عید کی مناسبت سے کی جانے والی لازوال شاعری کا انتخاب

عید گاہ
منشی پریم چند کا افسانہ "عید گاہ" (منظوم ترجمانی)
اس افسانے کو اسنٰی بدر نے منظوم صورت میں پیش کیا۔
_________
حامد اک ننھا سا بچہ
اسکے کوئی نہ امی ابا
اک دادی غربت کی ماری
بوڑھی بے بس اور دکھیاری
عید کھڑی تھی جس کے سر پر
بن دیکھے یہ غم کا لشکر
دادی پاس نہ روپیہ پیسا
اور حامد بچہ ننھا سا

پھر بھی جیسے تیسے کرکے
چھ آنے جوڑے مرمر کے
تین آنے حامد کی عیدی
باقی کا گھی اور شکر لی
آخر حامد جب گھر آتا
سب کی طرح سویاں کھاتا

حامد عید گاہ جب پہنچا
عید کا میلہ ہر جانب تھا
اسکے سارے دوست خوشی سے
مول لے رہے تھے مرضی سے
چرخی بہشتی گھوڑے ہاتھی
راجہ رانی اور سپاہی
لٹو سیٹی گیند اور جھولے
غرض وہاں تھے خوب کھلونے

حامد نے للچا کرسوچا
اور پھر دل بہلا کر سوچا
یہ سب ہیں بےکار کھلونے
مٹی کے لاچار کھلونے
ٹوٹ جائیں گے گھر جاتے ہی
ختم مٹھائی بس کھاتے ہی

دو دن میں پھینکے جائیں گے
پھر کس سے دیکھے جائیں گے

حامد نے پھر سمجھا پرکھا
اس کے بعد خریدا چمٹا
اسکی دادی پیاری دادی
دیتی اسکو کھانا پانی
جلتے توے پہ روٹی رکھتی
ہاتھ سے اسکو روز پلٹتی
چمٹے سے اچھا کیا ہوگا
کام کی شے اور پکا لوہا

یاروں نے جب ہنسی اڑائی
حامد نے بھی شان دکھائی
چمٹے کو افضل بتلایا
حکمت سے خاموش کرایا
دھیرے دھیرے خوب ہوا پھر
ہر بچہ مرعوب ہوا پھر

گھر پہنچا تو دادی غصہ
دیکھ کے اسکے ہاتھ میں چمٹا
بو لی تجھ کو کچھ نہ سوجھا
دن بھر کا تو بھوکا پیاسا

حامد پوری بات بتاکر
رکا ذرا سا اک لمحہ بھر
دادی نے اسکو چپٹایا
آنسو کا سیلاب بہایا
غصہ بدلہ پھر شفقت میں
ڈوب گیا دل اس چاہت میں

ننھا سا دل مچلا ہوگا
حسرت سے سب دیکھا ہوگا
پھر بھی مول لیا اک چمٹا
اس معصوم نے کیا کر ڈالا

دادی پر رقت طاری تھی
حامد پر حیرت طاری تھی
*******
عید کا دن مناکے دیکھیں گے
سعید عباس سعید کی نظم جس میں انھوں نے کورونا کے بعد عید کو امید, امن اور ہمدردی کے احیا کے دن کے طور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
عید کا دن مناکے دیکھیں گے
اُن کی محفل میں جاکے دیکھیں گے
کس طرح روشنی بکھرتی ہے
ْآج اُس کوہنسا کے دیکھیں گے
زندگی جھوم جھوم جائے گی
وہ اگر مسکرا کے دیکھیں گے
رفتگاں لوٹ آئیں پھر شاید
اک صدا پھر لگا کے دیکھیں گے
شاید آجائے آج اُن کو یقین
داستان پھر سنا کے دیکھیں گے
ذکر چھیڑیں گے ان کے رُخ کا سعید
رات کو وہ دن بنا کے دیکھیں گے
******
عیـــــدی
شورش کاشمیری نے یہ نظم آج سے 57 سال قبل کہی تھی۔

میں اپنے دوستوں کو عِید پربھیجوں تو کیا بھیجوں
خدا توفیق  دے تو  ہدیہء مہر و وفا  بھیجوں

لڑکپن کی رسِیلی داستانوں کے لبادے میں
حدیثِ شوق، نقدِ آرزُو، آہِ رسا بھیجوں

جَوانی کے شگُفتہ وَلولوں کا تذکرہ لِکھ کر
طبیعت کا تقاضا ہے، دلِ درد آشنا بھیجوں

وہ راضی ہو تو، اپنی عُمر کے اس دورِآخرمیں
بیانِ شوق لکھوں، داستانِ ابتلاء  بھیجوں

'قلم قتلے' ادیبِ شہر ہونے کی رعایت ہے
غزل کے ریشمیں لہجے میں نظمِ دلکشا بھیجوں

کوئی نظمِ شگفتہ، حضرتِ احسان دانش کی
رشید احمد کے اسُلوبِِ دل آرا کی ادا بھیجوں

زبانِ  میر،  رنگِ  میرزا،  پیرایہء حالی
میں اس سہ آتشہ میں، نغمہء بہجت فزا بھیجوں

خیال آتا ہے 'اس بازار' کی نیلام گاہوں میں
کِسی طوفان کے انداز میں، قہرِ خدا بھیجوں

برہنہ کَسبیوں کو عید کے ہنگامِ عشرت میں
فقِہیوں کی قبائیں پھاڑ کر بندِ قبا بھیجوں

تماشا ہائے عصمت، اور 'عالمگیر کی مسجد'
خدا کے نام بھی اک محضرِ آہ و بکا بھیجوں

میری عیدی مذاقِ عام سے ہو مختلف شورش
رفیقانِ قلم کو، ڈَٹ کے لڑنے کی دُعا بھیجوں

ہفت روزہ چٹان لاہور
7 فروری 1965
شورش کاشمیری

متعلقہ عنوانات