ان کی گلی میں برسوں رہائش کے باوجود
ان کی گلی میں برسوں رہائش کے باوجود
حاصل نہ کر سکا انہیں کوشش کے باوجود
آنکھوں سے آشکارہ نہیں ہونے دی تپش
دل میں دہکتی ہجر کی آتش کے باوجود
تیرا ہوں میں تو تیرے کرم سے ترا ہوں میں
شیطان اور نفس کی سازش کے باوجود
شاید اٹھیں وہ سن کے سرافیل کی صدا
جو نیند میں ہیں چار سو شورش کے باوجود
وہ زہر دے رہا تھا میں سمجھا شراب ہے
اک مغبچے کے ہاتھ کی لرزش کے باوجود
حیرت ہے ان پہ تجھ کو نہیں مانتے جو لوگ
شمس و قمر میں تیری نمائش کے باوجود
خواہش کے وہ بغیر ملے گا بروز حشر
دنیا میں جو نہ مل سکا خواہش کے باوجود
گیلانیؔ کوئی ایسا نہ ہوگا جو حشر میں
بخشا نہ جائے ان کی سفارش کے باوجود