اکتاہٹ

روشنی نہیں ہے دور دور تک
جاؤ مجھ کو چھوڑ دو
خامشی ہے مے کدے سے طور تک
بربطوں کو توڑ دو
یہ اداس رات کی سیاہیاں
نیند آ کے ٹل گئی
یہ مرے نصیب کی سیاہیاں
شمع کب کی جل گئی
نیند ہے نہ چاند ہے نہ جام ہے
پیاس کیا بجھاؤ گے
زندگی کی تیغ بے نیام ہے
آس کیا بندھاؤ گے
آسماں بلند ہے تو کیا کروں
ہائے میری پستیاں
کاش میں تمہیں کبھی دکھا سکوں
کچھ اجاڑ بستیاں
حسرتوں کا باغ باغ اجڑ گیا
پھول اب کھلیں گے کیا
ایک ایک ہم سفر بچھڑ گیا
دوست اب ملیں گے کیا
مشعلیں نہیں تو یہ چراغ کیوں
راہ بھول جاؤں گا
زندگی پہ کوئی تازہ داغ کیوں
چاہ بھول جاؤں گا
روشنی نہیں ہے دور دور تک
جاؤ مجھ کو چھوڑ دو
خامشی ہے مے کدے سے طور تک
بربطوں کو توڑ دو