انیسویں صدی: سر سید اور منشی نول کشور
مغلیہ اقتدار کے خاتمے کے ساتھ، انیسویں صدی میں ذہنی بیداری کی جو لہر اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہندوستان میں پھیل گئی، اس کے بارے میں طرح طرح کی رائیں ظاہر کی گئی ہیں۔ کبھی کبھی تو ان رایوں میں یکسر اختلاف اور تضاد نظر آتا ہے۔ ان تمام رایوں کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو ایک عجیب وغریب، قدرے ژولیدہ مو نتاج کی تصویر ابھرتی ہے اور اس انتشار آلود مونتاج سے جس تاریخی سچائی کا ظہور ہوتا ہے، اسے مروجہ سفید و سیاہ کے خانوں میں بانٹنا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ’’جدید ہندوستانی نشاۃ ثانیہ‘‘ کا مروجہ تصور، سماجی مفکروں، مؤرخوں اور دانشوروں کے ایک بڑے حلقے کے لیے، قابل قبول نہیں ہے۔
انیسویں صدی کی ذہنی بیداری اور نشاۃ ثانیہ سے وابستہ تمام مسئلے ایک پیچیدہ منطق رکھتے ہیں۔ اس صدی کے دوران تعلیمی، فکری، معاشرتی، تہذیبی اور علمی سطح پر جو بھی خاکہ مرتب ہوا، اس کے بنیادی عناصر سے بحث کی جائے تو کچھ خاص شبیہیں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ نئے اداروں اور تعلیمی مراکز کے ساتھ ساتھ ایسے دانشوروں اور مصلحوں کی شبیہیں، جو اپنے ماضی سے مایوس اور حال سے سراسیمہ تھے اور صرف فوری مقاصد کے تحت اجتماعی زندگی کے صدیوں پر انے، آزمودہ نسخوں سے دست بردار ہونا چاہتے تھے، انہیں شبیہوں کے واسطے نئی علمی روایت اور نئی فکر سے وابستہ یہ عناصر پہچانے جاتے ہیں۔ ان عناصر کی فہرست لمبی ہے اور رواروی میں ان کا احاطہ مشکل ہے۔ لہذا اس وقت میں اپنے مختصر معروضے کی روشنی میں صرف دو تین امور کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
اس ضمن میں پہلی بات تو وہی ہے جس سے اس گفتگو کا آغاز ہوا یعنی کہ انیسویں صدی کے ہندوستان کا بدلتا ہوا معاشرتی اور فکری منظر یہ، جو بہت پیچیدہ اور تہہ دار ہے۔ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس وقت دوگروہوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک طرف جدید تعلیم سے بہرہ ور ہندوستانی تھے جو انگریزوں کو، کارل مارکس کی طرح، ہماری تاریخ کے ’’غیر شعوری اور غیر ارادی‘‘ معماروں کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ (unconscious tools of history) اس گروہ کے نزدیک مغربی تعلیم نے ہماری اجتماعی نجات کا واحد راستہ فراہم کیا تھا۔ مثال کے طور پر اس زمانے کے کئی مصلحین ماسٹر رام چندر کی طرح یہ محسوس کرتے تھے کہ، اللہ تعالیٰ نے کچھ انگریزوں کو ہی طاقت بخشی ہے کہ بہ سبب فضیلت کے کیا کیا کام کرتے ہیں اورکچھ انگریزوں ہی پر یہ مدار نہیں ہے، بلکہ جو شخص علوم اور فنون پر بخوبی توجہ کرے گا، وہی بہرہ وافی اٹھا وےگا۔ (بحوالہ ماسٹر رام چندر، مرتبہ صدیق الرحمن قدوائی، اشاعت ۱۹۶۱)
اس احساس میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کئی معروف ہندوستانی اور غیر ہندوستانی شریک تھے۔ ہندوستانیوں میں راجہ رام موہن رائے سے لے کر غالب، سر سید احمد خاں اور ان کے رفیقوں تک، کئی نام لیے جا سکتے ہیں۔ غیر ہندوستانیوں میں سب سے زیادہ جانی پہچانی شخصیت ٹامس بیننگٹن میکالے کی ہے، جن کا صرف ایک اقتباس ان کے مزاج اور زاویہ نظر کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، اس وقت ہمیں حتی الامکان ایک ایسا طبقہ بنانے کی کوشش کرنی ہے جو ہماری باتیں ان لاکھوں ہندوستانیوں تک پہنچائے جن پر ہم حکومت کر رہے ہیں، ایک ایسا طبقہ جس کا خون اور رنگ خالصتاً ہندوستانی ہو لیکن اس کا مذاق، نظریات، اخلاقی تصورات اور ذہنی و فکری رجحانات بالکل انگریزی ہوں۔ (بحوالہ موڈرن انڈین کلچر، مصنفہ ڈی پی مکرجی، اشاعت ۱۹۴۲)
مزید تفصیلات کے لیے لارڈ میکالے کی (۱۸۳۵کی) تعلیمی یادداشت موجود ہے جس کی حیثیت ایک دستاویزی ماخذ کی ہے۔ یہ ایک جارحانہ ثقافتی حملے کا اعلان تھا اور اس کی تہہ میں برطانوی حکومت کے سیاسی، اقتصادی مقاصد چھپے ہوئے تھے۔ ہندوستانیو ں کا ایک قوم پرست حلقہ ان مقاصد کو پہچانتے ہی تہذیبی، سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، ہر سطح پر انگریزی تعلیم سے منحرف اور بر طانوی اقتدار کا مخالف ہو گیا۔ قومی آزادی اور قدامت پرستی کے جو میلانات انیسویں صدی کے ہندوستان میں رونما ہوئے، اسی حلقے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس حلقے کا رویہ اس عہد میں رونما ہونے والے حقیقی مسئلوں کی طرف کسی قدر جذباتیت کا تھا، چنانچہ اسے انگریزوں سے وابستہ ہر مظہر، ہر شے پر شک کی نظر ڈالنے کی عادت سی ہو گئی۔
دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو انگریزی حکومت کی مخالفت کرنے کے بجائے ثقافتی سطح پر اپنی مدافعت کی جستجو میں لگ گئے۔ غالب نے انگریزی تہذیب کی لائی ہوئی برکتوں کا خیر مقدم تو کیا لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اپنے تہذیبی ماضی کے تحفظ سے بھی غافل نہیں رہے۔ حالی نے یادگار غالب میں صاف طور پر اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ مغلوں کے سیاسی زوال کے باوجود عہد مغلیہ کی روایات، اقدار و تہذیبی تصورات اور اسالیب کا چراغ ۱۸۵۷ کے بعد بھی پوری آب و تاب کے ساتھ روشن رہا۔ غالب اس عہد نا پرساں میں ہماری اجتماعی تخلیقی روایت اور جینیس (genius) کے سب سے بڑے نمائندے تھے۔ اپنے رویوں اور افکار کے ’’نئے پن‘‘ کے باوجود اپنے تہذیبی ماضی سے ان کا تعلق کمزور نہیں ہوا۔
جو اصحاب ِعلم اپنی ریڈیکلزم کے جوش میں غالب کے قول ’’مردہ پروردن مبارک کارنیست‘‘ پرتحسین و آفرین کے راگ الاپتے ہیں، انہیں غالب کے شعور میں پیوست ایک گم ہوتے ہوئے ماضی سے دیوانہ وار عشق کی لہر کو بھی پہچان لینا چاہیے۔ انسانی روح سے چمٹے ہوئے تہذیبی احساسات پرانے کپڑوں کی طرح اتار پھینکے نہیں جاتے۔ یہی صورت حال سر سید اور ان کے رفیقوں پر بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ صادق آتی ہے۔ یہ حساس لوگ تھے، قومی دردمندی کے جذبے سے پوری طرح سرشار اور ہندوستانی معاشرے کو زوال اور اضمحلال کی کیفیت سے نجات دلانے پر کمر بستہ۔ لیکن ان میں ماضی اور حال کے مابین توازن قائم رکھنے کی جیسی بے مثال صلاحیت دکھائی دیتی ہے، اور پرانی قدروں کے زوال پر اپنی افسردگی کے باوجود یہ نئی روشنی کے خیر مقدم میں جتنے ہوش مند دکھائی دیتے ہیں، اس کا تجزیہ گہرائی کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔
برہموسماج، آریہ سماج، پرارتھنا سماج، رام کرشن مشن اور دوسری چھوٹی بڑی اصلاحی انجمنوں کی قیادت کرنے والے تمام مصلحوں کی طرح، سر سید اور ان کے رفقا بھی جدید علوم اور تصورات سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ اپنے روایتی تشخص کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔ ذہنی، جذباتی اور ثقافتی سطح پر یہ تمام لوگ جس کشمکش اور اندوہ کا شکار تھے اور جس غیر معمولی لگن اور جذبے کے ساتھ ایک نئے مستقبل کی تعمیر کرنا چاہتے تھے اور اپنے حواس کا توازن قائم رکھے ہوئے تھے، اس کی تفہیم کے بغیر ہم ان کے شعور میں برپا آویزش کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ سر سید اور ان کے دور پاس کے تمام رفقا تاریخ کی منطق اور زمانے کی تبدیلیوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ یہ بھی جانتے تھے کہ وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں گھمایا جا سکتا۔ انتہائی پیچیدہ، حوصلہ شکن اور تضاد ات سے بھرے ہوئے ماحول میں بھی ان اصحاب نے اپنا ذہنی اور جذباتی توازن بگڑنے نہیں دیا۔ سر سید، حالی، شبلی، نذیر احمد، محمد حسین آزاد، مولوی ذکاءاللہ اور علی گڑھ تحریک کی ترویج میں حصہ لینے والے تمام لوگوں نے انیسویں صدی کے انتشار آگیں معاشرے میں جس سوج بوجھ اور ہوش مندی کا مظاہرہ کیا، اس کے بغیر علمی اور فکری سطح پر دنیا ہمارے لیے وہ کچھ ہر گز نہ ہوتی جیسی کہ آج ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ سر سید اور ان کے رفقانہ تو مخالفتوں سے گھبرائے، نہ حالات سے سراسیمہ ہوئے، نہ ان کی طبیعت میں کڑواہٹ پیدا ہوئی، نہ وہ کسی طرح کی خوش گمانی میں مبتلا ہوئے، نہ اپنے فکری نصب العین سے دست بردار ہوئے۔ ان کی شخصیتوں میں ایک عجیب و غریب تہہ داری، گہرائی اور رفعت و جلال کے عناصر دکھائی دیتے ہیں اور ان کے افکار میں ایسی پاکیزگی، بے لوثی اور سچائی ملتی ہے جو ہماری اجتماعی تاریخ میں ان کے بعد کہیں نظر نہیں آتی۔
انیسویں صدی، تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور ہماری اجتماعی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کرنے والے واقعات کی صدی تھی۔ اس سے پہلے وارن ہیسٹنگز کی گورنری کے زمانے میں (۱۷۷۵۔ ۱۷۸۵) کلکتے میں سنسکرت کی تعلیم کے لیے مخصوص ہندو کالج اور عربی کے لیے کلکتہ مدرسہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جا چکا تھا۔ اس وقت تک انگریز ہندوستانی علوم اور ادبیات میں گہری دلچسپی لے رہے تھے۔ سرولیم جونس نے تو اس سلسلے میں اتنی مقبولیت حاصل کر لی تھی کہ اس کی موت کا سوگ راسخ العقیدہ برہمنوں نے بھی منایا۔ یہ سر ولیم جونس کی کوششوں کا ہی فیضان تھا کہ اس نے بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کے نام سے جو ادارہ قائم کیا تھا، وہی یورپ سے قدیم ہندوستانی ادب کے تعارف کا ذریعہ بنا۔ لیکن انیسویں صدی میں انگریزوں کے قدم جمانے کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کا رویہ بھی تبدیل ہو گیا۔
سر چارلس مٹکاف نے (۱۸۲۸میں ) مرحوم دلی کالج میں ایک انگریز ی جماعت کے اضافے کی منظوری دے دی۔ ۱۹۲۹ میں باضابطہ طور پر ایک مغربی شعبہ قائم کرایا گیا۔ ۱۸۳۵ میں کمپنی نے اپنی تعلیمی پالیسی کا خاکہ نئے سرے سے ترتیب دیا اور مشرقی علوم و فنون کے درس و تدریس کی روایت کو لارڈ ولیم بینٹنک کی اس تجویز سے (بتاریخ ۷/مارچ ۱۸۳۵) سخت صدمہ پہنچا کہ، ہزلارڈ شپ بہ اجلاس کونسل ہدایت کرتے ہیں کہ آئندہ (سرکاری) رقوم کا کوئی جز اس کام میں نہ لایا جائے۔ ہزلارڈ شپ بہ اجلاس کونسل ہدایت فرماتے ہیں کہ وہ تمام رقوم جو ان اصلاحات کی رو سے کمیٹی کے قبضے میں آئیں وہ آئندہ دیسی لوگوں میں انگریزی زبان کے ذریعے سے انگریزی علم و ادب اور سائنس کی اشاعت میں صرف کی جائیں۔ (بحوالہ مولوی عبد الحق، مرحوم دہلی کالج)
ہماری اجتماعی زندگی کے لیے یہ نوید مسرت ایک پیغام ہلاکت بھی کہی جا سکتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس فیصلے کو مشرقی روایات اور علوم کی بنیادیں اجاڑنے سے تعبیر کیا ہے۔ (مرحوم دہلی کالج) بہ قول ہمایوں کبیر، یہ مغربی عقلیت کے ہاتھوں ہندوستان کی روحانی شکست تھی (د َانڈین ہیر یٹیج) ہندوستانیوں سے قطع نظر، مغربیوں کے ایک حلقے میں بھی اسی سے ملتے جلتے احساس کی نشاند ہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، پرسیول اسپیئر نے (ٹوائلائٹ آف د مغلس) میں انگریزی زبان کے تسلط کو ہندوستان میں ’’ایک عظیم ثقافتی ورثے کی شاندار تاریخ کا آخری باب‘‘ کہا ہے۔ اسی پس منظر میں، مغربی افکار اور علوم کی بنیاد پر استوار ہونے والا، ایک جدید تہذیبی نشاۃ ثانیہ کا تصور اب نظر ثانی کامحتاج دکھائی دیتا ہے۔
نشاۃ ثانیہ کے میلانات کا ظہور ایک عہد ظلمت کے ملبے کی تہہ سے ہوتا ہے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ظلمت کا یہ دور آیا ہی نہیں۔ اسی لیے ہندوستان کے سماجی مفکرین میں ایسے اصحاب کی تعداد خاصی ہے جو نشاۃ ثانیہ کی ایک نئی تعریف پر اصرار کرتے ہیں اور انگریزوں کی آوردہ’’روشن خیالی اور عقلیت (enlightenment and rationalism) کی روایت کو جدید نشاۃ ثانیہ کا اعلانیہ نہیں سمجھتے۔ غور طلب واقعہ یہ ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ، علوم کے نئے مراکز اور اداروں کے قیام اور انگریزی زبان کے تسلط کے ساتھ ہی مشرقی علوم کی بازیافت، مشرقیت کی ایک نئی تعبیر اور اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ انیسویں صدی کی اصلاحی انجمنوں، بہ شمول علی گڑھ تحریک، کے دائرہ کار اور مقاصد کا جائزہ اس واقعے کی روشنی میں بھی لیا جانا چاہیے۔ مغربیت کے سیلاب کے خلاف یہ اجتماعی مزاحمت کی ایک تحریک بھی تھی، ہندوستانی معاشرے کی تشکیل جدید۔ بیک وقت پرانی اور نئی تعلیم کے اشتراک و امتزاج کے واسطے سے اس کی توانائی کو بڑھانے کا، اس کے empovermentکا ایک نیا راستہ!
منشی نول کشور اور ان کے مطبع کی کارکردگی، مقاصد، منہاج اور مجموعی رول سے قطع نظر، ہماری تہذیبی تاریخ میں ان کی اہمیت اور قدر وقیمت کا جائزہ دراصل اسی پس منظر میں لیا جانا چاہیے۔ انیسویں صدی کی ذہنی بیداری اور مشرقیت کے ایک نئے احساس کی مقبولیت کو سمجھے بغیر منشی نول کشور کی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سیاق میں مطبع نول کشور ایک تجارتی ادارے سے آگے بڑھ کر ایک فکری تحریک، اجتماعی نصب العین کی حصولیابی کے لیے اپنی علمی اور ثقافتی روایت کی سطح پر، ایک مستقل جدوجہد کے مرکز کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
فارسی رسم الخط کا پہلا تجارتی چھاپہ خانہ ۱۸۰۲ کے اواخر یا ۱۸۰۲ کے اوائل میں ہندوستانی پریس کے نام سے قائم ہو چکا تھا۔ یہاں سے فورٹ ولیم کالج کی کئی کتابیں شایع ہوئیں۔ یہ مطبع جان گلکرسٹ کی ذاتی ملکیت تھا۔ ذاتی مطابع نسبتاً بعد میں قائم ہوسکے، کیونکہ انگریز ابھی تک ہندوستانی عوام کی طرف سے مطمئن نہیں ہو سکے تھے اور انہیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں ہندوستانیوں کے قائم کردہ چھاپے خانے باغیانہ خیالات کی اشاعت کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ رفتہ رفتہ انگریزوں کو اپنی طاقت پر اعتماد ہو گیا تو یہ گرفت بھی ڈھیلی پڑتی گئی اور جا بجا مطبعے قائم ہونے لگے۔ تاریخ، جغرافیہ، سائنس، قانون، طب، فلسفہ و حکمت اور سماجی موضوعات پر کتابیں چھپنے لگیں۔ محمد عتیق صدیقی مرحوم (صوبہ شمال ومغربی کے اخبارات اور مطبوعات) کے مطابق، ۱۸۴۹ کے دوران صرف صوبہ شمالی و مغربی میں ایک سو اکتالیس کتابوں کے چھتیس ہزار چار سو نسخے شایع ہوئے
منشی نول کشور، لاہور کے چار سالہ قیام کے دوران طباعت کی تربیت حاصل کرنے کے بعد ۱۸۵۷ کا ہنگامہ دبتے ہی آگرے آئے اور ۱۸۵۸ کے آغاز میں لکھنؤ پہنچے۔ اردو کتابوں کی اشاعت و طباعت کے ایک انقلابی اقدام اور انتھک جدوجہد کا سلسلہ اسی سال شروع ہوا۔ گویا کہ اردو خواں طبقے کی ذہنی تربیت اور ترقی کے لیے یہ ایک نیا محاذ تھا، تن تنہا ایک فرد کی دوربینی اور جوش عمل کا ترجمان۔ آگے چل کر مطبع نول کشور کے اشاعتی منصوبوں، دائرہ کار اور صحافیانہ، علمی اور ادبی سرگرمیوں کا جو خاکہ سامنے آیا، اس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ منشی نول کشور نے بھی بہت جلد ذہنی بیداری کی اس ہمہ گیر اور قومی تحریک کے ایک نمایاں علم بردار کی حیثیت اختیار کر لی جو قدیم و جدید کی آویزش اور آمیزش کا ایک ساتھ احاطہ کر رہی تھی۔
سر سید کی طرح منشی نول کشور کی توجہ ایک طرف ہمارے اجتماعی ماضی کے علمی آثار کو بحال کرنے پر مرکوز تھی، تو دوسری طرف ماضی اور مستقبل کے مابین وہ ایک نئی مفاہمت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ سر سید سے ان کے تعلقات کی جو تفصیلات مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ منشی نول کشور سر سید کے تعلیمی اور اصلاحی تصورات سے اتفاق کرتے تھے اور ان کا ’’اودھ اخبار‘‘ بالواسطہ طور پر علی گڑھ تحریک کی اشاعت کا ایک ذریعہ بھی بن گیا تھا۔ سر سید کے سیاسی افکار سے اختلاف کے باوجود منشی جی ان کے معاشرتی اور تعلیمی مشن کے پاسدار رہے۔ باہمی روابط میں کبھی فرق نہیں آیا۔ سرسید کا قلمی تعاون’’اودھ اخبار‘‘ کو ہمیشہ حاصل رہا۔
سر سید اودھ اخبار کے قاری اور قلم کار ہی نہیں، اس کے مداح بھی رہے۔ چنانچہ، امیر حسن نورانی کے بیان کے مطابق، ’’جب ۱۸۷۱ میں اودھ اخبار ہفتہ وار کے بجائے سہ روزہ ہو گیا اور اس کا سائز بھی بڑھ گیا تو اس کو دیکھ کر سر سید بہت خوش ہوئے۔‘‘ اور تہذیب الاخلاق میں انہوں نے لکھا کہ ’’اودوھ اخبار پہلے سے بھی نہایت باوقعت اخبار تھا اور اب تو کچھ کہنا ہی نہیں ہے، ہم کو یہ بھی امید ہے کہ ہمارے ہم عصر وقائع نگار بھی اودھ اخبار کی تقلید کریں گے اور منشی نول کشور سلمہ اللہ تعالیٰ کی عالی ہمتی سے یہ امید ہے کہ ان کا اخبار مثل بڑے بڑے باوقعت انگریزی اخبارات کے روزانہ جاری ہوا کرےگا، اور خدا کرے ایسا ہی ہو۔‘‘
ایک نئی ذہنی بیداری اور فرسودہ روایات سے آزاد معاشرتی زندگی کی ترتیب و تشکیل میں انیسویں صدی کی تعلیمی اور صحافتی سرگرمیوں کے رول کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسی لئے ہماری نشاۃ ثانیہ کے تصور کو سر سید کی تعلیمی تحریک اور مطبع نول کشور کی اشاعتی خدمات سے یکساں طور پر متاثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ جس طرح سر سید نے اس عہد کے ذہین ترین لکھنے والوں کا ایک حلقہ بنا لیا تھا اور علی گڑھ تحریک کے اساسی عناصر کی تشکیل و تحفظ کے لیے روشن خیال دانشوروں کی ایک جماعت سامنے آگئی تھی، اسی طرح مطبع نول کشور نے بھی اپنے گرد شاعروں، ادیبوں، عالموں، ترجمہ کاروں کا ایک گروہ یکجا کر لیا تھا۔ اودھ اخبار ایک نئے ادبی اور تہذیبی شعور کا نقیب بن گیا تھا اور انیسویں صدی کے بعض بہترین لکھنے والوں کی شہرت اور مقبولیت کا مرکزی وسیلہ۔ ہماری اس عہد کی علمی اورادبی زندگی اسی محور کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ گویا کہ مطبع نول کشور نے ایک تجارتی ادارے کی بجائے ایک سرگرم اور فعال علمی وادبی اکادمی کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔
شرر اور سرشاردونوں اودھ اخبار کے ذریعے مشہور ہوئے۔ غالب نے یہ رائے ظاہر کی کہ مطبع نول کشور نے جس کا دیوان چھاپا اسے آسمان شہرت تک پہنچادیا۔ لکھنؤ کے تقریباً تمام بڑے حافظوں، عالموں اور ادیبوں کی وابستگی نے مطبع نول کشور کو ایک تجارتی ادارے سے زیادہ ایک ثقافتی اور علمی مرکز کی حیثیت دے دی تھی۔ اس ادارے کے ذریعے نول کشور ہماری بکھرتی ہوئی اجتماعی زندگی کی ایک نئی تاریخ مرتب کر رہے تھے اور ایک ایسے دور میں جو انگریزی کے روز افزوں اقتدار اور اردو کی حیثیت میں تخفیف کا دور کہا جا سکتا ہے، مطبع نول کشور نے اٹھارہ ہزار صفحوں پر مشتمل شاید دنیا کی سب سے ضخیم کتاب (طلسم ہوش ربا) کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا تھا۔ گیان چند جین کا یہ خیال غلط نہیں کہ منشی نول کشور نے تن تنہا وہ کام کیا جو اداروں کے کرنے کا تھا، یعنی یہ کہ فورٹ ولیم کالج اور انجمن ترقی اردو کی خدمات کے ساتھ مطبع نول کشور کی خدمات کا موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
مطبع نول کشور کے بغیر ہماری تہذیبی تاریخ کے نہ جانے کتنے گوشے زمانے کی آنکھ سے اوجھل رہ گئے ہوتے اور ہمارا کتنا علمی سرمایہ ضایع ہو گیا ہوتا! اپنے ماضی کا تحفظ، اس ماضی کا جو حال کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے، ایک ایسا تہذیبی فریضہ ہے جس کی ادائیگی نہ کی جائے تو حال کو بچائے رکھنے اور مستقبل کو بنانے، سنوارنے کا عمل بھی ممکن نہیں رہ جاتا۔ منشی نول کشور نے جن سطحوں پر، اور جس وسیع تناظر کے ساتھ، اپنے مطبع کے ذریعے یہ اجتماعی فریضہ ادا کیا اس سے ان کے وژن اور ادراک کی ہمہ گیری پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ انیس، سر سید، غالب، سرشار، شرر جیسے مشاہیر سے لے کر علم و ادب کی تمام اہم صنفوں سے تعلق رکھنے والے عام ادیبوں تک، منشی نول کشور کے تعلقات کا دائرہ بہت پھیلاہوا تھا۔ اردو لغات کی ترتیب وترقی اور اردو داستان کے فن کی حفاظت کے سلسلے میں انہوں نے جو اقدامات کیے، ان کی بنیاد پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زبان کی تعمیر و تشکیل اور ترویج و فروغ کے بنیادی رموز پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔
کسی بھی لسانی روایت کا نقشہ اور کسی بھی زبان کا ذخیرہ و سرمایہ الفاظ سب سے زیادہ اس زبان کے فکشن میں محصور ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ کہنا کہ تہذیبی زندگی اور اجتماعی تشخیص کا ایک بہت بنیادی اور مؤثر وسیلہ بھی فکشن کے ادب سے ماخوذ ہوتا ہے، غلط نہ ہوگا۔ منشی نول کشور نے لغات کے ذریعے اردو کی معیار بندی کا اور ترجمے، تصنیف و تالیف کے ذریعے اردو کی روایت کو وسعت دینے کا جو خاکہ اپنے سامنے رکھا تھا، اسے ہم ایک مکمل فکری اور علمی تحریک کا نام دے سکتے ہیں۔ انیسویں صدی کے پر آشوب زمانے میں منشی صاحب نے جس تسلسل، مستقل مزاجی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا، اگر انیسویں صدی کی اردو روایت سے اسے منہا کر دیا جائے، تو تصویر یکسر ادھوری اور ناقص رہ جائے گی۔ ہم سید احتشام حسین کے اس قول پر یہ گفتگو ختم کرتے ہیں کہ منشی نول کشور نے اودھ اخبار اور پریس کے ذریعے علم و ادب کو زندگی بخشی اور ملک کی ذہنی بیداری میں جو حصہ لیا، اسے نظر انداز کرکے ہندوستان کی مکمل تہذیبی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی۔