افق سے دور بہت دور دیکھ سکتا ہوں
افق سے دور بہت دور دیکھ سکتا ہوں
تری زمیں سے بڑی اک زمیں پہ تنہا ہوں
وہ خوش ہوا ہے نہ غمگین اس خبر سے مگر
ضرور تھا کہ کہوں خیریت سے اچھا ہوں
ذرا قریب سے پوچھو کرے گا سرگوشی
میں آدمی تو نہیں آدمی کا دھوکا ہوں
اگر ہو تیشۂ اندیشہ ہاتھ میں میرے
یقین ہوتا ہے میں پربتوں سے اونچا ہوں
نہ اس میں رنگ ہے کوئی نہ کوئی چہرہ ہے
میں آئنے کو مگر دور سے پرکھتا ہوں
وہ مہربان مربی تو ہو گیا رخصت
اب اپنی ذات سے بے سود کیوں الجھتا ہوں