اردو اور ہندوستانی تہذیب
بظاہر اردو اور ہندوستانی تہذیب کے موضوع پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ اردو ایک جدید ہندوستانی زبان ہے اور ہماری مشترک تہذیب کی ایک شاندار مظہر۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ کچھ حلقوں کی طرف سے ایسے خیالات ظاہر کئے گئے ہیں جن کا اثر اب بھی بہت ہے، اور اس وجہ سے آزاد ہندوستان میں ا ب بھی نہ تو اردو کی ہندوستانیت کو پوری طرح تسلیم کیا گیا ہے نہ وہ جس مشترک تہذیب کی نمائندہ ہے اس تہذیب کے سارے سرمائے کو اپنانے کا جذبہ عام ہے۔
اس کے ساتھ ملک کی آزادی کے ساتھ چونکہ اس کی تقسیم بھی عمل میں آئی، اس لیے اس تقسیم کی وجہ سے ہر مسئلے کو ایک محدود سیاسی نقطۂ نظر سے دیکھا جانے لگا اور اردو بھی اس محدود سیاسی نقطۂ نظر کا شکار ہوئی۔ اگرچہ آزادی کو اب ۳۷سال سے زیادہ ہونے کو آئے، مگر ابھی تک اس زبان کی تعلیم اور چلن میں رکاوٹیں ہیں۔ دستور نے اسے حقوق دیے ہیں، ان کی پاسداری ابھی بہت کم ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستانی ادبیات کو جو فروغ ہوا ہے، اس کی وجہ سے اردو ادب کی مقبولیت ضرور بڑھی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی منزل پر خاصی سہولتیں بھی ہیں۔ ساہتیہ اکاڈمی اور ریاستی اکیڈمیوں کے ذریعہ سے اردوادب کے سرمائے میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ فلموں اور مشاعروں کے ذریعہ سے اردو زبان اور اردو شاعری کی مقبولیت بھی پہلے سے زیادہ ہے مگر نہ تو ابتدائی منزل اورثانوی منزل پر اردو کے ذریعہ سے تعلیم کا انتظام ہے، نہ اردو پڑھانے کے لیے اساتذہ کی تربیت کا کماحقہ بندوبست ہے۔ نہ لسانی فارمولے کو دیانت سے چلایا گیا ہے۔ نہ ان ریاستوں میں جہاں ہندی سرکار ی زبان ہے، اردو کے جائز حقوق کی پاسداری ملتی ہے۔
بات یہ ہے کہ ہندوستانی جمہوریت، باوجود جواہر لال نہرو کی قیادت کے، اس احیا پرستی سے بلند نہیں ہو سکی ہے، جس کے نزدیک ہندوستان کے معنی صرف قدیم ہندوستان کے ہیں اور جس کا نعرہ ہندی، ہندو اور ہندوستان سے آگے نہیں جاتا۔ جمہوریت میں رائے عامہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ رائے عامہ کو اس انحراف سے بچایا جائے جس کا وہ سستی سیاست کی وجہ سے شکار ہورہی ہے۔
آزاد ہندوستان اور جمہوریت میں یقین رکھنے والاہندوستان، ہندوستان کی ساری تاریخ، اس کے سارے سرمائے، اس کی کثرت نما اوروحدت اساس تہذیب، کشمیر سے کنیا کماری اور گجرات سے گوہاٹی تک اس کی بساط رنگین اور اس کے سارے نقش اور آثار، اس کی زبانوں، اس کے کھیت اور کھلیان، اس کے صنعتی اداروں اور کارخانوں، اس کے پہاڑ، دریا، جنگل اور میدان، اس کے اونچے ابرو والے شہری اور اس کے بھولے بھالے عوام، اس کے پنڈت اور ودوان اور اس کے اَن پڑھ دیہاتی، سبھی کو اپناتا ہے، سب پر نظر رکھتا ہے اور اس کے دل کی دھڑکن میں سبھی کے دل کی دھڑکن شامل ہے۔ بقول غالب،
ہے رنگ لالہ وگل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سرپائے خم پہ چاہیے ہنگام مے کشی
روسو ے قبلہ وقت مناجات چاہیے
یعنی بحسب گردش پیمانہ ٔ صفات
عارف ہمیشہ مست مے ذات چاہیے
ذات اور صفات کے مفہوم کی اس توسیع پر نظر رہنی چاہیے۔
یہ بر صغیر جسے جنوبی ایشیا بھی کہتے ہیں در اصل تین تہذیبی دھاروں کا گہوارہ ہے۔ ایک جنوبی ایشیا کی تہذیب ہے جسے سہولت کے لیے دراوڑی تہذیب کا حامل کہہ سکتے ہیں۔ دوسری جنوبی مشرقی ایشیا کی تہذیب ہے جس کا سلسلہ بنگال سے ملایا اور انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے، اور تیسری وسط ایشیائی اور مغربی ایشیائی تہذیب ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ ہندوستانی تاریخ اور تہذیب ان تینوں عناصر کا مرکب ہے اور ہم ان میں سے کسی ایک کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کے اصلی باشندے سے پروٹونیگر وایڈ (Protonegroed) تھے، جن کے جانشین آج بھی انڈمان اور نکوبار میں ملتے ہیں۔ پھر دراوڑی تہذیب ملک پر چھا گئی اور اسے آریوں کی آمد نے وندھیاچل سے جنوب میں دھکیل دیا۔
سنیتی کمار چٹرجی نے کہا ہے کہ دراوڑی تہذیب کے اثرات آریاؤں کے غلبے کے باوجود اس تہذیب میں بکثرت دیکھے جاسکتے ہیں جو آریوں کے شمالی ہند میں پھیل جانے کے بعد وجود میں آئی۔ یعنی فاتح قبائل کے اثرات کے ساتھ مفتوح قبائل کے اثرات بھی اپنا کام کرتے رہے۔ ساتویں صدی میں اول اول عرب تاجروں کے ذریعہ سے اسلامی اثرات مالابار تک پہنچے اور مالابار کی زندگی پر غیر فانی نقوش بھی چھوڑے، مگر یہ اثرات پہلے سندھ اور پھر پنجاب پر زیادہ ہوئے۔ پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ مغربی ایشیا کے تہذیبی اثرات محمود غزنوی اور پھر غوریوں کے حملوں کے بعد زیادہ گہرے اور دیرپا ہوئے۔
وسط ایشیا تک بدھ مت پھیل چکا تھا اور اسلامی اثرات کے ساتھ بدھ مت کے اثرات بھی اس تہذیب میں مل گئے تھے جو مغل اورترک پھر ہندوستان لائے۔ کشمیر میں اثرات زیادہ واضح ہیں جہاں کی تعمیرات میں بدھ مذہب کے اثرات واضح ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ ترکی بولتے تھے، مگر ان کی ادبی زبان فارسی تھی۔ یہ واقعہ ہے کہ عربی اثرات براہ راست بہت کم ہندوستان آئے ہیں، یہ فارسی کے اثر سے زیادہ آئے ہیں۔ آج ہم جسے اسلامی تہذیب کے نام سے یاد کرتے ہیں، وہ دراصل بقول اقبالؔ ’’عرب کے سوزدروں اور عجم کے حسن طبیعت‘‘ کا دوسرا نام ہے، اور عجم میں ایران، توران اور ترکی سبھی آ جاتے ہیں۔
تہذیب پر مذہب کے اثرات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر ہر تہذیب جغرافیائی، تاریخی اور نفسیاتی عناصر کی حامل ہوتی ہے۔ ہندوستانی تہذیب شروع سے اس خصوصیت کی حامل رہی ہے کہ اس میں بیرونی اثرات برابر شامل رہے ہیں مگرجذب وانجذاب کے ایک عمل کی وجہ سے مقامی اور بیرونی دونوں نقوش نے ایک ملے جلے رنگ کی صورت اختیار کی ہے جو تمام اثرات کو ایک منفرد اور مخصوص رنگ سے ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے اسے مشترک تہذیب کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ہندوستان کو ایک جغرافیائی وحدت ہمالہ پہاڑ اور خلیج بنگال اور بحر عرب نے عطا کی ہے لیکن اس جغرافیائی وحدت کے ساتھ تاریخ نے اسے ایک رنگا رنگی، ایک بوقلمونی اور ایک گنگا جمنی کیفیت عطا کی ہے۔ سیاسی تبدیلیاں برابر ہوتی رہیں، مگر ہندوستان کادیہی نظام اپنے ڈھرے پر چلتا ہی رہا۔ اشوک کے زمانے میں گپتا دور اور اکبر کے عہد میں ملک کا بڑا حصہ ایک سیاسی طاقت کے زیر نگیں رہا۔ اس کے باوجود مختلف علاقوں میں تہذیبی جزیرے بھی رہے۔ انگریزوں کے اثر سے پھر ملک کو ایک سیاسی وحدت ملی اور آزادی کے بعد اس کا احساس بھی بڑھا، مگر ہندوستانی تہذیب میں کثرت کی رنگا رنگی اور اس کثرت میں ایک وحدت، دونوں پر اصرار ضرور ی ہے کیونکہ یہی اس تہذیب کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔
یوں تو نسل کی طرح کوئی تہذیب بھی بالکل خالص نہیں ہوتی، تاریخ کے موڑ اور اس کی کروٹیں، نئے میلانات اور رجحانات، نئی ٹیکنالوجی، ان سب کے اثرات پڑتے رہتے ہیں، پھر بھی جغرافیائی بساط، یعنی پہاڑوں، دریاؤں، میدانوں، دشت و صحرا، پہاڑوں کے دروں ان سب کے ذریعہ سے تہذیبی قدروں کی حد بندی ہوتی رہتی ہے۔ یہی جغرافیہ آب و ہوا، موسموں، جنگلوں ، لباس، اطوار، میلوں، تیوہاروں سب پر اثر ڈالتا ہے۔ مذاہب، عقائد، عبادت اور رسوم، سب تہذیب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے ہندوستانی تہذیب کے ہر تصور میں پورے ہندوستان کی تاریخ اور اس کی ہر کروٹ اور اس کروٹ کے نتائج کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
ہوا یہ ہے کہ نوآبادیاتی دور، یعنی انگریزوں کے اقتدار کے دور میں، انگریز مؤرخوں اور افسروں، اسکالروں اور مشنریوں کے ذریعہ، ہندوستانی تہذیب کا ایک رخا، ناقص اور سطحی تصور عام ہوا جسے بدقسمتی سے ہندوستانیوں نے بھی قبول کر لیا۔ سرسید جیسا عظیم انسان بھی مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک سے اتنا خیرہ ہوا کہ لندن سے خطوط میں اس نے انگلستان کی ایک معمولی خادمہ کو ہندوستان کی ایک بیگم سے زیادہ مہذب قرار دیا۔ ہمیں اس سے انکارنہیں کہ مغربی تہذیب کے عناصر نہایت ترقی یافتہ ہیں مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم مشرقی یا ہندوستانی تہذیب کو ادنیٰ درجے اور مشرقی تہذیب کو اعلیٰ درجے کا قرار دیں۔ بعض عناصر کی ترقی، بعض عناصر میں کمی بھی رکھتی ہے۔ اس لیے تہذیب کے مطالعے میں (Cultural Relativism) یا تہذیبی اضافیت کا نظریہ اب زیادہ صحت مند اور جامع نظر یہ کہا جاتا ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے یہاں احیا پرستی کی تحریک بہت زور شورسے ابھری ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۴۷ء میں جواہر لال نہرو نے تو یہ کہا تھا کہ ہم تقریباً دو سو سال کی غلامی سے آزاد ہوئے ہیں، مگر گووند بلبھ پنت وزیر اعلیٰ اترپردیش نے لکھنؤ میں یہ ارشاد کیاتھا کہ ہم ہزار سال کی غلامی سے آزاد ہوئے ہیں۔ تاریخ کے ساتھ یہ بہت بڑی ناانصافی تھی، مگر اس وقت اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی گئی۔ جواہر لال نہرو ملک کے وزیر اعظم تھے۔ پنت جی ایک ریاست کے وزیراعلیٰ۔ مگر اکثریت کو پنت جی کی بات زیادہ پسند تھی۔ ۱۹۶۲ء میں ہم لوگوں نے لال قلعے میں جشن بہادر شاہ ظفر منایا تھا جس کی صدارت جواہر لال نہرو نے کی تھی۔ انہوں نے دیوان عام میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کیا تھا کہ مغل ہمارے تھے اور اس طرح مغل تہذیب کی ہندوستانیت پر زور دیا تھا مگر پنڈت جی کی بات سن لی جاتی تھی۔
ہندوستان کے قدیم دور میں کئی زبانوں کا عروج ہوا۔ ان میں پالی اور سنسکرت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ بلکہ میں تو یہ بھی تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ قدیم ہندوستان کے افکار، ذہنی نشو و نما اور نظریات کو سمجھنے کے لیے سنسکرت کو کنجی سمجھنا چاہیے۔ اس بات سے علاقائی زبانوں کی اپنی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ اسی طرح وسطی دور کی کنجی فارسی ہے جو آریائی زبان ہے اور جس نے علاقائی زبانوں پر گہرے اثرات ڈالے۔ سنیتی کمار چٹرجی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت دہلی میں نہ ہوتی تو جدید ہندوستانی زبانیں تو پھر بھی ترقی کرتیں، مگر اس ترقی میں بہت دیر لگتی۔
بہرحال یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ کے وسطی دور میں ایک طرف فارسی سرکاری کا موں کے لیے استعمال ہوئی اور اس کا اثر زندگی کے تمام شعبوں پر پڑا، دوسرے اسی زمانے میں جدید ہندوستانی زبانیں بول چال کی زبان کی حد سے آگے بڑھ کر ادب پیدا کرنے لگیں۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جو فارسی ہندوستان میں پھلی پھولی وہ اگرچہ ایک خاص طبقے تک محدود رہی، یعنی علما، سرکاری کارکن اور اشراف مگر اس میں علمی، مذہبی، ادبی، تاریخی ہر قسم کا سرمایہ فراہم ہوا۔ یہ فارسی ایرانی فارسی سے مختلف تھی، اور بالآخر سبک ہندی کہلائی۔ وسط ایشیا، افغانستان اور برصغیر میں اس کا بہت فروغ ہوا اور ان سارے علاقوں میں لہجے کی مماثلت اسے ایرانی فارسی سے ممتاز کرتی ہے۔
جدید دور کی کنجی بلاشبہ انگریزی ہے۔ انگریزی کا اثر ہندوستان کی سبھی زبانوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ اثر خاصا ہمہ گیر ہے۔ اور اب تو یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ ہندوستان کی ایک زبان انگریزی یا انڈین انگلش بھی ہے جس میں نثر کے علاوہ شاعری کے بھی قابل قدر نمونے ملتے ہیں۔ انگریزی تہذیب نے ہندوستانی تہذیب کو بھی خاصا متاثر کیاہے اور دوسری ہندوستانی زبانوں کی طرح اردو زبان وادب پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے جس کی نشاندہی آگے چل کر کی جائےگی۔
تہذیب سے کیا مراد ہے؟ اور اس کے مطالعے میں کن عناصر پر توجہ ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے ہمیں تہذیب کی ایک جامع تعریف کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ڈاکٹر عابد حسین نے اپنی کتاب ’’قومی تہذیب کا مسئلہ‘‘ میں تہذیب کی یہ تعریف کی ہے،
’’تہذیب نام ہے اقدار کے ہم آہنگ شعور کا جو ایک انسانی جماعت رکھتی ہے۔ جسے وہ اپنے اجتماعی ادارات میں ایک معروضی شکل دیتی ہے، جسے افراد اپنے جذبات و رجحانات، اپنے سبھاؤ اور برتاؤ میں، اور ان اثرات میں ظاہر کرتے ہیں جو وہ مادی اشیا پر ڈالتے ہیں۔‘‘
اس تعریف کی وضاحت میں انہوں نے تہذیب کو مذہب اور تمدن سے ممیز کیا ہے۔ روح مذہب کو یعنی اس واردات کو جو ہم پر حیات و کائنات کی حقیقت اور اس کے مقصد کو منکشف کرتی ہے اور اس اعتبار سے اقدار کو سند قبول بخشتی ہے، اسے تہذیب کا حقیقی جوہر کہتے ہیں اور ساری تہذیب کو اس کا ظہور، لیکن جہاں مذہب اس ہیئت معروضی کے معنی میں آئے جس میں واردات حقیقت مشخص ہوتی ہے تو وہ مذہب کو تہذیب کا محض ایک جز سمجھتے ہیں۔ خواہ یہ کتنا ہی اہم جز کیوں نہ ہو۔ تمدن اور تہذیب اکثر ہم معنی سمجھے جاتے ہیں لیکن عابد حسین کے نزدیک تمدن تہذیب کے مادی پہلو کی ایک ترقی یافتہ حالت کا نام ہے۔ ان کے الفاظ میں اگر تمدنی زندگی کے تکلفات قوموں کو مذہب اور اخلاق سے بے پروا کر دیں یا انہیں اتنا آرام طلب بنادیں کہ وہ اپنی حفاظت کے قابل نہ رہیں تو تہذیب کو نئی زندگی بخشنے کے لیے ایک کھوکھلے اور فرسودہ تمدن کو مٹانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہندوستان ایک قدیم سماج ہے مگر یہ ایک نئی قوم ہے۔ قومیت کا یہ تصور مغرب سے آیا ہے۔ محبت وطن شروع سے رہی ہے اور انسان کی فطرت ہے، مگر ہندوستانی قومیت جدید دور کی پیداوار ہے اور ابھی یہ ساری زندگی کا دستورالعمل اور ہر دل کی دھڑکن نہیں بنی ہے۔ پھر ہندوستانی قومیت میں مختلف علاقوں کی قومیتیں اپنا اپنا تشخص بھی رکھتی ہیں، جنھیں ہم امتیازی خصوصیات کہہ سکتے ہیں۔ پھر بھی یہ ساری قومیتیں مل کر ہندوستانی قومیت اور اس کی تہذیب کی تکمیل کرتی ہیں۔ اس لیے ہندوستانی تہذیب کی کوئی جامع تعریف ہندوستان کے جلوہ صد رنگ، اس کی ہمہ گیری اور اس کے باوجود اس کی وحدت کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
ٹائلر (Tylor) نے ۱۸۷۱ء میں کہا تھا،
“Culture is that Complex, whole which includes knowledge, belief, art, morals, law, custom, and any other capabilities and habits acquired by man as a member of society.”
’’کلچر یا تہذیب وہ پیچیدہ کل ہے جس میں علم، عقیدہ، آرٹ، اخلاق، قانون، رسم و روا ج اور وہ تمام صلاحیتیں اور عادتیں شامل ہیں جو آدمی نے سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے اکتساب کی ہیں۔‘‘
اس تعریف کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسکالروں کے دواسکول ہو گئے۔ ایک نے کروبر (Krolber) کی قیادت میں کلچر یا تہذیب کے سانچوں کا نظریہ پیش کیا، دوسرے نے سماجی ساخت پر زیادہ زور دیا۔ کروبر کی کلچر کی تعریف یہ ہے،
“Culture consists of patterns, explicit or implicit, of and for, behavior acquired and transmitted by symbols, constituting the dissolutive achievements of human groups, including their embrodiments in artifact the essential come of culture consists of traditional (i,e, historically devised and selected) ideas and especially their attached values, culture systems, may on the hand, be considered as products of action, on the other as conditioning elements of further action, (Kroeber and Kluckhatony 1952)
’’تہذیب، سبھاؤ اور برتاؤ کے ان سانچوں سے عبارت ہے جو ظاہر یا پوشیدہ ہوں اور جو علامات کے ذریعہ سے حاصل کئے گئے ہوں یا دوسروں تک پہنچائے گئے ہوں، یہ علامات انسانی گروہوں کے مخصوص کارناموں پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان میں آرٹی فیکٹس (Artifacts) متشکل ہوتے ہیں، تہذیب کی روح روایت، (یعنی تاریخ کے عمل سے وجود میں آنے والے اور منتخب) افکار ہوتے ہیں، خصوصاً ان سے منسلک قدریں، تہذیب کے نظام ایک طرف عمل کی پیداوار کہے جا سکتے ہیں اور دوسری طرف عمل کو متاثر کرنے والے۔ تہذیب گویا ایک طور پر اکتسابی بیوہار ہے، مگر اس میں صرف بیوہار پر نہیں بیوہار کے معیاروں پر توجہ ہوتی ہے، جن میں ایک آیڈیالوجی سے اخذ کئے ہوئے سبھاؤ اور برتاؤ شامل ہیں۔ گویا تہذیب زندگی کے فن اور تفریح کے آداب سے عبارت ہے جس کے پیچھے کچھ سماجی قدریں ہیں۔ یہ قدریں کچھ تو آفاقی اخلاقی قدریں ہیں اور کچھ سماج کی ایک مخصوص منزل کی ضرورت کی آئینہ دار۔ اس لیے ا ب یہ مان لیا گیا ہے کہ کوئی تہذیب کسی دوسری تہذیب سے اعلیٰ یا اسفل نہیں ہوتی۔ ہاں بعض تہذیبوں میں آگے بڑھنے کی صلاحیت زیادہ ہو جاتی ہے۔‘‘
قدیم ہندوستانی تہذیب کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس نے Civilization (تمدن) پر زیادہ زور دیا۔ Progress (ترقی) پر کم۔ یہ تمدن مستی اندیشہ ہائے افلاک سے سروکار زیادہ رکھتا تھا۔ زمین کے ہنگاموں کو سہل کرنے کا عزم اس میں کم تھا۔ اسی لیے اسے ہماری تاریخ کے وسطی دور میں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے خون کی ضرورت ہوئی اور ایک عرصے کی کشمکش کے بعد اسے (Poles) یا وقار نصیب ہوا جو مغل دور کی خصوصیت ہے۔
اس تہذیب پر مذہب کا سایہ تھا مگر اس نے دنیا کے کاروبار شوق کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔ یا دوسرے الفاظ میں جینے کا سلیقہ سیکھ لیا تھا۔ اس کی فکر پر تصوف کا اثر تھا جو ہمہ اوست کے فلسفے کا مظہر تھا۔ اس میں صوفیوں کے ارشادات اور بھگتی تحریک کی تعلیمات کے اثرات نے ایک رواداری پیدا کر دی تھی جو مذہبی کٹّر پن سے گریز کرتا تھا، اور سچائی کا جلوہ ہر رنگ میں دیکھنے پر اصرار کرتا تھا۔ اس میں مذہبیت کے ساتھ رندی، عقیدے کی پختگی کے ساتھ برتاؤ میں وسیع الخیالی اور رواداری، شہریت کے لوازمات کے ساتھ فطرت سے قرب، دھرتی سے تعلق کے ساتھ ذہن کی آزاد پرواز، سبھی کچھ تھا۔
ظاہر ہے کہ وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے اثرات کی وجہ سے اس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے خون جگر کے نقوش جمیل زیادہ نمایاں تھے، اور فارسی کا اثر حاوی، مگر جیسا کہ پروفیسر مجیب نے اپنی کتاب ’’ہندوستانی مسلمان‘‘(Indian Muslims) میں کہا ہے، یہ امر قدرتی تھا، کیونکہ تخیل کو غذا چاہیے اور یہ غذا اسے فارسی ادب سے ملی۔
اردو زبان جدید ہندوستانی زبان ہے۔ یہ کھڑی بولی کا ادبی روپ ہے۔ کھڑی بولی کا علاقہ دہلی، میرٹھ اور روہیل کھنڈ ڈویژن پر مشتمل ہے۔ دھریندر ورما نے بھی یہ تسلیم کیا ہے ’’تاریخی نقطۂ نظر سے کھڑی بولی ہندی کی بہ نسبت۔۔۔ کھڑی بولی اردو کا چلن بہت پہلے ہونے لگا تھا۔‘‘ اردوکے قدیم ترین نمونے صوفیہ کے جستہ جستہ فقروں یا جملوں کے علاوہ صرف منظوم شکل میں ملتے ہیں۔ ان دستیاب نمونوں کی بحر عموماً ہندی ہے۔ ہندی کا مخصوص چھند دوہا ہے۔ ہندی کے مسلمان صوفی شعرا کے یہاں دوہا اور اور چوپائی بے حد مقبول چھند ہیں۔ اردو نظم کے قدیم ترین نمونے دوہے کی بحر میں ملتے ہیں۔ بابا فرید کا وہ کلام جو گرنتھ صاحب میں محفوظ ہے، دوہا چھند ہی میں ملتا ہے۔ امیر خسرو کی ہندوی یا ہندی شاعری کا پہلا مستند نمونہ دوہے کی شکل میں ملتا ہے۔ سوداؔ، حاتمؔ، انشاؔ، جرأتؔ، نظیرؔ سب کے یہاں دوہے ملتے ہیں۔
چوپائی کی بحر دکنی شعرا کے یہاں ملتی ہے۔ بعض دکنی شعرا نے غزلوں تک میں ہندی بحریں استعمال کی ہیں۔ ولیؔ سے پہلے دکنی ادب پر ہندی اور ہندو دیومالا کا گہرا اثرہے۔ سترہویں صدی میں دکن میں اردو کا خاصا ادبی سرمایہ ملتاہے، جس پر ہندوستانی مزاج کی چھاپ مسلم ہے، یہاں تک کہ قدیم اردو کے اس سرمایے کو تمام تر ہندی کہنے کا میلان ہندی والوں میں ملنے لگا ہے۔
ولیؔ سے ہمارے ادب میں عجمی لے شروع ہوئی، لیکن اس کے معنی مقامی رنگ کو ترک کرنے کے نہیں تھے۔ اس میں وہ ایشیائی عناصر جذب کرنے کے تھے جن سے زبان کو زیادہ تہہ داری، رنگینی او ر نفاست عطا کرنا مقصود تھا۔ ایسے دور، مغرب میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور روسی زبانوں پر بھی آئے ہیں۔ شمالی ہند میں اردو ادب اٹھارہویں صدی سے ملتا ہے اور جدید تحقیق کے مطابق نثر میں بھی ایسے کئی نمونے ہیں جن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج سے پہلے اردو نثر فارسی کے اثر سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔
ہمارے بعض نقادوں نے شمالی ہند میں صرف نو طرز مرصع کے اسلوب کو پیش نظر رکھا۔ حالانکہ قصہ مہرا فروز دلبر، تفسیر مرادیہ، موضح القرآن، نوآئین ہندی، رسم علی کی قصہ و احوال روہیلہ اور شاہ عالم ثانی کی عجائب القصص کچھ اور کہتی ہے۔ ان معلومات کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فورٹ ولیم کالج سے پہلے اردو نثر اپنا راستہ تلاش کر چکی تھی۔ اور جملوں کی ترکیب فارسی کے اثر سے آزاد ہو چکی تھی۔ تنقید و علمی نثر، تاریخی نثر، مذہبی نثر، افسانوی نثر سب کے نمونے سامنے آ چکے تھے۔
مولوی عبدالحق نے جب قواعد اردو لکھی تو ببانگ دہل کہا کہ ’’اُردو خالص ہندی زبان ہے۔ اس کی قواعد عربی کیوں ہونی چاہیے۔‘‘ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اردو کا عروض ہندی ہونا چاہیے، اور اس کے علاوہ اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ ’عربی کی مخصوص آوازیں ترک کرنے سے کوئی التباس نہ ہوگا۔ ‘ مسعود حسین خاں نے ان آوازوں کو مردہ لاشیں تک کہا ہے۔ فرہنگ آصفیہ کی لفظ شماری کے مطابق اردو کے چوّن ہزار الفاظ میں پچاس فی صدی ہندی الاصل اور ۱؍۴ ۲۳ فی صدی، ہندی اور فارسی کے میل سے بنے ہوئے الفاظ ہیں۔ اس طرح ہندوستانی الفاظ ۱؍۲ ۷۳ فی صدی ہوجاتے ہیں۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آج کی اردو زبان میں یہ تناسب تین چوتھائی سے زیادہ ہی ہے۔ کیونکہ آزادی کے بعد ہندی الفاظ کثرت سے لیے گئے ہیں۔
تہذیب کے دو تصورات میں فرق کرنا چاہیے۔ ایک تہذیب کا وہ تصور تھا جسے عام طور پر لکھنؤ اور دہلی کے شرفا کی تہذیب کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس پر بازار اور خانقاہ کے اثرات کے مقابلے میں دربار کے اثرات زیادہ تھے۔ اس کی زبان بھی خواص پسند (Elitist) تھی، مگریہ نہ بھولنا چاہیے کہ اس کا معیار بھی، دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیاں تھیں۔ جیسا کہ میرؔ نے کہا ہے۔ شاعری اورادبی نثر کا ادب بہر حال بول چال کی زبان کے مقابلے میں زیادہ حفظ مراتب رکھتا ہے، مگر جس طرح ادب کا ایک وسیع مفہوم ہے جس میں سارا سرمایۂ تحریر آجاتا ہے۔ اسی طرح تہذیب کے حقیقی مفہوم میں عوام وخواص سبھی کی تہذیب اور معاشرت، رہن سہن، شادی بیاہ کے مراسم، میلوں، تیوہاروں کے جشن، گیت، فنون لطیفہ، سبھی کچھ آجاتا ہے۔
اگر اردو ادب کے اس سارے سرمایے پر نظر رکھی جائے جو تحریر میں آیا ہے، اور جس کے ذریعہ سے زندگی کے سبھی پہلوؤں پر اظہار خیال ہوا ہے، تو اردو ادب کی ہندوستانیت اور مسلم ہوتی ہے۔ جعفر زٹلی کے کلام کو ثقہ حضرات نے فحش کہہ کر نظر انداز کردیا مگر اس کی تاریخی اور لسانی اہمیت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔ جعفر زٹلی ۱۷۱۳ء میں فوت ہوا۔ اس کے یہ اشعار دیکھئے،
گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
ڈر ے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
نہ یاروں میں رہی یاری نہ بھیّوں میں وفاداری
محبت اٹھ گئی ساری، عجب یہ دور آیا ہے
نہ بوئی راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
اتاری شرم کی لوئی، عجب یہ دور آیا ہے
اس کے یہاں بہت سے محاورات بھی استعمال ہوئے ہیں جس کی لاٹھی اس کی بھینس، دوبی (دھوبی) کا کتّا گھر کا نہ گھاٹ کا، دُبدھا میں دونوں گئے مایا ملی نہ رام، تتّے توے پر بوند، بھرے سمندر، کھوکھا ہاتھ کی مثال دی جا سکتی ہے۔
برکت اللہ عشقی (م۱۷۲۹ء) کی عوارف ہندی میں چوہتّر (۷۴) محاورے ملتے ہیں۔ شمس البیان مصطلحات ہندوستان میں بھی اس پہلو پر توجہ ہے۔ خان آرزو سے فارسی کے مقابلے میں ہندوستانیت کو سند مانا جانے لگا۔ ناجی نے کہا ہے،
بلندی سن کے ناجی ریختے کی
ہوا ہے پست شہرہ فارسی کا
سوداؔ فرماتے ہیں،
جو چاہے یہ کہ کہے ہند کا زباں داں شعر
تو بہتر اس کے لیے ریختے کا ہے آئیں
وگر نہ کہہ کے وہ کیوں شعر فارسی ناحق
ہمیشہ فارسی داں کا ہو موردِ نفریں
کوئی زبان ہو لازم ہے خوبی مضمون
زبانِ فرس پہ کچھ منحصر سخن تو نہیں
کہاں تک ان کی زباں کو درست بولےگا
زبان اپنی میں تو باندھ معنی رنگیں
مصحفیؔ نے کہا، ریختہ ہمارے زمانے میں فارسی کے اعلیٰ مرتبے کو پہنچ چکا ہے بلکہ اس سے بہتر ہو گیا ہے۔
اٹھارہویں صدی میں اردو میں تمام اصناف سخن ملنے لگتے ہیں اور نثر بھی اپنا راستہ پانے لگتی ہے۔ غزل، قصیدہ، مسمط، ترکیب بند، ترجیع بند، مثنوی، قطعہ، ر باعی، مستزاد، فرد، تو فارسی کے اثر سے آئے۔ ڈاکٹرگیان چند نے اپنے ایک مضمون ’’اردو نظم اور اس کے اصناف‘‘ میں جو اقبال انسٹی ٹیوٹ کے ایک سمینار کے لیے لکھا گیا اور عنقریب شائع ہونے والا ہے، قدیم اردو یعنی دکنی میں ان اصناف کا ذکر کیا ہے۔
عارفانہ گیت، چکری، حقیقت، سہلا، سی حرفی۔
سماجی نظمیں، آنکھ مچولی، سورن نامہ، ناری نامہ، لگن نامہ، شادی نامہ، سہاگن نامہ، چکّی نامہ۔
مذہبی، نورنامہ، میلاد نامہ، شمائل نامہ، معراج نامہ، وفات نامہ۔
متفرق، دولسانی ریختہ۔ منظوم لغت، معمّا، پہیلی۔
ان میں بہت سی شمالی ہند میں بھی ملتی ہیں۔
اردو کی دیگر اصناف، مرثیہ، شہادت نامہ، سلام، نوحہ، شہر آشوب، واسوخت، ریختی، ساقی نامہ، سہرا اس کے علاوہ ہیں۔ اردو میں گیتوں کی تعداد بہت ہے اور شروع سے ملتی ہے۔ اول تو لوک گیت ہیں۔ ان میں بچّے کی پیدائش کے موقع کے گیت، شادی کے گیت یا سہاگ، موسموں اور تیوہاروں کے گیت اور پیشہ وروں کے گیت سبھی آجاتے ہیں۔ قیصر جہا ں نے ’’اُردو گیت‘‘ میں اظہر علی فاروقی نے ’’اترپردیش کے لوک گیت‘‘ میں ان کی مثالیں دی ہیں۔
میرے وطن بدایوں میں رام گنگا کے کنارے گاؤں دیوریا میں جو بارہ ماسے گائے جاتے ہیں وہ کھڑی بولی کے اس اردو ادب کے آئینہ دار میں جس میں عربی فارسی اصوات کا لحاظ نہیں۔ ویسے بھی دیہات میں ان اصوات کو ادا کرنا خال خال ہی ملتا ہے۔ میں نے اپنے بچپن میں گھر کی عورتوں کو جو گیت گاتے سنا ہے ان میں سے چند کی نشان دہی سے یہ بات واضح ہو جائےگی کہ یہ لوک گیت ہیں۔ ان کے مصنف کاکسی کو علم نہیں مگر ان کی مقبولیت مسلم ہے۔ اب فلمی گیتوں کا رواج بھی ہو گیا ہے۔
ہُڑدنگی نند میرے پالے پڑی
سروتا کہاں بھول آئے پیارے نندویا
چڑھی کوٹھے گری آنگن، اُٹھالیتے تو کیا ہوتا
بالا لایاری کالی گاجرکا حلوا
نیم کو نمکولی پکّی، ساون بھی کبھی آوے گا
یوں تواردومیں واجد علی شاہ اور امانتؔ کے وقت سے گیتوں کی روایت ملتی ہے۔ مگر اس پر برج کی زبان کا اثر بہت نمایاں ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ کرشن بھگتی کی روایت کے اثر سے ایسے گیت بھی ملتے ہیں جو نعت یامنقبت میں ہیں اور یہ سلسلہ حسرتؔ موہانی تک چلتا ہے۔ مگر عظمت اللہ خاں کے بعد سے اردو میں ادبی گیتوں کا خاصا سرمایہ فراہم ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں قابل ذکر کارنامے اندر جیت شرما، ساغرؔ، حامد اللہ افسر، حفیظ جالندھری، میراجی، ناصر شہزاد، زبیر رضوی کے ہیں۔ ادھر کوئی اہم ادبی رسالہ ایسے گیتوں سے خالی نہیں ہوتا۔
اردو مثنویوں اور قصائد کی تشبیب میں ہماری ہندوستانی تہذیب کے ہر پہلو کی مصوری ملتی ہے۔ ہندو مذہب کی مقدس کتابوں، بودھ مذہب کی کتابوں، سکھ دھرم کی مقدس کتابوں کے تراجم کی فہرست ڈاکٹر محمد عزیز نے اپنی کتاب ’’اردو میں اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کا حصہ‘‘ میں دی ہے۔ حسرت موہانی نے لکھا ہے کہ بنواری لال شعلہ کی نظمیں مذہبی مواقع پر عرصے تک علی گڑھ اور آگرے میں پڑھی جاتی تھیں۔ نعتیہ قصائد کی تشبیب میں ہندوستانی فضا نہایت حسن کے ساتھ محسن کے مشہور نعتیہ قصیدے میں ملتی ہے۔ اس کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں،
سمتِ کاشی سے چلاجانب متھرابادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جَل
گھر میں اشنان کریں سروقدانِ گوکُل
جائے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول عمل
کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی
ہند کی ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل
ڈوبنے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے
نوجوانوں کا سنیچر ہے یہ بڑھوا منگل
نہ کھلا آٹھ پہر کو کبھی دو چار گھڑی
پندرہ روز ہوئے پانی کو منگل منگل
نظیرؔ اکبرآبادی کو میں نے ہندوستانی تہذیب کا عاشق کہا ہے۔ ان کی نظموں میں نہ صرف اس دور کی ساری تہذیبی زندگی کا عکس نظر آتا ہے بلکہ آدمی نامہ، ہنس نامہ اور بنجارہ نامہ جیسی نظموں میں اس تہذیب کی انسان دوستی، اخلاقی نقطہ نظر اور رواداری کا بھرپور عکس بھی۔ آدمی نامہ تو ایک طور پر انسان دوستی کی ایسی دستاویز ہے جو یورپی ہیومنزم کے چارٹر سے پہلے وجود میں آئی۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں مغربی اثرات تیزی سے یہاں گھر کرنے لگے۔ لیکن قدرت کے ایک عجوبے کے مطابق انیسویں صدی کے آغاز سے ہی ہندوستانی نشاۃ الثانیہ کی تحریک بھی شروع ہوئی جس کے نتیجہ میں اپنی بنیادوں، اپنی دھرتی، اپنی فضا اور ماحول، اپنی تاریخ اور تہذیب کا احساس بھی بڑھا۔
جدید اردو نظم نے حالیؔ اور آزادؔ کی قیادت میں ارضیت، واقعیت، وطنیت کا رنگ گہرا کیا۔ اسماعیل میرٹھی، شاد عظیم آبادی، اکبر، چکبست، وحیدالدین سلیم، صفی لکھنوی، سرور جہا ں آبادی، محروم، اقبالؔ، جوشؔ، ساغر، اختر شیرانی، فراق، ملّا اور پھر ترقی پسند شعرا نے اس ہندوستانی فضا اور تہذیب کی نقش گری کو آگے بڑھایا۔ اکبر کے یہاں تو مشرقی تہذیب اور اس پر مغربی اثرات کے ایسے نقوش ملتے ہیں جن کی وجہ سے اسے ایک تہذیبی ماخذ کہا جا سکتا ہے۔ جدیدیت کی رونے اگرچہ ترقی پسندی کی مقصدیت سے انحراف کیا مگر اس میں ہندوستانی تہذیب کی نقش گری اور بھی گہری ہوگئی۔ حال کی چند نظموں کے عنوان سے ہی یہ بات واضح ہو جائے گی جن کا ذکر مظفر حنفی نے اپنے مضمون اردو شاعری اور ہندوستانیت میں کیا ہے۔
اندھیری نگری۔ دسہرہ، ہولی، دیوالی، گنگا اشنان، مندر جانے والی۔ شاد عارفی
اماوس کا جادو، حرمت الاکرام۔
شگون، مخمور سعیدی۔
سرسوتی کنگال۔ اداس، مظہر امام۔
کال کوٹھری۔ گوتم کا خط، قصّہ طوطا مینا جدید۔ لچھمن ریکھا۔
ایک سہاگن جھولے پر۔ آم کاپیڑ مرے آنگن میں، بدیع الزماں خاور۔
ناچ رے نرتکی۔ روپ رہن، امر صہبائی۔
نیل کنٹھ۔ روح بولی پھر گوتم کی، راج نرائن رازؔ
دیوداس، صلاح الدین پرویز۔
تانترک نظم، کرشن موہن۔
گرد۔ آواگمن۔ گاؤں۔ تالاب رہٹ، عادل منصوری۔
کاگا، محمد علوی۔
میں گوتم نہیں ہوں، خلیل الرحمن اعظمی۔
یاتری۔ پریت آتما۔ شیام نگری۔ آکاش میں سیر۔ دوپرارتھنائیں، کمار پاشی۔
سنجوگ۔ مکتی، قاضی سلیم۔
اردو غزل کو فارسی غزل کا چربہ کہاجاتا ہے حالانکہ اس سے زیادہ گمراہ کن کوئی حقیقت نہ ہوگی۔ اگرچہ اردو شاعری کا زیادہ حصہ مثنوی، مرثیے اور دیگر اصناف میں ہے مگر غزل سب سے مقبول رہی ہے۔ یہ اشاروں کا آرٹ ہے۔ بقول فراقؔ ’’انتہاؤں کا سلسلہ‘‘ ہے۔ گنجینۂ معنی کا طلسم ہے۔ حدیث دلبری بھی ہے اور صحیفۂ کائنات بھی۔ اس میں صرف عبادت کی شاعری نہیں، زندگی کی خوشیوں اور نامرادیوں، فتح وشکست، ولولوں اور مایوسیوں، محبت اور نفرت، رشک، خدمت، وفا، جفا، رہبری اور رہزنی، ساحل وطوفاں، مرمر کر جینے اور جیتے جی مررہنے کی داستان بھی ہے۔ غزل ہماری ساری شاعری نہیں ہے، مگر یہ ہماری شاعری کا عطر ضرور ہے۔ صرف غزل پر نظر مرکوز رکھنا یا غزل کو ٹاٹ باہر قرار دینا، دونوں آداب سخن فہمی کے منافی ہیں۔
دنیا کی ہر شاعری میں مذہبی شاعری کا حصہ بہت نمایاں رہا ہے۔ مذہبی شاعری برابر ہوتی رہےگی۔ مگر جیسے جیسے زندگی سادگی سے پیچیدگی کی طرف نظر، تحیر سے تفکر کی طرف اور سماجی اکہرے پن سے تہ داری اور پہلو داری کی طرف بڑھے گی اور شہر زندگی کی رنگا رنگی کے مرکز بنتے جائیں گے، دنیوی شاعری کی لے بھی بڑھے گی۔ اردو شاعری شاید دوسری ہم عصر ہندوستانی زبانوں سے زیادہ دنیا اور امور دنیا یا تہذیب انسانی کے سارے اسرار و رموز کی ادا شناس ہے۔ اردو سماج نے ایک مجلسی زندگی پیدا کرلی تھی۔ نفاست اور شائستگی کے آداب سیکھ لیے تھے۔ یہ خلوت پسند نہ تھا۔ اس کا شہر فطرت سے کٹا ہوا نہ تھا۔
ڈاکٹر تارا چند نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اکبر کے زمانے میں ہندوستان کا ایک تہائی حصہ جنگل تھا اور ملک کی آبادی نو کروڑ تھی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے شہر آج کل کے شہروں کی طرح غدار اور ڈھنڈار نہ تھے۔ زندگی کی رفتار اتنی تیز نہ تھی۔ مذہبیت کے ساتھ رندی بھی تھی۔ گانو صدیوں سے ایک ڈھرے پر چل رہے تھے، اور آئے دن کی سیاسی تبدیلیوں کا عارضی اثر ہوتا تھا۔ مکتب اور پاٹ شالے ایک تعلیمی بنیاد کے ساتھ کچھ اخلاقی قدریں بھی رکھتے تھے۔ تو ہم پرستی تھی، کٹّر پن نہ تھا۔ اشراف عوام سے اتنے دور نہ تھے جتنے آج ہیں۔ دہلی اور لکھنؤ جیسے مرکزوں کے علاوہ اور بھی تہذیبی جزیرے وجود میں آ گئے تھے۔
شرر نے ’’گزشتہ لکھنؤ‘‘ میں بڑی خوبی سے اس تہذیب کے نقش و نگار اجاگر کئے ہیں جو لکھنؤ میں پروان چڑھی، اور جس کی وجہ سے شام اودھ کی شفق اور اس کی رنگینی جاوداں بن گئی ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے دیہات پر توجہ بجاہے اور دیہات سدھار کی مہم درست، مگر اس ہندوستانی تہذیب کو، جو اردو ادب اور غزل میں جلوہ گر ہوئی، جس کے پیچھے شہروں کی رنگینی، جذبات کی رنگا رنگی، جینے کی طرح داری، رسم ورواج، شادی بیاہ، میلوں اور تیوہاروں کی ہماہمی ہے، جس میں لذت کام ودہن بھی ہے اور روح کی چارہ گری بھی، جس میں زخم بھی لگتے ہیں اور مرہم بھی ملتا ہے، جس میں دل ٹوٹتے بھی ہیں اور پھر جوڑے بھی جاتے ہیں، مصنوعی، مستعار، محدود کہہ کر اس پر خندہ زن ہونا کسی طرح قرین انصاف نہیں۔
میرے استاد خواجہ منظور حسین نے ’’غزل کا روپ بہروپ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اردو غزل میں ستم گر، رقیب، قفس، آشیاں، موج، گرداب، طوفان، ساحل، زنجیر، زنداں کی اصطلاحات ایک سیاسی پس منظر رکھتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے داغ جیسے عشق پیشہ شعرا کے کلام سے اس کی بکثرت مثالیں دی ہیں۔ حالیؔ کے بعد سے تو جدید اردو غزل ہیں یہ لے اور بھی اونچی ہو گئی ہے۔ اور اقبالؔ کے یہاں اس کی بلندی واضح ہے۔
ہمارے نظم کے سرمائے اور داستانوں اور ناولوں میں ہماری مشترک تہذیب کے سارے پہلوؤں کی عکاسی مل جائے گی، مگر اس کی روح ہماری غزل میں ملےگی۔ یہ اس تہذیب کا عطر پیش کرتی ہے۔ اس کی میانہ روی، اس کا اعتدال، اس کی انسان دوستی، اس کا رجز اور اس کی شائستگی، اس کی درد مندی، اس کا درد وداغ اور سوز وساز، اس کی محبت اور اس کی ہوس، اور خاص طور سے اس کی NON CONFORNISM اور انسان دوستی۔ میرؔ کہتے ہیں،
اے آہوان کعبہ نہ اینڈوحرم کے گرد
کھاؤ کسی کا تیر کسی کے شکار ہو
ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ جھگڑا حشر تک شیخ و برہمن میں رہا
آہ تا چند رہے خانقہ ومسجد میں
ایک تو صبح گلستاں میں بھی شام کرو
مسجد ایسی بھری بھری کب تھی
میکدہ اِک جہاں ہے گویا
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا یہ مگر قابلِ دیدار نہ تھا
غالبؔ کے یہ اشعار دیکھئے،
دیر و حرم آئینہ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
ہم موحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
نہیں کچھ سبحہ وزنا کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ وبرہمن کی آزمائش ہے
تماشائے گلشن، تمنا ئے چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم
جب کہ تجھ بن کوئی نہیں موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
اقبالؔ یوں غزل سرا ہوتے ہیں،
اسی کو کب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
قصوروار، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشے نہ کر سکے آباد
متاعِ بے بہاہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن اپنا تو بن
فانیؔ کہتے ہیں،
ہے منع راہ عشق میں دیر و حرم کا ہوش
یعنی کہاں سے پاس ہے منزل کہاں سے ددر
تو کہاں ہے کہ تری راہ میں یہ کعبہ و دیر
نقش بن جاتے ہیں، منزل نہیں ہونے پاتے
حرم و دیر کی گلیوں میں پڑے پھرتے ہیں
بزم رنداں میں جو شامل نہیں ہونے پاتے
صدرالدین آزردہ کا ایک شعر ہے،
کامل اِس فرقۂ زہاد سے اٹھانہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
اقبالؔ سہیل کہتے ہیں،
پہنچی یہاں بھی شیخ و برہمن کی کشمکش
اب میکدہ بھی سیر کے قابل نہیں رہا
یگانہؔ کا مشہور شعر ہے،
بتوں کو دیکھ کے سب نے خدا کو پہچانا
خداکے گھر تو کوئی بندۂ خدا نہ گیا
اردو غزل، مذہبی جذبات سے زیادہ تصوف کے اثر سے اس صلح کل، وسیع المشرب، روادار دنیاداری کی امین ہے، جہاں کوئی کاروبار شوق مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اپنے ماحول اور قضا پر نظر رکھتی ہے۔ من کی صفائی اسے عزیز ہے مگر تن کے ہنگاموں پر بھی اس کی نظر ہے۔ یہ اپنی بساط پر منڈلائے ہوئے خطروں کو بھی دیکھ لیتی ہے، اور اپنی کائنات میں بصیرت بھی رکھتی ہے جو سماجی معنویت اور سیاسی شعور کی حامل ہے۔ وہ چاہیے کو بھی ملحوظ رکھتی ہے اور ہے سے بھی غافل نہیں ہے۔ یہ اشعار دیکھئے کیا کہتے ہیں،
یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محونالۂ جرس کارواں رہے
حالیؔ
قید کی حد میں بڑھالی ہم نے آزادی کی حد
یوں دیے جھٹکے کہ حلقے کھنچ گئے زنجیر کے
آرزوؔ
شب کو زنداں میں مرا سر پھوڑنااچھا ہوا
کچھ نہ کچھ توروشنی آنے لگی دیوار سے
ثاقبؔ
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ثاقبؔ
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
ثاقبؔ
اردو جس مشترک تہذیب کی وارث اور ترجمان ہے، وہ دیہات سے زیادہ شہروں کی متمدن، شائستہ، رنگین او ر آداب مجلس کی حامل زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ غزل اپنے رمز و ایما، اپنی اشارت، عبارت اور ادا کے ذریعہ سے اس زندگی کے نشیب و فراز، اس کی محرومی و سرشاری، اس کے دکھ درد اور اس کی تمناؤں اور آرزوؤں کی جس طرح عکاسی کرتی ہے، اس کی وجہ سے غزل کے اشعار، زندی کی ہر کروٹ، واقعات کے ہر موڑ، کام اور آرام کے ہر لمحے کو کسی نہ کسی علامت کے ذریعے معنی خیز بنا دیتے ہیں۔ اس لیے آج بھی غزل کے اشعار، تقریروں، تحریروں، پارلیمنٹ کے مباحثوں، سمیناروں کی نشستوں، کاروباری مجلسوں اور جلسوں، جلوسوں میں کسی لمحے کو جاوداں، کسی کرن کو سورج اورکسی واردات کو گنجینۂ معنی بنادیتے ہیں۔
آزادی کے بعددیہات کی طرف دیکھنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ یہ ضروری بھی تھا۔ شہری تہذیب اپنی خواص پسندی میں عوام سے کچھ دو ر ہو گئی تھی اوراپنے صاف ستھرے لباس پر مجمع کی ذراسی گرد گوار انہیں کرتی تھی، مگر یہ دیہات کی طرف میلان، نظر کو وسعت عطا کرنے کا میلان تھا۔ اس کے معنی دیہات کو واپسی کے نہیں تھے کیونکہ ساری دنیامیں دیہات سے شہر کی طرف جو میلان ہے اسے بدلانہیں جاسکتا۔ گھڑی کی سوئی کو واپس نہیں لایا جاسکتا۔
اردو ادب میں جس تہذیب کی جلوہ گری ہے اس کی شہریت اور مدنیت پر شرما نے کی ضرورت نہیں۔ اس میں آج کے غدار شہروں کی سی بیگانگی اور تنہائی کا احساس نہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے، راستے میں چلتے ہوئے اِدھر اُدھر نظر ڈالنے، ٹک دیکھ لیا دل شاد کیا خوش کام ہوئے اور چل نکلے کے مسلک پر کاربند رہنے کا سامان ہے۔ اس میں یارانِ سرپُل بھی مل جاتے ہیں اور مسجد کے زیر سایہ خرابات بھی۔ اس میں دلّی کے گلی کوچوں کے اوراقِ مصور، غزالان لکھنؤ اور کلکتے کے بتانِ خود آرا کی جھلک بھی ہے اور ان مجلسوں کی بھی جن کے متعلق شاعر نے کہا ہے،
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جاہی ڈھونڈھتا تری محفل میں رہ گیا
شمالی ہند کی برسات کی آمد صفیؔ کے اس شعر میں دیکھئے،
گھٹا اٹھی ہے کالی اور کالی ہوتی جاتی ہے
صراحی جو بھری جاتی ہے خالی ہوتی جاتی ہے
یا
برق کو ابر نے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے
فانیؔ
عجب عالم ہے موج برق کے پہلو میں بادل کا
تری الٹی ہوئی سی آستیں معلوم ہوتی ہے
فانیؔ
اور میرؔ کے اس شعر کو تو ہم میں سے بہت سے دہراتے رہتے ہیں،
چلتے ہو تو چمن کو چلیے، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں کم کم بادوباراں ہے
غزل ہماری تہذیب کی یہ تصویر یں بھی اپنے جام جہاں نما میں رکھتی ہے،
خط بڑھا، زلفیں بڑھیں، کاکل بڑھے، گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے
ذوقؔ
اگر نی کا ہے گماں، شک ہے ملا گیری کا
رنگ لایا ہے دوپٹا ترا میلا ہوکر
صباؔ
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
داغؔ
اور بازار سے لے آئے، اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
غالبؔ
ہم نے چاہا تھا کہ فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
نظیر اکبرآبادی
قریب ہے یار روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہےگی زبان خنجر لہو پکار ے گا آستیں کا
امیر مینائی
کہا جاتا ہے کہ اس شعر کو سید محمود نے اپنے ایک فیصلے میں عینی شہادت نہ ہونے کے باوجود ملزم کو سزا دیتے ہوئے لکھا تھا،
فصلِ گل آئی یا اجل آئی کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا، یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
فانیؔ
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
حسرتؔ
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیا نے میں
سوداؔ
آزادی کی تحریک کا عکس ان اشعار میں دیکھئے،
ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
فانیؔ
اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناوہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پر حور کی
غالبؔ
او ر موجودہ دور کا کرب ان اشعار میں ملاحظہ کیجئے،
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
مجروحؔ
جانے کس سمت چلوں، کون سی رہ مڑجاؤں
مجھ سے مت مل کہ زمانے کی ہوا ہوں میں بھی
مظہر امام
آگ کے شعلوں سے سارا شہر روشن ہو گیا
ہو مبارک آرزوے خار و خس پوری ہوئی
شہریارؔ
کچھ ادائیں ہیں جنہیں قتل عبث ہے منظور
کچھ سزائیں ہیں جو ملتی ہیں خطا سے پہلے
فانیؔ
ایک ہلکا سا اشارہ ریختی کی طرف بھی ضروری معلوم ہوتاہے جس میں ہماری تہذیب میں عورتوں کی زبان اور ان کے بعض جذبات کی بڑی پر لطف مصوری ملتی ہے۔ ریختی کو ایک خاص تہذیب کے راز درون پردہ سے تعبیر کرنا انصاف نہ ہوگا۔ اس میں جو زبان کی لطافت اور لہجے کی نرمی ملتی ہے، اس میں ایک طبقے کے ہندوستانی کردار کے بعض پہلو بے نقاب ہوئے ہیں،
اب میں وہ اوڑھنے کی نہیں کل کی اوڑھنی
باجی مجھے منگا دو جھلا جھل کی اوڑھنی
منگوائی گون سبز تھی، لے آئے بہن سرخ
قطامہ بنوں، پہنوں محرّم میں بہن سرخ
ذراگھر کو رنگیں کے تحقیق کرلو
یہاں سے ہے کے پیسے ڈولی کہارو
روٹیاں کون پکائے ترے سارے گھر کی
اے بوا کون نکلوائے پلیتھن اپنا
مت رکھ اس ننھی سی ہی جان میں واری روزہ
بندی رکھ لے گی ترے بدلے ہزاری روزہ
اے بوا میں نہ ہوئی حضرت شبیر کے ساتھ
خون پی لیتی موے شمر کا میں شیر کے ساتھ
ہوئی عشاق میں مشہور، یوسف ساجواں تاکا
بوا ہم عورتوں میں تھا بڑا دیدہ زلیخا کا
نظیرؔ اکبرآبادی تو ہماری تہذیب کے عاشق اور مفسر اور شارح اور ترجمان سبھی کچھ ہیں، مگر اس تہذیب کی جھلک انیسؔ کے مرثیوں میں بڑی دلکشی اور آن بان رکھتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے مرثیوں پر اعتراض کیاتھا کہ ان میں امام حسین کربلا کے مجاہد نہیں لکھنؤ کے دولھا نظر آتے ہیں۔ مگر شاعری تاریخ نہیں ہوتی۔ انیسؔ کے مرثیوں میں جو آب و تاب آئی ہے وہ ان کے کرداروں کی ہندوستانیت سے آئی ہے۔ چونکہ اس پہلو پر خاصی توجہ ہوچکی ہے اس لیے میں صرف اتنا کہہ کر آگے بڑھ جانا چاہتا ہوں کہ انیسؔ کے یہاں مناظر فطرت، صبح وشام کے مناظر، صحرا اور گلشن، گرمی کی شدت، بچوں، بچیوں کی تصویریں اور ان کے جذبات کی آئینہ داری، نند، بھاوج کے رشتے، نسوانی زبان سب میں لکھنؤ کی تہذیب کی وجہ سے جان آئی ہے اور ان کی تاثیر اور حسن میں گراں قدر اضافہ۔