الجھے کانٹوں سے کہ کھیلے گل تر سے پہلے

الجھے کانٹوں سے کہ کھیلے گل تر سے پہلے
فکر یہ ہے کہ صبا آئے کدھر سے پہلے


جام و پیمانہ و ساقی کا گماں تھا لیکن
دیدۂ تر ہی تھا یاں دیدۂ تر سے پہلے


ابر نیساں کی نہ برکت ہے نہ فیضان بہار
قطرے گم ہو گئے تعمیر گہر سے پہلے


جم گیا دل میں لہو سوکھ گئے آنکھوں میں اشک
تھم گیا درد جگر رنگ سحر سے پہلے


قافلے آئے تو تھے نعروں کے پرچم لے کر
سرنگوں ہو گئی ہر آہ اثر سے پہلے


خون سر بہہ گیا موت آ گئی دیوانوں کو
بارش سنگ سے طوفان شرر سے پہلے


سرخیٔ خون تمنا کی مہک آتی ہے
دل کوئی ٹوٹا ہے شاید گل تر سے پہلے


مقتل شوق کے آداب نرالے ہیں بہت
دل بھی قاتل کو دیا کرتے ہیں سر سے پہلے