھ پبلشنگ کے مختلف پروگرامز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔"
خلاصہ کلام
جلد ہی ہماری آنے والی نسلیں ناقابل یقین طریقے سے پوچھ رہی ہوں گی کہ کیا یہ واقعی سچ ہے کہ ایک وقت تھا جب اخبارات کو رات بھر محنت سے دستی طور پر لکھا جاتا تھا تاکہ صبح کو تیز رفتار مشینوں پر پرنٹ کیا جا سکے۔ کیا ہم واقعی اتنے قدیم تھے کہ ہماری قومی زبان کو خطاطوں کی بیساکھیوں کو پکڑ کر لنگڑانا پڑا جس نے کتابوں کی تکمیل کو ان کے حجم کے لحاظ سے مہینوں سے لے کر سالوں تک کی مشق بنا دیا۔
اس انقلاب کے لیے آنے والی نسلیں یقینا احمد جمیل مرزا کی مقروض ہوں گی۔
ڈاکٹر احمد مرزا جمیل 17 فروری 2014 کو کراچی میں انتقال کر گئے۔