اردو کا پہلا کامیاب ناول: امراؤ جان ادا
اردو ادب میں ناول نگاری کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃالعروس سے ہوتا ہے لیکن ناقدین کے مطابق یہ ناول کم اور اصلاح معاشرہ کی تحریر زیادہ لگتا ہے ۔مرزا ہادی رسوا کا ناول" امراؤ جان ادا" کو اردو ادب کا پہلا کامیاب ناول سمجھا جاتا ہے ۔مرزا ہادی رسوا نے اسے 1899ء میں لکھا۔ اس ناول کو معاشرتی، نفسیاتی اور تاریخی ناولوں میں اہم مقام حاصل ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود اس کو ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔
ناول کا موضوع
اگر ہم اس ناول کے موضوع کی بات کریں تو ناقدین نے اس ناول کے دو موضوعات قرار دیے ہیں۔ کچھ ناقدین نے اس کا موضوع "طوائف" قرار دیا ہے جبکہ بعض نے لکھنؤ کے معاشرتی زوال کو اس ناول کا موضوع قرار دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ناول کا موضوع طوائف کیوں ہے تو وجہ یہ ہے کہ جس دور میں یہ ناول لکھا گیا اس دور میں تہذیب کا گہوارہ طوائف اور طوائف کا کوٹھا تصور کیا جاتا تھا۔
ناول کی کہانی ایک طوائف امراؤ جان ادا کے گرد گھومتی ہے جو ایک شریف جمعدار کی بیٹی ہے اس کا اصل نام امیرن ہے۔ آٹھ سالہ امیرن کو اس کے محلے کا ڈاکو دگزارے ن جس کی امیرن کے باپ سے دشمنی ہوتی ہے،اسے اغواءکرکے لکھنؤ کی مشہور طوائف خانم جان کے کوٹھے پر فروخت کر دیتا ہے اور اس طرح وہ امیرن سے امراؤ جان ادا بن جاتی ہے امراوجان ادا کو اس دوران کئی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن آخر میں دلاورخان پکڑا جاتا ہے اور امراؤ جان ادا کربلا معلی کی زیارت کرکے صوم و صلوٰۃ کی پابند ہو کر خاموش زندگی بسر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یعنی گمراہی کا راستہ چھوڑ کر سلامتی کا راستہ اپنا لیتی ہے
کردار
ناول میں بہت سے کردار ہیں۔مگر امراوجان ادا کا کردار اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔بقول ڈاکٹر میمونہ انصاری
"امراو جان کا کردار اردو زبان میں اہم ترین کردار ہے۔یہ پہلا سنجیدہ کردار ہے جو اپنی زندگی کا ضامن ہے۔اب اس کردار کا ثانی کردار پیدا نہیں ہوا"
دیگر اہم کرداروں میں خانم جان، بسم اللہ جان، خورشید جان، گوہر مرزا ،دلاورخان، پیربخش ہوا حسینی اور نواب سلطان شامل ہیں
ناول کا پلاٹ انتہائی رواں دواں اور سیدھا سادہ ہے۔ ہر قسم کی پیچیدگی سے پاک ہے اور تمام واقعات میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ مرزا ہادی رسوا نے سادہ سلیس عبارت تحریر کی ہے تاکہ پڑھنے والے کو آسانی سے سمجھ آ سکے۔ناول میں قدم قدم پر بلا کی سنسنی خیزی پائی جاتی ہے اور واقعات کا بیان ایسا ہے کہ قاری کو تجسس میں ڈال دیتا ہے
ماحصل
فکری طور پر ناول امراؤ جان ادا بیک وقت سماجی، معاشرتی نفسیاتی اور تاریخی ناول ہے۔ یہ ایک حقیقی اور سچا ناول ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود لوگوں کی نفسیات اور جذبات کی سچی عکاسی کرتا ہے۔ یہ لکھنؤ کے اس دور کی تاریخ بھی بیان کرتا ہے کہ کس طرح ایک طوائف کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ کیونکہ امراء اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے طوائف کے پاس بھیجا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ناول نگار نے کہانی کے انداز میں معاشرے اور سماج کی عکاسی کرتے ہوئے طوائفوں کے کوٹھے کو مرکز بنا کر پڑھنے والوں کو بھی وہیں بٹھا کر پورے لکھنئو کے درودیوار اور گلی کوچے دکھائے ہیں۔ مجموعی طور پر ناول امراؤ جان ادا لکھنو کے معاشرتی زوال کی داستان ہے لیکن مرزا ہادی رسوا نے عورت کے لیے ایک پیغام بھی چھوڑا ہے کہ وہ ازدواجی زندگی اختیار کرتے ہوئے گھر کی چار دیواری میں پاکیزگی سے زندگی گزارے۔