اردوئے معلی

اردو ادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، ان میں دل گداز، مخزن، اردوئے معلیّٰ، زمانہ، نگار اور اردو ممتاز ہیں۔ ان میں اردو ئے معلیّٰ کئی حیثیتوں سے سرفہرست ہے۔ یہ رسالہ مولانا حسرت نے اس وقت نکالا جب وہ بی اے کے امتحان سے فارغ ہی ہوئے تھے اور نتیجہ تک نہ نکلا تھا۔


اس رسالے کا سب سے بڑامقصد ’درستی مذاق‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس میں اردو کے سیکڑوں مشہور اور گمنام اساتذہ کے کلام کا انتخاب شائع کیا گیا۔ بہت سے مشہور شعرا کے حالات قلمی تذکروں اور دوسرے ماخذ سے جمع کر کے شائع کیے گئے۔ یہ محض ادبی رسالہ نہ تھا۔ شروع سے اس میں ملکی اور غیر ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتےتھے۔ اگرچہ اس میں اچھے اچھے ادیبوں اور شاعروں نے مضامین، نظمیں اور غزلیں بھیجیں۔ مگر اس کی بہار بیشتر حسرت کے خون جگر کی مرہون منت ہے۔ وہ ایک مصروف سیاسی زندگی کے باوجود اسے بہت عرصے تک نکالتے رہے۔ شروع میں یہ اڑتالیس صفحے کا ایک ماہوار رسالہ تھا مگر جب حسرت کو حکومت کا زبردست مہمان ہونا پڑا تو صفحات بھی کم ہو گئے اور اشاعت بھی باقاعدہ نہیں رہی مگر پرچے کی اشاعت بند نہیں ہوئی۔ پہلے پرچے میں علاوہ چند بلند ادبی مقاصد کے مضمون نگاروں کو معاوضہ دینے کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ معلوم نہیں اس وعدے کو پورا بھی کیا گیا یا نہیں مگر اس کا ذکر ہی حسرت کی اولو العزمی اور سوجھ بوجھ کی دلیل ہے۔ حسرت نے جب سودیشی تحریک شروع کی تو مولانا شبلیؔ نے لکھا تھا،


’’تم آدمی ہو یا جن۔ پہلے شاعر تھے، پھر پالی ٹی شین بنے اور اب بنیے ہوگئے۔‘‘ علم و علم اور عزم و استقال کے اس پیکر پر جسے حسرت کہا جاتا ہے یہ بڑی معنی خیز تنقید ہے۔


اردوئے معلیّٰ کے ادبی کارناموں کا تو اعتراف بھی کیا گیا مگر اس نے سیاست کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی ابھی تک کما حقہٗ قدر نہیں ہوئی۔ حسرت ایک پکے قوم پرور تھے۔ وہ کالج کی تعلیم کے دوران ہی میں سیاسی مباحث میں شریک ہوتے تھے اور کانگریس کے گرم دل کے دل و جان سے فدائی تھی۔ انھوں نے ۱۹۰۴ء کے بمبئی کے اجلاس کانگریس میں شرکت کے بعد اس کی مفصل روداد اپنے رسالے میں چھاپی اور مسلمانوں کی کانگریس میں شرکت پر زور دیا۔ جنوری ۱۹۰۵ء کے اردوئے معلیٰ میں لکھتے ہیں،


’’حق یہ ہے کہ اگر کانگریس سے کوئی اور فائدہ مرتب نہ ہو تو صرف اس پاک جوش اور شریفانہ حمیت و خودداری کی نمودار حالت کو پیش نظر رکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو جلسہ نوجوانان ملک کے دلوں میں ایسی جائز حوصلہ بندی اور آزاد جوش پیدا کرے اور بزرگانِ ملک کی توجہ اور خیالات کو ملکی امور کی جانب مائل رہنے اور نوجوانوں کے سامنے اپنی بلند ہمتی اور اولو العزمی کا نمونہ پیش کرنے کا موقع دے، وہ کسی حالت میں بیکار نہیں ہو سکتا۔‘‘


بیسویں صدی کے آغاز میں اگرچہ ہندوستانی قومیت کی تحریک زیادہ تر حقوق کی جنگ تھی مگر وہ مغربی سامراج کے استحصال کو سمجھ چکی تھی۔ بقول اکرام، انیسویں صدی میں ایک طرف انگریزوں کا سیاسی غلبہ مکمل ہو گیا اور دوسری طرف اسی صدی میں اس کے خلاف ہندوستانی قومیت کا شعور پیدا ہوا اور اس نے مذہبی اور تہذیبی اختلافات کو مٹا کر یک جہتی اور اتفاق کا درس شروع کیا۔ سرسید نے مسلمانوں کے بہت بڑے حصے کو کانگریس میں شرکت سے باز رکھا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی تھی کہ ان کی تعلیمی پس ماندگی اور جہالت و غفلت اس بات کی متقاضی ہے کہ مغربی تعلیم و تہذیب کی ان برکتوں سے، جو نیا زمانہ اپنے ساتھ لایا ہے، پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لیے مغربی حکومت سے تعاون کیا جائے۔ اسی بنا پر انھوں نے کانگریس کی مخالفت کی۔


شبلیؔ نے جب سفر روم و مصر شام سے واپس آکر ترکوں کی ہمدردی میں تقریر کی تو انھیں اچھی نظر سے نہ دیکھا اور کانگریس کے جواب میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا آغاز کیا، جس کے سالانہ جلسے کانگریس کے سالانہ جلسوں کی طرح قومی میلے ہوتے تھے اور جن میں تعلیمی و تہذیبی و معاشرتی ترقی کی تدابیر پیش کی جاتی تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں سرسید کے خیالات کے اثر، انگریزوں کی سیاسی حکمت عملی اور کانگریس میں ہندو تہذیب کے احیا کے جذبے کے اظہار نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ایک الگ سیاسی جماعت بنانے پر مجبور کر دیا مگر کانگریس میں شروع سے بنگال، بمبئی اور مدراس کے کافی ممتاز مسلمان اور یوپی کے بھی چند مقتدر حضرات شریک تھے۔ شبلی اور منشی سجاد حسین کے علاوہ حسرت کی آواز نے اس کمزور جماعت کو خاصی تقویت پہنچائی۔ اس زمانے میں سرسید کے نام نہاد مقلدین انگریز پرنسپلوں کے اشارے پر سرسید کے نام سے مسلمانوں کو قومی سیاست میں حصہ لینے سے باز رکھتے تھے۔


ضروری تھا کہ سرسید کی خدمات کے اعتراف کے باوجود اور ان کے کارناموں کو تاریخی اعتبار سے اہم سمجھتے ہوئے ان کی وقتی سیاسی سرگرمیوں کی تقلید نہ کی جائے۔ جنوری ۱۹۰۵ء کے اردوئے معلیّٰ میں ’’نیشنل کانگریس اور مسلمان‘‘ کے عنوان سے مولوی برکت اللہ کا ایک خط چھپا تھا، یہ حضرت ان تارکین وطن میں سے تھے جن پر ان کے سیاسی خیالات کی وجہ سے وطن کی زمین تنگ ہو گئی تھی اور جو امریکہ میں مقیم تھے۔ انھوں نے حسرت کے نام ایک فارسی خط میں سرسید کے تہذیبی، تعلیمی وادبی کارناموں اور ان کی سیاسی پالیسیوں میں فرق کیا ہے۔ فرماتے ہیں،


’’اکنوں بست سال است کہ انڈین نیشنل کانگریس بوجود آمد و سرسید مرحوم در اوایل ایں تحریک قومی جادۂ ناموافقت برگزید، زیرا کہے اقتضائے حال چنیں بود داد را چارۂ دیگر نبود، و خلاف او ہم برائے مسلمانان و ہم برائے کانگریس مفید آمد۔ مسلمانان در تحصیل شدند و کانگریس از مخالفت ایشان تقویت گرفت و بضد ہا تئین الاشیاء۔‘‘


سرسید کو کچھ لوگوں نے ہندوستان میں فرقہ پرستی کا بانی کہا ہے۔ حالانکہ سنجیدہ قوم پرستوں یعنی جواہر لال نہرو اور اچاریہ نریندر دیو نے سرسید کے ان خیالات کی حمایت کی ہے اور مولانا فضیل احمد نے’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ میں دکھایا ہے کہ کس طرح انگریزوں نے سر سید کی ترقی پسندی اور انقلابی جد و جہد کو رفتہ رفتہ اپنے اغراض کا آلۂ کار بنا لیا مگر اس کی وجہ سے سرسید کو مطعون کرنا غلط ہے۔ حسرت نے مولوی برکت اللہ کی رائے سے اتفاق کیا ہے۔ یہ ان کے سیاسی شعور کی بہت اچھی دلیل ہے۔


حسرت نے بمبئی، بنارس، کلکتہ، کانگریس کی رودادیں متواتر چھاپیں، اردوئے معلیّٰ میں قاضی تلمذ حسین، مولوی برکت اللہ، حاجی موسیٰ خاں اور حسرت کے مضامین، کانگریس کی حمایت میں برابر چھپتے رہے۔ انھوں نے ازالۂ اوہام کے نام سے مولوی عبد القیوم حیدرآبادی کا رسالہ اردوئے معلیّٰ کے ضمیمے کے طور پر شائع کیا تھا جس میں مذہباً و عقلاً مسلمانوں کو کانگریس میں شرکت کرنے اور اہل وطن کے دوش بدوش کھڑے ہونے کی تلقین کی گئی۔ مسٹر گھوکھلے، شری اوروبندو گھوش، مسٹر مالویہ اور مسٹر تلک کی اہم تقریروں کے اقتباسات برابر دیے جاتے تھے۔ حسرت نے ایک مضمون میں وہ تمام آیات قرآنی ایک جگہ جمع کردی تھیں جو کفار اور مشرکین سے موالات یا ترک موالات کے موضوع سے متعلق تھیں اور ان سے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ دنیوی معاملات میں ان سے اشتراک کی قرآن سے اجازت موجود ہے۔ اکتوبر ۱۹۰۶ء میں مسلمانان ہند کا جو وفد آغا خاں کی قیادت میں لارڈ منٹو سے ملا تھا اور جس کے مطالبات میں ادھر کا بھی اشارہ تھا، اس کا عام مسلمانوں نے بڑا پرجوش خیر مقدم کیا تھا۔ شبلی نے اس کی اصل حقیقت پر اپنی نظموں میں خبردار کیا۔ مولانا نے اردوئے معلیّٰ کی ساتویں جلد میں لکھا،


’’لارڈ صاحب نے صرف ان باتوں کا جواب دیا ہے جو ان کے خیال میں انگریزوں کے مفید مطلب ہیں اور ایڈریس کے بقیہ حصے کو اس طرح نظرانداز کر دیا ہے گویا انھوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔‘‘


آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسوں پر ان کی تنقیدیں سنجیدہ اور تعمیری ہوتی تھیں۔ ۱۹۰۷ء میں طلبا کی عام اسٹرائک کے سلسلہ میں انگریز پرنسپل کے طرز عمل اور محسن الملک کی کمزوری پر عام مسلمانوں میں جو بے چینی اور تشویش تھی، مولانا نے اس کی بڑی اچھی عکاسی کی ہے۔ انھوں نے انگریز افسروں کی سیاسی حکمت عملی کا پردہ برابر فاش کیا۔ چونکہ وہ صاف گو تھے اور لگی لپٹی رکھنے کے عادی نہ تھے اس لیے انھوں نے سخت لب ولہجہ میں انگریز حکام کی مذمت کی اور ان مسلمانوں کو بھی برا بھلا کہا جو انگریزوں کی خوشنودی کے لیے قومی مفاد کو قربان کرنے پر تیار تھے۔


اس زمانہ میں علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی بنانے کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ حسرت اور بعض دوسرے احرار کو اصرار تھا کہ یونیورسٹی کو الحاق کا حق ضرور ملے۔ مولانا کی یہ رائے کسی جذباتیت کی بنا پر نہ تھی۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ ثانوی مدارس میں مسلمانوں کو زراعت، صنعت و حرفت، سائنس اور دوسرے مفید علوم اور پیشوں کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ سماج میں اپنی اقتصادی حیثیت مضبوط کر سکیں۔ اس لیے وہ کالجوں کی تعلیم کے مقابلے میں اسکولوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیتے تھے اور مسلمانوں کی ایسی الحاقی یونیورسٹی چاہتے تھے جو صنعتی اداروں اور مفید علوم کا ملک میں ایک جال بچھادے اور مسلمان سرکاری نوکری کے دستِ نگر نہ رہیں۔


اردوئے معلیّٰ میں سودیشی تحریک، بیرونی مال کے بائیکاٹ، الحاق یونیورسٹی اور دوسرے مسائل پر آٓزادانہ اظہار رائے ہوتا تھا۔ اسی طرح وہ اسلامی ممالک کی سیاسی، تعلیمی و تہذیبی زندگی پر بھی معلومات مہیا کرتے تھے۔ طرابلس، مصر، بلقان، حجاز کے مسائل پر اردوئے معلیّٰ میں اچھے اچھے مضامین نکلے۔ انھوں نے ایک مصطفی کمال نمبر (۱۹۰۸ء) میں نکلا تھا۔ ان پر پہلی بار مقدمہ اردوئے معلیّٰ کے ایک مضمون ’’مصر میں برطانیہ کی پالیسی‘‘پر چلایا گیا تھا اور اگرچہ یہ ایک طالب علم کے نام سے نکلا تھا اور حسرت کا یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا مگر مولانا نے نہایت پامردی کے ساتھ اس کی پوری ذمہ داری لی۔ چنانچہ ۱۹۰۸ء میں ان کو انگریزی حکومت نے دوسال کی سزا دی اور بصورت عدم ادائیگی جرمانہ چھ ماہ کی مزید سزا تجویز کی۔ چونکہ مولانا جرمانے کی رقم ادا کرنے سے معذور تھے اس لیے ان کا نہایت نادر کتب خانہ جس میں سیکڑوں نایاب قلمی کتابیں اور کمیاب مطبوعہ دیوان اور تذکرے تھے اور جو حسرت نے بڑی تلاش، جستجو اور صرف سے جمع کیے تھے، کاٹھ کباڑ کی طرح فروخت اور برباد کیے گئے۔ بیگم حسرت کا بیان ہے کہ،


’’یہ کتب خانہ ساڑھے چار ہزار کی مالیت کا تھا اور حکومت نے اسے صرف ساٹھ روپے میں فروخت کر دیا۔‘‘


پھر جیل میں حسرت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ انگریزی نظام حکومت پر ایک نہایت بدنما دھبہ ہے۔ انھوں نے دس مہینے تک چکی پیسی اور تقریباً ایک من گیہوں روزانہ ان سے پسوایا جاتا تھا۔ اس پر آشوب زمانے میں انھوں نے جس طرح بربریت کے ہر مظاہرے کا مقابلہ کیا اور اپنے اصولوں پر قائم رہے، اس کی مثالیں تاریخ میں کم ملتی ہیں۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنی بعض بہترین غزلیں لکھیں اور ایک پورا دیوان مرتب کیا۔ ان کا یہ مشہور شعر اسی زمانے کا ہے،


ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہےحسرتؔ کی طبیعت بھی


جیل کے اس قدر سخت ابتلا کے باوجود حسرت کی آن بان میں فرق نہ آیا اور رہائی کے بعد جب چند احباب نے ان سے پالیسی کی نرمی کی التجا کی تو انھوں نے اردوئے معلیّٰ میں لکھا،


’’اردوئے معلیّٰ کی دوبارہ اشاعت پر چند احباب نے بہ مقتضائے محبت و ہمدردی یہ صلاح دی ہےکہ ہم کو اب پالی ٹکس سے بالکل دست کش ہونا چاہیے۔ بعض کا مشورہ یہ تھا کہ اگر سیاسی مضامین ہوں بھی تو مسلم لیگ کی مسلمہ پالیسی کے موافق ہوں۔ چند دوستوں نے جو یقیناً زیادہ آزاد خیال ہیں یہاں تک اجازت دی کہ اگر جمہور اہل ہند کی ہی ہم خیالی منظور ہو تو کانگریس کے نرم رفیق کی روش اختیار کی جائے۔ ہم پر ان تمام نیک نیت مشوروں اور مصلحت کوش صلاحوں کا شکریہ فرض ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے خیال میں یقین یا عقیدہ عام اس سے کہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی ایک ایسی چیز ہے جس کو کسی خوف یا مصلحت کے خیال سے ترک یا تبدیل کر دینا اخلاقی گناہوں میں سے ایک بدترین گناہ ہے، جس کے ارتکاب کا کسی حریت پسند یا آزاد خیال اخبار نویس کے دل میں ارادہ بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔


پالی ٹکس میں ہم مقتدائے وطن پرستاں مسٹر تلک اور سر کردہ احرار بابو ربندو گھوش کی پیروی کو اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس حیثیت سے فیروز شاہی کانگریس سے ہم کو اتنی ہی بے زاری ہے جتنی امیری مسلم لیگ یا نوزائیدہ لال چندی کانفرنس سے۔۔۔ فرنگی حکومت کا غیرطبعی نظام ہمیشہ کے لیے ہندوستان میں باقی نہیں رہ سکتا اور اپنی موجودہ صورت میں تو اس کا چند سال قائم رہنا بھی دشوار نظر آتا ہے۔ گرم فریق کے رہنما عموماً اور اربندو گھوش، خصوصاً تمام پولیٹیکل کوششوں میں مذکورہ بالا اصول کو پیش نظر رکھتے ہیں، اس واسطے ہمارے نزدیک وہ حق پر ہیں۔ مفتوح ملکوں اور قوموں کے لیے اس کے سوا اور کوئی پالیسی نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی تمام محنت کے ساتھ حریت کامل کے دوبارہ حاصل کرنے کی سعی میں مصروف ہو جائیں۔‘‘ (۱۹۱۰ء)


اسی جذبے نے حسرت کو کانگریس کے گرم دل کی طرفداری میں کوشاں رکھا۔ اسی نے سورت کانگریس کے اجلاس میں عام رائے کے خلاف آزادی کامل کے اعلان پر انھیں مائل کیا۔ اسی وجہ سے انھوں نے مہاتما گاندھی کی اس وقت مخالفت کی جب وہ ترک موالات کی عوامی تحریک کو خود ہی ختم کرنے پر مائل ہوگئے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے نہرو رپورٹ کی مخالفت کی اور لکھنؤ کے آل پارٹیز کنونشن میں آزادی کامل کے لیے تن تنہا نعرہ بلند لیا۔


حسرت کے سیاسی خیالات کو سمجھنے کے لیے صرف آزادی کامل کی حمایت کا علم کافی نہیں۔ ۱۹۲۶ء میں آل انڈیا کمیونسٹ کانفرنس کانپور میں حسرت نے جو استقبالیہ پڑھا تھا وہ اردوئے معلیّٰ جلد ۱۸ نمبر ۶، ۵، ۴بابت مئی۔ جون ۱۹۲۶ء میں شائع ہوا ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں،


’’کمیونزم کی تحریک کاشتکاروں اور مزدوروں کی تحریک ہے یعنی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم اور خوں ریزی و فساد لازم و ملزوم ہیں، حالانکہ اس کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم لوگ عدم تشدد کو صرف ضرورت و مصلحت کی بنا پر جائز سمجھتے ہیں اور مہاتما گاندھی کی طرح اس کو ہر حالت میں بطور اصول لازمی قرار نہیں دیتے۔‘‘


ذاتی اور شخصی یعنی پرسنل اور پرائیویٹ جائداد کا فرق انھوں نے اس طرح واضح کیا ہے، ’’ذاتی چیزوں میں گھڑی، چھتری، لوٹا، مکان کپڑے آتے ہیں۔ شخصی میں زمین، کارخانے وغیرہ اور کمیونسٹ اصول کا عمل ذاتی جائداد پر نہیں ہوتا صرف شخصی پر ہوتا ہے۔‘‘


پارٹی کے اغراض و مقاصد کا مجملاً اس طرح تذکرہ کیا ہے،


’’(۱) آزادیٔ کامل کا کل جائز ذریعوں سے قائم کرنا، (۲) سوراج کی ہیئت سوویت ری پبلک کی ہو جہاں کمیونزم کے اصولوں پر عمل کیا جائے، (۳) سوراج کے قائم ہونے تک کاشتکاروں اور مزدوروں کی فلاح و آزادی کی ہر ممکن کوشش کرنا اور اس ضمن میں ہندوستان کی ہر سیاسی جماعت کے ساتھ اس حد تک اشتراک عمل کو جائز رکھنا جس حد تک وہ جماعت ہمارے مذکورہ بالا اغرض کی تائید کرے، (۴) کمیونزم کے اصولوں کی اشاعت کا سامان کرنا اور جمہور کو اپنا ہم خیال بنانا تاکہ سوراج کے قیام کے ساتھ فوراً ان پر عمل شروع ہو سکے۔‘‘


مولانا نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’’ہماری جماعت صرف ہندستان کی جماعت ہے۔‘‘ کمیونزم اور مذہب کے متعلق مولانا نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’’ہم ہرمذہب کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک لامذہبی بھی ایک مذہب ہے۔‘‘ کمیونزم اور اسلام کے سلسلے میں ان کی رائے یہ تھی کہ ’’بعض مسلمان لیڈر بلا وجہ کمیونزم کو اسلام کے خلاف بتاتے ہیں، حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل برخلاف ہے۔ مثلاً کم از کم سرمایہ داری کے خلاف اسلام کا فیصلہ شاید کمیونسٹی عقیدے سے بھی زیادہ سخت ہے۔‘‘ آخر میں انھوں نے کہا کہ ’’کمیونزم پالی ٹکس کی بہترین آخری شکل ہے۔‘‘


مولانا کے ان خیالات میں اگرچہ گہری سائنٹفک نظر نہیں ہے مگر اس میں شک نہیں کہ ان کی نکتہ رس اور بالغ نظر طبیعت نے کمیونزم کی اہم سچائیوں کو سمجھ لیا تھا اور اسی لیے باوجود اس کے کہ وہ کانگریس سے سرمایہ دارانہ مسلم کش روش سے بیزار ہوکر لیگ میں شامل ہو گئے تھے مگر وہ ہمیشہ عوام کے دوست رہے اور اپنے اشتراکی عقیدے پر بھی قائم رہے، اسی لیے انھوں نے اپنا سیاسی فارمولا وفاقیہ اتحادیہ (Confederation Of State) پیش کیا تھا۔ اگر ہمارے سیاسی رہنما مولانا کے اس فارمولے پر زیادہ توجہ کرتے تو تقسیم ہند کے ہولناک نتائج سے دوچار نہ ہونا پڑتا اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بھی انتظام ہو جاتا۔


مولانا کے سیاسی خیالات چونکہ ان کی شخصیت اور اردوئے معلیّٰ کے مخصوص کیرکٹر کا ایک جز ہیں، اس لیے ان کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ ۱۹۱۰ء میں جب مولانا نے اردوئے معلیّٰ کی پالیسی میں یہ ترمیم کی کہ ہر قسم کے مضامین شامل نہ کیے جائیں تو بھی پالی ٹکس اور ادب کا دامن نہ چھوڑا اس لیے نہ صرف حسرت کے سیاسی شعور کے مطالعہ کے لیے بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے قومی شعور کو سمجھنے کے لیے اردوئے معلیّٰ کی فائلوں کا مطالعہ ناگزیر ہے۔


اردوئے معلیّٰ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کے صفحات میں ہمیں اردو کے بہت سے اساتذہ کے حالات اور ان کے کلام کا انتخاب ملتا ہے۔ اسی انتخاب کو انھوں نے ’’انتخاب سخن‘‘ کے نام سے شائع کیا، جو اپنی نوعیت کا سب سے وسیع انتخاب ہے۔ اس میں مشہور اساتذہ کے علاوہ ان کے تلامذہ اور درجہ دوم کے بہت سے اہم شعراء کا کلام مل جاتا ہے اور حسرت کی وجہ سے کتنے ہی اہم شعرا پردۂ گمنامی میں دفن ہونے سے بچ گئے ہیں۔ حسرت خود ایک بڑے شاعر تھے۔ انھیں سوز و گداز، دردمندی اور اثرپذیری فطرت سے ملی تھی۔ ان کی طبیعت میں فرشتوں کی معصومیت کے ساتھ مضبوط ارادہ رکھنے والوں کی ضد اور صلابت بھی تھی۔ انھوں نے ہماری کلاسیکل شاعری کا جتنا گہرا مطالعہ کیا تھا، فن اور سوز فن کے باریک سے باریک نکتے کو جس طرح دیکھا تھا، الفاظ کو جس طرح پرکھا اور تولا تھا اور لفظوں کے پیچھے خیال کی صداقت، معنویت اور شعریت کا جس طرح احساس کیا تھا، اس طرح کم محققین اور نقادوں نے کیا ہوگا۔


یہی وجہ ہے کہ شعراء اساتذہ کے متعلق ان کے خیالات بڑا وزن رکھتے ہیں اور اگرچہ کہیں کہیں ان سے اختلاف ناگزیر ہے مگر پھر بھی ان کی اہمیت سے انکار کرنا ہٹ دھرمی کے مترادف ہوگا۔ اردوئے معلیّٰ میں جہاں ان کی اور اس زمانے کے تمام مشہور اساتذہ کی غزلیں اور نظمیں ہوتی تھیں، وہاں ان کے علاوہ بعض مشہور لکھنے والوں کے مضامین بھی ہوتے تھے۔ اردوئے معلیّٰ کا سب سے اچھا دور ۱۹۱۲ء تک کا ہے۔ اس زمانے میں رسالہ پہلے ۴۸ اور پھر ۲۴ صفحے کا شائع ہوتا تھا اور مضامین اور نظموں اور غزلوں میں بھی کافی تنوع ہوتا تھا۔ ۱۹۱۲ء کے بعد سے اردوئے معلیّٰ میں انتخابات زیادہ ہونے لگے اور اس کے ضمیمے کے طور پر نکات سخن کے اجزا نکلنے شروع ہوگئے۔ آخر آخر میں تو یہ رسالہ بادامی پتنگی کاغذ پر چند تبرکات کا مجموعہ رہ گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی رسالہ ایک فرد واحد کی تمام تر توجہ سے نہیں چل سکتا اور ایک فرد جو امکانی کوشش کر سکتا ہے وہ حسرت نے برابر کی۔ پھر بھی اردوئے معلیّٰ کے کام کو چلانے والے حسرت کو نہ ملے۔ دوسرے ان کی سیاسی مصروفیات نے اور ان کے قید و بند کےسلسلے نے بھی اردوئے معلیّٰ پر اپنا نقش چھوڑا۔ ادب حسرت کی زندگی میں تھا مگر ساری زندگی نہ بن سکا ورنہ اردوئے معلیّٰ کا کارنامہ عدیم المثال اور فقید النظیر ہوتا۔


حسرت نے حالانکہ کلاسیکل ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا مگر انھوں نے قدیم و جدید کے خانوں میں محصور ہونا کبھی گوارا نہیں کیا۔ اردوئے معلیّٰ کے آغاز میں لکھتے ہیں، ’’طرز قدیم و جدید کی قید کو ناپسند کرتا ہوں، کوئی رنگ ہو اچھا ہو، اردوئے معلیّٰ دونوں قسموں کا گرویدہ ہے۔‘‘


غزلوں میں وہ انفرادیت اور نظموں میں معنویت اور تسلسل بیان کے دل دادہ تھے۔ شروع سے ان کے اندر شعر و سخن کا ایک صالح مذاق موجود تھا۔ وہ فکر وفن کے رموز کو جانتے تھے، اسی لیے وہ جدید قدیم کی سخت حد بندیوں کے خلاف تھے۔ اقبال نے گویا حسرت کے دل کی بات کہی ہے،


زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک
دلیل کم نظری قصۂ جدید و قدیم


ایک گہرے اور رچے ہوئے ادبی شعور کے باوجود حسرت کا نئے تقاضوں کا قائل ہونا اور تازگی، جدت اور تجربات کی قدر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کا تنقیدی شعور کتنا بڑھا ہوا تھا۔ مغربی محققین نے نقادوں کی جامعیت، روایات سے واقفیت اور تجربات سے ہمدردی پر جو زور دیا ہے، وہ حسرت کے یہاں پوری طرح جلوہ گر ہے۔ اس کے ساتھ ان کی آزاد اور بے لاگ رائے اور ان کی تحقیق نے مل کر ان کے ادبی و تنقیدی مضامین کو ایک لازوال سرمایہ بنا دیا ہے۔ اردو داں طبقہ زیادہ تر ایک ہی آنکھ رکھتا ہے۔ اس نے حسرت کی شاعری کی خاصی قدر کی مگر ان کی تحقیقی و تنقیدی خدمات کو وہ درجہ نہیں دیا جن کی وہ مستحق تھیں۔ ضرورت ہے کہ اردوئے معلیّٰ کے اچھے مضامین کا ایک انتخاب کئی جلدوں میں شائع کیا جائے۔ اس میں حسرت کے علاوہ امداد امام اثر، شاد عظیم آبادی، چکبست، شرر، پریم چند، نظم طباطبائی، محبوب الرحمن کلیم، امیر احمد علوی، احسن مارہروی کے مضامین بھی شامل ہونے چاہئیں۔


شاہ حاتم، مظہر جان جاناں، قائم، سودا، رنگین، مصحفیؔ، مجروحؔ، امیر اللہ تسلیم، اصغر علی خاں نسیم، مومنؔ، غالب، شاہ ظفر، شاہ نصیر، نوا بدایونی، ظہیر دہلوی، گستاخؔ، وفا رامپوری پر حسرت کے مضامین بڑے قابل قدر ہیں۔ قائم اور مصحفی کو تو لوگوں نے فراموش کر دیا تھا۔ حسرت نے انھیں دوبارہ دریافت کیا اور ان کی موجودہ مقبولیت میں حسرت کا بڑا ہاتھ ہے۔ آبِ حیات کی انشاء پردازی اور سحر طرازی کی وجہ سے بعض اہل علم کی عظمت عام نگاہوں سے روپوش ہوگئی تھی۔ حسرت نے انھیں ان کا حق دلوایا۔ افراط و تفریط کی وجہ سے جو انتہا پسندی پیدا ہو گئی تھی، حسرت نے اسے کم کر کے ایک توازن عطا کیا اور غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیے کے چند معیار لوگوں کے سامنے رکھے۔ مجروح کے تذکرے میں اردوئے معلیّٰ میں (۱۹۰۵ء اگست ) میں لکھتے ہیں،


’’شاعری اور استادی کا صرف یہی کمال نہیں ہے کہ مضمون بلند ہو اور زبان صحیح یا ردیف کھلتی ہو اور قافیہ تازہ، بلکہ ان سب باتوں کے علاوہ سب سے بڑی خوبی جو سب سے بڑھ کر مشکل لیکن سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے وہ انتخاب الفاظ سےمتعلق ہے۔‘‘


انتخاب الفاظ کا یہ مسئلہ معمولی نہیں ہے اور آج جب یہ خیال عام ہوتا جا رہا ہے کہ الفاظ کے شعور کو معنویت سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھنا چاہئے یعنی ہیئت اور مواد کو بالکل ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا تو حسرتؔ کا انتخاب الفاظ کا یہ معیار در اصل انتخاب مضمون کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ حسرتؔ آمد اور آورد میں فرق کرتے تھے۔ آخر عمر میں انھوں نے اردو شاعری کی تقسیم جن عنوانوں کے ماتحت کی تھی ان میں آمد اور آورد کے فرق کو سب سے پہلے لیا تھا، اسی لیے باوجود لکھنؤ کی زبان کے معترف ہونے کے وہ لکھنؤ کی لفظ پرستی کے دل دادہ نہ تھے اور نہ دہلی اسکول کے اندھے مقلد۔ وہ غزل کے حسن کو پہچانتے تھے اور اس کے مخصوص رنگوں کی پرکھ رکھتے تھے۔ ان کا غزل گوئی کا تصور امیر داغ کے موازنے میں بہت اچھی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ فروری ۱۹۱۱ء کے اردوئے معلیّٰ میں لکھتے ہیں،


’’عاشقانہ شاعری کی دو قسمیں ہیں۔ اول وہ جس میں جذبات شوق کی صحیح نگاہ حق شناس کے روبرو عشق کو خدا نمائی کی اس شان میں پیش کرتی ہے کہ جس کی نسبت نظامی نے ہو اللہ فرمایا اور جسے مولانا رومؒ نے اپنی تمام علتوں کی دو اقرار دیا۔ ایسی شاعری کی ایک سرحد تصوف اور عشق حقیقی کے قریب اور عشق مجازی اور پاک محبت سے ملحق ہوا کرتی ہے۔ اردو زبان میں تصوف اور عشق کا مذاق شاذ ہے، البتہ محبت کے جذبات میرؔ و مصحفیؔ یا دردؔ، قائمؔ کے کلام میں اکثر پائے جاتے ہیں۔


عاشقانہ شاعری کی دوسری قسم وہ ہے جس میں پاک اور بے لوث عشق کے بجائے ہوس پرستی کے جذبات کی صحیح تصویر کھینچی گئی ہے جس کے نمونے جرأت، میاں نظیر اور انشاؔ کے کلام میں بکثرت ملتے ہیں۔ داغؔ و امیر کی سخن سنجی کو ہم نہ قسم اول میں شامل کر سکتے ہیں نہ قسم دوم میں۔ جرأت وانشا کی طرح نہ داغ کی شاعری عیاشانہ ہے، نہ میرؔ ودردؔ کے مانند۔ امیر کا کلام عارفانہ سوز و گداز کی دولت سے عموماً دونوں کا کلام محروم ہے اور عاشقانہ شاعری کا اطلاق ان دونوں میں سے کسی کی شاعری پر نہیں ہوسکتا۔


امیرؔ کے اشعار میں مضمون کی بلندی، خیال کی نزاکت، بیان کی متانت اور زبان کی صحت، غرض یہ کہ پختگی کلام کے تمام لوازات موجود ہوتے ہیں لیکن شاعری کی جان یعنی تاثیر کی عدم موجودگی کے باعث ان کی حیثیت ایک حسین مگر بے روح جسد سے زیادہ نہیں قرار پا سکتی۔ (مراۃ الغیب اور نعتیہ کلام اس کا ثبوت ہے) داغؔ کے اشعار میں زبان کی صفائی، محاورۂ اردو کی بے تکلفی، بیان کی شوخی اور الفاظ کی پسندیدہ تکرار یا الٹ پلٹ، غرض کہ شعر کی ظاہری خوبی کا تمام سامان فراہم ہوتا ہے لیکن وہ بات جسے ہم عشق کے جذبات عالیہ کے لیے سرمایۂ شادمانی کہہ سکیں، اس کا یہاں نشان بھی نہیں ملتا۔ جذبات روحانی تو درکنار داغؔ نے خواہشات نفسانی کی بھی صحیح تصویر بہت کم کھینچی ہے۔ معاملہ بندیوں اور عیاشانہ چونچلوں کو بھی تصنع کا عیب مبتذل اور بدنما بنا دیتا ہے کہ مذاق صحیح ان سے کسی طرح لذت یاب نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ قادر الکلام ہونے کی حیثیت سے امیرؔ کو داغؔ پر اور ایک خاص انداز سخن کے مالک ہونے کی حیثیت سے داغؔ کو امیرؔ سے افضل قرار دے سکتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی دونوں برابر ہیں۔‘‘


دہلی اور لکھنؤ کے دو تاجدار شعر ظفر اور اختر کے متعلق بھی ان کی رائے دلچسپ ہے۔ اردوئے معلیّٰ (جنوری ۱۹۱۱ء) میں لکھتے ہیں، ’’ظفر کا کلام سوز و گداز کی خوبیوں سے مالا مال ہے، اس کے برخلاف اخترؔ کی شاعری میں تصنع اور آورد کے سوا کچھ بھی نہیں پایا جاتا۔‘‘


اسی طرح انہوں نے سب سے پہلے آزادؔ کے اس خیال کی تردید کی کہ ظفرؔ کا کلام جو کچھ ہے وہ ذوقؔ کا ہے۔ انھوں نے ظفر اور شاہ نصیر کی مشترک خصوصیات پر زور دیا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ ظفر کے یہاں شاہ نصیر کی تمام صفات کے ساتھ تاثیر مستزاد ہے۔ دونوں کی حقیقی کمزوری پر بھی ان کی نظر گئی یعنی ’’لمبی ردیفیں جن میں مصرع ثانی تو قریب قریب بنا بنایا ہوتا ہے صرف مصرع اول کے لئے فکر کرنی پڑتی ہے۔‘‘ دہلوی اور لکھنوی شاعری کے متعلق حسرت نے قلق پر تبصرے کے سلسلے میں بھی اظہار خیال کیا ہے اور یہاں انھوں نے کچھ زیادہ سخت زبان استعمال کی ہے۔ اردوئے معلیّٰ بابت ۱۹۰۶ء میں لکھتے ہیں، ’’قلق کی مشاقی اور استادی میں کوئی شبہ نہیں لیکن دیگر اساتذہ لکھنؤ کے مانند ان کے کلام سے بھی بجز اس کے کہ وقتِ ضرورت بطور سند استعمال کیا جائے دل یا روح کو کوئی سرور حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘


انہوں نے قلقؔ کا ایک شہر آشوب بھی درج کیا ہے جس میں واجد علی شاہ کے سفر کلکتہ کا حال نسبتاً سادہ اور پر اثر زبان میں لکھا گیا ہے مگر اس میں بھی ذاتی رنج والم کا حال زیادہ ہے، قومی نقصان کا جذبہ کم۔


حسرت اساتذہ غزل مصحفیؔ، مومنؔ، قائمؔ کے زیادہ قائل تھے۔ انھوں نے مصحفیؔ کی ہمہ رنگی اور خارجیت کے نئے احساس پر زور دیا ہے اور ان کے فن میں شگفتہ و دراز قافیوں کی تلاش اور پھر ردیف کو مختلف طور پر نباہنے کی خصوصیت پر زور دیا ہے۔ مومن کے سلسلے میں ان کی رائے اور بھی قابل غور ہے، ان کی رائے یہ ہے کہ، ’’اردو شاعری کے لحاظ سے (یہاں اردو شاعری سے ان کی مراد شاعری کے فن سے معلوم ہوتا ہے) ذوقؔ کا درجہ غالبؔ سے اور غالبؔ کا درجہ مومنؔ سے بلند ہے لیکن درد و تاثیر کے لحاظ سے مومنؔ کا کلام غالبؔ سے افضل اور ذوق سے افضل تر ہے۔‘‘


ان کے خیال میں فارسیت، سہلِ ممتنع، خوش نما تراکیب، بیان کے مقابلے میں مضمون کا خیال، غالبؔ و مومنؔ کے یہاں مشترک ہے۔ مومن خاں کی استادی کے وہ دو وجوہ سے قائل ہیں۔ اول تو ان کی خصوصیت انداز دوسرے فارسی مذاق اور ترکیبوں کی آمیزش، جس کی وجہ سے ان کے کلام میں ایک خاص وقعت پیدا ہو گئی ہے جس کی مثال سوائے غالبؔ کے اور کسی کے کلام میں نہیں ملتی۔


حسرت کی نکتہ سنجی کا یہاں قائل ہونا پڑتا ہے۔ فارسی مذاق اور ترکیبوں کی وجہ سے اردو شاعری کو ایک نئی معنویت اور رمزیت، ایک نئی بلاغت اور حسن کاری ملی جس سے اردو شعرا نے بہت فائدہ اٹھایا۔ یہی اسلوب روز مرہ اور محاورے کے بجائے حکیمانہ مسائل کے اظہار پر زیادہ قادر ہے اور اگرچہ حسرت نے اس کا صاف صاف ذکر نہیں کیا لیکن اس کا احساس بھی ان کے یہاں بڑا معنی خیز اور اہم ہے۔


غرض غزل گو شعرا کے متعلق حسرت کے تبصرے بڑے اہم اور قابل قدر ہیں۔ ان کی تنقیدوں میں بظاہر فن پر زور معلوم ہوتا ہے مگر در اصل فن کا ایک شگفتہ اور گہرا تصور موجود ہے۔ پھر انہوں نےنہایت آزادی اور جرأت سے اظہار خیال کیا ہے اور کسی کی شخصیت اور شہرت سے وہ مرعوب نہیں ہیں۔ آزاد کی استاد پرستی کو دیکھتے ہوئے حسرت کی اپنے استاد امیر اللہ تسلیم کے متعلق یہ رائے بڑی وقعت کے لائق ہے،


’’عہدِ نسیم میں ہی بلکہ اس کے دس سال بعد تک مرحوم مثنوی نگاروں کی طرح قصیدہ نگاری میں بھی یکتائے روزگار تھے۔ زوالِ سخن کا سب سے زیادہ اثر حضرت تسلیم کی غزلوں پر پڑا۔ ان کے درمیانی دور کی غزلیں ان کے انحطاط کو اور آخری دور کی غزلیں ان کے زوال کو ظاہر کرتی ہیں۔‘‘


اسی طرح حسرت نے دوسری اصناف کے متعلق جو رائے ظاہر کی ہے وہ بھی ان کے گہرے تنقیدی شعور اور ان کے سلامتی طبع پر دلالت کرتی ہے۔ چکبست نے جب گلزار نسیم کا نیا ایڈیشن شائع کیا تو اس پر ایک معرکۃ الآر مقدمہ لکھا اور بہ مقتضائے بشریت نسیم کے کمالات شاعری کو خوب نمایاں کیا۔ یہاں تک کہ سحر البیان اور گلزار نسیم کو برابر کا درجہ دے دیا۔ ’’میر حسن سخن آفریں نسیم معنی آفرینی ہیں۔‘‘


شرر نے اس کے جواب میں اس مثنوی کو آتش کی مثنوی قرار دیا۔ اس کی زبان کو لکھنؤ کی مستند زبان ماننے میں تامل کیا۔ تیسرے اس کی بعض اغلاط کے ثبوت میں بعض اسناد پیش کیں۔ چکبست نے ایک عالمانہ جواب میں نسیم کی حمایت کی اور پھر ایک نہایت گرم مباحثہ چھڑ گیا۔ اردوئے معلیّٰ میں چکبست کا مضمون، شرر کا جواب، چکبست کا جواب الجواب اور شرر کا مزید جواب سب شائع ہوئے۔ حسرت کی رائے اس پر حسب معمول متوازن اور معتدل ہے۔ انھوں نے نسیم کی استادی کا اعتراف کیا ہے اور گلزار نسیم کو لکھنؤ کے رنگ کی ایک اعلیٰ مثال اور اپنے رنگ میں لاجواب قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں، ’’گلزار نسیم کی زبان بلاشبہ لکھنؤ کی زبان ہے، اگرچہ بعض موقعوں پر اسے لکھنؤ کی قدیم زبان کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔‘‘


حسرت نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ نسیم آتش کے واسطے سے مصحفیؔ کے اثر سے نہ بچ سکے۔ اجتہاد ناسخ کا ان پر اثر کم ہوا۔ انھوں نے اس پر عمل ضرور کیا مگر جابجا اس کی پابندی نہ کر سکے،


بھڑکائی جمائی مادر اس کی


مگر نسیم کے رنگ کو مثنوی کے لیے ناموزوں قرار دیا ہے۔ اردوئے معلیّٰ اگست ستمبر ۱۹۰۵ء میں لکھتے ہیں، ’’جس طرح قصیدے کے لیے بلاغت و شکوہ الفاظ، قطعات کے لیے تسلسل و خوبی مضمون، رباعیات خصوصاً آخری مصرع کے لیے برجستگی مضمون و الفاظ لازم و ملزوم ہیں۔ اسی طرح ذوق سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ بیانیہ مثنوی کے اسلوب، نظم میں سادگی و روانی کے بجائے تصنع اور محذوفات کو دخل نہ ہو، کیونکہ اس سے مثنوی کی اصل غرض یعنی ادائے مطالب یا بیان حکایت کی غرض فوت ہوجاتی ہے اور سامع یا ناظر کی طبیعت اصل قصے سےہٹ کر رعایات لفظی کے پھیر میں پڑ جاتی ہے۔‘‘


زبان و ادب کے اہم مسائل پر اردوئے معلیّٰ میں متعدد مضامین ملتے ہیں ان میں ادب الکاتب و الشاعر کے عنوان سے نظم طباطبائی کا ایک معرکۃ الآرا مضمون متعدد قسطوں میں نکلا ہے۔ اس میں تذکیر و تانیث، اردو رسم الخط کے متعلق اظہار خیال، غلط الفاظ کی تحقیق، زبان دانوں اور اہل زبان کی بحث، دہلی و لکھنؤ اسکول کی زبان کا فرق قابل ذکر مضامین ہیں۔ ۱۹۱۲ء میں انھوں نے ’نے‘ کے استعمال پر بحث کی ہے اور دکھایا ہے کہ نہ صرف پنجاب میں بلکہ قدیم شعرا کے یہاں بھی ’نے‘ کا استعمال اس طرح ملتا ہے۔ چنانچہ کلیات ظفر سے انھوں نے اور دیکھا ہوا ہے کے اسناد پیش کیے ہیں،


ہم نے ہے خوب اس کی طرز ناز پہچانی ہوئی
چال پہچانی ہوئی، آواز پہچانی ہوئی


حسرت نے بعض نوادر کی اشاعت کو اپنا خاص فریضہ قرار دیا تھا۔ چنانچہ اردوئے معلیّ میں ملا مسیح کی رامائن فارسی، قلق کا شہر آشوب، بنواری لال، شعلہ شاگرد بے صبر سکندر آبادی وتفتہ کی مثنوی برج چھب، عیشی شاگرد مصحفیؔ کی مثنوی سوز و ساز قابل ذکر ہیں۔ خصوصاً بنواری لال شعلہ کی برج چھب تو اس قابل ہے کہ اسے دوبارہ شائع کیا جائے۔ انھوں نے اردو زبان کے قدیم گلدستوں کے انتخابات بھی شائع کیے تھے اور آج اردو زبان و ادب کی تاریخ کے طالب علم کے لیے ان مضامین میں بڑا مفید اور کارآمد مواد مل سکتا ہے۔ انھوں نے انیسویں صدی کے آخر کے حسب ذیل گلدستوں کا ذکر کیا ہے،


(۱) گلدستہ شعرا ضمیمہ اخبار، انوار الاخبار لکھنؤ آغاز ۱۸۷۴ء
(۲) گل کدۂ ریاض خیر آبادی ۱۸۷۹ء
(۳) نتیجۂ سخن، لکھنؤ ۱۸۸ء
(۴) پیام یار، لکھنؤ ۱۸۸۳ء
(۵) تحفۂ عشاق ۱۸۸۴ء
(۶) کرشمۂ دلبر، خیرآباد ۱۸۸۵ء
(۷) ریاض سخن، مراد آباد ۱۸۸۵ء
(۸) دامن گلچیں، لکھنؤ ۱۸۸۵ء
(۹) فتنہ و عطر فتنہ ۱۸۸۵ء
(۱۰) نغمہ بہار، لکھنؤ ۱۸۸۶ء
(۱۱) گلدستہ کیف، اناؤ ۱۸۸۹ء
(۱۲) دامن بہار، آگرہ ۱۸۹۲ء
(۱۳) گلچیں، لکھنؤ ۱۸۹۲ء
(۱۴) انتخاب، لکھنؤ ۱۸۹۳ء
(۱۵) تصویر عالم ۱۸۹۶ء
(۱۶) ریاض سخن، مارہرہ ۱۸۹۶ء
(۱۷) خدنگ نظر ۱۸۹۷ء
(۱۸) معیار، لکھنؤ ۱۸۹۸ء


اسی طرح فروری ۱۹۵۲ء کے اردوئے معلیّٰ میں انھوں نے اپنے ۲۰۸ معاصرین کا ذکر کیا ہے جس میں اساتذہ، عشاق، شعرا، کم مشہور اور نو مشق سب آ گئے ہیں۔


اردوئے معلیّ کے ان مضامین میں جا بجا بے شمار جواہر پارے بکھرے پڑے ہیں، اس سلسلے میں ایک مثال نہایت دلچسپ ہے جو ابھی تک میری نظر سے نہیں گذری۔ مکتوبات آزاد پر جالبؔ دہلوی نے ایک مقدمہ لکھا تھا۔ اس میں آزادؔ کی وارفتگی و دیوانگی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا کہ شعرا کے لیے یہ وارفتگی کوئی نئی چیزنہیں۔ حسرت نےاس مقدمہ کا وہ حصہ پورا دے دیا ہے جس میں ذوقؔ، مومنؔ وغالبؔ کی وارفتگی کی مثالیں ہیں۔ ذوقؔ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ نیم برہنہ صرف تہبند پہنے فکر سخن میں غرق قلعہ شاہی تک پہنچ گئے تھے اور جب شاہی چوبدار نے ٹوکا تو انھیں ہوش آیا مگر اسی عرصے میں بہادر شاہ ظفر کو خبر ہوئی اور انھوں نے اسی حال میں انھیں طلب کر لیا۔ ان کے اشعار سنے اور پھر انھیں خلعت فاخرہ سے سرفراز کر کے واپس کیا۔ مومنؔ خاں سڑک پر گذرتے تھے تو کوئی نہ کوئی شاگرد اس غرض سے ساتھ ہو جاتا تھا کہ عالم وارفتگی میں ہاتھ ایک خاص انداز سے اٹھائے ہوئے اور جھومتے ہوئے وہ کسی گاڑی سے کچل نہ جائیں۔ غالبؔ کے متعلق سب سے دلچسپ معلومات مہیا کی ہیں،


’’ان کے دیوان خانے میں محلے کے بہت سے بے فکرے جمع ہوتے تھے اور ان کی حقہ اور پانی اور کبھی کبھار مٹھائی سے تواضع کی جاتی تھی۔ غالبؔ خود بالاخانے پر رہتے تھے مگر ان لوگوں سے کبھی کچھ کام لیتے تھے تو یہ لیتے تھے کہ جب کوئی نیا مضمون باندھتے تھے اور اس کی مسرت کے کیف میں بے خود ہو جاتے تو نیچے تشریف لے آتے تھے اور وہ شعر لوگوں کو سناتے تھے اور داد لے کر پھر الٹے پاؤں واپس چلے جاتےتھے۔ نیچے سناٹا ہوا تو ضرور کہتے کہ، ’’آج محلہ میں خیریت تو ہے کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا۔‘‘ کلو کا بیان ہے کہ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ دیوان خانے میں چڑیا بھی نہیں لیکن مرزا صاحب آئے اور دروازے میں کھڑے ہوکر آپ نے فرمایا، ’’لو بھئی سنو تو کیا مضمون ہاتھ آیا ہے۔‘‘ پھر آپ نے شعر پڑھا، اس کی ضروری تشریح کی اور مطمئن ہو کر کوٹھے پر چلے گئے۔‘‘


محلے کے بے فکروں کو جمع کرنے کا کام کلو اور کلیان کے سپرد تھا اور وہ لوگوں سے کہتے تھے، ’’آج پھر بڈھے کو سودے کا زور ہوا ہے۔‘‘ اس کے باوجود مرزا پر جان چھڑکتے تھےاور کلو تو اکثر انھیں یاد کر کے اور ان کے واقعات بیان کر کے رویا کرتا تھا۔ مرزا صاحب باوجود اپنی تنگی کے اپنے ملازمین سے بڑا اچھا سلوک کرتے اور اپنی وضع داری کو نباہتے تھے۔ جالبؔ نے لکھا ہے کہ جب وہ حالیؔ سے ملے تو انھوں نے غالبؔ کا ایک واقعہ سنایا جو شیفتہؔ نے ان سے بیان کیا تھا۔ شیفتہؔ نے کہا تھا کہ ایک بار غالبؔ نے انھیں یہ شعر سنایا،


خوشی جینے کی کیا، مرنے کا غم کیا
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا


شیفتہؔ نے جب اس کی بہت تعریف کی تو مرزا نے کہا کہ یہ شعر تو میں یوسف علی خاں ناظم کو دے چکا۔ ناظم کے اشعار میں غالبؔ کے رنگ کے بہت سے اشعار موجود ہیں۔ کتاب خانہ سرکاری رام پور میں ناظم کا دیوان غالبؔ کا تصحیح شدہ موجود ہے اس میں جابجا غالبؔ کی اصلاحیں ہیں اور ان سے ہر بات واضح ہو جاتی ہے کہ ناظم کے یہاں غالبؔ کی جھلک اسی وجہ سے ملتی ہے۔


حسرت نے اپنی تحقیق و تنقید میں جس آزادی و بے باکی کا ثبوت دیا ہے، اس کی مثال میں ان کے اقبال کے ابتدائی کلام پر سخت اعتراضات اور حالیؔ کی قومی شاعری کے کمزور پہلوؤں کا جائزہ قابل ذکر ہے۔ اسی طرح اندر سبھا پر انھوں نے (اگست ۱۹۰۳ء) میں جو مضمون لکھا ہے اس میں نئے مذاق پر سخت نکتہ چینی ہے اور اندر سبھا کی ادبی و ڈرامائی خوبیوں پر اچھی طرح روشنی ڈالی ہے۔


لکھنؤ یونیورسٹی کی لائبریری میں اردوئے معلیٰ کا ۱۹۳۴ء تک کا فائل موجود ہے۔ یہ رسالہ تحقیق و تنقید، سیاسی مضامین، انتخاب کلام اور تبصروں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اگر اس کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو حسرت کو صرف ایک بڑا شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھا محقق اور ایک سنجیدہ اور قابل قدر نقاد ماننے میں کسی کو تامل نہ ہوگا۔ پھر اس رسالے میں معاصرین کے کلام کے جو نمونے شائع ہوئے ہیں وہ بھی ہمارے لیے بڑی دلچسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ فانیؔ کی کئی اچھی غزلیں جو باقیات میں نہیں ہیں اور صرف دیوان فانی مطبوعہ نقیب پریس میں شائع ہوئی تھیں، اردوئے معلیّٰ میں ملتی ہیں۔


امداد امام اثرؔ، شادؔ عظیم آبادی، گستاخ رام پوری، وفاؔ رام پوری، امیر اللہ تسلیمؔ، صفیؔ لکھنوی، عزیزؔ لکھنوی کے کئی شاہکار اس رسالے میں محفوظ ہو گئے ہیں۔ نئے طرز کی مثنویاں بھی ہیں۔ اقبال و اکبر کا کلام بھی ہے۔ غرض حسرت نے اردوئے معلیّٰ کے ذریعہ سے اردو زبان و ادب کی جو گراں قدر خدمت انجام دی ہے، وہ ہماری تاریخ میں سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے اور اردو ادب کا کوئی طالب علم اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔