اجالوں کا اگر دشمن نہیں ہے
اجالوں کا اگر دشمن نہیں ہے
اندھیروں سے بھی وہ بد ظن نہیں ہے
ہمارے پاس کوئی دھن نہیں ہے
بہت آرام ہے الجھن نہیں ہے
مرے برتن میں ہے محنت کی روٹی
کسی کی دیگ کی کھرچن نہیں ہے
مری پوشاک پر کیوں ہنس رہا ہے
یہ اپنی ہے تری اترن نہیں ہے
غریبوں کے لئے اب بھی جہاں میں
کوئی منزل کوئی مسکن نہیں ہے
بڑا دل کش ہے چہرہ زندگی کا
مگر وہ رنگ وہ روغن نہیں ہے
نظر میں روشنی آئے کہاں سے
چراغ دل ہی جب روشن نہیں ہے
کوئی قاتل نہیں ہے اس نگر میں
مگر باقی کوئی گردن نہیں ہے
مرے گھر میں ظفرؔ سب کچھ ہے لیکن
برائے نام بھی آنگن نہیں ہے