اردو اور اس کا رسم الخط: ایک مباحثہ
شمارہ ۲۵۰ کے ’’شب خون‘‘ میں مضمون ’’کچھ اردو رسم خط کے بارے میں‘‘ نظر نواز ہوا۔ پورا مضمون پڑھا اور پڑھنے کے بعد بس ایک خیال نے چند جملے لکھنے پر مجبور کیا۔ بقول فیض،
وہ بات جس کا فسانے میں کوئی ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
میں پورے مضمون پر نہیں بلکہ صفحہ ۳۷ کے دوسرے کالم کے آخری پیراگراف پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں جہاں سے آپ نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’کچھ دنوں سے ولایت میں رہنے والے بعض اہل اردو کی طرف سے یہ آواز اٹھی ہے کہ اردو کا رسم الخط رومن کر دیا جائے۔‘‘
مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ کسی نے بھی حضرت عیسٰی سے یہ دریافت کیا کہ عیسٰی کیا تم خدا کے بیٹے ہو؟ کسی فرد نے گاندھی جی سے یہ پوچھا کہ گاندھی جی کیا تمہاری آتما، مہا آتما ہے؟ کاش آپ اس سے پیشتر کہ یہ جملے تحریر کرتے، یہاں ان لوگوں سے ضرور دریافت کرتے کہ حقیقت کیا ہے؟ بہرحال بات جب چھڑ گئی ہے تو اسے پوری ہونے دیجیے۔ سب سے پہلے میں یہ بات بغیر کسی حیل و حجت کے بتاتا چلوں کہ برطانیہ میں یہ بات کسی فرد یا جماعت یا گروہ نے نہیں کہی کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کیا جائے۔ بلکہ بات یوں چلی کہ انٹرنیٹ کے آنے کے بعد جو بچے یا بزرگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں وہ سب کے سب رومن میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔
یہ صرف یہیں نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہی نہیں بلکہ بالی ووڈ فلم انڈسٹری میں کئی ہزار گانے ویب سائٹ پر رومن رسم الخط میں ڈالے ہیں۔ ساتھ ہی اب تقریباً فلم کا ٹائٹل رومن میں تحریر ہو رہا ہے۔ اگر میں یوں کہوں کہ کسی حدتک رسم الخط تبدیل ہو چکا تو غلط نہ ہوگا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ جس طرح یہ لکھا جا رہا ہے وہ بہت غلط ہے۔ ہم نے یہاں سے جو آواز بلند کی ہے، وہ اس سلسلے میں ہے کہ اسے آپ جیسے حضرات مل کر ایک ایسی صورت عطا کریں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔
یہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ جب بھی کوئی زبان پھیلتی ہے تو اس کا تلفظ ایک جیسا نہیں رہتا بلکہ علاقائی زبانوں کی آمیزش سے ردوبدل کا ہونا قدرتی عمل ہے اور ہمیں اس عمل کو قبول کر لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر انگریزی، انگریزوں کی زبان ہے اور برطانیہ ایک ایسا جزیرہ ہے جو شاید یو۔ پی میں سماجائے۔ مگر پھر بھی یہاں شمال میں رہنے والوں کا ایک ہی لفظ کا تلفظ جنوب میں رہنے والوں سے علیحدہ ہے۔ مثلاً آپ شمال میں اگر کسی سے گفتگو کریں تو وہ Butter کو بہ بضم اول ادا کرےگا۔ اسی طرح وہ But کو بھی بضم اول کہےگا اور جنوب کا رہنے والا دونوں الفاظ کو بفتح اول کہتا ہے۔ اور یہاں دونوں طرح سے جائز مانا جاتا ہے۔
دراصل ہم بچپن میں جن آوازوں کو سنتے ہیں، جو لہجہ ہمیں و راثت میں ملتا ہے، وہ ہم تمام زندگی یاد رکھتے ہیں۔ بات صرف یہیں نہیں ختم ہوتی۔ اہل پنجاب ہمیشہ ’’ہاں جی‘‘ بولتے ہیں اور یو۔ پی اور دہلی والے ’’جی ہاں‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں کسی کی خطا نہیں ہے۔ جسے جو بھی وراثت میں ملا وہ اسی کو حرف آخر سمجھ بیٹھا۔ تقریباً ایک سال قبل میں نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ زبان اپنے سفر میں کن کن مدارج سے گزرتی ہے۔ میرا یہ مضمون ’’ہماری زبان‘‘ نے دو قسطوں میں چھاپا تھا۔ میں نے اس میں کہا تھا کہ اگر اردو کو رومن رسم الخط کے ذریعہ تھوڑی تقویت ملتی ہے تو ہم اسے قبول کر لیں۔ اس مضمون میں میں نے کہیں نہیں لکھا کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کیا جائے۔ ہاں اضافی طور پر رومن بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔
جناب عالی! ابھی تک ہماری زبان تشنہ ہے اور ہر زبان ترقی کے مدارج طے کر رہی ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں آپ کسی بھی زبان میں لکھیں، پڑھنے والا اسے پوری طرح سمجھ جائے گا۔ صرف ٹائی کی گرہ کو لیجیے۔ اسے چاہے آپ انگریزی میں لکھیں یا اردو فارسی عربی میں، اسے کسی ایسے شخص کو دے دیجیے جو ٹائی کی گرہ باندھنا نہ جانتا ہو، پھر تماشا دیکھیے۔ اس قسم کی ہزاروں ایسی مثالیں آپ کے سامنے موجود ہیں، اسی لیے یہاں Technical Drawing کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ اگر حروف لکھنے سے یہ سمجھ میں آ جاتا تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
یہ بات ادبی دنیا کا ہر شخص جانتا ہے کہ آپ تحقیقی دنیا کے فرماں رواں ہیں، آپ جو بھی لکھتے ہیں اس میں تحقیق کا عنصر پوری طرح شامل ہوتا ہے۔ اس بات کی مثال آپ کا یہ مضمون ہے۔ مگر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جس سلسلے میں آپ تحقیق کریں اس کے علاوہ بھی جو وسیع تر میدان باقی رہ جاتا ہے اور جسے آپ سردست اسے الگ رکھ دیتے ہیں، اس پر بھی آپ کچھ لکھیں۔ آپ نے بالکل سچ لکھا کہ رومن میں لکھنے سے اردو کا تلفظ ختم ہو جائےگا۔ میں سمجھتا ہوں آپ کی بات کو کاٹنے والا شاید ہی کوئی ہو۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور فرمایا کہ ہم خود لکھتے کچھ اور ہیں اور پڑھتے کچھ اور ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ’’کنواں‘‘ لکھتے ہیں اور اسی وزن کا دوسرا لفظ ’’دھواں‘‘ لکھتے ہیں، جب کہ آواز دونوں میں ایک طرح کی ہے۔ تو ہم کیوں دونوں کو ایک ہی طرح نہیں لکھتے؟
جناب عالی! ہم اپنے بچپن سے جن لفظوں کو جس طرح سنتے آئے ہیں، انہیں بولتے بھی اسی طرح ہیں۔ اسی صورت میں، ہم جس طرح کسی چیز کو لکھا ہوا دیکھتے ہیں اس کی شکل دماغ میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ ایک اور مثال یہاں درج کرتا ہوں۔ محترم گوپی چند نارنگ صاحب نے اردو املا پر کتاب تحریر فرمائی۔ اس میں انہوں نے لفظ ’’قصائی‘‘ ص سے لکھا، جب کہ اردو میں عربی سے ’’قصاب‘‘ موجود تھا تو ’’قصائی‘‘ کی ضروت نہیں تھی۔ لفظ ’’قسائی‘‘، ’’قساوت‘‘ سے نکلا ہے، اس بات کا میں نارنگ صاحب سے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ مگر اب تمام اہل اردو لفظ ’’قصائی‘‘ ص سے ہی لکھتے ہیں اور یہ نارنگ صاحب کی دلیل اگر سب قبول کر لیں تو ٹھیک ہے لیکن میرا ذہن اسے ماننے کو تیار نہیں ہے۔
یورپ میں ہماری تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے اور آپ کا مشورہ ہے کہ انہیں پہلی نسل کی طرح اردو لکھنا پڑھنا سکھایا جائے۔ کبھی آپ نے ہندوستان کی تیسری نسل کو دیکھا ہے؟ وہ خود اردو کے حروف تہجی سے ناواقف نظر آتے ہیں، مگر بولتے اردو ضرور ہیں۔ وجہ بہت معمولی ہے اور بہت گمبھیر بھی۔ اردو میں بچوں کے لیے کتابوں کی یعنی دلچسپ کتابوں کی کمی، بچوں پر اسکول کالجوں کے کام کا بوجھ اور وقت کی کمی۔ ہمارے چاروں طرف دل کو لبھانے والے مشاغل۔ پھر صحت کو برقرار رکھنے کے لیے صحت مند کھیل۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ماں اور باپ کے پاس خود وقت کی قلت۔ گھر کو چلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا۔ یہ چاہے مغرب ہو یا مشرق، دونوں جگہ کا المیہ ہے۔ ان حالات میں اگر بچہ خودرو ہوکر وہی کچھ سیکھتا ہے، جس سے اسے مستقبل میں روٹی کپڑا میسر آئےگا تو آپ اسے الزام نہیں دے سکتے۔ میرا یا آپ کا ہر مشورہ صرف کتابی تو ہو سکتا ہے مگر حقیقی نہیں کیوں کہ ہر بچہ زندگی کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔
یہ تھے حالات، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہاں یہ آواز اٹھائی کہ پچاس سال کے عرصہ میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر ہم اپنی راہ میں تھوڑی بہت لچک پیدا نہیں کریں گے تو آج جو بول سکتے ہیں کل یہ بولنا بھی چھوڑ دیں گے۔ بلکہ مجھے تو ایسے بہت سے بچے برطانیہ میں ملے جو اردو، ہندی، پنجابی، گجراتی اور بنگالی سے ناآشنا نظر آتے ہیں مگر ہندوستانی فلمیں اور پاکستانی ڈرامے ابھی ان کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور انہیں آج رومن میں لکھنے کی دعوت دیں، تو ممکن ہے کل وہ اردو کے املا سے بھی دلچسپی لینا شروع کریں۔ فاروقی صاحب ستم تو یہ ہے کہ ابھی حال میں ایک فلم ’’زبیدہ‘‘ مارکیٹ میں آئی ہے اور اس میں ’’ضبیدہ‘‘ لکھا گیا ہے، پھر چونکہ ’’ڑ‘‘ کی آواز کے لیے D کا انتخاب بالی ووڈ نے کیا ہے اور آپ بتائیے جب رومن میں ’’مجھے چھوڑو‘‘ لکھا جائےگا تو کتنا مضحکہ خیز ہوگا؟
ارباب اختیار جن کو خدا نے قلم کی دولت عطا کی ہے ان سے میری گزارش ہے وہ سب مل کر اس مسئلے پر غور کریں اور اردو پر اس حملے کے تدراک کے لیے کوئی لائحہ عمل دریافت کریں۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ صاحب اردو کے رسم الخط کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ بلکہ جو اس وقت رائج ہو چکا ہے اور ہزاروں مردوزن اسے استعمال کر رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو بالکل غلط ہے، لیکن ہم اسے کسی طرح قریب ترین تو لا سکتے ہیں۔
(لندن، اقبال مرزا)
رسم الخط سے متعلق مضمون اردو دوستوں کے حقیقی جذبات سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ غیرجذباتی اور نہایت مدلل بھی ہے۔ البتہ اردو کی ابتدا کے سلسلہ میں ایک بات تشریح طلب ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ لفظ اردو کے معنی تھے ’’شاہجہاں آباد کا شہر‘‘ یا ’’قلعۂ معلیٰ شاہجہاں آباد‘‘ اور جب دہلی (یعنی اردو بمعنی ’’دہلی شہر‘‘ ) میں ’’ہندی‘‘ (یعنی آج کے معنی میں اردو زبان) عام ہوئی تو اس زبان کو (یعنی ہندی کو) ’’زبان اردو‘‘ کے معنی میں کہا جانے لگا۔ پھر مختصر ہوتے ہوتے یہ فقرہ ’’زبان اردو‘‘ یا ’’اردو کی زبان‘‘ اور پھر صرف ’’اردو‘‘ رہ گیا۔ دریافت طلب لفظ ’’اردو‘‘ کو شہر کے بجائے زبان کا نام لینے میں کتنا وقت صرف ہوا ہوگا؟ کیوں کہ میر (جن کا شعر آپ نے سند کے طور پر پیش کیا ہے) کے فوراً بعد غالب کے مکاتیب کے مجموعوں کے نام ’’عود ہندی‘‘ اور ’’اردوے معلیٰ‘‘ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس زمانہ میں اس زبان کے لیے لفظ ’’ہندی‘‘ بھی استعمال ہوتا تھا اور لفظ ’’اردو‘‘ بھی۔ داغ نے زبان ہی کے معنی میں استعمال کیا ہے،
اردو ہے جس کانام ہے ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مطلب یہ کہ اردو کے کئی نام تھے۔ مثلاً ہندوی، ریختہ، ہندوستانی، ہندی، اردو وغیرہ۔ ان میں سے صرف لفظ ’’اردو‘‘ باقی رہ گیا۔ باقی نام غیرمقبول ہوتے گئے۔ یہی بات ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ’’اردو‘‘ بمعنی ’’شہر دہلی‘‘ تسلیم کرنے کے لیے شہادت درکار ہے۔ امید ہے آپ میرے طالب علمانہ استفسار کو اعتراض یا بحث نہ سمجھیں گے، خط کی اشاعت بھی مقصود نہیں ہے۔ بس اس گرہ کو کھول دیجیے۔
(ممبئی، شمیم طارق)
’’کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں‘‘ آپ کا مضمون پڑھ لینے کے بعد کوئی معقول پسند ایسا نہ ہوگا جو اردو کے رسم الخط کو دیوناگری یا رومن خط میں منتقل کرنے پر اصرار کرے۔ جو بھی ایسا کرےگا تو وہ اس کی صرف ہٹ دھرمی ہوگی۔ میرے سامنے قازقستان کی مثال ہے۔ یہاں دوبار رسم الخط بدلا گیا۔ ایک بار رومن میں اور دوسری بار روسی میں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا بیشتر ادبی سرمایہ ضائع ہو گیا۔ اب پھر سے وہ اپنے اصلی رسم الخط کی طرف لوٹے ہیں اور اپنے ادب کی بازیافت میں لگے ہیں۔
(حیدرآباد، قدیرزماں)
زیر نظر شمارے میں آپ نے اردو رسم الخط کے بارے میں جس استدلال کے ساتھ مسائل کی وضاحت کی ہے، مجھے یقین ہے کہ اس سے ان سازشی عناصر کے عزائم کو صدمہ پہنچے گا جو اردو رسم الخط تبدیل کرنے کی آڑ میں دراصل اردو زبان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے منصوبے مرتب کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی بھی تھی کہ نہ صرف ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ اپنے لوگوں کے ضمیر کو جگانے کی بھی کوشش کی جائے۔ آپ نے دونوں فرائض انجام دیے ہیں۔
اردو کے خلاف یہ جنگ اولین مراحل میں درپردہ نوعیت کی تھی، مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ گویا ڈنکا بج چکا ہے۔ چنانچہ ماہنامہ ’’شاعر‘‘ کے گزشتہ کئی شماروں میں اس مسئلے پر بہت طویل بحث چلی آرہی تھی، لیکن جب بعض دوستوں نے لسانی مسائل کو مذہبی رنگ دے کر تصویر کو بگاڑنے کی کوشش کی تو مجبوراً افتحار امام صدیقی کو ملتمس ہونا پڑا کہ اس سلسلے کو اب ختم کیا جائے۔ ایک دوست نے علاقائی تعصب کے ڈانڈے مذہب کے ساتھ ملاکر یہ مفروضہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی کہ اہل نقد نے پریم چند، فراق وغیرہ کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا، انہیں فراموش کرنے کی شعوری کوشش کی گئی اور ایسا ہی موجودہ دور میں کرشن کمار طور وغیرہ کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔ پھر میرے خیال میں اس صورت حال پر بہتر تبصرہ قبلہ جگن ناتھ آزاد کر سکتے ہیں۔
علاقائی تعصب تو بہرحال کارفرما رہا ہے اور میری دانست میں ایک وسیع مقصد کے لیے اسے تحمل کے ساتھ برداشت کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ یوں نہ ہو کہ ہماری خاموش شکایت کو اردو کے دشمن اردو بیزاری سمجھ کر ہمیں اپنے لشکر میں شمار کر بیٹھیں۔
آپ نے اردو کی بقا کے سلسلے میں غیراہل زبان کے تعاون، ان کی قربانیوں اور مسائل کا جس طرح اعتراف کیا ہے، وہ آپ کی روشن ضمیری، وسیع القلبی اور منصفانہ رویے کی واضح دلیل ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف غیراہل زبان کے عزائم پختہ ہو جائیں گے بلکہ انہیں اردو کی خدمت کا حوصلہ بھی عطا ہوگا۔ لیکن ایک بات دل کولگی کہ بہار، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور ہماچل پردیش کا ذکر کرتے وقت آپ جموں و کشمیر کی خدمات بھول گئے۔ جہاں تک اس ریاست کا تعلق ہے سرکاری اور عوامی سطح پر اردو کی خدمت کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا گیا۔ کشمیری عوام اپنے بچوں کو اردو زبان کسی مجبوری کے تحت نہیں پڑھاتے بلکہ اس پر عمل کے پیچھے ایک مقدس جذبہ کارفرما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے گھر، بازار، اسکول ہر جگہ اردو زبان میں ہی گفتگو کرتے ہیں۔ ہمارے بعض ان پڑھ بزرگ بھی اپنی ضرورت کے حساب سے اردو زبان بول سکتے ہیں۔
(سری نگر شفق سوپوری)
رسم الخط کے بارے میں آپ کا مضمون بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیتا ہے۔ اردو موجودہ رسم الخط میں ہی زندہ ہے اور زندہ رہ سکتی ہے۔ اردو الفاظ نہ تو آج کی ہندی اور نہ ہی رومن میں صحیح طور پر لکھے یا پڑھے جا سکتے ہیں۔ افسوس کہ آج اردو لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد میں روزافزوں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ بہار میں ایسے اسکولوں کی تعداد بہت ہے جہاں اردو کے استاد تو ہیں مگر اردو کا طالب علم نہیں۔ کہیں طالب علم ہیں مگر استاد نہیں۔ اردو کو زندہ رکھنے کے لیے اسے نچلی سطح سے مضبوط کرنا ہوگا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عام قاری اردو کے رسالوں، کتابوں سے دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ چیزیں صرف ادیب و شاعر کے مطالعے تک ہی محدود ہیں۔ وہی لکھتے بھی ہیں، پرچے خریدتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔ ’’نئی صدی‘‘ لندن کو چاہیے کہ اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کے بجائے اردو رسم الخط میں ہی لکھے اور پڑھے جانے پر زور دیں۔
(سہسرام شمیم فاروقی)
میں نے اپنے مضمون میں کسی کا نام نہیں لیا تھا کہ مغرب کے فلاں فلاں صاحبان یا اداروں نے اردو کا رسم الخط رومن کرنے کی مانگ کی ہے۔ لیکن میری اطلاع کے مطابق ایسا تقاضا کرنے والے وہاں موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں۔ اقبال مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ برطانیہ میں کسی فرد یا جماعت یا گروہ نے اردو رسم الخط کو رومن کر دینے کی بات نہیں کی۔ یقیناً ایسا ہوگا۔ میں کسی کا نام لے کر اسے رسوا نہیں کرنا چاہتا، لیکن ’’شب خون‘‘ کے اسی شمارے میں ایک نام موجود ہے۔ خیر، اگر یہ مانگ مغرب سے نہیں اٹھی ہے تو ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہے۔ لیکن خود اقبال مرزا صاحب کے مکتوب سے تو کچھ اور مترشح ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اقبال مرزا صاحب کے ارشادات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ اور دوسرے ذرائع کو استعمال کرنے والوں کی بدولت اردو کو رومن میں لکھنے کی ایک طاقتور لہر اٹھ چکی ہے اور یہ کہ اب اردو کا رسم الخط ’’کسی حدتک تبدیل ہی ہو چکا ہے۔‘‘ اگر ایسا ہے تو میرا یا کسی اور کا کچھ کہنا سننا بےکار ہے۔
اقبال مرزا صاحب کا خیال درست ہے کہ زبان میں بہت سی تبدیلیاں آرہی ہیں اور انہیں قبول کیا گیا ہے، اور ہر شخص زبان کو اپنے ماحول اور میراث کے اعتبار سے استعمال کرتا ہے۔ ان کی رائے میں برطانیہ (اور ہندوپاک) میں بچے بوڑھوں کا انٹرنیٹ پر رومن استعمال کرنا بھی اسی طرح کی تبدیلی ہے۔ اب وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ رسم الخط کی اس تبدیلی کو منضبط شکل دی جائے، یعنی اسے Regulate کیا جائے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ زبان میں جو تبدیلیاں اپنے آپ آتی ہیں انہیں کوئی Regulate نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے۔ اگر لوگ خود بخود کثیر تعداد میں رومن رسم الخط استعمال کر رہے ہیں (میرے خیال میں ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے) تو پھر انہیں کسی کے Regulate کرنے کی ضرورت نہیں۔ استعمال عام آہستہ آہستہ خود ہی طے کر دےگا کہ (مثلاً) غین یا ہمزہ یا طوے کے لیے رومن میں کیا علامت استعمال کی جائے اور ظاہر ہے کہ کوئی رسم الخط زبان کی تمام آوازوں کو تو بیان کر سکتا نہیں، (خود اردو کی مثال سامنے ی ہے) اس لیے رومن رسم خط بھی اپنے تمام نقائص اور عیوب کے ساتھ اردو میں رائج ہو جائےگا۔
اقبال مرزا صاحب کا خیال ہے کہ اگر رومن رسم الخط سے اردو کو تقویت ملتی ہے تو اسے اضافی طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس جملے کو یوں کر دیجیے، ’’اگر عربی رسم الخط سے انگریزی کو تقویت پہنچتی ہے تو اسے اضافی طور پر استعمال کرنے میں انگریزوں کا کچھ حرج نہیں۔‘‘ اب اس تجویز کو برطانوی پارلیمنٹ سے منظور کرا دیجیے۔ میں اردو کے لیے رومن اور دیوناگری کیا، قدیم یونانی اور فنیقی بھی رسم الخط اختیار کرنے کی حمایت دل و جان سے کروں گا۔
اقبال مرزا صاحب کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ وغیرہ پر رومن رسم الخط کا ایک سیلاب ہے جو اردو رسم خط کو بہائے لیے جارہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوپاک میں بھی ایسا ہی ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر رومن میں اردو وہی لوگ لکھتے ہیں جنہیں انگریزی ٹھیک سے نہیں آتی۔ اور ایسے لوگ صرف ہندوپاک ہی میں نہیں، بلکہ برطانیہ اور امریکہ و کناڈا میں بھی کثرت سے ہیں۔ میں درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جو سالہا سال سے ان ممالک میں رہ رہے ہیں۔ وہ کام چلانے کی بھر کی انگریزی بول تو لیتے ہیں لیکن لکھنے میں بہت ہی کچے ہیں۔ میں مغربی ممالک میں یونیورسٹیوں کے پروفیسروں، بینکوں کے عہدہ داروں اور کمپنیوں کے افسروں تک کو جانتا ہوں جو کام چلانے بھر کی انگریزی بولنے سے زیادہ نہیں جانتے، عام ہندوستانی پاکستانی کا تو سوال ہی کیا ہے۔ یہی لوگ انٹرنیٹ پر رومن اردو لکھتے ہیں۔ اقبال مرزا صاحب ان لوگوں کو انگریزی سکھادیں، اردو کے رسم خط کو رومن بنانے کی ضرورت ختم ہو جائےگی۔
یہ بات بالکل غلط ہے کہ اردو کا رسم الخط رومن کر دینے سے معاش کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اقبال مرزا صاحب نے وضاحت نہیں کی ہے کہ ہندوستان پاکستان، بلکہ خود مغرب میں ا ردو بولنے والوں کو کون سا معاشی فائدہ پہنچےگا، اگر وہ رومن رسم خط میں اردو لکھیں گے۔ اس سے انہیں انگریزی تو نہ آ جائےگی، نہ ہندی، نہ کوئی اور زبان۔
یہ بات بھی غلط ہے کہ اردو پڑھنے والے اب کم ہو رہے ہیں۔ یہ قول صرف ان لوگوں کاہے جن کے ا پنے بچے، پوتی پوتے، نواسی نواسے اردو نہیں پڑھتے۔ ورنہ اور جگہ تو تصویر کچھ اور ہی ہے۔ مثلاً شمیم فاروقی کا یہ کہنا درست ہے کہ بعض جگہوں پر اردو کی تعلیم کے انتظامات درست نہیں ہیں۔ یہ بات بھی ایک حد تک (صرف ایک حدتک) صحیح ہے کہ اردو تہذیب میں کتابیں اور رسالے خریدنے کا رواج کم ہے۔ یہ اتنا کم بھی نہیں جتنا اقبال مرزا صاحب یا شمیم فاروقی سمجھتے ہیں۔ پاکستان کا حال میرے خیال میں ا ردو کتابوں رسالوں کی کھپت کے بارے میں بہت اچھا ہے اور ہندوستان میں بھی پہلے سے بہت ہی بہتر ہے۔ پبلشر لوگ مصنف کو روپیہ نہ دینے کے لیے بہانے تراش لیتے ہوں گے کہ اردو کی کتاب فروخت نہیں ہوتی۔ میں پوچھتا ہوں کہ ہندوستان میں اگر اردو کتابوں رسالوں کی کھپت نہیں تو اتنی بہت سی کتابیں چھپ کیوں رہی ہیں؟ کتابوں کے لیے مان لیجیے کوئی ادارہ امداد دے دیتا ہوگا، لیکن رسالوں کو تو کوئی امداد نہیں دیتا۔
’’قسائی‘‘ کو درست کہنا اور اس کے لیے یہ دلیل لانا کہ اس کی اصل عربی لفظ ’’قساوت‘‘ ہے، کئی اعتبار سے غلط ہے۔ اول تو ’’قسائی‘‘ کو صحیح قرار دے کر اقبال مرزا صاحب اپنی ہی بات کی نفی کر رہے ہیں کہ زبان وہی ہے جو انسان اپنے معاشرے اور وراثت میں حاصل کرتا ہے۔ اب اگر اردو والوں نے ’’قسائی‘‘ کی جگہ ’’قصائی‘‘ کو رائج کر لیا اور وہی ان کے ماحول میں ہے تو مرزا صاحب معترض کیوں ہوتے ہیں؟ دوسری بات یہ کہ اگر ’’قسائی‘‘ کی اصل ’’قسا وت‘‘ بھی ہو تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اردو میں اس کا املا بدل نہیں سکتا، یا نہ بدلنا چاہیے۔ ’’شکویٰ‘‘ کا املا بدل کر ہم نے ’’شکوہ‘‘ کرلیا۔ ’’ذرہ‘‘ کا املا بدل کر ہم نے ’’ذرا‘‘ کر لیا، تو ’’قسائی‘‘ کا املا بدل کر ’’قصائی‘‘ کرنے میں کیا عیب؟ تیسری بات یہ کہ اگر یہ لفظ ’’قساوت‘‘ سے بنتا تو ’’قساوتی‘‘ ہوتا۔ جیسے ’’زیادت‘‘ سے ’’زیادتی‘‘، ’’شرارت‘‘ سے ’’شرارتی‘‘، ’’شکایت‘‘ سے ’’شکایتی‘‘ وغیرہ۔ ’’قساوت‘‘ سے ’’قسائی‘‘ بننے کا کوئی قرینہ یا طریقہ نہیں۔
برسبیل تذکرہ یہ بھی بتادوں کہ ’’املا نامہ‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کے مصنف نارنگ صاحب نہیں ہیں۔ اس ایڈیشن کی اشاعت کے پہلے ایک کارگاہ منعقد ہوئی تھی۔ اس کی صدارت میں نے کی تھی۔ گوپی چند نارنگ، نثار احمد فاروقی اور رشید حسن خاں اس کے اراکین تھے۔ ’’املانامہ‘‘ اول ایڈیشن پر جو استدراکات اور تبصرے ہوئے تھے اور مزید تجویزیں جو سامنے آئی تھیں، ان پر غور کرکے اور نئی باتوں کو دھیان میں رکھ کر مذکورہ کارگاہ نے سفارشات کیں۔ ’’املانامہ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن ان سفارشات پر مبنی ہے۔
میں نے ان علاقوں کا ذکر کیا تھا جہاں اردو کی ترقی کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں اور ہوئیں۔ شفق سوپوری صاحب کا نکتہ درست ہے کہ میں نے کشمیر کا نام نہیں لیا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کشمیر واحد ریاست ہے، اردو جہاں کی سرکاری زبان ہے۔ لیکن شفق صاحب کی اس بات میں بھی صداقت ہے کہ وہاں بہت سے بچے بوڑھے جوان اپنی رغبت سے کشمیری کے علاوہ اردو کو بھی اختیار کرتے ہیں۔ میرا مضمون جب کتابی شکل میں چھپےگا تو میں کشمیر کا اضافہ اپنی فہرست میں کر دوں گا۔
شمیم طارق صاحب کا یہ خیال صحیح نہیں کہ ’’ریختہ‘‘، ’’ہندی/ہندوی‘‘ ’’دکنی‘‘ ’’گجری‘‘ وغیرہ کی طرح ’’اردو‘‘ بھی ہماری زبان کے پرانے ناموں میں سے ایک نام ہے اور آہستہ آہستہ دوسرے نام ترک ہو گئے، صرف ’’اردو‘‘ باقی رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’اردو‘‘ بالکل نیا نام ہے۔ اٹھارویں صدی کے آخری بیس برسوں کے پہلے اس کا سراغ نہیں ملتا اور پہلا حتمی سراغ تو اور بھی بعد کا، یعنی گلکرسٹ کی کتاب میں ہے، جو ۱۷۹۶ میں چھپی۔۔ جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے، یہ پورا فقرہ تھا ’’زبان اردوے معلاے شاہجہاں آباد‘‘ اور اس سے شروع شروع میں فارسی مراد لیتے تھے۔ جب شاہ عالم نے دہلی میں قیام اختیار کیا (۱۷۷۲) تو آہستہ آہستہ ’’ہندی‘‘ کا چلن وہاں بڑھا اور اسے ہی ’’زبان اور اردوے معلاے شاہجہاں آباد‘‘ کہنے لگے۔ پھر کثرت استعمال سے ’’زبان اردوے معلیٰ‘‘، ’’زبان اردو‘‘، ’’اردو کی زبان‘‘ اور پھر صرف ’’اردو‘‘ رہ گیا۔ انیسویں صدی کی تیسری چوتھائی تک ’’ہندی‘‘ نام زیادہ مقبول تھا، پھر ’’اردو‘‘ مقبول تر ہوا۔ اس کے پیچھے انگریزوں کی حمایت بھی رہی ہوگی۔
شمیم طارق صاحب کو ’’اردو‘‘ بمعنی ’’دہلی شہر/شاہجہاں آباد کا شہر‘‘ کے لیے سند درکار ہے۔ پہلی سند تو خان آرزو کی ہے۔ پھر انشا نے جگہ جگہ لکھا ہے اور انیسویں صدی کے تمام اہم لغات اردو، مثلاً Shakespear, Duncan, Forbes, Fallon, Platts کے لغات ملاحظہ ہوں۔