اُلو کا پٹھا

قاسم صبح سات بجے لحاف سے باہر نکلا اور غسل خانے کی طرف چلا۔ راستے میں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں، سونے والے کمرے میں، صحن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہے۔ بس صرف ایک بار غصے میں یا طنزیہ انداز میں کسی کو الو کا پٹھا کہہ دے۔


قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی بار بڑی بڑی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھیں مگر یہ خواہش سب سے نرالی تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ رات اس کو بڑی پیاری نیند آئی تھی۔ وہ خود کو بہت تروتازہ محسوس کررہا تھا۔ لیکن پھر یہ خواہش کیسے اس کے دل میں داخل ہوگئی۔ دانت صاف کرتے وقت اس نے ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا جس کے باعث اس کے مسوڑھے چھل گئے۔ دراصل وہ سوچتا رہا کہ یہ عجیب وغریب خواہش کیوں پیدا ہوئی مگروہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔


بیوی سے وہ بہت خوش تھا۔ ان میں کبھی لڑائی نہ ہوئی تھی، نوکروں پر بھی وہ ناراض نہیں تھا۔ اس لیے کہ غلام محمد اور نبی بخش دونوں خاموشی سے کام کرنے والے مستعد نوکر تھے، موسم بھی نہایت خوشگوار تھا، فروری کے سہانے دن تھے جن میں کنوار پنے کی تازگی تھی، ہوا خنک اور ہلکی، دن چھوٹے نہ راتیں لمبی، نیچرکا توازن بالکل ٹھیک تھا اور قاسم کی صحت بھی خوب تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کسی کوبغیروجہ کے الو کا پٹھا کہنے کی خواہش اس کے دل میں کیوں کر پیدا ہوگئی۔


قاسم نے اپنی زندگی کے اٹھائیس برسوں میں متعدد لوگوں کو الو کا پٹھا کہا ہوگا اور بہت ممکن ہے کہ اس سے بھی کڑے لفظ اس نے بعض موقعوں پر استعمال کیے ہوں اور گندی گالیاں بھی دی ہوں مگر اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ایسے موقعوں پر خواہش بہت پہلے اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی مگر اب اچانک طورپر اس نے محسوس کیا تھا کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہنا چاہتا ہے اور یہ خواہش لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتی چلی گئی جیسے اس نے اگر کسی کو الو کا پٹھا نہ کہا تو بہت بڑا ہرج ہو جائے گا۔


دانت صاف کرنے کے بعد اس نے چھلے ہوئے مسوڑھوں کو اپنے کمرے میں جا کر آئینے میں دیکھا۔ مگر دیر تک ان کو دیکھتے رہنے سے بھی وہ خواہش نہ دبی جو ایکا ایکی اس کے دل میں پیدا ہوگئی تھی۔قاسم منطقی قسم کا آدمی تھا۔ وہ بات کے تمام پہلوؤں پر غورکرنے کا عادی تھا۔ آئینہ میز پررکھ کروہ آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹھنڈے دماغ سے سوچنے لگا۔


’’مان لیا کہ میرا کسی کو الو کا پٹھا کہنے کو جی چاہتا ہے۔۔۔ مگر یہ کوئی بات تو نہ ہوئی۔۔۔ میں کسی کو الو کا پٹھا کیوں کہوں؟ میں کسی سے ناراض بھی تو نہیں ہوں۔۔۔‘‘یہ سوچتے سوچتے اس کی نظر سامنے دروازے کے بیچ میں رکھے ہوئے حقے پر پڑی۔ ایک دم اس کے دل میں یہ باتیں پیدا ہوئیں، عجیب واہیات نوکر ہے۔ دروازے کے عین بیچ میں یہ حقہ ٹِکا دیا ہے۔ میں ابھی اس دروازے سے اندر آیا ہوں، اگر ٹھوکر سے بھری ہوئی چلم گر پڑتی تو پاانداز جوکہ مونج کا بنا ہوا ہے جلنا شروع ہو جاتا اور ساتھ ہی قالین بھی۔۔۔


اس کے جی میں آئی کہ غلام محمد کو آواز دے۔ جب وہ بھاگا ہوا اس کے سامنے آجائے تو وہ بھرے ہوئے حقے کی طرف اشارہ کرکے اس سے صرف اتنا کہے،’’تم نرے الو کے پٹھے ہو۔‘‘ مگر اس نے تامل کیا اور سوچا یوں بگڑنا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ اگر غلام محمد کو اب بلا کر الو کا پٹھا کہہ بھی دیا تو وہ بات پیدا نہ ہوگی اور پھر۔۔۔ اور پھر اس بچارے کا کوئی قصور بھی تو نہیں ہے۔ میں دروازے کے پاس بیٹھ کر ہی توہر روز حقّہ پیتا ہوں۔


چنانچہ وہ خوشی جو ایک لمحہ کے لیے قاسم کے دل میں پیدا ہوئی تھی کہ اس نے الو کا پٹھا کہنے کے لیے ایک اچھا موقع تلاش کرلیا، غائب ہوگئی۔


دفتر کے وقت میں ابھی کافی دیر تھی۔ پورے دو گھنٹے پڑے تھے، دروازے کے پاس کرسی رکھ کر قاسم اپنے معمول کے مطابق بیٹھ گیا اور حقّہ نوشی میں مصروف ہوگیا۔


کچھ دیر تک وہ سوچ بچار کیے بغیر حقے کا دھواں پیتا رہا اور دھوئیں کے انتشار کو دیکھتا رہا۔ لیکن جونہی وہ حقے کو چھوڑ کر کپڑے تبدیل کرنے کے لیے ساتھ والے کمرے میں گیا تو اس کے دل میں وہی خواہش نئی تازگی کے ساتھ پیدا ہوئی۔قاسم گھبرا گیا۔ بھئی حد ہوگئی۔۔۔ الو کا پٹھا۔۔۔ میں کسی کو الو کا پٹھا کیوں کہوں اور بفرضِ محال میں نے کسی کو الو کا پٹھا کہہ بھی دیا تو کیا ہوگا۔۔۔قاسم دل ہی دل میں ہنسا۔ وہ صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ خواہش جو اس کے دل میں پیدا ہوئی ہے بالکل بیہودہ اور بے سروپا ہے لیکن اس کا کیا علاج تھا کہ دبانے پر وہ اور بھی زیادہ ابھر آتی تھی۔قاسم اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے الو کا پٹھا نہ کہے گا۔ خواہ یہ خواہش صدیوں تک اس کے دل میں تلملاتی رہے، شاید اسی احساس کے باعث یہ خواہش جو بھٹکی ہوئی چمگادڑ کی طرح اس کے روشن دل میں چلی آئی تھی، اس قدر تڑپ رہی تھی۔


پتلون کے بٹن بند کرتے وقت جب اس نے دماغی پریشانی کے باعث اوپر کا بٹن نچلے کاج میں داخل کردیا تو وہ جھلا اٹھا۔ بھئی ہوگا۔۔۔ یہ کیا بیہودگی ہے۔۔۔ دیوانہ پن نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔ الو کا پٹھا کہو۔۔۔الو کا پٹھا کہو اور یہ پتلون کے سارے بٹن مجھے پھر سے بند کرنے پڑیں گے۔ لباس پہن کر وہ میز پر آبیٹھا۔ اس کی بیوی نے چائے بنا کرپیالی اس کے سامنے رکھ دی اور توس پر مکھن لگانا شروع کردیا۔ روزانہ معمول کی طرح ہر چیز ٹھیک ٹھاک تھی، توس اتنے اچھے سنکے ہوئے تھے کہ بسکٹ کی طرح کرکرے تھے اور ڈبل روٹی بھی اعلیٰ قسم کی تھی، خمیر میں سے خوشبو آرہی تھی، مکھن بھی صاف تھا، چائے کی کیتلی بے داغ تھی۔ اس کی ہتھی کے ایک کونے پر قاسم ہر روز میل دیکھا کرتا تھا۔ مگر آج وہ دھبہ بھی نہیں تھا۔


اس نے چائے کا ایک گھونٹ پیا۔ اس کی طبیعت خوش ہوگئی۔ خالص دارجلنگ کی چائے تھی، جس کی مہک پانی میں بھی برقرار تھی۔ دودھ کی مقدار بھی صحیح تھی۔


قاسم نے خوش ہو کر اپنی بیوی سے کہا،’’آج چائے کا رنگ بہت ہی پیارا ہے اور بڑے سلیقے سے بنائی گئی ہے۔‘‘ بیوی تعریف سن کر خوش ہوئی۔ مگر اس نے منہ بنا کر ایک ادا سے کہا،’’جی ہاں، بس آج اتفاق سے اچھی بن گئی ہے ورنہ ہر روز تو آپ کو نیم گھول کے پلائی جاتی ہے۔۔۔ مجھے سلیقہ کہاں آتا ہے۔۔۔ سلیقے والیاں تو وہ موئی ہوٹل کی چھوکریاں ہیں جن کے آپ ہر وقت گن گایا کرتے ہیں۔‘‘


یہ تقریر سن کر قاسم کی طبیعت مکدر ہوگئی۔ ایک لمحہ کے لیے اس کے جی میں آئی کہ چائے کی پیالی میز پر الٹ دے اور وہ نیم جو اس نے اپنے بچے کی پھنسیاں دھونے کے لیے غلام محمد سے منگوائی تھی اور سامنے بڑے طاقچے میں پڑی تھی گھول کرپی لے مگر اس نے بردباری سے کام لیا’’یہ عورت میری بیوی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بات بہت ہی بھونڈی ہے مگر ہندوستان میں سب لڑکیاں بیوی بن کر ایسی ہی بھونڈی باتیں کرتی ہیں۔ اور بیوی بننے سے پہلے اپنے گھروں میں وہ اپنی ماؤں سے کیسی باتیں سنتی ہیں؟ بالکل ایسی ادنیٰ قسم کی باتیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عورتوں کو عمومی زندگی میں اپنی حیثیت کی خبر ہی نہیں۔۔۔ میری بیوی تو پھر بھی غنیمت ہے یعنی صرف ایک ادا کے طور پر ایسی بھونڈی بات کہہ دیتی ہے، اس کی نیت نیک ہوتی ہے۔بعض عورتوں کا تو یہ شعار ہوتا ہے کہ ہر وقت بکواس کرتی رہتی ہیں۔


یہ سوچ کر قاسم نے اپنی نگاہیں اس طاقچے پر سے ہٹا لیں جس میں نیم کے پتے دھوپ میں سوکھ رہے تھے اور بات کا رخ بدل کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا،’’دیکھو، آج نیم کے پانی سے بچے کی ٹانگیں ضرور دھو دینا، نیم زخموں کے لیے بڑی اچھی ہوتی ہے۔۔۔ اور دیکھو، تم موسمبیوں کا رس ضرور پیا کرو۔۔۔ میں دفتر سے لوٹتے ہوئے ایک درجن اور لے آؤں گا۔ یہ رس تمہاری صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔‘‘ بیوی مسکرا دی، ’’آپ کو تو بس ہر وقت میری ہی صحت کا خیال رہتا ہے۔ اچھی بھلی تو ہوں، کھاتی ہوں، پیتی ہوں، دوڑتی ہوں، بھاگتی ہوں۔۔۔ میں نے جو آپ کے لیے بادام منگوا کے رکھے ہیں۔۔۔ بھئی آج دس بیس آپ کی جیب میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔۔۔ لیکن دفتر میں کہیں بانٹ نہ دیجیے گا۔‘‘


قاسم خوش ہوگیا کہ چلو موسمبیوں کے رس اور باداموں نے اس کی بیوی کے مصنوعی غصے کو دور کردیا اور یہ مرحلہ آسانی سے طے ہوگیا۔ دراصل قاسم ایسے مرحلوں کو آسانی کے ساتھ ان طریقوں ہی سے طے کیا کرتا تھا۔ جو اس نے پڑوس کے پرانے شوہروں سے سیکھے تھے اور اپنے گھر کے ماحول کے مطابق ان میں تھوڑا بہت ردوبدل کرلیا تھا۔


چائے سے فارغ ہوکر اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگایا اور اٹھ کر دفتر جانے کی تیاری کرنے ہی والا تھا کہ پھر وہی خواہش نمودار ہوگئی۔ اس مرتبہ اس نے سوچا اگر میں کسی کو الو کا پٹھا کہہ دوں تو کیا ہرج ہے۔ زیرِلب بالکل ہولے سے کہہ دوں، الو۔۔۔ کا۔۔۔ پٹھا۔۔۔ تو میرا خیال ہے کہ مجھے دلی تسکین ہو جائے گی۔ یہ خواہش میرے سینے میں بوجھ بن کربیٹھ گئی ہے کیوں نہ اس کو ہلکا کردوں۔۔۔ دفتر میں۔اس کو صحن میں بچے کا کموڈ نظر آیا۔ یوں صحن میں کموڈ رکھنا سخت بدتمیزی تھی اور خصوصاً اس وقت جب کہ وہ ناشتہ کر چکا تھا اور خوشبودار کر کرے توس اور تلے ہوئے انڈوں کا ذائقہ ابھی تک اسکے منہ میں تھا۔۔۔ اس نے زور سے آواز دی،’’ غلام محمد!‘‘


قاسم کی بیوی جو ابھی تک ناشتہ کررہی تھی بولی،’’غلام محمد باہر گوشت لینے گیا ہے۔۔۔ کوئی کام تھا آپ کو اس سے؟‘‘ ایک سیکنڈ کے اندر اندر قاسم کے دماغ میں بہت سی باتیں آئیں کہہ دوں، یہ غلام محمد الو کا پٹھا ہے۔۔۔ اور یہ کہہ کر جلدی سے باہر نکل جاؤں۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ خود تو موجود ہی نہیں، پھر۔۔۔ بالکل بیکار ہے۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بچارے غلام محمد ہی کو کیوں نشانہ بنایا جائے۔ اس کو تو میں ہر وقت الو کا پٹھا کہہ سکتا ہوں۔قاسم نے ادھ جلا سگریٹ گرادیا اور بیوی سے کہا،’’ کچھ نہیں، میں اس سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ دفتر میں میرا کھانا بے شک ڈیڑھ بجے لے آیا کرے۔۔۔ تمہیں کھانا جلدی بھیجنے میں بہت تکلیف کرنا پڑتی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے بیوی کی طرف دیکھا جو فرش پر اس کے گرائے ہوئے سگریٹ کو دیکھ رہی تھی۔ قاسم کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ یہ سگریٹ اگر بجھ گیا اور یہاں پڑا رہا تو اس کا بچہ رینگتا رینگتا آئے گا اور اسے اٹھا کر منہ میں ڈال لے گاجس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے پیٹ میں گڑ بڑ مچ جائے گی۔ قاسم نے سگریٹ کا ٹکڑا اٹھا کر غسل خانے کی موری میں پھینک دیا۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے جذبات سے مغلوب ہو کرغلام محمد کو الو کا پٹھا نہیں کہہ دیا۔ اس سے اگر ایک غلطی ہوئی ہے تو ابھی ابھی مجھ سے بھی تو ہوئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ میری غلطی زیادہ شدید تھی۔


قاسم بڑا صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ صحیح خطوط پر غور و فکر کرنے والا انسان ہے مگر اس احساس نے اس کے اندر برتری کا خیال کبھی پیدا نہیں کیا تھا۔ یہاں پر پھر اس کی صحیح الدماغی کو دخل تھا کہ وہ احساس برتری کو اپنے اندر دبا دیا کرتا تھا۔


موری میں سگریٹ کا ٹکڑا پھینکنے کے بعد اس نے بلا ضرورت صحن میں ٹہلنا شروع کردیا۔ وہ دراصل کچھ دیر کے لیے بالکل خالی الذہن ہوگیا تھا۔


اس کی بیوی ناشتہ کا آخری توس کھا چکی تھی۔ قاسم کو یوں ٹہلتے دیکھ کر وہ اس کے پاس آئی اور کہنے لگی،’’کیا سوچ رہے ہیں آپ۔‘‘ قاسم چونک پڑا۔ ’’کچھ نہیں۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ دفتر کا وقت ہوگیا کیا؟‘‘ یہ لفظ اس کی زبان سے نکلے اور دماغ میں وہی الو کا پٹھا کہنے کی خواہش تڑپنے لگی۔


اس کے جی میں آئی کہ بیوی سے صاف صاف کہہ دے کہ یہ عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوگئی ہے جس کا سر ہے نہ پیر، بیوی ضرورسنے گی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کو بیوی کا ساتھ دینا پڑے گا، چنانچہ یوں ہنسی ہنسی میں الو کا پٹھا کہنے کی خواہش اس کے دماغ سے نکل جائے گی۔ مگر اس نے غور کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ بیوی ہنسے گی اور میں خود بھی ہنسوں گالیکن ایسا نہ ہو کہ یہ بات مستقل مذاق بن جائے۔۔۔ ایسا ہوسکتا ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے کیا، ضرور ہو جائے گا اور بہت ممکن ہے کہ انجام کار ناخوشگواری پیدا ہو، چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کچھ نہ کہا اور ایک لمحہ تک اس کی طرف یونہی دیکھتا رہا۔


بیوی نے بچے کا کموڈ اٹھا کر کونے میں رکھ دیا اور کہا،’’آج صبح آپ کے برخوردار نے وہ ستایا ہے کہ اللہ کی پناہ۔۔۔ بڑی مشکلوں کے بعد میں نے اسے کموڈ پر بٹھایا۔ اس کی مرضی یہ تھی کہ بستر ہی کو خراب کرے۔۔۔ آخر لڑکا کس کا ہے؟‘‘ قاسم کو اس قسم کی چخ پسند تھی۔ ایسی باتوں میں وہ تیکھے مزاح کی جھلک دیکھتا تھا۔ مسکرا کر اس نے بیوی سے کہا،’’لڑکا میرا ہی ہے مگر۔۔۔ میں نے تو آج تک کبھی بستر خراب نہیں کیا۔ یہ عادت اس کی اپنی ہوگی۔‘‘ بیوی نے اس کی بات کا مطلب نہ سمجھا۔ قاسم کو مطلقاً افسوس نہ ہوا، اس لیے کہ ایسی باتیں وہ صرف اپنے منہ کا ذائقہ درست رکھنے کے لیے کیا کرتا تھا۔ وہ اور بھی خوش ہوا جب اس کی بیوی نے جواب نہ دیا اور خاموش ہوگئی۔ ’’اچھا، بھئی میں اب چلتا ہوں۔ خدا حافظ!‘‘


یہ لفظ جو ہر روز اس کے منہ سے نکلتے تھے آج بھی اپنی پرانی آسانی کے ساتھ نکلے اور قاسم دروازہ کھول کر باہر چل دیا۔


کشمیری گیٹ سے نکل کر جب وہ نکلسن پارک کے پاس سے گزر رہا تھا تو اسے ایک داڑھی والا آدمی نظر آیا۔ ایک ہاتھ میں کُھلی ہوئی شلوار تھامے وہ دوسرے ہاتھ سے استنجا کررہا تھا۔ اس کو دیکھ کر قاسم کے دل میں پھر الو کا پٹھا کہنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لو بھئی، یہ آدمی ہے جس کو الو کا پٹھا کہہ دینا چاہیے یعنی جو صحیح معنوں میں الو کا پٹھا ہے۔۔۔ ذرا انداز ملاحظہ ہو۔۔۔ کس انہماک سے ڈرائی کلین کیے جارہا ہے۔۔۔ جیسے کوئی بہت اہم کام سرانجام پا رہا ہے۔۔۔ لعنت ہے۔


لیکن قاسم صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اس نے تعجیل سے کام نہ لیا اور تھوڑی دیر غور کیا۔ میں اس فٹ پاتھ پر جارہا ہوں اور وہ دوسرے فٹ پاتھ پر، اگر میں نے بلند آواز میں بھی اس کو الو کا پٹھا کہا تو وہ چونکے گا نہیں۔ اس لیے کہ کم بخت اپنے کام میں بہت بری طرح مصروف ہے۔ چاہیے تو یہ کہ اس کے کان کے پاس زور سے نعرہ بلند کیا جائے اور جب وہ چونک اٹھے تو اسے بڑے شریفانہ طور پر سمجھایا جائے، قبلہ آپ الو کے پٹھے ہیں۔۔۔ لیکن اس طرح بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوگا۔ چنانچہ قاسم نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔


اسی اثنا میں اس کے پیچھے سے ایک سائیکل نمودار ہوئی۔ کالج کی ایک لڑکی اس پر سوار تھی۔ اس لیے کہ پیچھے بستہ بندھا تھا۔ آنا فاناً اس لڑکی کی ساڑھی فری وہیل کے دانتوں میں پھنسی، لڑکی نے گھبرا کر اگلے پہیے کا بریک دبایا۔ ایک دم سائیکل بے قابو ہوئی اور ایک جھٹکے کے ساتھ لڑکی سائیکل سمیت سڑک پر گر پڑی۔


قاسم نے آگے بڑھ کر لڑکی کو اٹھانے میں عجلت سے کام نہ لیا۔ اس لیے کہ اس نے حادثہ کے رد عمل پر غور کرنا شروع کردیا تھا مگر جب اس نے دیکھا کہ لڑکی کی ساڑی فری وہیل کے دانتوں نے چبا ڈالی ہے اور اس کا بورڈر بہت بری طرح ان میں الجھ گیا ہے تو وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ لڑکی کی طرف دیکھے بغیر اس نے سائیکل کا پچھلا پہیہ ذرا اونچا اٹھایا تاکہ اسے گھما کرساڑی کو وہیل کے دانتوں میں سے نکال لے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ پہیہ گھمانے سے ساڑھی کچھ اس طرح تاروں کی لپیٹ میں آئی کہ ادھر پیٹی کوٹ کی گرفت سے باہر نکل آئی۔ قاسم بوکھلا گیا۔ اس کی اس بوکھلاہٹ نے لڑکی کو بہت زیادہ پریشان کردیا۔ زور سے اس نے ساڑی کو اپنی طرف کھینچا۔ فری وہیل کے دانتوں میں ایک ٹکڑا اڑا رہ گیا اور ساڑی باہر نکل آئی۔


لڑکی کا رنگ لال ہوگیا۔ قاسم کی طرف اس نے غضبناک نگاہوں سے دیکھا اور بھنچے ہوئے لہجہ میں کہا،’’اُلو کا پٹھا۔‘‘


ممکن ہے کچھ دیر لگی ہومگر قاسم نے ایسا محسوس کیا کہ لڑکی نے جھٹ پٹ نہ جانے اپنی ساڑی کو کیا کیا۔ اور ایک دم سائیکل پر سوار ہو کریہ جا وہ جا، نظروں سے غائب ہوگئی۔ قاسم کو لڑکی کی گالی سن کر بہت دکھ ہوا۔ خاص کر اس لیے کہ وہ یہی گالی خود کسی کو دینا چاہتا تھا۔ مگر وہ بہت صحیح الدماغ آدمی تھا۔ ٹھنڈے دل سے اس نے حادثہ پر غور کیا اور اس لڑکی کو معاف کردیا۔ ’’اس کومعاف ہی کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ عورتوں کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے اور ان عورتوں کو سمجھنا تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جو سائیکل پر سے گری ہوئی ہوں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس نے اپنی لمبی جراب میں اوپر ران کے پاس تین چار کاغذ کیوں اڑس رکھے تھے؟‘‘