ان کا خیال ہر طرف ان کا جمال ہر طرف

ان کا خیال ہر طرف ان کا جمال ہر طرف
حیرت جلوہ رو بہ رو دست سوال ہر طرف


مجھ سے شکستہ پا سے ہے شہر کی تیرے آبرو
چھوڑ گئے مرے قدم نقش کمال ہر طرف


ہم ہیں جواں بھی پیر بھی ہم ہیں عدم بھی زیست بھی
ہم ہیں اسیر حلقۂ قول محال ہر طرف


نغمہ گرا ہے بوند بوند پھر بھی اٹھی ہے کتنی گونج
اڑتی پھرے ہے ذہن میں گرد خیال ہر طرف


قلب حیات و موت سے مل نہ سکا کوئی جواب
پھینکا کیے ہیں گرچہ ہم سنگ سوال ہر طرف