اردو اور پنجابی کا باہمی رشتہ
اردوزبان اور اس کے ادب سے پنجابی زبان اور اس کے ادب کا وہی رشتہ ہے جو دریائے سندھ سے پنجاب کے ان پانچ دریاؤں کا ہے جو پنچندے کے مقام پر ایک ہی دھارے میں منتقل ہوکر بالآخر دریائے سندھ میں جاگرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے اسی طرح یہاں پانچ مقامی بولیاں لہنداؔ، پوٹھوؔ ہاری، لاہوریؔ، ہندکوؔ اور سرائیکیؔ بھی ہیں جن کے رنگوں اور لہجوں کے امتزاج کا نام پنجابی ہے۔
قدیم زمانے میں برصغیر ہندوپاک کو سندھودیش کا نام ملا تھاجو بعد ازاں بگڑ کر ہندو دیش یا ہندوستان کہلایا۔ وجہ غالباً یہ تھی کہ اس زمانے میں اس برصغیر کا صرف وہی حصہ آباد تھا جو دریائے سندھ اوراس کے معاونین کی گرفت میں تھا اور باقی سارا علاقہ گھنے جنگلات سے اٹا پڑا تھا۔ چنانچہ جس طرح دریائے نیل کے کنارے قدیم مصری تہذیب اور اس کی زبان نے نشوونما پائی اوردریائے دجلہ وفرات کے کنارے سمر یا کی تہذیب اور اس کی زبان نے پرپرزے نکالے بالکل اسی طرح قدیم زمانے میں دریائے سندھ اوراس کے معاونین کے کناروں پر وادی سندھ کی تہذیب اور اس کی زبان پروان چڑھی جو اردو کی اولین صورت تھی (بدقسمتی سے ابھی تک اس زبان کی لپی یا رسم الخط کوپڑھا نہیں جاسکا۔)
اردو کے لیے ریختہ کا بھی لفظ مستعمل رہا ہے اور چونکہ وادی سندھ کی تہذیب اور اس کی زبان پرٹوآسٹرولائڈ اور پروٹونیگراؤڈ نسلوں اور زبانوں کا ’’ریختہ‘‘ تھی، اس لیے وادی سندھ کی اس قدیم زبان کو اردو کی ابتدائی صورت ہی قرار دینا چاہئے۔ اب غور فرمایئے کہ جس طرح وادی سندھ کی تہذیب میں پنجاب کے علاقوں کی تہذیب اور ثقافت کا وافر حصہ شامل تھا، بالکل اسی طرح وادی سندھ کی زبان کی بنت میں پنجابی زبان کے دھاگے، اس کے افعال وضمائر بھی نمایاں طورپر شامل ہوں گے۔ لہٰذا اردو اورپنجابی کا تعلق خاطرپورے پانچ ہزار سال کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں۔ البتہ اس رشتہ کی نوعیت کے بارے میں تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پنجابی کی حیثیت ماں کی سی ہے اوراردو اس کی بیٹی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے وجود میں آجانے کے بعد جب بھارت میں اردو کا مستقبل تاریک ہوگیا تومولانا صلاح الدین احمدنے بڑے کرب کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اردو پنجاب کی بیٹی ہے مگر اب بیوہ ہوکر واپس اپنے میکے آگئی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اردو اگر درخت ہے توپنجابی اس کی ایک شاخ ہے بعینہٖ جیسے پراکرتیں سنسکرت کی شاخیں ہیں مگر چونکہ اب اہل علم اس بات پر متفق ہورہے ہیں کہ پراکرتیں اس دھرتی کی قدیم زبانیں تھیں اور سنسکرت سے ان کا کوئی نسلی رشتہ نہیں تھا، جبکہ اردو اورپنجابی میں ایک گہرا نسلی، ثقافتی اور لسانی رشتہ ہے، اس لیے ’’درخت اور شاخ‘‘ کی تمثیل کچھ ایسی کارآمد نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ پنجابی کا اردو سے وہی رشتہ ہے جو پنجاب کے پانچ دریاؤں کا دریائے سندھ سے ہے اور یہ رشتہ کچھ یوں ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ پانچ دریا خشک ہوجائیں تو دریائے سندھ کی کمر ہی ٹوٹ جائے اور اگر سرحد سے آنے والے دریا اور بلوچستان اور سندھ کے ندی نالوں کا سلسلہ رک جائے تو دریائے سندھ شاید خود بھی سمٹ کر محض ایک ندی بن جائے۔ لہٰذا دریائے سندھ درحقیقت سرحد، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے دریاؤں اور ندی نالوں کے ’’ریختہ‘‘ کا دوسرا نام ہے۔ اسی طرح اردوزبان میں ایک ’’ریختہ‘‘ ہے۔ اگرپنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو اور دوسری زبانوں کے بولنے والوں سے اس کا رشتہ منقطع ہوجائے تواس کی حالت بھی شاید وہی ہوگی جو معاونین سے کٹ جانے پر دریائے سندھ کی ہوسکتی ہے۔
اردو کسی ایک علاقے کی زبان نہیں۔ ہرچند بعض ایسے خطے بھی موجود ہیں جہاں اردو بول چال کی زبان کا درجہ رکھتی ہے مگرانصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اردو کے اس روپ کو ’’علاقائی اردو‘‘ ہی کا نام دیا جائے۔ وجہ یہ کہ اردوکا یہ علاقائی لب و لہجہ یارنگ، اردو کے اس عالمگیر رنگ سے قدرے مختلف ہے جو مثلاً پشاور سے لے کر مدراس تک ہر جگہ نظرآتا ہے۔ اس عالمگیر رنگ پر علاقائی اردو کی چھاپ لگانا اور پھر اصرار کرنا کہ اس کا لب و لہجہ اور محاورہ علاقائی اردو کے عین مطابق ہو، ایک بالکل مصنوعی سی بات ہوگی اور اس سے اردو کی وہ حیثیت مجروح ہوگی جواسے ایک ’’بڑی زبان‘‘ کے مقام بلند پر فائز کرتی ہے۔
وہ زبان جو ہزاروں برس کے کٹاؤ کے عمل سے گہری اور کشادہ ہوکر ایک بڑی زبان کے درجہ پر جاپہنچتی ہے، دراصل ایک ایسی نشیبی گزرگاہ کی طرح ہوتی ہے جس میں جملہ علاقائی زبانوں کے الفاظ، لہجے اورثقافتی اثمار از خودشامل ہوتے رہتے ہیں۔ اسی لیے میں نے اردوکودریائے سندھ سے تشبیہ دی ہے کہ یہ دریا ایک تجرید ہی نہیں، ایک نشیبی گزرگاہ بھی ہے۔ اورجب میں کہتا ہوں کہ اردو بھی ایک نشیبی گزرگاہ ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ جملہ علاقائی زبانیں (جن میں پنجابی بھی شامل ہے) مجبور ہیں کہ اس قدرتی گزرگاہ کو استعمال کریں۔
رہا یہ سوال کہ اگرپنجابی زبان اس گزرگاہ سے کٹ کر خودکفیل اورخودمختار ہونے کی کوشش کرے تو پھر صورت کیا ہوگی، بنیادی طور پر محض ایک مفروضہ ہے۔ وجہ یہ کہ جس طرح پنجاب کے دریا مجبور ہیں کہ اس قدرتی نشیب میں جاگریں جس کا نام دریائے سندھ ہے، اسی طرح اہل پنجاب بھی مجبور ہیں کہ اپنے فکرواحساس کی لطیف ترین پرتوں اور اپنی تہذیب وثقافت کی جملہ کروٹوں کواردومیں منتقل کریں کہ اردو زبان ہی برصغیر پاک و ہند کا وہ سب سے بڑا نشیب ہے جس میں علاقائی زبانیں ہزاروں برس سے گزر رہی ہیں اور ہزاروں برس تک گرتی چلی جائیں گی۔
پچھلے ایک سوبرس کے عرصہ میں اہل پنجاب نے جس نفیس اور خوبصورت انداز میں پنجاب کی روح، اس کے جوہر کو اردو میں سمویا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں اردو اورپنجابی کے اس رشتے کا بھرپور احساس ہے جو ایک دریا اوراس کے معاو نین میں استوار ہوتا ہے۔
پھر چونکہ پنجابی بولنے والوں کا طبقہ ہمیشہ سے محنتی، مہم جو، زیرک اور تخلیقی اعتبار سے فعال رہا ہے، لہٰذا یہ بات بآسانی سمجھ میں آتی ہے کہ پچھلے ایک سوبرس کے اردو ادب پر پنجاب کی اتنی گہری چھاپ کیوں ثبت ہے کہ اگرشاعری سے اقبالؔ، حفیظؔ، محرومؔ، میراجیؔ، فیضؔ، راشدؔ، مجید امجدؔ، احمدندیمؔ قاسمی، راجہ مہدیؔ، یوسفؔ ظفر، قیوم ؔ نظر، ضیا جالندھریؔ، ضمیرجعفریؔ، جعفرؔ طاہر، بلراجؔ کومل، تختؔ سنگھ، ناصرؔ کاظمی اور متعدد دوسرے اہم شعرا کے نام حذف کردیے جائیں، یا نثر کے تذکرے میں منٹو، غلام عباس، ممتاز مفتی، کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، قدرت اللہ شہاب، پطرس، اشفاق احمد، بلونت سنگھ، رام لعل، مسعودمفتی، کنہیالال کپور، ابن انشا، غلام الثقلین نقوی اور دوسرے لاتعدادلکھنے والوں کے نام خارج ہوجائیں یا محسنین اردوکے سلسلے میں حسرتؔ، مہرؔ، سالکؔ، مولانا صلاح الدین احمد، فلک پیما، پطرس، حمیداحمدخاں، ڈاکٹر سیدعبداللہ، سید علی عباس جلالپوری، ڈاکٹر وحید قریشی اور دوسرے اکابرین کی طرف کوئی اشارہ نہ ملے تواردو ادب ایک بڑی حد تک مفلس اور تہی دامن نظرآنے لگے۔
ایسی صورت حال میں مسئلے کی نوعیت بالکل تبدیل ہوجاتی ہے۔ عام حالات میں توایک زبان کے کسی دوسری زبان پر مرتسم ہونے والے اثرات کا بآسانی جائزہ لیا جاسکتا ہے اور یہ جائزہ خاصا زرخیز اور خیال انگیز بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ مگراردوادب اورپنجابی ادب کے ربط باہم میں تاثیر و تاثر کا میلان تضییع اوقات کے سوا اورکچھ نہیں۔ مثلاً اگر اردو ادب میں پنجاب کی بعض عشقیہ داستانوں ہیررانجھا، سوہنی مہیوال، مرزا صاحبان کی طرف اشارے ملتے ہیں یا انہیں اردومیں منتقل کرلیا گیا ہے، اسی طرح اگرپنجاب کے صوفی شعرا، فرید، بلہے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ اور بعض دوسروں کے اقوال اردونثر اورنظم میں نگینوں کی طرح چمکنے لگے ہیں یا اگرجدید پنجابی غزل اورافسانے میں اردو غزل اورافسانے کی روشنائی نظرآنے لگی ہے تویہ کوئی ایسی بات نہیں جسے حیرت انگیز قرار دے کر خوشی سے تالیاں بجائیں۔
جب کسی ایک ہی خطے کے رہنے والے بیک وقت دو زبانوں کو ذریعہ اظہار بنا رہے ہوں تو ایک حد تک لین دین کی فضا کا قائم ہوجانا ایک بالکل قدرتی بات ہے مگردراصل ایسی صورت میں لین دین کی فضا کا قائم ہوجانا کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوتا، جیسا کہ دومختلف قسم کی تہذیبوں اور زبانوں کے ربط باہم کے سلسلے میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اردو ادب پر انگریزی ادب کے اثرات بہت نمایاں ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انگریزی ادب کا مزاج اردوادب سے بالکل مختلف ہے اور اس نے ایک مدمقابل کی حیثیت میں اردو پر براہ راست اپنے اثرات ثبت کیے ہیں۔ بات کو الٹ کر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی ادب نے اردو ادب کو فکر واحساس اور ترسیل و اظہار کے وہ اسالیب دیے ہیں جو انگریزی فضا میں پروان چڑھے تھے لیکن جن کا اردو میں فقدان تھا۔
دوسری طرف پنجابی اور اردو ایک ہی گھر میں نشوونما پانے والی زبانیں ہیں۔ لہٰذا پنجابی ادب نے برا ہ راست اردو ادب پر اور اسی طرح اردو ادب نے براہ راست پنجابی ادب پر کوئی نمایاں اثرات مرتسم نہیں کیے۔ ہوا فقط یہ ہے کہ اہل پنجاب نے اردو کواپنے اوڑھنا بچھونا بنایا ہے اوراس لیے پنجابی زبان اور اس کے ادب کی تخلیق میں صرف ہونے والے عناصر بڑے قدرتی انداز میں اردوادب کے تاروپود میں صرف ہوتے چلے گئے ہیں۔ مراد یہ کہ جب پنجاب کا ایک ادیب اردوزبان میں لکھتا ہے تو اپنی جنم بھومی کی ساری بوباس، مزاج اورلہجے کو اردو میں منتقل کرنے پر مجبور ہے۔ یوں دونوں زبانوں کے ادب میں ایک عجیب سی یک رنگی بلکہ ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے ایک عام سا قاری اس مغالطے میں پڑ جاتا ہے کہ شاید ان دو زبانوں نے ایک دوسرے پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔
حالانکہ حقیقت صرف یہ ہے کہ پنجاب کے جوہر نے ایک طرف تو خود کو پنجابی زبان میں اور دوسری طرف اردوزبان میں منعکس کیا ہے اوراسی لیے ان دونوں زبانوں کی ادبیات میں اگرکوئی فرق ہے تو وہ جوہر کا نہیں بلکہ صرف ان پیمانوں کا ہے جن میں اس جوہر کوپیش کیا گیا ہے۔ پنجابی زبان کے مخصوص لسانی ڈھانچے نے پنجاب کی سائیکی کے اس حصے کی ترسیل کی ہے جوایک طرف جذباتی خروش سے عبارت ہے اوراپنے اظہار کے لیے گیت اور ماہیا کے لوچ دار اور رسیلے پیکر کا طالب۔ اور دوسری طرف وہ روحانی پرواز کے لیے ایک عجیب سی جذباتی پھڑپھڑاہٹ میں مبتلا ہے اورکافی یادو ہے کی سبک اور لطیف صورتوں میں خودمنکشف کرتا ہے۔
اس کے مقابلے میں اردوزبان کے متنوع اسالیب نے پنجاب کی سائکی کی ان لاتعداد پرتوں کی عکاسی کی ہے جو فکری اور احساسی لطافتوں اورنزاکتوں کی امین ہںا اور اپنے اظہاراورترسیل کے لیے نازک ترپیمانوں کی طالب ہیں۔ یوں دیکھا جائے توابتدائی تمثیل کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب کے جوہر پانچ دریاؤں کی حد تک توپنجابی ہیں مگراس کے بعد اردو میں اپنا اظہار کیا ہے اوریہ سب کچھ ایسے قدرتی اور فطری انداز میں رونما ہوا ہے کہ پنجابی ادب پر اردو کے اثرات اور اردو ادب پر پنجابی کے اثرات کو نشان زد کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔