الو کو گالی دینی بھی نہیں آتی
مرزا صاحب کھانا کھارہے تھے ۔ چھٹی رسان نے ایک لفافہ لاکردیا۔ لفافے کی بے ربطی اور کاتب کے نام کی اجنبیت سے ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے ‘ جیسے پہلے آچکے ہیں ۔ لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو۔ سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا ۔ پوچھا کس کا خط ہے ؟ اور کیا لکھا ہے ؟‘‘شاگرد کو اس کے اظہار میں تامل ہوا ۔ فوراًاس کے ہاتھ سے لفافہ چھین کر خود پڑھا۔ اس میں ایک جگہ ماں کی گالی بھی لکھی تھی ۔ مسکراکر کہنے لگے کہ’’الو کو گالی دینی بھی نہیں آتی ۔ بڈھے یا ادھیڑ عمر آدمی کو ماں کی نہیں بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے ۔ جو ان کو جو روکی گالی دیتے ہیں کیونکہ اس کو جورو سے زیادہ تعلق ہوتا ہے ۔ بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا ۔ یہ جوبہتر برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے ، اس سے زیادہ کون بیوقوف ہوگا؟‘‘