اردو افسانے کے تین دور

اردو افسانے کے ہر دور میں دیکھنے کے دوزاویے مسلم اور مقبول رہے ہیں۔ ان میں سے ایک زاویہ توارضی رجحان کا علم بردار ہے اوراس ‏کے تحت افسانہ نگار نے زندگی کے مظاہر کوبہت قریب سے دیکھا ہے۔ یوں کہ مظاہر کا کھردراپن سب سے پہلے اس کے شعور کی گرفت میں ‏آیا ہے۔ یہ انداز نظر گویا خوردبین کی مدد سے ماحول اور اس کے کرداروں کا جائزہ لینے کی ایک صورت ہے اور اسے بآسانی ‏SHORT ‎RANGE VIEWکا نام دیا جاسکتا ہے۔ ‏


دوسرا زاویہ نگاہ تخیلی رجحان کا داعی ہے اور اس کے زیراثر افسانہ نگار نے تخیل کی بلندی پر سے گردونواح پر ایک اچٹتی سی نظرڈالی ہے اور ‏یوں کسی خاص مقام یا نقطے پر اس کی نگاہیں مرتکز ہوکر رک نہیں گئیں بلکہ سارے کا احاطہ کرتی چلی گئی ہیں۔ یہ انداز دوربین کی مدد سے ‏ماحول کا جائزہ لینے کی ایک صورت ہے اوراگراسے ‏LONG RANGE VIEW‏ کا نام دیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے۔ ‏


اردوافسانے کے آغاز ہی میں دیکھنے کے یہ دونوں انداز رائج ہوگئے تھے تاہم پہلے دور میں تخیلی رجحان نسبتاً زیادہ قوی تھا اور اس کی وجہ یہ تھی ‏کہ اردو افسانہ داستان گوئی کی اس روایت سے منسلک تھا، جس میں تخیل کی پرواز کو تمام تر اہمیت حاصل تھی۔ بے شک روزمرہ کی زندگی ‏کونظرانداز کرنا داستان گو کا مسلک ہرگز نہیں تھا، اور یہ اس لیے کہ وہ خود ایک گوشت پوست کا انسان تھا اور ماحول کے ان مظاہر کی نفی ‏نہیں کرسکتا تھا، جواس کے چاروں جانب بکھرے پڑے تھے اوراس کے شعور پر ہر لحظہ اثر انداز ہورہے تھے۔ تاہم چونکہ سیکڑوں برس کے ‏تیاگ اور درویشی کے رجحانات نے بالائی سطح پر زمینی مظاہر سے کنارہ کش ہونے کے میلان کوابھار دیا تھا، اس لیے وہ اس میلان کا تتبع ‏کرنے پر مجبور تھا۔ ‏


چنانچہ داستان گو کے ہاں معاشرے کی عکاسی کا رجحان توموجود ہے تاہم یہ رجحان روایت کے قوی تر رجحان کے زیراثر ایک غیرارضی فضا کی ‏عکاسی کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اردوافسانہ نگار نے داستان گوئی کی اس روایت کے زیراثر تربیت حاصل کی تھی۔ لامحالہ اس نے ابتدا میں ‏تخلیلی انداز نظر کو اپنا لیا۔ چنانچہ سجادحیدر یلدرم، ل احمد، نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری اور بعض دوسرے افسانہ نگاروں کے ہاں حقیقت ‏نگاری کی بہ نسبت تخیل آفرینی کے رجحان نے زیادہ شدت حاصل کرلی اور انہوں نے افسانے کا جوپیکر تراشا اس میں ارضی مظاہر کے ساتھ ‏افسانہ نگار کا رابطہ کچھ مضبوط نہیں تھا۔ یہ سب افسانہ نگار ایک تخیلی فضا میں سانس لے رہے تھے اورمحبت کے افلاطونی نظریے کی عکاسی، ‏حسن کے غیرارضی تصور کی نقاب کشائی اورمظاہر پر ایک پھسلتی سی نظر دوڑانے کے عمل میں مبتلا تھے۔ شاید اسی لیے ان کے ہاں ‏کردارنگاری کا عمل ناپید ہے۔ ‏

انہوں نے ماحول کی ہر کروٹ یا رجحان کوایک علامتی مظہر سے واضح کیا ہے۔ چنانچہ اسی لیے کردار کے بجائے مثالی نمونے ‏‎(TYPE)‎کی ‏پیش کش تک خود کومحدود رکھا ہے۔ بعض اوقات تواعلیٰ انسانی قدروں مثلاً حسن، سچائی، محبت وغیرہ کو بھی علامتی مظاہرسے اجاگرکرنے ‏کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ نہیں کہ اس انداز نظر کے تحت ان افسانہ نگاروں نے فن کا کوئی اعلیٰ نمونہ پیش ہی نہیں کیا۔ اس کے برعکس ‏حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بعض معرکے کے افسانے لکھے ہیں جو اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں لیکن اکثر وبیشتر یہ انداز نظر کچھ زیادہ ہی ‏تخیلی اور افسانہ نگار کا ردعمل کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیا ہے اور نتیجتاً زندگی کی عام سطح سے افسانہ نگار کا مضبوط رابطہ قائم نہیں رہ سکا۔ ان ‏افسانہ نگاروں کے اسلوب میں بھی ایک ایسی جذباتی کیفیت ابھری ہے جو ذہنی پختگی کے موجودہ ایام میں کچھ زیادہ قابل قبول نہیں۔ ‏


اردو افسانے کے اس ابتدائی دور میں دوسرا انداز ِ نظر حقیقت پسندی کا رجحان تھا، جس کا اہم ترین علم بردار پریم چند ہے۔ پریم چند زمین کی ‏سوندھی سوندھی باس سے بہت قریب تھا۔ اس نے تخیل کی رفعتوں کے بجائے زندگی کے ارضی پہلوؤں اور سماج کی واضح کروٹوں کو اپنے ‏افسانوں کا موضوع بنایا۔ اسی لیے پریم چند کے ہاں پہلی باکردار کے نقوش پوری طرح ابھرے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ‏کہ ایک اخلاقی یا اصلاحی مسلک کے تحت پریم چند نے اپنے بیشتر کرداروں کی تشکیل میں ایک شعوری موڑ پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس ‏کے نتیجے میں اس کے ہاں کردار کا سراپا زخمی بھی ہوا تاہم کردار نگاری کی طرف پریم چند کا رجحان بڑی اہمیت کا حامل تھا اوراس کے تحت ‏اردو افسانہ تخیل محض کی فضا سے نکل کر زمینی فضا سے قریب تر ہونے میں یقینا ً کامیاب ہوا لیکن ایک خالص تخیلی رجحان کی طرح ایک ‏خالص ارضی رجحان بھی عظیم فن کی تخلیق کے لیے کچھ زیادہ سازگار نہیں۔ عظیم فن تو آسمان اور زمین، تخیل اور جذبے کے ربط باہم کی ‏پیداوار ہے۔ ‏

پریم چند اردوافسانے کے معماروں میں ایک بڑی امتیازی حیثیت کا حامل ہے اوراس نے حقیقت پسندی کے رجحان کو اختیار کرکے ‏اردوافسانے کی بڑی خدمت سرانجام دی ہے۔ اس سب کے باوصف اگراس کے ہاں اردوافسانہ دنیا کے عظیم افسانوی ادب کے معیار تک ‏نہیں پہنچا تواس کی وجہ محض یہ ہے کہ پریم چند نے زمین کی عکاسی میں تخیل کی لطافت اور سوچ کی روشنی کو پوری طرح شامل نہیں کیا ‏اوراس کے ہاں افسانہ قصہ گوئی سے اوپر اٹھ کر انکشاف ذات اور عرفان کائنات کے مدارج تک نہیں پہنچ پاتا۔ ‏


اردوافسانے کا دوسرا دور ۱۹۳۵ء کے لگ بھگ شروع ہوا اور تقسیم ملک کے واقعہ کو اس کی آخری حد قرار دینا مناسب ہے۔ بعض لوگوں کا ‏خیال ہے کہ ’انگارے‘ کی اشاعت سے قبل ہی اس نئے دور کے تمام نقوش واضح ہوچکے تھے۔ آزادی کی تحریک، مغربی ادب اور معاشرے ‏کے اثرات سے اس کی ابتدا ہوئی۔ حالانکہ اس سے قبل ۱۹۲۹ء کا اقتصادی بحران اوریورپ میں دوسری جنگ عظیم کی تیاری نے نئے دور ‏کے افسانے کے لیے زمین ہموار کردی تھی اورتخیل محض کی فضا سے افسانہ نگار کو باہر نکال کر بہت سے سماجی، سیاسی اور نفسیاتی ‏موضوعات سے قریب تر کردیا تھا۔ تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ اردوافسانے کے دور میں بھی دیکھنے کے وہ دونوں انداز برابرقائم رہے جو ‏پہلے دور کا طرۂ امتیاز تےس۔ البتہ اب ان میں سے تخیلی رجحان نے اپنی صورت اس طور بدلی کہ اس میں یوٹوپین ادب پیدا کرنے کی روش ‏ایک بڑی حد تک ختم ہوگئی۔ دوسرے اب تخیل محض کی فضا میں رہنے کے بجائے افسانہ نگار نے تخیل کو سماجی کروٹوں اور ارضی بندھنوں ‏کی پرکھ کے لیے ایک حربے کے طورپر استعمال کرنا شروع کردیا۔ ‏


گویا جہاں پہلے دور کے افسانہ نگار نے آسمانی رفعتوں کو اس طرح اپنایا تھا کہ زندگی کے ارضی پہلو ایک بڑی حد تک اس کی نگاہوں سے ‏اوجھل ہوگئے تھے، وہاں دوسرے دور کے افسانہ نگار نے زاویہ نگاہ تو وہی اختیار کیا یعنی بلندی پر سے ماحول کو دیکےنا کا زاویہ، تاہم اب اس ‏نے بلندی پر سے مزید بلندی کو دیکھنے کے بجائے اپنی نظریں جھکالیں اور زمین اورمعاشرے کی کروٹوں کو دیکھتا چلا گیا۔ یہ انداز نظراس دور ‏کے سب سے بڑے افسانہ نگار کرشن چندرؔ کے ہاں بہت نمایاں ہے۔ کرشن چندرؔ نے اپنے افسانوں میں زندگی سے براہ راست متصادم ‏ہونے اوراس کے ارضی پہلوؤں سے خودکو ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایک صاحب بصیرت تماشائی کی طرح اس نے ریل کی ‏کھڑکی، ہوٹل کی بالکنی یا پہاڑ کی چوٹی پر سے انبوہ اور سماج کی بیشتر کروٹوں پر ایک گہری نظر ڈالی ہے۔ ‏


دراصل انبوہ کا جزو بننے، زندگی کی چکی میں پسنے اور زندگی کے مسائل سے متصادم ہونے کی روش ایک بالکل جدا شے ہے کہ اس روش کے ‏تحت زندگی کے کھردرے پن کا ایک شدید احساس ابھرتا ہے۔ کرشن چندر مزاجاً اس انداز نظر کا علم بردار نہیں۔ وہ بنیادی طورپر تخیل پرست ‏ہے اور اگرچہ کرشن چندر کی یہ ایک بہت بڑی عطا ہے کہ اس نے تخیل محض کی فضا سے افسانے کو باہر نکالا اور تخیل سے اپنا رابطہ قائم ‏رکھتے ہوئے زندگی اور معاشرے کی کروٹوں پر ایک گہری نظر ڈالی، تاہم زندگی اوراس کے حقائق سے براہ راست متصادم ہونے کا انداز ‏کرشن چندر کے ہاں کچھ زیادہ ابھر نہیں سکا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کرشن چندرؔ نے نیچے بازار میں اتر کر دوسروں کے قدموں سے قدم ‏ملانے کے بجائے مکان کی کھڑکی میں سے بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ کو سنا۔ ‏

دوسرے کرشنؔ چندر کے ہاں کردار نگاری کا رجحان کچھ زیادہ توانا نہیں تھا۔ کردارنگاری کا عمل اس وقت وجود میں آتا ہے جب آپ چھت ‏سے اترکر سچ مچ کے کرداروں سے متصادم ہوتے اوران کی ابھری ہوئی نوکیلی ہڈیوں کواپنے جسم میں چبھتا ہوا محسوس کرتے ہیں لیکن ‏اگرآپ اپنے اوران کرداروں کے درمیان تخیل، رومان یا احساس برتری کی ایک چلمن آویزاں کردیں تویہ فاصلہ آپ کو کرداروں کے ‏بجائے بہت سے مثالی نمونوں کے وجودکا احساس دلائے گا۔ یہی کچھ کرشنؔ چندر کے ساتھ بھی ہوا۔ اس نے اپنے اورکلبلاتی ہوئی زندگی کے ‏مابین ایک قدم کا فاصلہ ضرور قائم رکھا اوریوں اپنے افسانوں میں کردار کے بجائے لالہ، کسان، چنگی محرر، پٹواری، سپاہی، آرٹسٹ، بھنگی ‏وغیرہ کے مثالی نمونے پیش کرتا چلا گیا۔ ‏


اس طریق کار کی بدولت کرشنؔ چندر کی افسانہ نگاری کو کچھ توفائدہ پہنچا اورکچھ نقصان۔ فائدہ یوں کہ معاشرے کی عکاسی کے دوران میں بھی ‏اس نے تخیل اور سوچ سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کیا (جیسا کہ حقیقت پسندی کے رجحان کے تحت عام طور سے ہوتا ہے ) اور یوں افسانے کو ‏سپاٹ پن سے بچا لیا۔ نقصان یوں کہ اس کی نظروں سے حقیقت کا کھردراپن ذرا اوجھل ہی رہا۔ نتیجتاً کرشن چندر کے ہاں تخیل اورحقیقت کا ‏وہ امتزاج پوری طرح وجود میں نہ آسکا جو ادب عالیہ کی تخلیق کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اس سب کے باوجود اردوافسانہ میں کرشنؔ چندر ‏کی عظمت سے انکار ناممکن ہے۔ ‏


افسانے کے دوسرے دور میں تخیلی رجحان کے ساتھ ساتھ ارضی رجحان کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی مزاج کی ایک اہم تبدیلی کا ‏احساس ہوتا ہے۔ پریم چندؔ کے دور میں حقیقت نگاری، سماجی مسائل کو کرداروں کی مدد سے پیش کرنے اورایک اصلاحی نقطہ نظر کو ہمہ ‏وقت ملحوظ رکھنے کی سعی کا نام تھا اور بس۔ لیکن افسانے کے دوسرے دور میں فن کار نے اس ارضی رجحان کے تحت زندگی کوپریم چندؔ کی بہ ‏نسبت زیادہ قریب سے دیکھا اور ہر قسم کے مقصد یا اصلاح کے تصور کو تج کر زندگی کی ہو بہو تصویر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اپنے اس ‏اقدام میں افسانہ نگار نے جذباتیت سے اپنا دامن چھڑا لیا اور ایک بے رحم تجزیاتی عمل کی مدد سے زندگی کے داغوں اور دھبوں کو ننگا ‏کرنے لگا۔ حقیقت نگاری کی اس روش نے دواہم صورتیں اختیار کیں۔ ایک وہ جس میں افسانہ نگار نے خودکوبالائی سطح تک محدود نہ رکھا ‏بلکہ غوطہ لگاکر کردار کے چھپے ہوئے پہلوؤں کی نشان دہی کی۔ اس کے علم برداروں میں بیدیؔ، منٹوؔ، عصمتؔ، احمدعلیؔ، اختر اورینوی اور ‏بعض دوسرے افسانہ نگاروں کا نام لیا جاسکتا ہے۔ دوسری روش کے سلسلے میں ممتاز مفتیؔ اور حسن عسکریؔ کا۔ ‏


جہاں تک زندگی کی بالائی سطح کو پیش کرنے کے عام رجحان کا تعلق ہے، اس دور کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا عمل اپنے عروج پر نظرآتا ‏ہے اورزندگی کے گھناؤنے پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ بیشک اصل کو بعینہ پیش کرنے کا یہ رجحان مستحسن ہے اور اسے فن کار کی دیانت اور ‏صاف گوئی کی ایک قابل قدرکاوش کا نام دیا جاسکتا ہے۔ تاہم فن کا تقاضا یہ ہے کہ ’’حقیقت‘‘ سپاٹ اور بے رنگ ہوکر لطافت اور رعنائی ‏سے محروم نہ ہوجائے لیکن جب حقیقت نگاری کوایک مقصد قرار دے کر فن کے تقاضوں سے منہ موڑ لیا جاتا ہے تویہ عمل بجائے خودایک ‏شعوری کاوش کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ اخترؔ اورینوی اور بعض دوسرے افسانہ نگاروں کواسی لیے ایک بڑی مشکل پیش آئی، جب وہ ‏ماحول کی عکاسی میں سپاٹ پن کی حد تک حقیقت نگار بن گئے۔ ‏


البتہ منٹوؔ نے حقیقت نگاری کی روش کے باوصف سپاٹ پن سے اپنا دامن بچائے رکھا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ منٹو نے اپنے لیے ایک ‏ایسا میدان منتخب کیا جوایک عام قاری کے لیے بے حد دلچسپ تھا۔ اس میدان میں جب منٹوؔ نے کردار کے جنسی پہلو کواجاگر کیا تواسے بے ‏حد کامیابی ہوئی اوراس کی آواز کو قطعاً منفرد قرار دے دیا گیا۔ تاہم اس بات کوعام طور سے فراموش کردیا گیا کہ منٹوؔ نے نہ صرف ایک ‏محدود سے میدان کواپنے لیے منتخب کیا تھا بلکہ زندگی کو بھی محض غسل خانے کے روزن سے دیکھا تھا۔ چنانچہ اسے زندگی کا صرف ایک ‏خاص پہلو ہی نظرآیا لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس خاص پہلو کی عکاسی میں منٹوؔ نے دیانت، خلوص اور گہری نظرکا ثبوت دیا۔ ‏


بہرکیف قاری کو منٹوؔ کے افسانے کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ تومحسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے نڈر اور بیباک شخص سے کہانی سن رہا ہے جس ‏نے بہت سے پردے نوچ کر الگ کردیے ہیں تاہم اسے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ شخص انکشاف وعرفان کے مراحل سے بھی آشنا ہے اور ‏زندگی کی مخفی کروٹوں کا نباض بھی ہے۔ ‏


اس دور میں حقیقت پسندی کی دوسری روش نفسیاتی مطالعہ کا رجحان تھا۔ کردار کے نفسیاتی مطالعہ کو حقیقت نگاری کے تحت شمار کرنے کی ‏وجہ جواز یہ ہے کہ جس طرح عام زندگی کے رخ سے تمام پردے الگ کرنے اور یوں داغوں اور دھبوں کو نظرکی گرفت میں لانے کا نام ‏حقیقت نگاری ہے، بعینہٖ کردار کے نفس لاشعور میں غوطہ لگاکراسی کے سراپا سے لپٹے ہوئے بہت سے نقابوں کو اتار پھینکنے کا اقدام بھی ‏حقیقت نگاری کے زمرے ہی میں آتا ہے۔ دراصل نفسیاتی مطالعہ میں بھی تجزیاتی طریق کار ہی اہمیت کا حامل ہے اور افسانہ نگار جب ‏کردار کے چھپے ہوئے پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے تو وہ بھی وہی کام سرانجام دیتا ہے جو زندگی کی عام سطح کی نقاب کشائی کے سلسلے میں سرانجام ‏پاتا تھا۔ اردوافسانے کے اس دوسرے دور میں کردار کے نفسیاتی مطالعہ کے بھی دو رجحان نمودار ہوئے۔ ان میں سے ایک رجحان توسپاٹ ‏پن کی حد تک حقیقت نگاری کا رجحان تھا۔ اس کا سب سے بڑا علم بردار حسن عسکریؔ تھا۔ ‏


حسن عسکریؔ نے کردار کی سوچ کا سہارا لے کر اور آزاد تلازمہ خیال کے طریق کار کو اختیار کرکے چند کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ پیش کیا لیکن ‏حقیقت نگاری کے مقصد کو سامنے رکھ کر افسانے کو ضرورت سے زیادہ سپاٹ اور بوجھل بنا دیا۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ کردار میں قاری کی ‏دلچسپی قائم نہ رہ سکی بلکہ افسانے سے جمالیاتی حظ کی تحصیل کے امکانات بھی کم ہوگئے۔ بے شک حسن عسکری نے اردو افسانے میں ایک ‏بالکل نئی روش اختیار کی اوراس لیے اسے اردو افسانے کے ارتقاء میں ایک خاص اہمیت بھی حاصل ہے، تاہم اس کے افسانوں میں فنی ‏لطافت اور رعنائی کی وہ کیفیت پوری طرح ابھرنہیں سکی جواعلیٰ فن کا طرۂ امتیاز ہے۔ نفسیاتی مطالعہ کے دوسرے رجحان کا علم بردار ممتاز ‏مفتیؔ ہے۔ ممتاز مفتیؔ نے نہ صرف کردار کے مخفی پہلوؤں کی بھرپور عکاسی کی اورزندگی کی بہت سی الجھنوں کو سطح پر لانے کی کوشش کی بلکہ ‏اس نے کردار کی تعمیر میں بھی نظر کی کشادگی اور رفعت کو ملحوظ رکھا۔ چنانچہ ممتاز مفتیؔ کے افسانوں میں کردار کے بے رحم تجزیے کا رجحان ‏توموجود ہے، تاہم اس کا یہ رجحان ’سپاٹ پن‘ کووجود میں لانے کا باعث نہیں بنا اوراسی لیے ممتاز مفتیؔ کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ‏قاری کی دلچسپی برابر قائم رہتی ہے۔ ‏


اردوافسانے کے اس دور میں خالص تخیلی یا خالص ارضی رجحان کے علاوہ ایک تیسرا رجحان بھی ابھرا جو دراصل ان دونوں کے خوشگوار ‏امتزاج کی ایک صورت تھی اور جو اردوافسانے کے پہلے دور میں موجود نہیں تھا۔ اس رجحان کے علم بردار وہ فن کار تھے جنہوں نے زمین پر ‏اترکر زندگی کو نہایت قریب سے دیکھا لیکن جن کے فن میں زندگی کی ارضی کیفیات ایک انوکھی لطافت سے ہم آہنگ ہوکر نمودار ہوئیں۔ ‏ان افسانہ نگاروں کے یہاں جذباتیت کے بجائے تحمل، مثالی نمونوں سے شناسائی کے بجائے زندہ کرداروں کا مطالعہ اورسپاٹ پن کے بجائے ‏ایک انوکھی نئی لطافت اور ملائمت کی روش ابھر آئی۔ ان افسانہ نگاروں میں سے دویعنی مسعودشاہدؔ اور شمس آغاؔ نے توافسانوں کا صرف ایک ‏ایک مجموعہ پیش کیا اورپھر ہمیشہ کے لیے چپ ہوگئے اورغلام عباس نے اردوافسانے کے تیسرے دور میں بھی تخلیق کا عمل جاری رکھا اور ‏آج اسے اردو کے ایک اہم افسانہ نگار کی حیثیت حاصل ہے۔ ‏


اردو افسانے کا تیسرا دور تقسیم ملک کے بعد شروع ہوا۔ تقسیم سے قبل آزادی کی تحریک نے فضا میں ایک عجیب سی بے قراری اور تحرک ‏کوجنم دے دیا تھا اورایک اونچے پلیٹ فارم سے انبوہ کومخاطب کرنے کا رجحان بہت عام ہوگیا تھا۔ چنانچہ جس طرح آزادی کی تحریک میں ‏ایک شعلہ بیان مقرر کی نظریں کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک امڈتے ہوئے انبوہ کا جائزہ لیتی تھیں، بعینہٖ اس دور کے افسانہ نگار نے بھی ‏عام طور سے فرد کے سراپا کے بجائے انبوہ کی کروٹوں کو نگاہ کا مرکز بنایا۔ کرشن چندرؔ اس دور کے اس مقبول عام طریق کا علم بردار تھا ‏اوراگرچہ کردارنگاری کا رجحان بھی اس دور کے افسانے میں موجود ہے، تاہم بحیثیت مجموعی اس پر کرشن چندرؔ کے فن کی چھاپ ہی ثبت ‏ہے۔ لیکن تقسیم کے بعدآزادی کی تگ ودو یک لخت ختم ہوگئی۔ ہجوم منتشر ہوگیا اور افسانہ نگار کی نظریں انبوہ کے بجائے فرد کواپنی گرفت ‏میں لینے کی طرف مائل ہونے لگیں۔ پھر تقسیم کے واقعے نے افرادکونقل مکانی پر مجبور کیا اورانہیں ایک زبردست انسانی المیہ سے دوچار ‏کرکے مثالی نمونے کے بجائے کردار کے پیکر میں ڈھال دیا۔ ‏


المیہ فرد کی شخصیت کو ابھار دیتا ہے اور وہ اپنے ماحول سے برسرپیکار ہوکر کردار کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ تقسیم ملک نے معاشرے ‏میں لاتعداد کردار ابھار دیے اور افسانہ نگار کی نظریں ان پر مرکوز ہونے لگیں، جس کے نتیجے میں کردارنگاری کی ایک بھرپور روش وجود ‏میں آگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے ارضی پہلوؤں کو قریب سے دیکھنے کا رجحان بھی عام ہوگیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس دور کا ‏افسانہ نگار چھت سے اترکرکمرے میں آگیا اور وہاں اجسام کی قربت سے بری طرح متاثر ہوا۔ اس ارضی رجحان کے علم برداروں میں راجندر ‏سنگھ بیدیؔ، عصمت چغتائیؔ، بلونت سنگھؔ، مرزا ادیبؔ، رام لعلؔ، منٹوؔ، اشفاقؔ، احمد، رحمن مذنبؔ، جیلانی بانوؔ، ہاجرہ مسرورؔ، خدیجہ مستورؔ، ‏مہندرناتھؔ، ستیش بتراؔ، صادق حسینؔ، قرۃ العین حیدرؔ، بلراج کوملؔ، یونس جاویدؔ، (یہ فہرست قطعاً نامکمل ہے ) کے نام خاص طورپر اہم ‏ہیں۔ ‏

ان میں سے بعض افسانہ نگاروں نے تو اردو افسانہ کے دوسرے دورہی میں نام پیدا کیا تھا لیکن تقسیم کے بعد بھی ان کی تخلیق کی رفتار ‏مدھم نہیں ہوئی اور انہوں نے کردار نگاری کے رجحان کوزندہ رکھا اور کردارنگاری کے سلسلے میں اس نئے دور کے افسانہ نگاروں میں مرزا ‏ادیبؔ، رام لعلؔ اور رحمنؔ مذنب کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ ان میں میرزاؔ ادیب نے اردوافسانے کو مائی پھاتاں ایسا جیتا جاگتا ‏کردار عطا کیا اوراس کے علاوہ بھی اپنے افسانوں میں متعدد جاندار کردار ابھارے لیکن میرزاؔ ادیب کے افسانوں کی اہمیت محض کردار نگاری ‏کے باعث نہیں۔ ان کے بعض شاہ کار افسانے بالخصوص ’زیرسنگ‘ اور ’درون تیرگی‘ تو جدید افسانے کے علامتی رنگ کے پیش رو بھی قرار ‏دیے جاسکتے ہیں اور مصنف کی گہری نظر اور فن کارانہ گرفت کے غماز ہیں۔ ‏

رام لعلؔ نے نہ صرف وسیع تر زندگی سے اپنے کردار منتخب کیے بلکہ کردار کا نفسیاتی مطالعہ کرتے ہوئے بھی خود کومحض چند پہلوؤں تک ‏محدودنہیں رکھا۔ رام لعلؔ نے اپنے افسانوں میں واقعات کا اہتمام اس طورپر کیا ہے کہ ہرکردار کا اہم ترین شخصی پہلو ابھرکر قاری کے ‏سامنے آگیا ہے۔ یوں رام لعلؔ متعدد کرداروں کے ایک ہی پہلو کی نقاب کشائی کرتا نظرنہیں آتا بلکہ ہرکردار کو پرکھتا اور اس کی ممتاز ترین ‏جہت کو نمایاں کرکے پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اوریہ بڑی بات ہے۔ دوسری طرف رحمنؔ مذنب نے اپنے لیے وہی میدان منتخب کیا ہے ‏جو منٹو کا تھا لیکن مضبوط گرفت نیز وسیع تر منظر کو ملحوظ رکھ کر اس خاص میدان میں منٹوؔ کی بہ نسبت بہتر فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ بظاہر یہ بات ‏کچھ عجیب سی نظرآتی ہے (اورمنٹوؔ پرستوں کی برہمی کا باعث بھی ہوسکتی ہے ) لیکن ان دونوں افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا تقابلی مطالعہ ‏کریں تو بات آئینہ ہوجائے گی۔ ‏


مثلاً منٹوؔ کی طرح رحمن مذنب نے بھی طوائف کے کردار کو پیش کیا ہے لیکن جہاں منٹوؔ کے یہاں طوائف اور عورت کا تصادم سطح تک ‏ابھرا ہوا ملتا ہے اورمنٹو نے اس تصادم کے ڈرامائی عناصر سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے جوایک نسبتاً آسان بات ہے، وہاں رحمن مذنب نے ‏طوائف کے کردار کو اس کی جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے اور ’تصادم‘ تک خودکو محدود نہیں رکھا۔ دوسرے لفظوں میں جہاں منٹوؔ کا آخری ‏قدم رکا ہے وہاں سے رحمنؔ مذنب نے اپنا پہلا قدم اٹھایا ہے اور ایک نسبتاً مشکل زمین میں تخلیق کے نقوش کواجاگر کیا ہے۔ ‏

اس کے علاوہ منٹوؔ کے یہاں لذت کوشی کا عنصر نمایاں ہے، جبکہ رحمنؔ مذنب نے طوائف کے تدریجی نزل کو نمایاں کرکے اس کے ‏گھناؤنے کردار سے کبھی نفر ت اورکبھی ترحم کے جذبات کوابھارا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ منٹوؔ نے زیادہ تر طوائف کے کردار کوپیش ‏نظررکھا ہے لیکن رحمنؔ مذنب نے اس سارے پس منظر کو اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ پیش کیا ہے جو طوائف کے کردار کا خالق بھی ‏ہے اوراس کی مخلوق بھی، اوریوں منٹو کے مقابلے میں مذنب نے ایک نسبتاً کشادہ کینوس پر اپنے فن کے نقوش کو ابھارا ہے۔ اس ضمن ‏میں رحمنؔ مذنب کے افسانوں بالخصوص حویلی، پتلی جان اور چڑھتا سورج کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ ‏


زندگی کی ارضی سطح اورزندہ وتوانا کرداروں سے ہم آہنگی کے ایک عام رجحان نے اردو افسانے کے نئے دور میں بڑی اہمیت حاصل کی ہے، ‏تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تخیلی رجحان اب ناپید ہوگیا ہے۔ بے شک تخیلی رجحان کی وہ صورت جو ل احمد اور دوسرے افسانہ نگاروں ‏سے مختص تھی یا کرشن چندرؔ کا وہ انداز جو افسانے کے دوسرے دور پر مسلط تھا، اب باقی نہیں رہا۔ ( نئے دور میں انورؔ اور اے حمیدؔ کوکرشن ؔ ‏چندر کے مقلدین میں شمار کرنا چاہئے۔ ) تاہم اس سے یہ مراد بھی نہںل کہ تخیلی رجحان قطعاً ختم ہوگیا ہے۔ نئے دور میں جاویدؔ جعفری کے ‏بعض افسانے اور خلیلؔ احمد کی تخلیقات کواسی رجحان کے تحت شمار کرنا چاہئے کہ ان میں تخیل آفرینی کا رجحان حقیقت نگاری کی بہ نسبت ‏زیادہ قوی ہے لیکن چونکہ اب حالات نے افسانہ نگار کو زندگی کی ارضی سطح سے قریب تر کر دیا ہے اور اسے قدم قدم پر مثالی نمونوں کے ‏بجائے سچ مچ کے کرداروں سے متصادم ہونا پڑا ہے، اس لیے تخیلی رجحان کے باوصف ان افسانہ نگاروں کے یہاں کردار نگاری کی روش ‏موجود ہے۔ ‏


دراصل نئے دور میں تخیلی رجحان اسلوب کے خاص لطیف پیکر اور پلاٹ کی ایک نیم رومانی کیفیت کے طورپر ابھرا ہے۔ اس میں مکانی بعد کا ‏وہ عالم موجود نہیں جو پہلے ادوار میں بہت مقبول تھا۔ جاوید جعفریؔ نے توصرف چند ایک افسانے ہی لکھے ہیں لیکن خلیلؔ احمد نے اس سلسلے ‏میں بعض معرکے کی چیزیں تخلیق کی ہیں۔ خلیلؔ احمد کے اسلوب میں ایک انوکھی دلکشی اور قوت ہے اور اس کے یہاں وہ کسک بھی ہے جو نہ ‏توابل کر رقت کی صورت اختیار کرتی ہے اورنہ مدھم ہوکر جذبے سے بے اعتنائی کی روش میں ڈھل جاتی ہے۔ نئے دور میں تخیلی رجحان ‏کی ایک اورصورت انتظارؔ حسین کی افسانہ نگاری ہے۔ لیکن انتظارؔ حسین نے خودکو زیادہ ترماضی کی نیم تاریک تخیلی فضا تک ہی محدود رکھا ‏ہے۔ نیز اس کے افسانوں میں بعض اوقات شعوری کاوش بھی صاف نظر آتی ہے۔ ‏


اردوافسانے کے نئے دور میں یوں توبہت سے افسانے لکھے گئے ہیں جوتخیلی اور ارضی رجحانات کے امتزاج کا خوبصورت نمونہ ہیں اوراس کی ‏وجہ غالباً یہ ہے کہ اب زندگی اور اس کی کروٹوں کوپرکھنے کے لیے ایک متوازن انداز نظر ابھرنے لگا ہے، تاہم اس نئے دور میں چندافسانہ ‏نگاروں کے ہاں یہ انداز کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں غلام عباسؔ کا نام اوپر آیا ہے۔ اس کے علاوہ احمدندیمؔ قاسمی اور غلام الثقلینؔ ‏نقوی کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔ ندیمؔ نے اردوافسانے کے دوسرے دور میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن دراصل اس کا فن تیسرے دورہی میں ‏نکھر کر سامنے آیا۔ احمدندیمؔ قاسمی زندگی کے ایک زیرک ناظر ہیں اور ان کا فن زندگی کے ارضی پہلوؤں کا ایک خوبصورت عکس پیش کرتا ہے ‏لیکن خوبی کی بات یہ ہے کہ ان کے یہاں تخیل کی لطافت، رفعت اور ملائمت بھی ہمہ جہت قائم رہتی ہے۔ دوسرا نام غلام الثقلینؔ نقوی کا ‏ہے۔ نقوی صاحب افسانے کے میدان میں نووارد ہیں لیکن ان کے افسانوں میں ابھی سے وہ توازن ابھرنے لگا ہے جو فن کار کوطویل ‏ریاضت کے بعدحاصل ہوتا ہے اور جو اعلیٰ فن کی تخلیق کے لیے ازبس ضروری ہے۔ ‏


پچھلے چندبرس میں اردوافسانہ ایک تجریدی رجحان سے بھی آشنا ہوا ہے۔ بے شک ایک حد تک یہ رجحان مغرب کے افسانوی ادب سے ‏مستعار ہے، تاہم اگر اب سے پہلے اس رجحان کو ہمارے یہاں پنپنے کا موقع نہیں مل سکا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سے پہلے وہ ماحول پیدا ‏ہی نہیں ہوا تھا جواسے قبول کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ مگرآج صورت حال بدل چکی ہے۔ افسانہ نگار گھٹن اورحبس سے ترساں ہے اور ‏زندگی پر نقدوتبصرے سے خائف۔ چنانچہ وہ کسی یوٹوپیا کے خدوخال کوبیان کرنے یا بڑی بے باکی سے گرد وپیش کی عکاسی کرنے کے بجائے ‏علامتی اور تجریدی رنگ اختیارکرنے پر مجبورہے تاکہ دل کی بات کا اظہار بھی ہوجائے اور ہر قسم کی گرفت سے وہ محفوظ بھی رہے۔ ایک ‏وجہ اور بھی ہے اور وہ ہے فن میں اشاراتی عنصر کی نمودا! یہ اشاراتی عنصر تمام اصناف ادب میں اہمیت حاصل کر رہا ہے اور اردو افسانے ‏نے بھی اسے اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔ ‏


دراصل تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ فردکی تیز نگاہی بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ اب وہ پلک جھپکنے میں بات کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے ‏اوراس لیے واشگاف انداز کا کچھ زیادہ دلدادہ نہیں رہا۔ تجریدی افسانے نے جدیددور کے آدمی کی اس طلب کو بھی ایک حد تک پورا کیا ہے۔ ‏آج کے اردوافسانے میں غلام الثقلینؔ نقوی، انورؔسجاد، رامؔ لعل، بلراجؔ مینرا، رشیدؔ احمد، شمسؔ نعمان اور متعدد دوسرے لکھنے والوں نے اس ‏رجحان کو وجود میں لانے کی پوری کوشش کی ہے۔