ادھر صبا نے خبر دی آ کر کہ آج ابر بہار آیا
ادھر صبا نے خبر دی آ کر کہ آج ابر بہار آیا
ادھر گریباں سیے ہوئے میں چمن میں دیوانہ وار آیا
دعا ہے اپنی یہی شب غم نہ ہو کبھی اضطراب دل کم
یہ زندگی زندگی کہاں پھر جو دل کو اپنے قرار آیا
گلہ ستم کا جفا کا شکوہ زباں پہ آیا تمہیں کہو کب
یہ کیوں ہے پھر ہم سے سرگرانی یہ دل میں کیسے غبار آیا
سکون ہو کس طرح میسر نصیب ہو چین کیسے آخر
نہ موت آئی مریض غم کو نہ وہ شب انتظار آیا
نہ جانے کیوں جوش گریہ اب کے بجائے گھٹنے کے بڑھ رہا ہے
وگرنہ محفل سے یوں تو تیری میں بارہا اشک بار آیا