ان سے تنہائی میں بات ہوتی رہی
ان سے تنہائی میں بات ہوتی رہی
غائبانہ ملاقات ہوتی رہی
ہم بلاتے وہ تشریف لاتے رہے
خواب میں یہ کرامات ہوتی رہی
کاسۂ چشم لبریز ہوتی رہی
اس دریچے سے خیرات ہوتی رہی
دل بھی زور آزمائی سے ہارا نہیں
گرچہ ہر مرتبہ مات ہوتی رہی
سر بچائے رہا صبر کا سائباں
آسماں سے تو برسات ہوتی رہی
گو محبت سے ہم جی چراتے رہے
زندگی بھر یہ بد ذات ہوتی رہی
شہر بھر میں پھرایا گیا قیس کو
کوچے کوچے مدارات ہوتی رہی
جاگتے اور سوتے رہے ہم شعورؔ
دن نکلتا رہا رات ہوتی رہی