اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات (۲)

ایک دوسرے کے مذہبی اعتقادات سے روشناس کرانے میں مختلف تہواروں کو جو اہمیت حاصل ہے، اسے کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپس کے میل ملاپ اور ربط وارتباط نے جس مشترک ہندوستانی تہذیب کو پیدا کر دیا تھا، اس کے زیر اثر ہندو مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوکر اپنی محبت اور فراخ دلی کا ثبوت دیا کرتے تھے۔ عید پر مبارکباد دینا، گلے ملنا اور معانقہ ہندوؤں مسلمانوں میں عام تھا۔ ایسے ہی ہندوؤں کی مذہبی تقاریب پر مسلمان بھی حق مروت ادا کرتے تھے۔ اردو ادب نے سینہ بہ سینہ اس روایت کو ہم تک پہنچایا ہے۔

ہندوؤں کے تہواروں میں سب سے اہم بسنت، ہولی، دیوالی، دسہرہ اور برسات ہیں۔ اردو کے مسلمان شاعروں نے تقریباً ان سب پر طبع آزمائی کی ہے۔ اس سلسلہ میں میں قلی قطب شاہ کو اولیت کا شرف حاصل ہے۔ محمد قلی قطب شاہ گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کا چوتھا تاج دار تھاور ۱۵۸۰ء سے ۱۶۱۱ء تک حکمراں رہا۔ اس کے کلیات میں بسنت کے موضوع پر ۹ نظمیں درج ہیں۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قطب شاہیوں کے عہد حکومت میں بسنت کی تقریب پورے اہتمام اور شان وشوکت سے منائی جاتی تھی۔ محلوں کے صحن پھولوں کے انبار سے لد جاتے تھے، باغوں کے گوشوں میں بہار کی تمام رنگینیاں سمٹ آتی تھیں۔ قطب شاہ کی ان نظموں میں جو بسنت پر لکھی گئی ہیں، ہندوستان کی اتحاد پسند روح اس طرح رچی بسی ہوئی ہے کہ ان کو پڑھتے ہی محبت کے اس رشتہ کا احساس ہونے لگتا ہے جو نہ صرف ہندو کو مسلمان سے بلکہ انسان کو انسان سے ملاتا ہوا تعصب کی تاریکیوں میں سیلاب نور کی طرح پھیل جاتا ہے۔ بسنت کی یہ نظمیں ہندو مسلمان کی تفریق سے بالا تر ہیں۔ وہ پوری ہندوستانی فضا کا احاطہ کرتی ہیں۔ نشاط وراگ ورنگ کی ہندوستانی دھنک ہر طرف چھائی ملتی ہے۔ بسنت کے پھول یاقوت رمانی کی طرح کھلے ہوئے ہیں۔ دعوت مہمان بسنت وصال یار کا پیغام لائی ہے۔ زعفران کی رت ہے اور سہیلیاں پھولوں کے ٹوکرے اٹھائے گاتی جاتی ہیں، شاہ کے مندر سعادت کا خبر لیا یا بسنتنین پتلیاں کے چمن میں پھول پھل لیایا بسنتپیارے بسنت کا ہوا آیاسکھیاں تن مشک زعفران لایابسنت کھیلیں ہمن ہور بجناکہ آسماں رنگ شفق پایا ہے سارابسنت کے پھول کھلے ہیں اب رنگے ہوا حیراں دیکھ اس تائیں مانیبسنت کی آمد آمد میں ’’سارا تر لوک‘‘ رنگیلا ہو گیا ہے اور کیسر میں بہار آنے سے چمن شعلہ بدست نظر آتا ہے۔ پپیہے کی پیہو اور کوئل کی کوک نے گھن گرج کے ساتھ مل کر ایک سماں باندھ دیا ہے، پپیہا گاؤتا ہے میٹھے نیناں مدہر رس دے ادھر پھل کا پیالاکنٹھی کوئل سرس ناداں سناوے تنن تن تن تنن تن تن تلا لاگرج بادل تھے دادر گیت گاوے کوئل کوکے سو پھل بن کے خیالامغل بادشاہوں کی طرح قلی قطب شاہ کا دل بھی ہندوستانی سوبھاؤ کی نرم آنچ میں گداز ہو گیا تھا۔ پھولی ہوئی سرسوں اس کے دل پر گہری چوٹ کرتی تھی اور اسے رنگ کھیلنے کی دعوت دیتی تھی۔ چاند اور سورج کے حوض بھی رنگ سے چھلک اٹھتے ہیں۔ اپنے چھند بند سے لیس محبوب پھولوں کی مالا گلے میں ڈالے ’’بازی رنگ‘‘ کی ترغیب دلاتا ہے، پیاری کے مکھ حیا نے کھیلیا بسنتپھولاں حوض تھے چرکے چھڑ کیا بسنتبسنت کھیلیں عشق کی آ پیاراتمھیں ہو چاند میں ہوں جوں ستاراپیاپگ پر ملا کر لیائی پیاریبسنت کھیلی ہوا رنگ رنگ سنگارانبی صدقے بسنت کھیلیا قطب شاہرنگیلا ہو رہیا ترلوک ساراہندوستان میں موسم بہار ایک نئی زندگی اور نئے دور کا پیامبر ہوتا ہے۔ برسات کے شروع ہوتے ہی جھولے ڈالے جاتے ہیں۔ گیتوں کے رسیلے بول فضا میں گونج اٹھتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اظہار نشاط کیا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ نے ہندوستان کے اس روح پرور موسم پر چودہ نظمیں لکھی ہیں، حق تو یہ ہے کہ اپنے ہندوستانی شاعر ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔ ’’برسات کا موسم آیا ہے اور کلیوں کا راج شروع ہوا ہے۔ ہری ہری ڈالیاں سر پر پھولوں کے تاج سجائے کھڑی ہیں۔ شوخ دوشیزاؤں نے اپنی چولیاں پانی کی بوندوں سے بھگولی ہیں اور جھولوں میں اڑی جاتی ہیں۔ سرخ پھندنے ان کے بازوؤں پر بہار دے رہے ہیں۔ چنبیلی کے پھولوں میں بھونرے ملہار گاتے پھرتے ہیں۔ بادل کی گرج کا شور ہے اور بجلی کی چمک میں نرمل موہنیوں کے چہرے دمک جاتے ہیں۔ ان کے گھنگرو بج اٹھتے ہیں۔ مینھ برستا ہے اور سکھی جو اپنے عہد کی پدمنی ہے، سردی کی وجہ سے لرز رہی ہے، اس کا جوبن کپکپارہا ہے اور پیاکو دیکھتے ہی چولی خود بخود پھٹی جاتی ہے۔‘‘غرض یہ کہ ہندوستانی برسات کی نشاطگی اور رومان انگیزی شاید ہی ایسا کوئی پہلو ہو جو قلی قطب شاہ سے چھوٹ گیا ہو۔ برسات سے وہ ایک ہندوستانی کی طرح سرور وانبساط حاصل کرتا تھا اور اس کے بیان میں وہ ایسا انداز اختیار کرتا ہے کہ ہندوستان کے اس مبارک تہوار کی روح اس کے اشعارمیں پوری طرح کھنچ آتی ہے، رت آیا کلیاں کا ہوا راجہری ڈال سر پھولاں کے تاجتن تھنڈت لرزت، جوبن گرجتپیا مکھ دیکھت، کنچلی کس بکسے آجچوندھر گرجت ہور مہینوں برستعشق کے چمنے چمن موراں کا ہے راجگواڈر اک برسانت اس ہوا میں سکیاں پیو کوں منالیا ومیاں سوشمالی ہندوستان میں بھی مسلمان ہندوؤں کے تہواروں کو اسی آن بان سے مناتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بسنت منانے کا رواج امیر خسرو کے زمانے سے شروع ہوا تھا۔ گو امیر خسرو کا ہندوی کلام تمام و کمال نہیں ملتا، لیکن مروج کلام میں اس قسم کے اشعار دیکھے جا سکتے ہیں۔ سکل بن پھول رہی سرسوں، سکل بن پھول رہی سرسوں، اموا مورے ٹیسو پھولے، کوئل کوکے ڈرا ڈار۔۔۔ گوری کرت سنگھار، ملنیاں گڑوالیائی ہرسوں، طرح طرح کے پھول سجائے، لے گڑوا ہاتھن میں آئے، نظام الدین کے دروازے، آون کہہ گئے عاشق رنگ اور بیت گئے برسوں۔ 1مغلوں کے آخری سیاہ بخت حکمرانوں میں سے ایک شاہ عالم ثانی بھی تھے۔ ہندو ماں کے بیٹے تھے اور اردو ہندی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ حال ہی میں ان کے کلام کا مجموعہ، نادرات شاہی جناب امتیاز علی خاں عرشی نے کتب خانہ رام پور سے چھپوا دیا ہے۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قلعہ معلیٰ میں عید، بقرعید، آخری چار شنبہ اور عرسوں کی نسبت ہولی اور دیوالی کا اہتمام کم نہ ہوتا تھا۔ اس کی تصدیق میر کے کلام سے بھی ہوتی ہے، آؤ ساقی بہار پھر آئیہولی میں کتنی شادیاں لائیجس طرف دیکھو معرکہ ساہے شہر ہے یا کوئی تماشائیپھر لبالب ہیں آب گیر میں رنگاور اڑے ہے گلال کس کس ڈھنگخوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں جشن نو روزہند ہولی ہے راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے میر کی مثنویات میں دیوالی کا ذکر بھی ملتا ہے، مٹھائیوں کی لگا کے دکانیں حلوائیپکارتے ہیں کہ لالہ دیوالی ہے آئیاس کے علاوہ میر نے بتاشوں کے بازار، گہنوں کو گروی رکھنے والے پڑوسی، ہارے ہوئے جواری اور جگمگاتے ہوئے دیے کا ذکر نہایت وثوق کے ساتھ کیا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کے متعلق پہلے ذکر آ چکا ہے کہ وہ ہندوستانی تہواروں کے دلدادہ تھے۔ بسنت، ہولی، دیوالی ’’پتنگوں کے نرجلا میلے‘‘ اور بلدیوجی کے میلے کا ذکر ان کے کلام میں عام ہے۔ بسنت کے موضوع پر نظیر نے تین غزلیں اور ایک نظم کہی ہے۔ ان کا ایک مخمس ملاحظہ ہو، پھر راگ بسنتی کا ہوا آن کے کھٹکادھونسے کے برابر وہ لگا باجنے مٹکادل کھیت میں سرسوں کے ہر اک پھول سے اٹکاہر بات میں ہوتا تھا اسی بات کا لٹکا
سب کی تو بسنتیں ہیں پہ یاروں کا بسنتاہولی کے تہوار سے متعلق نظیر نے ۹ نظمیں لکھی ہیں۔ نظیر کی یہ نظمیں ہندو مسلم اتحاد واتفاق کے بہترین مرقعے ہیں۔ مشاہدوں کی جس باریک بینی اور گہرائی سے ان نظموں میں کام لیا گیا ہے وہ اس امر کی مظہر ہے کہ اس زمانہ کے مسلمان ہندوؤں کے ساتھ برابر رنگ کھیلتے تھے اور ہولی کے دیگر مشاغل میں شامل ہوتے تھے۔ ہولی کے اسی ہجوم اور خوشی کی اس دھوم کا ایک رخ ملاحظہ ہو، خوشی کی دھوم سے ہر گھر میں رنگ بنوائے گلال عبیر کے بھر بھر کے تھال رکھوائے نشوں کے جوش ہوئے راگ رنگ ٹھہرائے جھمکتے روپ کے بن بن کے سوانگ دکھلائے
ہوا ہجوم عجب ہر کنار ہولی کاگلاب کے مٹکوں اور رنگ کی بوچھاروں کے ساتھ ڈھولک اور مردنگ کی تھاپ بھی سنائی دیتی ہے۔ رقص کی گردشوں میں گھنگروؤں کی یہ جھنکار ملاحظہ ہو، گھنگرو کی پڑی آن کے پھر کان میں جھنکارسارنگی ہوئی بین طنبوروں کی مددگارطبلوں کے ٹھکے طبل یہ سازوں کے بجے سازراگوں کے کہیں غل کہیں ناچوں کے بندھے تارڈھولک کہیں چھنکارے ہے مردنگ زمیں پرہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پرنظیر کی نظموں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانے کے ہندو مسلمان ہولی کا محدود تصور نہیں رکھتے تھے۔ ایسے تہواروں کو ملکی وبین تہذیبی حیثیت حاصل تھی اور جب ہولی کا موسم آتا تو شاذ ہی ایسا کوئی دامن ہوتا جو تہی از رنگ رہ جاتا، نظیر ہولی کا موسم جو جگ میں آتا ہے وہ ایسا کون ہے ہولی نہیں مناتا ہے کوئی تو رنگ چھڑکتا ہے کوئی گاتا ہے جو خالی رہتا ہے وہ دیکھنے کو جاتا ہے
جو چاہیں عیش سو ملتا ہے یار ہولی میں حسرت موہانی کے ہاں ہولی کا ایک رومانی صوفیانہ تصور ملتا ہے جوکرشن بھگتی میں شرابور ہے۔ یہ بول ہولی کے پس منظر میں گوپیوں کی یاد دلاتے ہیں۔ ’’مراری‘‘، ’’شیام‘‘ وغیرہ اشارے محبت کی ایک خاص فضا کا تصور ابھارتے ہیں۔ محبت کی چوٹ کھانے کے بعد روح وجدان کی ان بلندیوں میں پرواز کرنے لگتی ہے جہاں مذہب، رسم ورواج اور ظاہرداری کے بندھن ٹوٹ سے جاتے ہیں، مو پہ رنگ نہ ڈار مراریبنتی کرت ہوں تہاریپنیا بھرت کاہ جائے نہ دہئیں شیام بھرے پچکاریتھر تھر کانپت لاجن حسرتدیکھت ہیں نرناریہندوستان میں دیوالی کا تہوار بھی خالی از لطف نہیں۔ مغل بادشاہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دیوالی کے موقع پر وہ ایک ایسے برتن سے نہاتے تھے جس میں اکیس چھید ہوتے تھے۔ بادشاہ کو تولا جاتا تھا اور وہ رقم غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔ 2 نظیر نے اس موضوع پر بھی داد سخن دی ہے، کھلونے کھیلوں بتاشوں کا گرم ہے بازارہر اک دکاں میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہارجوئے کی روایت دیوالی کی جان ہے اور دیوالی کے اس شگون میں بھی ہندو مسلم ساتھ ساتھ شریک ہوتے تھے۔ جواریوں کے مجمع میں اور چوپڑ کی محفل میں مذہب وملت کی تفریق مٹ جاتی تھی اور ہار جیت کے داؤ لگتے تھے۔ نظیر کی نظموں کی مدد سے ہندو مسلم یگانگت کے کئی ایسے مرقعے تیار کیے جا سکتے ہیں۔ اس عہد کے مسلمانوں کے لیے دیوالی سے دسہرہ بھی کم اہم نہ تھا۔ نظیر کہتے ہیں، ہے دسہرے میں بھی یوں گو فرحت و زینت نظیرپر دیوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے اور پھر سلونو تو ایسا تہوار ہوتا ہے جس دن محبت کے رشتہ میں نئی گانٹھ لگتی ہے۔ ’’سنہری سبز ریشم‘‘ کی یہ راکھی بھائی کو بہن سے، حبیب کو محبوب سے اور انسان کو انسان سے جوڑنے کی بے پناہ تاثیر رکھتی ہے، پہن زنار اور قشقہ لگا ماتھے اپر بارے نظیر آیا ہے باہمن بن کے راکھی باندھنے پیارے بندھا لو اس سے تم ہنس کر اب اس تہوار کی راکھیدہلی کے پھولوں والوں کا میلہ (سیر گل فروشاں) آج تک مشہور ہے۔ فرحت اللہ بیگ نے اپنے سحرکار قلم سے اسے زندہ جاوید بنا دیا ہے۔ 3 یہ ہندو مسلمانوں کا مشترک تہوار تھا۔ اکبر شاہ ثانی کو اس میں شرکت اتنی عزیز تھی کہ ایک مرتبہ بیماری کے عالم میں مسہری پر لیٹے لیٹے اس میلہ کو دیکھا اور انعامات تقسیم کیے۔ یہ تمام رسمیں بہادر شاہ ثانی کے وقت تک اہتمام کے ساتھ ہوتی رہیں۔ 4مرزا کاظم علی جواں نے ۱۸۱۲ء میں ایک بارہ ماسہ لکھا تھا جس میں ہندو مسلمانوں کے تہواروں کا ذکر ہے۔ اس کا نام ’’دستور ہند‘‘ تھا۔ اب نایاب ہے۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنے ایک مضمون ’’عید میلاد اور جنم اشٹمی‘‘ میں ان دونوں تہواروں میں تطابق ظاہر کیا ہے۔ (اخبار تیج جنم اشٹمی نمبر) اس کے علاوہ شوق قدوائی، بے نظیر شاہ، عظمت اللہ خاں اور حفیظ جالندھری نے بھی ہندو تہواروں کے بارے میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ مقبول حسین کی تصنیف ’’بھارت کے تہوار‘‘ اس سلسلہ کی اہم کڑی ہے۔ محرم کی عزاداری میں ہندو اہل قلم حضرات نے جس بے پناہ خلوص سے اپنا خراج عقیدت پیش کیا ہے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی دیگر تقریبات میں بھی ہندو حصہ لیا کرتے تھے۔ محمد قلی قطب شاہ کی ایک نظم میلادنبی سے ظاہر ہے کہ احمد نگر اور بیجاپور کے مسلمان تاجداروں کے علاوہ ہمسایہ ہندو راجگان بھی اس کے جشن عید میں شامل ہوتے تھے، جب آشہ ملوکاں سوں مجلس بھراویں کھڑے ہوئیں دو دست جوڑ ہندو راجاں شاہ عالم ثانی نے غوث الاعظم کی تقریب پر کئی غزلیں لکھی ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات بڑی دلچسپی سے سنی جائےگی کہ یہ مہدی ہر سال گیارہ ربیع الاول کو مرزا راجہ رام ناتھ ذرہ تخلص پیشکار نظامت کے یہاں سے بڑی دھوم اور عقیدت کے ساتھ قلعہ میں آتی تھی۔ 5 لکھنوی معاشرت میں ہندو مسلمان ایک دوسرے کے تہوار کس میل ومحبت سے مناتے تھے، اس سلسلہ میں رتن ناتھ سرشار کے فسانۂ آزاد کا محض ذکر کر دینا ہی کافی ہوگا۔ غرض یہ کہ اردو ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو مشترک ہندوستانی تہذیب سے اثر پذیر نہ ہوا ہو۔ اس تہذیب نے صدیوں ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک رکھا ہے اور خود ہمارے زمانے تک اس کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ قدیم روایات کے مطابق دربار و محفل میں شاعروں کی موجودگی شائستگی اور تہذیب کا لازمہ سمجھی جاتی تھی۔ ہندو راجگان کو مسلمانوں کی اور مسلمان امراء وسلاطین کو ہندوؤں کی سرپرستی کرنے میں کوئی عار نہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے سرمایۂ فخر تھے۔ اردو ادب میں اس کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔ اردو کے ان بے شمار ہندو شاعروں میں سے جو مسلمان نوابوں یارئیسوں کے ساتھ وابستہ رہے، کچھ کے نام یہ ہیں، (۱) منشی جسونت رائے منشی اورنگ آباد کے گورنر دکن سعادت یار خاں کے دربار میں معزز عہدہ رکھتے تھے۔ (۲) ولی رام ولی، اردو کے اولین ہندو شاعر شاہزادہ دارا شکوہ کے مشیر خاص تھے۔ (۳) آنند رام مخلص، عہد محمد شاہی میں عماد الدولہ کے وکیل تھے۔ (۴) راجہ بینی بہادر، عالم گیر ثانی کے عہد میں صوبہ دار بہار و اڑیسہ تھے۔ (۵) راجہ گوپال ناتھ، شاہ عالم بادشاہ کے مقرب تھے اور اس رعایت سے غلام تخلص کرتے تھے۔ (۶) مول چند منشی بھی دربار شاہ عالم سے وابستہ تھے۔ (۷) مرزا حیدر ناتھ بہادر تخلص نسیم، دربار دہلی میں ناظر شاہی کے عہدے پر ممتاز تھے اور ان کا شمار شاہی عزیزوں میں ہوتا تھا۔ (۸) ہری رام جودت مرشد آبادی، نواب علاؤ الدین کی سرکار میں توسل رکھتے تھے۔ (۹) راجہ نول رائے وفا، نواب صفدر جنگ کے نائب تھے اور روہیلوں کی لڑائی میں جاں بحق ہوئے۔ (۱۰) راجہ بینی بہادر، بہادر تخلص، نائب نواب شجاع الدولہ تھے۔ (۱۱) راجہ جسونت سنگھ پروانہ، شجاع الدولہ کے دیوان تھے۔ (۱۲) صاحب رائے صاحب، آصف الدولہ کے درباری شاعر تھے۔ (۱۳) طوطا رام شایاں، نواب سعادت علی خاں کے دور حکومت میں بعہدہ بخشی گیری پر فائز تھے۔ (۱۴) جیالال بہادر محمد علی فرماں روائے اودھ کے عہد حکومت میں بعہدہ سر دفتر محکمہ خاص سلطانی پر ممتاز تھے۔ (۱۵) شیو پرشاد ثاقب کا شمار واجد علی شاہ کے مصاحبین میں ہوتا تھا۔ (۱۶) منشی دولت رائے شوق، واجد علی شاہ کے ان مصاحبین خاص سے تھے جو بادشاہ کے ساتھ مٹیا برج کلکتہ تک گئے۔ (۱۸) منشی رام پرشاد، پرشاد مدار الہام نواب محسن الدولہ رئیس لکھنؤ کے تھے۔ امام باڑہ حسین آباد کا انتظام ہمیشہ ان کے ہی پاس رہتا تھا۔ (۱۹) اجودھیا پرشاد سحر، اعتماد الدولہ میر فضل علی خاں کے دیوان تھے۔ (۲۰) بخشی بھولا ناتھ عاشق، سرکار محمد الدولہ کے دیوان تھے۔ (۲۱) نند لال فدائی، نواب ضابطہ خاں سے وابستہ رہے۔ (۲۲) فوجی رام فوجی، جن سے اردو کے سات دیوان یادگار ہیں، نواب حسین علی خاں کے ملازم تھے۔ (۲۳) راجہ ہلاس رائے مہاراج، دیوان نواب رحمت خاں تھے۔ (۲۴) دیبی پرشاد بشاش، (۲۵) لالہ منا لال مشتاق، (۲۶) منشی مہتن لال بہجت اور(۲۷) بساون لال شاداں ریاست ٹونک سے وابستہ رہے۔ (۲۸) رام سہائے تمنا، (۲۹) مہاراجہ چندولال شاداں اور(۳۰) مہاراجہ گردھاری پرشاد باقی دولت عثمانیہ کے خیرخواہوں میں سے تھے۔ ایسے ہی تحقیق کرنے سے کئی ایسے ہندو مربیوں کے نام بھی پیش کیے جا سکتے ہیں جن کی دولت وشفقت سے مسلمان اہل قلم فیض یاب ہوتے رہے۔ میر تقی میر جیسے آشفتہ مزاج اور نازک دماغ کی دست گیری اور نازبرداری جن چند ہندو رئیسوں نے کی، ان کے نام یہ ہیں، 6مہانرائن دیوان، (۲) راجہ جگل کشور، (۳) راجہ ناگر مل، (۴) بہادر سنگھ اور (۵) رائے بشن سنگھ۔ رجب علی بیگ سرور، مہاراجہ ا یشری پرشاد، نرائن سنگھ والی بنارس و مہاراجہ پٹیالہ والور کے خوشہ چیں رہے۔ مرزا داغ، راجہ ہر کشن سنگھ بیدار کے ہاں کشن کوٹ ضلع گورداس پور تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اردو ادب میں ایسی مثالیں اس کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ یہ موضوع بجائے خود ایک الگ مقالہ کا محتاج ہے۔ آج سے پچاس سال پیشتر اردو ادب میں تقریظوں اور قصیدوں کا رواج عام تھا۔ اردو ادب میں ایسے بےشمار قصائد ملتے ہیں جو مسلمانوں نے ہندوؤں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کی مدح میں یا دوستی سے متاثر ہوکر کہے۔ اس میں شک نہیں کہ عموماً ان محرکات کی پشت پر معاشی ضروریات زندگی کا ہاتھ ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود ایسی بھی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جو بےلوث قسم کی وابستگی اور بے غرض عقیدت کی مظہر ہیں۔ رام سہائے تمنا نے نواب آصف الدولہ کے حالات حکومت کو یوں نظم کیا ہے، عہد نواب آصف الدولہ بہادر خوب تھایہ زمانہ طبع خاص و عام کو مرغوب تھاتاجران شہر جب اپنی دکانیں کھولتے آصف الدولہ کا لے کر نام جے جے بولتے ہندو و مسلم تھے دونوں سلطنت کے عہدیدارحکمراں کی آنکھ میں ہر اک کا تھا یکساں وقارتھے وزیر ایسے کہ جن کی ذات سے تھا سب کو چیننام میں ان کے ہیں الفاظ تفضل اور حسینآپ بھی تھے منتظم ایسے کہ لطف عام تھاان کے دم سے اتفاق ہندو و اسلام تھاتھے یہیں کائستھ بھی دیوان فیاض زماں ہیں ٹکیت رائے جن کے نام نامی کے نشاں مندروں اور مسجدوں کی تھی جو عزت دلنشیں جابجا ایسی عبادت گاہیں بھی تعمیر کیں یہاں اقبال کے اس قصیدے کا ذکر بے جا نہ ہوگا جو انھوں نے مہاراجہ سرکشن پرشاد کے بارے میں کہا تھا۔ اس کے آخری دو اشعار ملاحظہ ہوں، 7نقش وہ اس کی عنایت نے مرے دل پر کیامحو کر سکتا نہیں جس کو مرور روزگارشکریہ احسان کا اے اقبال لازم تھا مجھے مدح پیرائی امیروں کی نہیں میرا شعارمنشی جگن نرائن خوشتر نے ۱۸۴۹ء میں رامائن منظوم لکھی تھی۔ اس میں انھوں نے واجد علی شاہ حکمراں اودھ پر پوری منقبت تحریر کی تھی۔ منور لکھنوی نے بھی اپنی نظموں میں غازی الدین حیدر اور واجد علی شاہ کے بارے میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے ان تعلقات کی پختگی اور گہرائی کا صحیح اندازہ اس وقت تک نہیں لگایا جا سکتا جب تک ان مرثیوں کو نہ دیکھ لیا جائے جو دونوں نے اپنے اپنے دل زخم خوردہ کے ہاتھوں مجبور ہوکر لکھے۔ ۱۷۷۴ء میں رنجیت سنگھ کا دادا چڑت سنگھ بستی ندی کی جنگ میں اپنی بندوق کے پھٹ جانے سے مارا گیا۔ نامدار خاں دت ایک مسلمان نے اس کا مرثیہ لکھا ہے۔ اس کا صرف پہلا بند ملاحظہ ہو، احوال چڑت سنگھ لکھتا ہوں فی المثلپہونچا جب اس کا حکم قضا سیں دم اجلآیا ولایت اپنی سے لے کر ہجوم دلفرصت نہ دی قضا نے چلا چل میں ایک پلآیا اجل کا شیر ہرن کے شکار پر 8جے سنگھ سکھوں کی کینا مثل کا بانی تھا۔ ۱۷۸۴ء میں اس کا اکلوتا فرزند گور بخش سنگھ عین میدان جنگ میں گولی سے ہلاک ہوا تھا۔ اس کی وفات پر بٹالہ کے ایک شاعر محمد غوث بٹالوی نے اس کا مرثیہ لکھا۔ اس کے دو شعر ملاحظہ ہوں، سر اپنے پہ غم سوں اٹھا خاک زارتاسف سوں کہتے ہیں سب شہروارکدھر ہے وہ گور بخش سنگھ پہلواں کدھر موتیاں والا ہے نوجواں 9راجہ رام نرائن عظیم آباد کے صوبہ دار تھے۔ موزوں تخلص کرتے تھے اور شیخ علی حزیں سے شرف تلمذ تھا۔ جب نواب سراج الدولہ مارے گئے تو راجہ صاحب نے یہ شعر کہا تھا، غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کیدوانہ مر گیا آخر کو ویرانہ پہ کیا گزرییہ شعر ہندو مسلم اتحاد واتفاق کی ایسی مثال ہے جسے تاریخ کے صحیفوں میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں رقم کیا جائےگا۔ سید انشاء اللہ خاں کی تاریخ وفات ایک ہندو شاعر بسنت سنگھ نے کہی تھی، خبر انتقال میر انشادل غمدیدہ تا نشاط شنفتسال تاریخ او ز جان اجلعرفی وقت بود انشا گفت 101233=1230+3اردو کے موجودہ ہندو شاعروں میں سے لال چند فلک نے حالی اور محسن الملک کی موت پر اور منور لکھنوی نے محمد علی جوہر کی وفات پر مرثیے کہے ہیں۔ منور کے اشعار میں خلوص کی آنچ کو محسوس کیا جا سکتا ہے، پہلو میں اپنے قلب مصفا لیے ہوئے سر میں عروج قوم کا سودا لیے ہوئے آزادیٔ وطن کی تمنا لیے ہوئے پیغام اتحاد کا پرچا لیے ہوئے دنیا سے اپنے ہاتھ اٹھائے چلا گیاسوئے عدم قدم کو بڑھائے چلا گیاحسرت موہانی نے لوک مانیہ تلک کی وفات پر دو غزلیں لکھی تھیں۔ ایک کا مطلع ہے، ماتم ہو نہ کیوں بھارت میں بپا دنیا سے سدھارے آج تلکبلونت تلک، مہاراج تلک، آزادوں کے سرتاج تلکمہاتما گاندھی کی شہادت پر اردو کے مسلمان شاعروں نے کئی نظمیں لکھی ہیں، جن کا ذکر طوالت کے خوف سے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ آج ہم خود جب اقبال یا غالب ڈے منانے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو مذہبی فاصلہ یا تفاوت کو بھول جاتے ہیں، جو غلامانہ ذہنیت کے زیر اثر ہم میں راہ پا گیا ہے۔ اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات کا ذکر نامکمل رہےگا، اگر ہندو اور مسلمانوں کے ان تاریخی معاشقوں کا ذکر نہ کیا جائے، جن کی شہادت اردو ادب سے دستیاب ہوتی ہے۔ روپ متی اور باز بہادر، حکمراں مالوہ کا قصہ تو اس قدر عام ہے کہ اس کا صرف ذکر کر دینا ہی کافی ہوگا۔ عظمت اللہ خاں نے اس معاشقہ کو نظم کیا ہے۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھاگ متی چچلم کی ایک ہندو رقاصہ کا گرفتار محبت تھا۔ تخت نشینی کے چند سالوں کے بعد اس عاشق صادق نے اپنی محبوبہ کے اعزاز واکرام میں اس کے موضع چچلم کو ایک عظیم الشان شہر میں تبدیل کردیا اور اس کا نام بھاگ نگر رکھا۔ شادی کے بعد بھاگ متی کو حیدر محل کے خطاب سے نوازا گیا اور بھاگ نگر، حیدرآباد کے نام سے مشہور ہو گیا۔ محمد قلی قطب شاہ کے کلام سے اس کے معاشقہ کا سراغ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کلیات میں ’’بارہ پیاریاں‘‘ کے عنوان سے جو نظمیں درج ہیں ان میں موہن، ہندی چھوری، سانولی، سندر، سجن اور پدمنی کے نام دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہندو تھیں۔ مرزا محمد مقیم مقیمی دکنی شاعر تھا۔ ایک مثنوی چندر بدن و مہیار سنہ تصنیف ۱۶۴۰ء اس سے یادگار ہے۔ جناب نصیر الدین ہاشمی نے لکھا ہے کہ چندر بدن اور مہیار کے عشق کا جو قصہ اس میں نظم کیا گیا ہے وہ بظاہر ایک افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر بقول نواب سرامین جنگ بہادر اس قصہ کی اصلیت میں شک نہیں۔ اب تک علاقہ مدراس کے ایک قصبہ میں ان دونوں عاشق ومعشوق کی قبر موجود ہے اور زیارت گاہ عام ہے۔ مؤلف تزک آصفیہ نے بھی اس روداد عشق کی صداقت کے متعلق صراحت کی ہے اور اس کو ابراہیم عادل شاہ کے زمانہ کا واقعہ بیان کیا ہے۔ 11اردو کی عشقیہ مثنویوں میں میر کی ’’شعلہ عشق‘‘ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ پرس رام کی بیوی کی دلدوز اور یاس انگیز کہانی ہے۔ پرس رام کا اصل نام محمد حسن تھا، جو محمد شاہ بادشاہ کے دور حکومت میں پٹنہ کا باشندہ تھا۔ شیام سندر، وہاں کے ایک مہاجن کی لڑکی پر عاشق ہوا اور آخرکار ہزاروں صدمے اٹھانے کے بعد اس سے نکاح ہو گیا۔ ایک روز محمد حسن کے ڈوب مرنے کی غلط خبر سن کر سندر نے کلیجہ پیٹ لیا اور جاں بحق ہو گئی۔ شوق نیموی کا بیان ہے، 12’’شام سندر کی جواں مرگی سے (محمد حسن نے) دل پر اتنی گہری چوٹ کھائی کہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے۔ ادھر دریا کے کنارے کچھ اور ہی تماشا تھا۔ آدھی رات کو ایک تند وتیز روشنی آسمان سے اترتی اور ’’حسن حسن‘‘ پکارتی۔ محمد حسن نے جب شعلہ آسمانی کا حال سنا تو بے قرار ہو گئے۔۔۔ چند احباب کے ساتھ کشتی میں سوار دریا کے دوسرے کنارے پہنچ گئے اور آدھی رات گزر جانے پر آسمان پر سے وہ شعلہ اترا، کناروں پر دوڑا اور ’’حسن حسن‘‘ پکارنے لگا۔ محمد حسن کی عجب حالت ہوئی۔ بجلی کی تیزی سے وہ شعلہ کی طرف لپکے اور احباب کے دوڑتے دوڑتے یہ جا، وہ جا، آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد سطح آب پر دو تیزوتند روشنیاں ابھریں اور ’’حسن شام سندر، حسن شام سندر‘‘ کہتی ہوئی ایک دوسرے کی طرف بڑھنے لگیں۔ جب دونوں مل گئیں تو بھک سے روشنی کی چمک بجلی سی ہو گئی اور دریا سارا منور ہو گیا۔ معاً یہ چمک ماند پڑ گئی اور پھر کبھی کوئی روشنی دیکھنے میں نہ آئی۔ محمد حسن کی لاش کا کوئی پتہ نہ چلا۔‘‘ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کا بیان ہے کہ میر اس وقعہ کے مخترع نہیں ہیں 13 اور جلال لکھنوی و شوق نیموی کے ان بیانات کو جو ڈاکٹر فاروقی نے اپنی تصنیف میر تقی میر میں نقل کیے ہیں، دیکھنے کے بعد اس تاریخی معاشقہ کی صداقت میں شبہ کی گنجائش کم باقی رہ جاتی ہے۔ گلاب سنگھ آشفتہ انیسویں صدی کے قرن اول کے ایک دہلوی شاعر تھے۔ قادر بخش صابر مصنف گلستانِ سخن نے ان کے ذکر میں لکھا ہے کہ وہ ’’بنو‘‘ ایک خوبصورت زن خانگی پر عاشق تھے۔ بنو کا جواب دہلی میں کم تھا۔ یہ بھی ان کی طرف ملتفت تھی۔ لیکن نہ جانے کیا غلط فہمی ہو گئی کہ آشفتہ نے خودکشی کرلی۔ بنو پر اس سانحہ کا اس قدر اثر ہوا کہ اسے دق ہو گئی اور کہتے ہیں کہ بعد چند روز راہی ملک عدم ہوئی۔ صابر نے بنو اور آشفتہ کے کئی ایسے اشعار نقل کیے ہیں جن کے سننے سے آج بھی دردمندان محبت کو چوٹ لگتی ہے۔ لاش آشفتہ کو بے رحموں نے پھونکا آگ سے آتش غم بھی جوانا مرگ کی کچھ کم نہ تھی 14شادی لال چمن پچھلی صدی کے نصف آخر کے لکھنوی شاعر تھے۔ الٰہی جان سے ان کے عشق کے چرچے آج تک لکھنؤ میں ہوتے ہیں۔ ان کا شعر ہے، سر نامِ صنم نام خدا ہے الٰہی جان کا رتبہ بڑا ہے 15اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں اردو ہی صرف ایک ایسی زبان ہے جس میں ہندو ابتدا سے اب تک مسلمانوں کے دوش بدوش کام کرتے رہے ہیں۔ اردو کے ہندو شعرا وادبا کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ اسے دہرانا یہاں ممکن نہیں۔ اس کا کچھ اندازہ ان تذکروں کے ذکر سے لگایا جا سکتا ہے جو صرف ہندو شاعروں یا ادیبوں کے بارے میں لکھے گئے۔ (۱) تذکرہ ہندو شعرا۔۔۔ دیبی پرشاد بشاش(۲) ہندو شعرا۔۔۔ عبد الرؤف عشرت لکھنوی(۳) یاد رفتگاں۔۔۔ شام موہن لال جگر بریلوی(۴) منتخب ہندو شعر۔۔۔ عبد الشکور(۵) بہار گلشن کشمیر، (دو جلدوں میں)، برج کشن کول بے خبر و جگ موہن ناتھ شوق(۶) مثنوی بعنوان ’’اردو۔۔۔‘‘ جگن ناتھ آزاد(۷) لالہ سری رام نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف خم خانۂ جاوید میں بھی ہندو شاعروں کا ذکر کیا ہے۔ کئی ہندو حضرات نے اردو کے ہندو مسلم شعرا کے تذکرے بھی لکھے ہیں۔ اردو کے یہ تذکرے رواداری اور باہمی خلوص وفراخ دلی کے بہترین ترجمان ہیں۔ ان میں سے چند کے نام حسب ذیل ہیں، (۱) خوب چند ذکا کا تذکرہ معیار الشعر ۱۲۰۸ء اور ۱۲۴۷ء کے درمیان لکھا گیا۔ اس میں ۱۵۰۰ شعرا کے حالات ہیں اور یہ تین سال میں مرتب ہوا۔ جامعیت اور تفصیل کے لحاظ سے اپنی قسم کا پہلا تذکرہ ہے۔ (۲) درگا پرشاد نادر دہلوی نے ۱۸۷۱ء میں گلدستہ نادر الاذکار لکھا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کا بیان 16 ہے کہ یہ دکنی شاعروں کا اولین تذکرہ ہے۔ (۴، ۳) درگاہ پرشاد نادر نے اردو کی شاعر خواتین کے بھی دو تذکرے تصنیف کیے۔ جن کے نام ’’گلشن ناز‘‘ اور ’’چمن ناز‘‘ ہیں۔ (۵) دیبی پرشاد بشاش کا بیان ہے کہ راجہ جمنی جی ارمان نے ایک تذکرہ شعرائے اردو کا مرتب کیا تھا جس کے متعلق تحقیق نہیں ہے۔
(۶) عشرت لکھنوی نے لکھا ہے کہ راجہ جمنی جی متر بنگالی ارمان نے ایک تذکرہ شعرا ’’نسخہ دلکشا‘‘ کے نام سے تصنیف کیا تھا۔ 17 اغلب ہے کہ جمنی جی مترا (ارمان) ایک ہی شخص ہو۔ (۷) لکشمی نرائن شفیق کا تذکرہ چمنستان شعرا اردو شاعروں کا ایک معروف تذکرہ ہے۔ (۸) منشی بینی نرائن نے کپتان روبک کے کہنے پر ’’دیوان جہان‘‘ کے نام سے ہندوستانی شعرا کا ایک تذکرہ مع ان کے منتخب کلام کے ۱۸۱۴ء میں مرتب کیا تھا۔ 18 اس کے علاوہ اردو ادب میں رتن ناتھ سرشار، دیا شنکر نسیم، لالہ سری رام، برج نرائن چکبست، منشی نوبت رائے نظر، سرور جہان آبادی، مہاراجہ سرکشن پرشاد، منشی نول کشور، دیا نرائن نگم، سرتیج بہادر سپرو، منشی پریم چند، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، رگھوپتی سہائے فراق اور کرشن چندر کے اسمائے گرامی کا ذکر ہی اخوت اور محبت کے ان مبارک جذبات کا پیامبر ہے جو اتحاد و اتفاق کے ضامن ہیں۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ آج بھی اردو کی ہر صنف ادب میں ہندو و مسلمان ایک دوسرے کے دوش بدوش نظر آتے ہیں۔ مذہب کی سطحی تفریق ان کی صفوں میں کبھی انتشار پیدا نہیں کر سکتی۔ حالیہ اردو ادب کے اس حصہ نے جو فسادات اور اس کے بعد کے دنوں میں لکھا گیا ہے، مذہب کے گمراہ کن جوش کو محبت کے غلو میں بدل دینے کی کوشش کی ہے۔ تو ہم، جہالت اور فرقہ وارانہ عناد کی بیخ کنی ہمیشہ اردو ادب کا مقصد اول رہا ہے اور بقول ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، ’’ہندوستان بھر کی علاقائی زبانوں میں کوئی بھی زبان اتحاد پسندی کے رجحانات کی ترویج وترقی میں اردو سے سبقت نہیں لے سکتی۔‘‘ اور حق تو یہ ہے کہ اردو اور اتحاد دو الگ لفظ نہیں ہیں کیونکہریاض ہند میں اردو وہ اک خوش رنگ پودا ہے جسے خونِ جگر سے ہندو و مسلم نے سینچا ہے جگن ناتھ آزاد 19حواشی(۱) حیات خسرو، سید رکن الدین نظامی دہلوی، ص، ۷۸(۲) میر تقی میر، ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، ص، ۵۶۳(۳) مضامین فرحت، جلد۲(۴) دہلی ۱۸۳۷ء میں، بحوالہ میر تقی میر، ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، ص، ۵۶۳(۵) مجموعہ نغز، بحوالہ، نادرات شاہی، ص، ۶۱(۶) میر تقی میر، ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، ص، ۵۷۱(۷) رسالہ مخزن، بابت ماہ جون، ۱۹۱۰ء(۸) پنجاب میں اردو، ص، ۳۴۷(۹) ایضا، ص، ۳۵۲(۱۰) سیر المصنفین، جلد اول، ص، ۸۹(۱۱) دکن میں اردو، ص، ۱۲۶(۱۲) بحوالہ میر تقی میر، ص، ۴۲۹(۱۳) بحوالہ میر تقی میر، ص، ۴۲۷(۱۴) دلی کالج میگزین، مرحوم دلی کالج نمبر، ص، ۸۱(۱۵) تذکرہ ہندو شعرا، دیبی پرشاد بشاش(۱۶) شعرائے اردو کے تذکرے، ص، ۷۳(۱۷) تذکرہ ہندو شعرا، ص، ۵(۱۸) ہندو شعرا، ص، ۱۶(۱۹) سیر المصنفین، محمد یحییٰ تنہا، ص، ۱۳۶، جلد، ۱(۲۰) یہ مقالہ آل انڈیا اورینٹل کانفرنس کے سالانہ اجلاس، اکتوبر ۱۹۵۳ء، منعقدہ احمد آباد میں سید نجیب اشرف ندوی کی صدارت میں پڑھا گیا جب راقم الحروف دہلی کالج میں ایم اے (اردو) کا طالب علم تھا۔