اردو ادب میں مہاتما گاندھی
ارسطو نے جہاں تاریخ اور شاعری کے فرق اور ان کی امتیازی خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے وہاں سب سے زیادہ زور اس حقیقت پر دیا ہے کہ تاریخ مخصوص واقعات اور مخصوص لوگوں سے بحث کرتی ہے، اس کے برعکس شاعری مخصوص لوگوں کو نظر انداز کرکے عمومی حیثیت کا انتخاب کر لیتی ہے جس سے اس میں ہمہ گیری اور آفاقیت کا انداز پیدا ہو جاتا ہے۔
ارسطو کی اس تقسیم میں مکمل صداقت نہیں ہے لیکن اس کا ایک اثر مشرقی ادب پر یہ پڑا کہ وہاں مخصوص واقعات اور افراد کا تذکرہ ادبی کارناموں کا جزو بہت کم بن سکا۔ ارسطوؔ کے تنقیدی خیالات کا اثر یونانی فلسفے کے اثر کے ساتھ ایرانی شاعری اور ادب پر پڑا اور وہاں سے ہوتا ہوا اردو ادب میں آ گیا۔ اس طرح یا تو مذہبی کردار پیدا ہوئے جن کا تذکرہ عقیدت کے اظہار کے لئے یا ثواب کے نقطۂ نظر سے ضروری تھا یا پھر تاریخی کردار بھی افسانوی یا عمومی حیثیت اختیار کرکے ادب و شعرمیں داخل ہوئے۔ تاریخ کے افراد فارسی کی بہت سی مثنویوں اور قصیدوں کے ہیرو بن کر سامنے آئے ہیں لیکن اس طرح کہ ان کے تاریخی کردار ان کے ادبی کردار سے مختلف معلوم ہونے لگتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کسی نہ کسی حد تک ایسا ہونا بھی چاہیے۔
شاعرانہ اور تاریخی انداز نظر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تاریخ حقیقتوں کا واقعاتی بیان ہے جو اسباب وعلل کے رشتے میں ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں، شاعری حقائق کا جذباتی اظہار ہے جس میں مثالی اور واقعی تصورات سموئے ہوئے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں تاریخی افراد کا شاعرانہ بیان بہت کم ہے۔ یہ خوبی ہو یا عیب لیکن ہے یہ ایک حقیقت۔ اس کے بجائے قدیم قصوں میں کسی زمانے میں کسی ملک میں کسی بادشاہ کا ذکر برابر ملےگا تاکہ قصے میں زیادہ سے زیادہ عمومیت پائی جائے۔ بعض اوقات اگر کوئی تاریخی واقعہ معلوم نہ ہو تو اس کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے اس کا پتہ بھی نہیں چل سکتا۔ مثلاً میر تقی میرؔ کے زمانے میں روہیلوں نے دہلی کو لوٹا اور مغل شہنشاہ شاہ عالم آفتاب کی آنکھیں نکالیں۔ میرؔ نے اس عبرت ناک منظر کا تذکرہ کیا لیکن اس طرح کہ اگر کوئی اس واقعہ سے واقف نہ ہو تو وہ محض ایک عام واقعہ سمجھ کر اثر لے سکےگا۔ کہتے ہیں،
شہاں، کہ کحل ِجواہر تھی خاکِ پاجن کی
انہیں کی آنکھوں میں پھرتے سلائیاں دیکھیں
اس تمہید سے یہی ظاہر کرنا مقصودہے کہ اردو ادب کی روایت ہی یہ رہی ہے کہ افراد کے تذکرے سے زیادہ ان کے کارنامے یا نصب العین کا ذکر عمومی حیثیت سے کیا جائے۔ اس لئے اردو ادب میں ہندوستان کے ان سیاسی رہنماؤں، اخلاقی معلموں، ادبی پیشواؤں کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے جنہیں تاریخ اپنے دامن میں شاندار جگہ دیتی ہے۔ ایک حیثیت سے یقیناً یہ وسیع النظری ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ضرور ہوا کہ ایک اہم پہلو جگہ نہ پا سکا۔
پھر بھی یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ مہاتما گاندھی کا ذکر پہلی ہی جنگ عظیم کے بعد سے بلکہ اس کے بھی پہلے سے اردو ادب میں ملنے لگتا ہے۔ مہاتما گاندھی کی شہرت کا آفتاب پہلی دفعہ جنوبی افریقہ میں چمکا۔ جنوبی افریقہ میں جو ہندوستانی تجارت یا مزدوری کرنے کے سلسلے میں مدتوں سے آباد ہو گئے تھے، وہ سخت مظالم کا شکار تھے۔ مہاتما گاندھی نے پہلی دفعہ ان میں خودداری اور آزادی کا جذبہ پیدا کیا، انہیں امن کے ذریعہ اپنی قسمت بدلنے کا سبق دیا اور پہلی دفعہ اپنے فلسفۂ عدم تشدد یعنی اہنسا کی آزمائش کی اس کارنامے نے مہاتماگاندھی کو جو اس وقت تک مسٹر موہن داس کرم چند گاندھی بار ایٹ لا کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، ہندوستانیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔
حق اور عزت کے لئے نئی طرح کی جدوجہد نے دنیا کی آنکھیں ان کی طرف پھیر دیں، ہندوستان کے اخباروں نے ان کی ہمت، جرأت صداقت اور قوت کو سراہا۔ خاص طور سے الہلال جس کی ادبی حیثیت بھی بلند تھی اور دوسرے اخباروں میں اس کا تذکرہ کیا گیا۔ چکبستؔ نے جو ہندوستانیوں کے جذبات قوم پروری اور حب الوطنی کو اپنی شاعری کے سانچے میں ڈھال رہے تھے، اپنی مشہور نظم فریاد قوم ۱۹۱۴ء میں لکھی۔ یہ نظم ایک رسالہ کی شکل میں شائع ہوئی جس پر مہاتما گاندھی کا نام بہ صورت ذیل زیب عنوان کیا گیا تھا۔
’’بہ خدمت فدائے قوم مسٹر کرم چند گاندھی۔
نثار ہے دل شاعر ترے قرینے پر۔
کیا ہے نام ترا نقش اس نگینے پر۔۔۔‘‘
چکبستؔ لکھنوی
یہ نظم چکبستؔ کی اعلیٰ نظموں میں شمار کی جاتی ہے گو اس میں سیاست کا وہی نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے جو عام طور سے ہندوستان کے لبرل پیش کرتے تھے، تاہم اس کی اہمیت یہ ہے کہ ہندوستانی ادب کی طرف سے یہ پہلا پرجوش خراج عقیدت ہے جو اس ابھرتے ہوئے آفتاب کی نذر کیا گیا۔ اس نظم کی ادبی حیثیت کے ساتھ اس کی اولیت بھی مسلم ہے۔
تین سال کے اندر جب ہندوستان میں خود قومی تحریک نے ’’ہوم رول‘‘ کے مطالبہ کی شکل میں نئی کروٹ لی، اس وقت گاندھی جی کی افریقی ستیہ گرہ کی تحریک یہاں کی سیاسی تنظیم کا سنگ بنیاد بن گئی اور قوم پرستی کے جرم میں گرفتار ہونا ایک قابل فخر کارنامہ سمجھا جانے لگا۔ چنانچہ چکبستؔ نے ۱۹۱۷ء میں وطن کا راگ گایا تو اس میں مسز اینی بسنٹ کی گرفتاری، نظر بندی اور رہائی کے پرجوش تذکرے کے ساتھ وطن پرستوں کو قیدوبند کی تکالیف خندہ پیشانی سے کہنے کی ترغیب دلائی اور مہاتما گاندھی کا نام لے کر خون کو گرمایا،
ہمارے واسطے زنجیروطوق گہنا ہے
وفا کے شوق میں گاندھی نے جس کو پہنا ہے
سمجھ لیا کہ ہمیں رنج و درد سہنا ہے
مگر زباں سے کہیں گے وہی جو کہنا ہے
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
پنھانے والے اگر بیڑیاں پنھائیں گے
خوشی سے قید کے گوشے کو ہم بسائیں گے
جو سنتری درزنداں کے سو بھی جائیں گے
یہ گیت گا کے انہیں نیند سے جگائیں گے
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
بہت سے مواقع پر گاندھی جی کا نام لئے بغیر ان کے مسلک، ان کے فلسفے اور ان کے نقطۂ نظر کی ترجمانی شعر و ادب میں ملتی ہے لیکن یہ وہی عمومیت پیدا کرنے کی کوشش ہے جس نے نام سے زیادہ ان کے کام کو اہمیت دی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ گاندھی جی کی شہرت کا مہر درخشاں حقیقتاً تحریک ترک موالات کے دوران میں نصف النہار پر پہنچا۔ اس سے پہلے ان کی شخصیت کی گہرائی اور بلندی کا احساس کم لوگوں کو ہوا تھا۔ مگر اکبر الہٰ آبادی نے اس وقت بھی ان کا ذکر مختلف شکلوں میں کیا ہے۔ لیکن جو زمانہ خاص گاندھی جی کی شہرت کا تھا اسی زمانے میں اکبرؔ کا انتقال ہو گیا ورنہ وہ ان کا تذکرہ بہت زیادہ کرتے۔
اس بات کو بھی نہ بھولنا چاہیے کہ اکبرؔ سرکاری ملازم تھے، اسی لئے کسی ایسی تحریک سے ان کی ہمدردی جو براہ راست حکومت برطانیہ کی جڑوں پر تیشہ زنی کرتی ہو، محدود اور سہمی سہمی سی ہو سکتی تھی، مغربی تہذیب سے ان کی نفرت نے اگر ایک طرف انہیں گاندھی جی کی اخلاقی طاقت اور خالص مشرقی انداز نظر کا معترف بنایا تو دوسری طرف ان کے دل میں اس تحریک کا طرز تذکرہ کرنے کا جذبہ بھی پیدا کیا جو بے سرد سامانی سے شروع کی جا رہی تھی اور جو انگریزی طاقت کے مقابلے میں انہیں بہ ظاہر کمزور اور معمولی سی چیز نظر آ رہی تھی ان کا یہ جذبہ کہ،
مدخولۂ گورنمنٹ اکبرؔ اگر نہ ہوتا
اس کو بھی آپ پاتے گاندھی کی گوپیوں میں
ان کے اظہار اعتراف کی غمازی کر رہا ہے۔ یہی نہیں کہ اکبرؔ نے سودیشی تحریک، ہندو مسلم اتحاد اور سیاسی آزادی کی جدوجہد کی تائید کی بلکہ مہاتما گاندھی کی شخصیت اور عظمت کے پیش نظر ایک مختصر سا منظوم رسالہ بھی گاندھی نامہ کے نام سے مرتب کیا جو ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا بلکہ تقریباً بیس سال بعد شائع ہوا ہے۔ اکبرؔ نے ۹؍ ستمبر ۱۹۲۱ء کو انتقال کیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رسا کہ انہوں نے ۱۹۲۱ء ہی میں مرتب کیا۔ اس مجموعہ کے مقدمہ نگار کا خیال ہے کہ یہ خود اکبرؔ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کے عنوان پر یہ شعر لکھا ہوا نظر آتا ہے،
انقلاب آیا نئی دنیا نیا ہنگامہ ہے
شاہ نامہ ہو چکا اب دور گاندھی نامہ ہے
اس کے شروع میں اکبرؔ نے ان لوگوں کی طرف سے معذرت پیش کی ہے جو اس تحریک میں کسی نہ کسی وجہ سے شریک نہ ہو سکے جو مہاتماگاندھی نے شروع کی تھی۔ اکبرؔ مزاح نگار اور طنزگو ہیں، اس لئے کبھی کبھی سیدھی سادی بات بھی انوکھے طریقے پر پیش کرتے ہیں اور ان کا مافی الضمیر واضح نہیں ہوتا۔ کہیں ترک موالات میں خود شامل نہ ہو سکنے کا رنج ہے کہیں اس کے بعض پہلوؤں کا مذاق اڑایا گیا ہے لیکن ہے یہ کہ گاندھی جی کی شخصیت کی بلندی اور عظمت کا انہیں احساس ہے اور ان کے فلسفہ عدم تشدد کی اخلاقی قدر وقیمت کو سراہتے ہیں،
لشکر گاندھی کو ہتھیاروں کی کچھ حاجت نہیں
ہاں مگر بے انتہا صبر و قناعت چاہیے
یہ سچ ہے کہ ہندوستان کے ادیبوں اور شاعروں میں سے کسی نے بھی گاندھی جی کو شروع میں اچھی طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ کچھ لوگوں کی جذباتی وابستگی دوسری بات ہے لیکن شخصیت کا سمجھنا بالکل اور بات ہے۔ چنانچہ جب ۱۹۲۲ء میں فرانس کے زندہ جاوید مصنف رومان رولان نے گاندھی جی پر اپنی کتاب لکھی۔ کسی ہندوستانی ادیب نے اس وقت تک ان کے فلسفہ سیاست پر اچھی طرح غور بھی نہیں کیا تھا لیکن اس کے باوجود کچھ نہ کچھ مواد اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اقبال مہاتما گاندھی کے فلسفۂ سیاست سے متفق نہ تھے۔ لیکن ان کے یہاں بھی گاندھی جی کے متعلق مختلف اشعار ملتے ہیں۔ فارسی اشعار سے قطر نظر ان کی یہ نظم قابل غور ہے،
گاندھی سے ایک روز یہ کہتے تھے مالوی
کمزور کی کمند ہے دنیا میں نارسا
نازک یہ سلطنت صفت برگ گل نہیں
لے جائے گلستاں سے اڑا کر جسے صبا
پس کر ملےگا گرد رہ روزگار میں
دانا جو آسیا سے ہوا قوت آزما
بولا یہ بات سن کے کمال وقار سے
وہ مرد پختہ کار وحق اندیش و باصفا
خارا حریف سعی ضعیفان نمی شود
صدکوچہ است دربن دندان خلال رہا
یہ نظم اقبالؔ کے ابتدائی مجموعہ کلیات اقبال میں ہے او ر اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اقبال نہ صرف گاندھی جی کو ’’مرد پختہ کار وحق اندیش و باصفا‘‘ سمجھتے تھے بلکہ ان کی تحریک عدم تعاون کے موافق بھی تھے۔ ایک جگہ اور اقبالؔ نے مہاتما گاندھی کے لئے ’’مرد میدان گاندھی درویش خو‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہ وہی اقبالؔ ہیں جو بعد میں بہت بدل گئے تھے اور گو ہندوستان سے محبت رکھتے تھے لیکن ہندوستان کی تحریک آزادی کے متعلق ان کے خیالات بہت کچھ بحث طلب ہیں۔ جب گاندھی جی نے اچھوت اُدّھار کے لئے برت رکھا اور اس کی اصلاح کے متعلق لوگوں کے یقین دلانے پر توڑا تو بھی بہت سی اونچی ذات کے ہندوؤں پر اثر نہ ہوا۔ اقبال اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں اگرچہ اس میں گہرا طنز بھی ہے،
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بےبنیاد
اردو کے مشہور ادیب، شاعر اور طنزنگار ظفرؔ علی خاں مدیر زمیندار کا بھی یہی حال رہا۔ شروع میں وہ گاندھی جی کے گوپیوں میں تھے بعدمیں فرقہ وارانہ سیاست کی آندھی انہیں بھی اڑا لے گئی۔ وہ بھی مذہبی سیاست کی راہ سے ہندوستان کی جنگ آزادی میں شامل ہوئے تھے۔ ہندوستانی سیاست جنتی جمہوری ہوتی گئی اسی قدر ظفر علی خاں کے سے لوگ اس سے دور ہوتے گئے۔ ۱۹۳۰ء تک انہوں نے بہت سی نظمیں گاندھی جی کے متعلق لکھیں۔ مثلاً بردولی ستیہ گرہ کو پیش نظر رکھ کر دو نظمیں ہیں۔ پہلی نظم کا نام ہے ’’گاندھی (بردولی سے پہلے)‘‘ اور دوسری نظم کا نام ہے ’’گاندھی (بردولی کے بعد)‘‘ بعض اشعار ملاحظہ ہوں،
گاندھی نے آج جنگ کا اعلان کر دیا
باطل سے حق کو دست وگریباں کر دیا
ہندوستان میں ایک نئی روح پھونک کر
آزادیٔ حیات کا سامان کر دیا
شیخ اور برہمن میں بڑھایا وہ اتحاد
گویا انہیں دو قالب و یکجاں کر دیا
اوراق جبر وجور وجفا کو بکھیر کر
شیرازہ سلطنت کا پریشاں کر دیا
پروردگار نے کہ وہ ہے منزلت شناس
گاندھی کو بھی یہ مرتبہ پہچان کر دیا
اور پھر دوسری نظم میں،
گاندھی کے اس بسائے ہوئے گھر کو آہ آہ
دستِ فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
خود اس فدائے قوم کو چھ سال کے لئے
سرکار ذی وقارکا مہمان کر دیا
قسمت نے ڈال کر اسے قید فرنگ میں
ہندوستان کے جسم کو بے جان کر دیا
جاتے ہیں اس کے ملک کی صورت بدل گئی
انسان نے اپنے آپ کو حیوان کر دیا
آخری شعر میں ان فرقہ وارانہ مناقشات کی طرف بھی اشارہ ہے جو فرنگی سیاست کے آفریدہ تھے۔ ظفرؔ علی خاں نے بہت سی نظموں میں گاندھی جی کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک نظم میں جس کا عنوان ہے ’’پیٹل کا پیغام‘‘ یہ شعر ملتا ہے،
پھیلتی جاتی ہے گاندھی کی لگائی ہوئی آگ
کوئی ارون سے یہ کہہ دو کہ نہ اس آگ سے کھیل
اور ایک نظم میں تو خود مہاتما گاندھی کی زبان سے ان کے فلسفہ عدم تشدد اور مقاومتِ مجہول کی تشریح کرائی ہے۔ نظم کا عنوان ہی ہے ’’مہاتما گاندھی کا ترانہ۔‘‘،
کبھی اپنی آتما سے نہ میں دشمنی کروں گا
نہ بسوں گا جاکے بن میں نہ میں خود کشی کروں گا
یہ فرنگیوں سے کہہ دوکہ میں ہوں دھرم کی مورت
جو کریں گے وہ عداوت تو میں آشتی کروں گا
ہے مرا دھرم اہنسا، ہے اسی میں سب کی مکتی
مرے پاس ہے جو ہنڈی اسے درشنی کروں گا
کوئی دن میں سبز ہوگا وہ چمن جو جل رہا ہے
میں ان اپنے آنسوؤں سے وہ فسوں گری کروں گا
ظفر علی خاں کے علاوہ اور شعراء کے یہاں بھی اشعار اور نظمیں ملتی ہیں جن میں مہاتما گاندھی کی شخصیت، حب الوطنی، رہنمائی اور ان کے نقطۂ نظر کا ذکر آتا ہے۔ گو ان نظموں کو بہت اعلیٰ پایہ کی شاعری میں شمار نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کی شخصیت پر ضرور روشنی پڑتی ہے۔ صفیؔ، سیمابؔ، حسرتؔ، ساغرؔ، جوشؔ وغیرہ اس عظیم المرتبت انسان کی ذات اور اس کی فرشتہ خصلت سیرت سے متاثر ہیں۔ جوشؔ نے تو ایک نظم میں ان کی مقادمت مجہول کا ذکر بڑی خوبصورتی سے کیا ہے،
ظاہر میں بزدلی ہے یہ درماندگی مگر
یہ بزدلی ہے جنگ کا طوفاں لئے ہوئے
پنڈت آنند نرائن ملّاؔ نے لکھنؤ میں گاندھی جی کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کے دلنواز شخصیت کے بعض پہلوؤں کی طرف بڑے شاعرانہ ڈھنگ سے اشارے کئے ہیں،
لذت تری باتوں میں ہے صہبائے وطن کی
ہونٹوں پہ ہنسی ہے گل رعنائے وطن کی
آنکھوں میں تجلی سی ہے فردائے وطن کی
تو ایک جھلک ہے رخ زیبائے وطن کی
ہستی پہ تری ناز ہو جتنا ہمیں کم ہے
اس ملک کی قسمت ترے ماتھے پہ رقم ہے
تو معنی انساں ہے حمیت کی ہے تصویر
تو شرح محبت کی، اخوت کی ہے تفسیر
امید وطن کی تری ہمت پہ ہے تعمیر
تو قوم کی تدبیر ہے تو ملک کی تقدیر
آنکھوں میں نہاں ہیں ترے جلوے ابھی کچھ اور
برسے ہوئے بادل میں ہیں قطرے ابھی کچھ اور
تو نے یہ سبق خدمت قومی کا سکھایا
جو لب سے کہا پہلے اسے کرکے دکھایا
یوں عشق زبانی تو بہت سب نے جتایا
ہاں وقت پڑا جب تو، تو ہی سامنے آیا
تیرا سا ہمیں چاہنے والا نہ ملےگا
ہمت کا دھنی قول کا سچا نہ ملےگا
تومہر برتتا رہا دشمن کی وفا پر
صدمے تجھے کیا کیا ہوئے غیروں کی خطا پر
آیا نہ کبھی حرف ترے صدق وصفا پر
ہستی تری تصویر ہے آئین وفا پر
تو اپنے عدد سے کبھی کدورت نہیں رکھتا
پیمانہ دل جزمئے الفت نہیں رکھتا
جب اگست ۱۹۴۲ء میں ہندوستانی سیاست سامراجی کمزوری اور فاشسٹ دباؤ کی وجہ سے ایک خاص موڑ پر آ گئی اور گاندھی جی معہ اپنے تمام رفقاء کے گرفتار کر لئے گئے تو کئی نظمیں لکھی گئیں لیکن جس نظم میں اس کا براہ راست بیان ملتا ہے وہ شمیم کرہانی کی نظم ’’کچھ دیر‘‘ ہے۔
تم جیل جسے لے جاتے ہو، وہ درد کا مارا ہے دیکھو
مظلوم اہنسا کا حامی، بے بس دکھیارا ہے دیکھو
بے چین سا اس کی آنکھوں میں پچھلے کا ستارا ہے دیکھو
کچھ دیر ذرا سو لینے دو
ہم اس کے عزیز سپاہی وہ سردار ہمارا ہے سن لو
کل ہند فدا ہے اس پر وہ کل بند کا پیارا ہے سن لو
جس موج کو چھیڑ رہے ہو تم وہ آگ کا دھارا ہے سن لو
کچھ دیر ذرا سو لینے دو
یوں تو عقیدت اور سوجھ بوجھ کی ملی جلی کیفیتیں لئے ہوئے اردو کے شعراء گاندھی جی کی ذات اور شخصیت، فلسفہ اور پیام کا ذکر کرتے رہے، یہاں تک کہ ملکی سیاست میں زہر گھل گیا۔ اس کے جسم کے ٹکڑے ہوئے، اس پر بسنے والوں کے جسم کے ٹکڑے ہوئے۔ فرقہ وارانہ تنگ نظری اور زبوں اندیشی کی وہ آگ بھڑکی جس میں ہندوستان کی ساری شرافت، تہذیب اور انسانیت بھسم ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔ گاندھی جی پہلے تو کہتے اور سمجھاتے رہے، پھر اس آگ میں کود پڑے اور جب یہ آگ تقریباً بجھ چکی تھی، اس وقت نفرت کے ہاتھ نے انہیں موت کی نیند سلا دیا۔
اپنی عزیز ترین دولت کھوکر ہندوستانیوں کو احساس ہوا کہ ہم اندھیرے میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ غیر ملک والوں کو معلوم ہوا کہ کوئی تابندہ ستارۂ روشنی گل ہو گیا، انسان دوستوں نے سمجھا کہ انسانوں کا ایک بہت بڑا دوست نہ رہا، اردو شعراء نے مہاتما گاندھی کی روح کو جو خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ کبھی بھلایا نہ جا سکےگا۔ تقریباً ہر چھوٹے بڑے شاعر نے اپنے عقیدے کی روشنی میں انہیں دیکھا، ادیبوں نے مضامین لکھے، کتابیں لکھی گئیں، رسالوں کے خاص نمبر نکلے، تعزیتی مشاعرے ہوئے اور ایسا معلوم ہوا کہ نہ صرف قوم کا باپ اور ہندوستان کا سیاسی رہنما چل بسا بلکہ شاعروں کا شاعر اور ادیبوں کا ادیب اٹھ گیا۔
ان تمام نظموں اور مضمونوں، کتابوں اور رسالوں کا تذکرہ ناممکن ہے جو گاندھی جی کی یاد میں شائع ہوئے مگر نمونہ کے طور پر چند نظموں کے اقتباس دینا نامناسب نہ ہوگا۔ صفیؔ، جگرؔ، جوشؔ، آزاد، فراقؔ، ملّاؔ، اثرؔ، روشؔ، نوحؔ، بسملؔ، جمیلؔ مظہری، مجازؔ، جاں نثار اختر، منیب الرحمن، سہیلؔ، وامقؔ، شمیمؔ کرہانی، مکین احسن کلیمؔ، آل احمد سرورؔ، سراجؔ لکھنوی، فطرتؔ واسطی، اشعرؔ، فرید بخشؔ، یحییٰ اعظمی، خلیل الرحمن، حامدؔ عزیز مدنی وغیرہ کی نظمیں شائع ہوکر خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ خواجہ احمد عباسؔ اور علیؔ عباس حسینی نے افسانے لکھے اور مضامین تو نہ جانے کتنے لکھے گئے۔ بغیر تبصرہ اور تشریح کے چند اشعار دیکھئے۔ ان کے لکھنے والے مختلف العقیدہ شعراء ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو ان کے سیاسی نقطۂ نظر سے شدید اختلاف رکھتے تھے اور انہیں محض مصلح قرار دیتے تھے اور وہ بھی جو انہیں ہندوستان کی رہنمائی کا اہل اور عظیم ترین انسان سمجھتے تھے۔ سب سے پہلے جوشؔ ملیح آبادی کے چند بند پڑھئے۔
اے امیر کاروان پختہ کاران وطن
اے گدائے تاجدار تاجداران وطن
اے امید وہمت ناگا مگاران وطن
اے ہلاک ِشیوۂ خوں ریزیاران وطن
اے شکار کج رواں و کور مغزاں السلام
السلام اے ہند کے شاہ شہیداں السلام
تو امین مرحمت، آئینہ ایثار تھا
صحت افکار انساں کے لئے بیمار تھا
برہمن کا چارہ فرما شیخ کا غم خوا ر تھا
تو رواداری کا دیوتا امن کا اوتار تھا
السلام اے کعبہ وکاشی کے درباں السلام
السلام اے ہند کے شاہ شہیداں السلام
تو ہی ایک دانائے کامل بزم نادانی میں تھا
روشنی کا تو منارہ بحر طوفانی میں تھا
تیرے دم سے زمزمہ گنگا کی جولانی میں تھا
نغمہ تجھ سے کوثر و تسنیم کے پانی میں تھا
اے غرور ہندو و فخر مسلماں السلام
السلام اے ہند کے شاہ شہیداں السلام
جوش ملیح آبادی
وہ کتاب صلح کا سرورق کہ مٹائی کشمکش فرق
وہ قتیل خنجر صبر وحق کہ وطن پہ خود کو مٹا دیا
وہ بدھ اور کرشن کا جانشیں ہمہ تن عمل ہمہ تن یقیں
وہ تبسم سحر آفریں کہ چمن لبوں سے کھلا دیا
وہ شرارہ برق حیات کا وہ ستارا راہ نجات کا
وہ منارہ عزم وثبات کا جسے فتنہ ساز نے ڈھا دیا
تجھے مندروں نے صدائیں دیں کہ ترے کرم سے اماں ملی
تجھے مسجدوں نے دعائیں دیں کہ تباہیوں سے بچا دیا
مولانا اقبال سہیل اعظم گڑھی
اس حسن سے کچھ ہستی میں تری اضداد ہوئے تھے آکے بہم
ایک خواب وحقیقت کا سنگم مٹی پہ قدم نظروں میں ارم
ایک جسم نحیف وزار مگر ایک عزم جواں و مستحکم
چشم بینا، معصوم کا دل خورشید نفس ذوق شبنم
وہ عجز غرور سلطاں بھی جس کے آگے جھک جاتا تھا
وہ موم کہ جس سے ٹکرا کر آہن کو پسینہ آتا تھا
بازوئے خرد اڑ اڑ کے تھکے تیری رفعت تک جانہ سکے
ذہنوں کی تجلی کام آئی خاکے بھی ترے ہاتھ آ نہ سکے
الفاظ و معانی ختم ہوئے عنواں بھی ترا اپنا نہ سکے
نظروں کے کنول جل جل کے بجھے پرچھائیں بھی تیری پا نہ سکے
ہر علم و یقین سے بالا تر تو ہے وہ سپہر تابندہ
صوفی کی جہاں نیچی ہے نظر شاعر کا تصور شرمندہ
پستی سیاست کو تو نے اپنے قامت سے رفعت دی
ایماں کی تنگ خیالی کو انساں کے غم سے وسعت دی
ہر سانس سے درس امن دیا ہر جبر پہ داد الفت دی
قاتل کو بھی، گو لب ہل نہ سکے آنکھوں سے دعائے رحمت دی
ہنسا کو اہنسا کا اپنی پیغام سنانے آیا تھا
نفرت کی ماری دنیا میں ایک پریم سندیسا لایا تھا
پنڈت آنند نرائن ملّا
مئے محبت انسانیت کا متوالا
کہ جس نے عقل کو سانچے میں عشق کے ڈھالا
بنا کے جس نے اہنسا کو جنگ کا آلا
ملوکیت کا مزاجِ کہن بدل ڈالا
جھکا دی گردن مغرور کج کلاہوں کی
جھپک رہی تھی پلک جس سے بادشاہوں کی
وہ اس کاوقت کے دھارے کا موڑتے جانا
ہر ایک موڑ پہ کچھ نقش چھوڑتے جانا
عمل کے پاؤں کی زنجیر توڑتے جانا
دلوں کے ٹوٹتے رشتوں کو جوڑتے جانا
غرض کہ آنکھ پہ پردہ جو تھا اٹھاکے گیا
دلوں کی اینٹ سے مندر نیا بناکے گیا
جمیلؔ مظہری
درد غم حیات کا درماں چلا گیا
وہ خضر عصر و عیسی دوراں چلا گیا
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انساں کی جستجو میں ایک انساں چلا گیا
بیمار زندگی کی کون کرے دل دہی
نیاض و چارہ ساز مریضاں چلا گیا
اب اہرمن کے ہاتھ میں ہے تیغ خوں چکاں
خوش ہے کہ دست وبازوئے یزداں چلا گیا
اب سنگ وخشت وخاک وخزف سر بلند ہیں
تاج وطن کا لعل بدخشاں چلا گیا
مجازؔ
اے کہ مسلک رہا تیرا پیغمبرانہ
تیری آواز سنتا رہےگا زمانہ
مار سکتا ہے ہر لمحہ انساں کو کوئی
ڈھا سکےگا نہ نیکی کے ایواں کو کوئی
کرسکا کون سچے اصولوں کو تاراج
زندہ ہے سرگزشت مسیح وصلیب آج
تیرے روشن عقائد کی جلوہ فزائی
یوں ہی کرتی رہے گی سدا رہنمائی
ساتھیو! ہند کا راہبر اٹھ گیا ہے
آدمیت کا پیغامبر اٹھ گیا ہے
موت کی یہ خبر زندگی کو سنا دو
ایک لمحے کو گل رنگ پرچم جھکا دو
جاں نثار اخترؔ
وہ زندگی کا رازداں
وہ بیکسوں کا پاسباں
وطن کا میرِ کارواں نظر سے دور ہو گیا
وہی بزرگ خانداں وہی ہمارا رہنما
ہمیں سے آج چھٹ گیا
سہاگ مادر وطن کا اپنے ہاتھوں لٹ گیا
سپہر بند کی اندھیری رات کا وہ ماہتاب
قریب صبح چادر شفق میں منھ لپیٹ کر
لہو بھرے کفن میں اپنی خنکیاں سمیٹ کر۔۔۔ نظر سے دور ہو گیا
وامقؔ جونپوری
محبت کے جھنڈے کو گاڑا ہے اس نے
چمن کس کے دل کا اجاڑا ہے اس نے
گریباں اپنا ہی پھاڑا ہے اس نے
کسی کا بھلا کیا بگاڑا ہے اس نے
اسے توادا امن کی بھا گئی ہے
جگاؤ نہ باپو کو نیند آ گئی ہے
وہ حق کے لئے تن کے اڑ جانے والا
نشاں کی طرح رن میں گڑ جانے والا
نہتھا حکومت سے لڑ جانے والا
بسانے کی دھن میں اجڑ جانے والا
بنا ظلم کی جس سے تھرا گئی ہے
جگاؤ نہ باپو کو نیند آ گئی ہے
وہ پربت وہ بحرِ رواں سو رہا ہے
وہ پیری کا عزم جواں سو رہا ہے
وہ امن جہاں کا نشاں سو رہا ہے
وہ آزاد ہندوستاں سو رہا ہے
اُٹھےگا، سحر مجھ سے بتلا گئی ہے
جگاؤ نہ باپو کو نیند آ گئی ہے
شمیمؔ کرہانی
اف یہ انسان، یہ محسن کش و سفاک انساں
ڈالنا چاہتے تھے مہرو درخشاں پہ جو خاک
اب ہیں ڈوبے ہوئے سورج پہ وہی نوحہ کناں
اتنا سمجھائے مگر کون زمیں والوں کو
کوئی سمجھائے تو کیا جانے اثر ہوکہ نہ ہو
روشنی زندہ جاوید ہے پائندہ ہے
گردش ارض کی تکمیل کا ہے رات بھی نام
اور یہ رات، یہی رات سحر کا ہے پیام
کون کہتا ہے کہ سورج بھی کبھی ڈوبا ہے
روشنی زندۂ جاوید ہے پائندہ ہے
مکین احسن کلیمؔ
اے وطن، اے مرے اجداد کی عظمت کے نشاں
آج تو سوگ میں ہے تابہ کمر ڈوبا ہوا
اٹھ گیا تجھ سے وہ درویش ملوکا نہ صفات
جس کا ہر لفظ تھا تیرے لئے پیغام حیات
اس نے گایا تری وسعت میں وہ نغمہ جس کو
آبشاروں نے سنا
لہلہاتے ہوئے کھیتوں نے سنا
آسماں بوس پہاڑوں نے سنا
ساری دھرتی نے سنا
اور وہ سب بہ یک آواز یہ چلّا اٹھے
یہ ہے فطرت کے دھڑکتے ہوئے دل کا نغمہ
جس کو اک آدم خاکی نے زباں دے دی ہے
اس کا یہ نغمہ محبت کا حسیں نغمہ تھا
اِک جہانگیر محبت
جو نہیں ہو سکتی، فرقہ ومذہب و ملت کی حدوں میں محصور
جلوہ گر ہے یہ ہر اک شے میں، ہر ایک ذرّے میں
اس کی طاقت نہیں محتاج سنان و شمشیر
آ نہیں سکتا زوال اس کی شہنشاہی کو
منیب الرحمن
اقتباسات کہاں تک پیش کئے جائیں۔ بس یہ سمجھنا چاہیے کہ جس سے جو ہو سکا، اس نے گاندھی جی کی یاد میں نچھاور کیا ہے۔ کسی کا انداز نظر محض جذباتی ہے کوئی ان کی شخصیت کی تہوں کو کھوج نکالنا چاہتا ہے، کوئی ان کی عظمت کی بلندی کو ناپنے کی کوشش کرتا ہے، کوئی ان کے کارنامے دہراتا ہے، کوئی پیام کی ترجمانی کرتا ہے، کسی کی نظر میں وہ شہید ہیں، کسی کی نگاہوں میں اوتار، کسی کے لئے زندہ جاوید ہیں، کسی کے لئے اپنے کارناموں میں جینے والے، یہ نظمیں محض وقتی مرثیہ خوانی نہیں ہیں بلکہ ادبی حیثیت سے بھی اہمیت رکھتی ہیں اور چاہے وہ اس بلند مرتبہ روح کے شایان شان نہ ہوں لیکن شاعروں کے خلوص کی مظہر ضرور ہیں اور اردو زبان کے پرستاروں نے اپنی زبان کے ذریعے سے مہاتما گاندھی کی زندگی اور پیام کو سمجھنے اور اس کی اشاعت کرنے کا فرض کسی نہ کسی حد تک ضرور انجام دیا ہے۔