عمر گزری ہے کامرانی سے

عمر گزری ہے کامرانی سے
کوئی شکوہ نہیں جوانی سے


مثل آدم ہے بے گھری اپنی
کون ڈرتا ہے بے مکانی سے


یوں مسلسل عذاب جھیلا ہے
اشک لگنے لگے ہیں پانی سے


ہم ہی کردار تھے کہانی کے
ہم ہی باہر ہوئے کہانی سے


سچ چھپانا محال ہے صاحب
جھوٹ سے یا کہ لن ترانی سے


کیا وہ پریاں قمر اسیر ہوئیں
سنتے آئے تھے ہم جو نانی سے


ظلمتوں میں بھی ہنس کے کھل جانا
اس نے سیکھا ہے رات رانی سے


بانجھ آنکھیں ہوئیں مگر ذاکرؔ
خواب آتے رہے روانی سے