افسانہ: سفرِ حج کا خواب سچا ہوگیا (پہلا حصہ)
ایک ایسے عاشقِ صادق کی کہانی جسے اپنے خدا سے ملاقات کی جلدی تھی۔۔۔۔حج ہے ہی زیارت کی پیاس بجھانے کا نام۔۔۔اپنے رب کے گھر کی زیارت۔۔۔!
اسے یوں لگا جیسے زمین نے اسے جکڑ لیا ہو ۔ اب اس کے لیے اپنے پیروں کو حرکت دینا ناممکن سا ہو گیا تھا ۔ رفتہ رفتہ اس کا شعور تاریکی میں ڈوبنے لگا۔۔۔!
وہ بھی کیا گھڑی ہو گی۔۔!
جب اللّٰہ کے پیارے گھر کی دلنشین جھلک یہ گناہگار آنکھیں دیکھیں گی۔۔۔اس لمحے جذبات کا کیا عالم ہوگا ۔۔۔دل کس زور سے دھڑکے گا ۔۔۔ جسم کی شریانوں میں خون دیوانہ وار گردش شروع کر دے گا ۔۔۔ سانسوں اور دھڑکنوں کا تال میل بے ربط ہونے لگے گا۔۔ رفتہ رفتہ حواس عقیدت کی مئے طہور نوش کر کے مست ہونے لگیں گے اور یہ گناہگار و روسیاہ بندہ آنکھوں میں رم جھم آنسوؤں کی برسات لیے والہانہ اپنے رب کے گھر کے گرد طواف کرنے لگے گا۔۔۔۔ لبوں پر لبیک کا نغمہ ہو گا اور ہر قدم می رقصم کی تصویر پیش کر رہا ہو گا ۔
ایک جھٹکے سے رکشہ رک گیا اور وہ تصورات کی دلفریب وادی سے حقیقتوں کی بستی میں لوٹ آیا ۔ مرید علی کے ساتھ پچھلے کئی دنوں سے یہی ہو رہا تھا ۔ درجہ چہارم کے ملازم کے طور پر محکمہ صحت میں اپنی ملازمت مکمل کر کے وہ حال ہی میں ریٹائرڈ ہوا تھا۔ جب سے اس کی گریجویٹی کا حساب کتاب چکتا ہوا تھا وہ ہر وقت حج کے روح پرور خیالات میں گم رہتا تھا ۔ وہ دونوں بیٹوں کی شادی کر چکا تھا اور دونوں اب اچھا کما کھا رہے تھے ۔ اس نے اپنی گریجویٹی کی رقم سے اپنے قرضہ جات ادا کر دیے تھے ۔ کچھ رقم گھر کی مرمت پر خرچ ہو گئی تھی ۔لے دے کر اب چھے سات لاکھ روپیہ باقی بچہ تھا جس سے اب وہ حج کا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ اس نے اپنے دیرینہ دوست حاجی وحید صاحب سے اس سلسلے میں مشورہ کیا جن کا بہت پرانا کریانہ سٹور تھا اور دو تین سال پہلے ہی انہوں نے حج کی سعادت حاصل کی تھی ۔ وحید صاحب نے اسی وقت موبائل فون نکالا اور ایک ٹریول ایجنٹ سے مرید علی کی بات کروا دی اور ساتھ ہی اسے کہہ دیا کہ ان کا پرانا دوست ہے ذرا پیار محبت والا معاملہ کرے ۔ ٹریول ایجنٹ نے بڑے پیار سے بات کی اور اسے اگلے روز مون مارکیٹ میں واقع اس کے دفتر میں آ کر ملنے کا کہا۔۔۔۔ اور اس وقت وہ اسی سلسلے میں مون مارکیٹ آیا تھا ۔
رکشے والے کو کرایہ ادا کرنے کے بعد وہ ایک خوبصورت عمارت کی طرف بڑھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹریول ایجنٹ کے روبرو اس کے آراستہ پیراستہ دفتر میں بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔ اس نے اسے جب حاجی صاحب کا حوالہ دیا تھا تو اس نے فوراً اسے پہچان لیا تھا ۔ اس نے بڑی عزت سے بٹھایا اور اس کے منع کرنے کے باوجود اس کے لیے چائے منگوا لی تھی ۔
" جی تو مرید صاحب ۔۔۔ حاجی صاحب کی سنائیں ٹھیک ٹھاک ہیں ؟" ٹریول ایجنٹ جس کا نام حمید چوہدری بتایا تھا حاجی صاحب نے، چائے کا سپ لے کر مرید علی سے مخاطب ہوا۔
" جی اللّٰہ کا شکر ہے ۔۔۔ آپ کو بہت سلام کہہ رہے تھے ۔۔۔ بڑی تعریف کرتے ہیں آپ کی " مرید علی نے مروتاً جواب دیا ۔ اس کے بعد حمید چوہدری کافی دیر حاجی صاحب اور اپنی پرانی یاد اللہ پر روشنی ڈالتا رہا ۔۔ مرید علی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ حمید چوہدری کافی باتونی واقع ہوا تھا ۔ اسے مقصد کی بات پر لانا کافی مشکل امر تھا ۔ اس نے حمید چوہدری کو ٹوکتے ہوئے کہا ۔
"جناب وہ حج کے حوالے سے ۔۔۔" ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ اس نے دوبارہ اس کی بات اچک لی۔
" واہ! کیا بات ہے جناب! ماشاءاللہ قسمت والے ہیں آپ کہ اس سعادت کے لیے استطاعت رکھتے ہیں اور شوق بھی ۔۔۔ ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ جن کے پاس لگن ہوتی ہے ان کو استطاعت نہیں ملتی اور جو صاحب استطاعت ہوتے ہیں وہ اس فریضے کا ذوق ، شوق اور ادراک نہیں رکھتے ۔۔۔"
اس کے بعد حمید چوہدری نے حج کے فضائل و مناقب بیان کرنا شروع کر دیے جو دس پندرہ منٹ جاری رہے۔ یہ تمام فضائل و برکات وہ پہلے ہی حج سے متعلقہ کئی کتب میں پڑھ چکا تھا ۔ مرید علی نے ایک بار پھر قطع کلامی کرتے ہوئے پوچھا ۔
" چوہدری صاحب! اس پہ اخراجات کیا آئیں گے؟"
" بس جی مرید صاحب جتنی بڑی یہ سعادت ہے اس کے لیے تو جان کی بازی لگانا بھی کوئی بڑی قیمت نہیں ۔۔۔"
اس کے بعد اس سعادت کے حوالے اس نے ایک لمبی تقریر کرنے کے بعد جب حج کے لیے پیکیجز بتانا شروع کیے تو مرید علی کو یہ جان کر حیرت اور دکھ کا ایک زوردار جھٹکا لگا ۔۔۔ حاجی صاحب نے جو اخراجات بتائے تھے ان کے پیشِ نظر اس نے جی ہی جی میں اندازہ لگایا تھا اگر انہوں نے پانچ لاکھ میں حج کر لیا تھا تو اس کا چھے سات لاکھ لگ جائے گا زیادہ سے زیادہ ۔۔ لیکن حمید چوہدری نے تو پیکجز بتانا ہی دس بارہ لاکھ سے شروع کیے تھے ۔
مرید علی کو لگا جیسے اچانک چار سو اندھیرا سا چھا گیا ہو ۔ دیارِ حرم حاضری کے برسوں کے خواب جو اس نے بڑے چاؤ ، بڑے پیار کے ساتھ اپنی آنکھوں میں سجائے تھے اسے کانچ کے محل کی طرح ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ اس کا دل مایوسی کے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔۔
مرید علی نے حمید چوہدری کا شکریہ ادا کیا اور اپنے لاغر وجود کو گھسیٹتا ہوا دفتر سے باہر لے آیا ۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی ٹانگوں میں چلنے کی سکت ہی نہیں رہی ۔ اس کا حال ایک لٹے پٹے مسافر کی طرح تھا۔ وہ دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترنے لگا۔ اس کے لیے قدم اٹھانا دشوار ہو گیا تھا ۔جب منزل پر پہنچنے کے اسباب ناپید ہوں اور راستہ بھی کٹھن ہو تو مسافر کے قدم لڑکھڑا ہی جایا کرتے ہیں ۔
وہ اس خوبصورت عمارت سے باہر آ گیا ۔اس کا جسم پسینے میں شرابور ہو رہا تھا ۔ سورج کی تیز روشنی اس کی آنکھوں میں جبھ رہی تھی ۔ اچانک اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور اسے اپنے قدم کئی من وزنی محسوس ہونے لگے ۔ اسے یوں لگا جیسے زمین نے اسے جکڑ لیا ہو ۔ اب اس کے لیے اپنے پیروں کو حرکت دینا ناممکن سا ہو گیا تھا ۔ رفتہ رفتہ اس کا شعور تاریکی میں ڈوبنے لگا۔۔۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔ دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں پر کلک کیجیے)